جمہوریت کی بند گلی
عمران خان ملک کے منفرد وزیر اعظم قرار پائے ہیں جو خود اپوزیشن سے مذاکرات تو کیا ملنے پر بھی یقین نہیں رکھتے.
ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کے ساتھ بات چیت سے گریزاں ہیں اور اپوزیشن اپنے خلاف بدعنوانیوں کے مقدمات سے نجات کے لیے کورونا کے باوجود ملک بھر میں اجتماعات کر رہی ہے جن میں عوام شریک نہ ہو کر انھیں مسترد کر رہے ہیں۔
موصوف کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومت سے بات چیت سے گریزاں اس لیے ہیں کہ وزیر اعظم نے سوا دو سال میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے ساتھ بات چیت گوارا ہی نہیں کی، جس کے نتیجے میں حکومت جمہوریت کی بند گلی میں آ گئی ہے، جہاں حکومتی وزیر اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں پر حکومت سے بات چیت سے گریز کا الزام لگانے لگے ہیں۔
یہ صاحب اپوزیشن سے حکومتی بات چیت کے بھی حامی رہے ہیں اور وہ بات چیت سے گریزاں ہونے کا الزام پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ پر لگا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن کی 11جماعتوں کا سیاسی اتحاد اعلان کر چکا ہے کہ اب حکومت سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی اور یہ تمام جماعتیں اس پر مکمل طور پر متفق اور فیصلے پر عمل کی پابند ہو چکی ہیں۔
عمران خان ملک کے منفرد وزیر اعظم قرار پائے ہیں جو خود اپوزیشن سے مذاکرات تو کیا ملنے پر بھی یقین نہیں رکھتے اور انھوں نے ایسا کر کے یہ ثابت بھی کر دیا ہے اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل اپوزیشن کو مطعون کر رہے ہیں اور ان کے دل میں اپنے مخالفین کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔
سوا دو سالہ حکومت میں ان کا یہ موقف رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ان سے این آر او لینا چاہتی ہیں جو وہ انھیں کبھی نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم کا موقف یہ ہے کہ گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد ان سے این آر او لینے کے لیے ملک میں جلسے کر رہا ہے اور مجھے دباؤ میں لانا چاہتا ہے مگر میں اقتدار چھوڑنا پسند کروں گا، اپوزیشن کے کسی دباؤ میں نہیں آؤں گا۔
اقتدار ملنے سے قبل بھی عمران خان کا اصل ہدف نواز شریف اور شہباز شریف تھے، جن کی حکومت ختم گرانے کے لیے انھوں نے 2014 میں اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھا اور اس وقت پیپلز پارٹی نے شریف برادران کی سیاست کا شدید مخالف ہونے کے باوجود حکومت کا ساتھ دیا تھا حالانکہ اس سے (ن) لیگی حکومت نے بھی جمہوریت کا ثبوت دیا تھا اور اپنے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے پی ٹی آئی ارکان نے قومی اسمبلی کے استعفے قبول نہیں ہونے دیے تھے۔
عمران خان اور شیخ رشید نے قومی اسمبلی پر سخت تنقید کی تھی اور لعنت بھیجنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پی پی چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں موجود رہے کیونکہ جمہوریت میں ہر اپوزیشن جماعت کو حکومت پر تنقید کا حق ہے اور پی ٹی آئی نے استعفے واپس لے کر باقی 4 سال حکومت کی سخت مخالفت کی تھی۔ سانحہ اے پی ایس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے جو اے پی سی بلائی تھی، اس میں عمران خان بھی شریک ہوئے تھے کیونکہ وہ قومی مسئلہ تھا۔ دھرنے میں ناکامی کے بعد عمران خان کی مخالفت کا اصل ہدف شریف اور زرداری خاندان اور مولانا فضل الرحمٰن تھے جن پر وہ سخت تنقید بھی کرتے تھے۔
2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی شدید مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے دھاندلیوں کی شکایات کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے اور جمہوریت کو چلنے دیا وگرنہ دونوں بڑی پارٹیاں مستعفی ہوکر نئی حکومت کے خلاف متحد ہو سکتی تھیں۔
وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے اس فیصلے کی قدر نہیں کی اور ان کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ اس لیے نہیں بڑھایا کہ وہ این آر او مانگیں گی جب کہ دونوں پارٹیاں مقدمات بھگتتی رہیں اور صاف کہتی رہیں کہ ہمیں کوئی این آر او نہیں چاہیے۔ وزیر اعظم نے این آر او نہیں دوں گا کی رٹ اتنی لگائی کہ اپوزیشن ان سے دور ہوتی گئی۔ ایوان میں وزیر اعظم اپوزیشن کا شور برداشت نہیں کرتے تھے۔ اپوزیشن نے بھی سلیکٹڈ وزیر اعظم کے نعروں کو عمران خان کی چڑ بنا دیا جس پر وہ ایوان میں اپوزیشن کا سامنا نہیں کرتے تھے اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد ایوان میں تقریرکر پاتے تھے۔
