کورونا کی دوسری لہر
مرنے والوں کی روزانہ تعداد 40سے45تک پہنچ چکی ہے، تین ہزار کے لگ بھگ کنفرم کیسز سامنے آرہے ہیں۔
کورونا وائرس ایک بار پھردنیا بھر میں سر اٹھا رہا ہے، امریکا اور یورپ میں ایس او پیز نئے سرے سے لاگو کیے جارہے ہیں، کئی جگہوں پر کرفیو نافذ کرکے معمولات زندگی کو معطل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
گزشتہ دس روز سے پاکستان کے طول و عرض سے بھی کورونا کیسز بڑھنے کی مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں، چند روز قبل ہمارے دیرینہ ساتھی روزنامہ ایکسپریس ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سید آصف علی فرخ بھی اس جان لیوا مرض کا شکار ہوکر دار فانی سے دار بقا کوچ کرگئے۔
ان کی ناگہانی وفات سے دل بوجھل ہے، لیکن یہ اللہ کی رضا ہے ہم سب نے لوٹ کر اسی کی طرف جانا، اللہ کریم انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ کورونا کی حالیہ لہر میں ان جیسے بہت سے احباب اس موذی مرض کا شکار ہو کر اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔
مرنے والوں کی روزانہ تعداد 40سے45تک پہنچ چکی ہے، تین ہزار کے لگ بھگ کنفرم کیسز سامنے آرہے ہیں، ایک بار پھر اسپتالوں پرغیر معمولی دباؤ بڑھنا شروع ہوچکا ہے، حکومت اور ریاستی ادارے کورونا کی دوسری لہر سے بچنے کے لیے ایک بار پھر سخت اقدامات کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
ملک بھر کے نجی و سرکاری تعلیمی ادارے ایک بار پھر ڈیڑھ ماہ کے لیے بند کردیے گئے ہیں، متاثرہ علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سماجی تقریبات کے لیے ایس او پیز جاری کردیے گئے ہیں، پاکستان بھر میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پیر کو تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مابین ملاقات ہوئی جس میں مدارس اور مساجد کا معاملہ زیر بحث آیا۔ اطلاع یہ ملی ہے کہ حکومتی فیصلے کا اطلاق مدارس پر بھی ہو گا البتہ مساجد کا نظام معمول کے مطابق ہی چلتا رہے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا ہر انسان کے لیے خطرہ ہے لیکن اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسی معاملات حل کرنے کے بجائے مزید گمبھیر کررہی ہے۔ یوں تو کورونا کی دوسری لہر کافی عرصے سے تھی مگر حکومت نے جب پی ڈی ایم اے کے کامیاب جلسوں کو دیکھا تو بجائے اپوزیشن کو قائل کرنے کے خود جلسے شروع کیے اور جب مزا نہ آیا تو حکومت اپوزیشن سے تصادم کی راہ پر چل پڑی، پشاور کے جلسے کے بعد خاموش ایف آئی آر درج ہوئی اور ملتان میں جلسے سے پہلے جو ہوا حکومت کی رسوائی کا باعث بنا۔
حکومت اگر ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کر تی تو اپوزیشن ضرور تعاون کرتی مگر حکمت اور مصلحت تو حکومت کی کتاب میں ہے ہی نہیں۔ حکومت نے اپنی ضد اور انا کی وجہ سے ماحول خراب کیا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر کورونا کیسز سے صورتحال پریشان کن تھی تو اپوزیشن جماعتوں کو آن بورڈ لیا جاتا انھیں حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا جاتا اور جلسوں سے روکنے کے لیے قائل کیا جاتا، لیکن حکومت نے اس معاملے کو بھی بھونڈے انداز میں لے کر اپنی نااہلی ثابت کی، اس بار بھی حکومتی ترجمان مدبرانہ گفتگو کے بجائے وہی گھسی پٹی باتیں اور اپوزیشن کو دھمکیاں دیتے رہے۔