دو سال میں متعدد مواقع آئے کہ قومی امور پر وزیر اعظم کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر وہ ضد پر اڑے رہے اور انھوں نے اپوزیشن سے ملنا تک گوارا نہیں کیا۔ اپوزیشن نے حکومت کو اہم معاملات پر آپس میں صلح کی پیش کش بھی کی۔ کورونا جیسے اہم مسئلے پر بھی وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہ ہوئے اور اہم موقعہ ضایع کر دیا گیا۔
اپوزیشن کو قومی اسمبلی کے اسپیکر سے بھی جانبداری کی شکایات پیدا ہوئیں تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں کی گئیں مگر اپوزیشن کا رویہ مثبت رہا اور اسپیکر کی طرف سے بھی مفاہمت کی کوئی مثبت کوشش نہ ہوئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسپیکر سے شکایات اتنی زیادہ ہو گئیں کہ اب اپوزیشن کسی بھی اجلاس میں اسپیکر کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
جمہوریت میں اپوزیشن ایک حقیقت اور مستقبل کی حکومت ہوتی ہے مگر عمران خان اپنی اپوزیشن کی حقیقت نہیں مان رہے جس کا کام ہی حکومت پر مثبت تنقید ہوتا ہے مگر وزیر اعظم اپوزیشن کی تنقید کو خود سے دشمنی سمجھتے ہیں اور ان کے پاس اپوزیشن کے پاس صرف دھمکیاں اور این آر او نہیں دوں گا کی باتیں ہیں۔
یہ باتیں دو سال تک برداشت کرنے کے بعد حکومت کے بعد اب اپوزیشن بھی جمہوریت کی اس گلی میں پہنچ گئی ہے جہاں اس کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہے جب کہ حکومت اب اپوزیشن سے بات چیت کی خواہاں ہوئی ہے مگر اپوزیشن گریزاں ہو چکی ہے جس کا حکومتی اعتراف بھی ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کو بند گلی تک لانے کی ذمے دار خود حکومت ہے جس نے اپنی جمہوری ذمے داری پوری نہیں کی، دونوں بند گلی میں ہیں، اب حکومت کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا جس کے بعد ہی ممکن ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں بند گلی سے اس کی واپسی ممکن ہو سکے مگر حکومت کی وجہ سے ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
موصوف کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومت سے بات چیت سے گریزاں اس لیے ہیں کہ وزیر اعظم نے سوا دو سال میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے ساتھ بات چیت گوارا ہی نہیں کی، جس کے نتیجے میں حکومت جمہوریت کی بند گلی میں آ گئی ہے، جہاں حکومتی وزیر اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں پر حکومت سے بات چیت سے گریز کا الزام لگانے لگے ہیں۔
یہ صاحب اپوزیشن سے حکومتی بات چیت کے بھی حامی رہے ہیں اور وہ بات چیت سے گریزاں ہونے کا الزام پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ پر لگا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن کی 11جماعتوں کا سیاسی اتحاد اعلان کر چکا ہے کہ اب حکومت سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی اور یہ تمام جماعتیں اس پر مکمل طور پر متفق اور فیصلے پر عمل کی پابند ہو چکی ہیں۔
عمران خان ملک کے منفرد وزیر اعظم قرار پائے ہیں جو خود اپوزیشن سے مذاکرات تو کیا ملنے پر بھی یقین نہیں رکھتے اور انھوں نے ایسا کر کے یہ ثابت بھی کر دیا ہے اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل اپوزیشن کو مطعون کر رہے ہیں اور ان کے دل میں اپنے مخالفین کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔
سوا دو سالہ حکومت میں ان کا یہ موقف رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ان سے این آر او لینا چاہتی ہیں جو وہ انھیں کبھی نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم کا موقف یہ ہے کہ گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد ان سے این آر او لینے کے لیے ملک میں جلسے کر رہا ہے اور مجھے دباؤ میں لانا چاہتا ہے مگر میں اقتدار چھوڑنا پسند کروں گا، اپوزیشن کے کسی دباؤ میں نہیں آؤں گا۔