کیا حکومتوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے؟ حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے وہ 13دسمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے سے قبل سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لے کر حالات کی سنگینی سے آگاہ کرے، یقینی طور پر اپوزیشن جماعتیں ذمے داری کا مظاہرہ کریں گی، اگر طاقت کے بل بوتے پر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی جیسا کہ ملتان جلسے سے قبل ہوا تو یہ محاذ آرائی کم نہیں ہوگی مزید بڑھے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومت کو ہوگا۔
اس مشورے کے بعد ہم دوبارہ کورونا کے پھیلاؤ سے پیدا ہو ے والی صورتحال کی جانب آتے ہیں، کورونا کی پہلی لہر کے دوران بہت سے دوست اس مرض میں مبتلا ہوئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھیں اس مہلک وباء کا مقابلہ کرنے کی ہمت سے نوازا۔ پھر ان دوستوں نے اپنے اپنے تجربات اس غرض سے شیئر کیے تاکہ لوگ ان سے استفادہ کریں اور اس بیماری کا مقابلہ جوانمردی سے کریں۔
گزشتہ دنوں ہمارے دوست عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے بھی ایک کالم کے ذریعے آپ بیتی بیان کی اور نہایت مفید مشورے دیے۔ اسی طرح جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذالحدیث، نامور عالم دین اور محقق مولانا یوسف خان صاحب بھی اس مہلک مرض کا شکار ہوئے اور تقریباً اڑھائی ماہ تک اس سے لڑتے رہے۔
گزشتہ دنوں جب وہ حدیث شریف پڑھارہے تھے تو اس دوران انھوں نے اپنے طلباء کے ذریعے ملک بھر کے عوام تک پہنچانے کے لیے اپنی روداد بیان کی اور کچھ تلقین بھی فرمائی۔ مولانا یوسف خان صاحب نے کہا کہ "کورونا ایک جان لیوا بیماری ہے اس سے بچنے کا ایک بہترین راستہ یہ ہے کہ آپ پابندی کے ساتھ ماسک کا استعمال کریں۔
اگر آپ ڈاکٹروں کی ہدایت کی روشنی میں اپنے چہرے پر ماسک لگانا شروع کردیں گے توسب سکون میں آجائیں گے ورنہ یہ وائرس معاشرے میں پھیلتا چلا جائے گا اور انسانی جانوں کو خطرات سے دوچار کرتا رہے گا پھر ظاہر ہے حکومت بھی سختیوں پر مجبور ہوگی، اگر ہم نے خود احتیاط نہ کی تو ہمیں مشکل حالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم سب کو اس موذی مرض سے بچنا ہوگا، میں خود اڑھائی مہینے اس بیماری کو بھگت چکا ہوں، اللہ نے دوبارہ زندگی دی ہے، تین چار دن تک تو ڈاکٹرز گھر والوں کو یہی کہتے رہے کہ ہم معذرت خواہ ہیں کیونکہ مولانا جس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے ان کی واپسی مشکل ہے۔ لیکن اللہ نے زندگی دی اور میں دوبارہ بخاری شریف پڑھا رہا ہوں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اس بیماری کو لے کر سنجیدہ نہیں۔ ماسک تک پہننے کو تیار نہیں حالانکہ چند ماہ کی ہی تو بات ہے۔ یہ نظر نہ آنے والا جرثومہ ہے جو ہاتھوں کو لگ جاتا ہے اور وہی ہاتھ جب منہ، ناک اور آنکھوں کو لگتے ہیں تو انھیں کے راستے جا کر ہمارے حلق میں بیٹھ جاتا ہے، وہاں مسلسل چار دن تک موجود رہتا ہے اس کے بعد یہ پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے۔