اقتدار ملنے سے قبل بھی عمران خان کا اصل ہدف نواز شریف اور شہباز شریف تھے، جن کی حکومت ختم گرانے کے لیے انھوں نے 2014 میں اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھا اور اس وقت پیپلز پارٹی نے شریف برادران کی سیاست کا شدید مخالف ہونے کے باوجود حکومت کا ساتھ دیا تھا حالانکہ اس سے (ن) لیگی حکومت نے بھی جمہوریت کا ثبوت دیا تھا اور اپنے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے پی ٹی آئی ارکان نے قومی اسمبلی کے استعفے قبول نہیں ہونے دیے تھے۔
عمران خان اور شیخ رشید نے قومی اسمبلی پر سخت تنقید کی تھی اور لعنت بھیجنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پی پی چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں موجود رہے کیونکہ جمہوریت میں ہر اپوزیشن جماعت کو حکومت پر تنقید کا حق ہے اور پی ٹی آئی نے استعفے واپس لے کر باقی 4 سال حکومت کی سخت مخالفت کی تھی۔ سانحہ اے پی ایس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے جو اے پی سی بلائی تھی، اس میں عمران خان بھی شریک ہوئے تھے کیونکہ وہ قومی مسئلہ تھا۔ دھرنے میں ناکامی کے بعد عمران خان کی مخالفت کا اصل ہدف شریف اور زرداری خاندان اور مولانا فضل الرحمٰن تھے جن پر وہ سخت تنقید بھی کرتے تھے۔
2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی شدید مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے دھاندلیوں کی شکایات کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے اور جمہوریت کو چلنے دیا وگرنہ دونوں بڑی پارٹیاں مستعفی ہوکر نئی حکومت کے خلاف متحد ہو سکتی تھیں۔
وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے اس فیصلے کی قدر نہیں کی اور ان کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ اس لیے نہیں بڑھایا کہ وہ این آر او مانگیں گی جب کہ دونوں پارٹیاں مقدمات بھگتتی رہیں اور صاف کہتی رہیں کہ ہمیں کوئی این آر او نہیں چاہیے۔ وزیر اعظم نے این آر او نہیں دوں گا کی رٹ اتنی لگائی کہ اپوزیشن ان سے دور ہوتی گئی۔ ایوان میں وزیر اعظم اپوزیشن کا شور برداشت نہیں کرتے تھے۔ اپوزیشن نے بھی سلیکٹڈ وزیر اعظم کے نعروں کو عمران خان کی چڑ بنا دیا جس پر وہ ایوان میں اپوزیشن کا سامنا نہیں کرتے تھے اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد ایوان میں تقریرکر پاتے تھے۔
دو سال میں متعدد مواقع آئے کہ قومی امور پر وزیر اعظم کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر وہ ضد پر اڑے رہے اور انھوں نے اپوزیشن سے ملنا تک گوارا نہیں کیا۔ اپوزیشن نے حکومت کو اہم معاملات پر آپس میں صلح کی پیش کش بھی کی۔ کورونا جیسے اہم مسئلے پر بھی وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہ ہوئے اور اہم موقعہ ضایع کر دیا گیا۔
اپوزیشن کو قومی اسمبلی کے اسپیکر سے بھی جانبداری کی شکایات پیدا ہوئیں تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں کی گئیں مگر اپوزیشن کا رویہ مثبت رہا اور اسپیکر کی طرف سے بھی مفاہمت کی کوئی مثبت کوشش نہ ہوئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسپیکر سے شکایات اتنی زیادہ ہو گئیں کہ اب اپوزیشن کسی بھی اجلاس میں اسپیکر کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
جمہوریت میں اپوزیشن ایک حقیقت اور مستقبل کی حکومت ہوتی ہے مگر عمران خان اپنی اپوزیشن کی حقیقت نہیں مان رہے جس کا کام ہی حکومت پر مثبت تنقید ہوتا ہے مگر وزیر اعظم اپوزیشن کی تنقید کو خود سے دشمنی سمجھتے ہیں اور ان کے پاس اپوزیشن کے پاس صرف دھمکیاں اور این آر او نہیں دوں گا کی باتیں ہیں۔
یہ باتیں دو سال تک برداشت کرنے کے بعد حکومت کے بعد اب اپوزیشن بھی جمہوریت کی اس گلی میں پہنچ گئی ہے جہاں اس کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہے جب کہ حکومت اب اپوزیشن سے بات چیت کی خواہاں ہوئی ہے مگر اپوزیشن گریزاں ہو چکی ہے جس کا حکومتی اعتراف بھی ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کو بند گلی تک لانے کی ذمے دار خود حکومت ہے جس نے اپنی جمہوری ذمے داری پوری نہیں کی، دونوں بند گلی میں ہیں، اب حکومت کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا جس کے بعد ہی ممکن ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں بند گلی سے اس کی واپسی ممکن ہو سکے مگر حکومت کی وجہ سے ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