اس لیے آج کل ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں نہ گلے ملیں، غیر ضروری اشیاء کو مت چھوئیں، یہ چھوت چھات کامسئلہ نہیں صرف احتیاط ہے۔ جب یہ جرثومہ حلق میں جاتا ہے تو سب سے پہلے گلہ خراب ہوتا ہے پھر جسم میں درد شروع ہوجاتا ہے، چار دن بعد سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے، یہ جسم کے کسی اور حصے میں نہیں جاتا صرف پھیپھڑوں میں ہی جاتا ہے، وہاں جاکر ایک جرثومے سے کئی اور جرثومے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے جو اب مل کر پھیپھڑوں کو گلا دیتے ہیں۔
میرا ڈیڑھ پھیپھڑا گل چکا تھا، ایکسرے میں ڈیڑھ پھیپھڑا سفید نظر آتا تھا جیسے سینے میں ہے ہی نہیں، ہر جوثومے پر لیس دار مادہ ہوتا ہے جب متاثرہ انسان چھینکتا ہے یا بات کرتا ہے تواس کے منہ سے نکلنے والے جرثومے ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیتے ہیں۔ متاثرہ مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور اسے آکیسجن لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک متاثرہ جسم میں یہ جرثومہ 14 دن تک رہتا ہے اس کے بعد یہ خود بخود مر جاتا ہے اور انسان ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر متاثرہ مریض نہیں مرتا جس میں قوت مدافعت زیادہ ہووہ نزلہ زکام، بخاراور کھانسی کے بعد تندرست ہوجاتا ہے۔ اس کی دوائی اب تک دنیا میں نہیں، بڑے بڑے سائنسدان بے بس ہوچکے ہیں۔
کوئی انسان اس کے علاج کا دعویٰ نہیں کرسکا، لیکن اللہ کا نظام ہے کہ 14دن بعد انسان خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی میں کورونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو وہ خود کو ایک کمرے تک محدود کرلے کیونکہ جو انسان اس کے قریب آئے گا وہ اس کا شکار ہوجائے گا۔
مجھے اڑھائی ماہ تک ایک کمرے میں بند رکھا گیا، اس دوران کسی انسان کی شکل تک نہیں دیکھی، پلاسٹک کے ڈبوں میں کھانا دیا جاتا تھا ، وہ ڈبے واپس لینے بھی کوئی نہیں آتا تھا، ایک ڈاکٹر اپنی جان پر کھیل کر دن میں ایک بار وزٹ کرتا تھا لیکن وہ بھی مکمل حفاظتی لباس پہن کر آتا تھا۔ اس لیے درد دل سے عرض کررہا ہوں کہ ماسک اس نیت سے پہننا شروع کریں کہ ہم سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، یہ باتیں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ لاہور میں متعدد مقامات پر دوبارہ لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ میری عمر کے جتنے لوگوں کو بھی کورونا ہوا وہ تین سے چار دن میں اللہ کے پاس پہنچ جاتے تھے اللہ نے مجھے زندگی دی، اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے"۔
مولانا یوسف خان صاحب کی باتیں فکر انگیز ہیں، جس رفتار سے کورونا دوبارہ پھیل رہا ہے ہمارے پاس احتیاط اور رجوع الی اللہ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ لہٰذا احتیاط ابھی سے شروع کردیں، اللہ پاک ہم سب کو اس وباء سے محفوظ رکھے اور اس کا جلد خاتمہ فرمائے( آمین)
گزشتہ دس روز سے پاکستان کے طول و عرض سے بھی کورونا کیسز بڑھنے کی مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں، چند روز قبل ہمارے دیرینہ ساتھی روزنامہ ایکسپریس ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سید آصف علی فرخ بھی اس جان لیوا مرض کا شکار ہوکر دار فانی سے دار بقا کوچ کرگئے۔
ان کی ناگہانی وفات سے دل بوجھل ہے، لیکن یہ اللہ کی رضا ہے ہم سب نے لوٹ کر اسی کی طرف جانا، اللہ کریم انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ کورونا کی حالیہ لہر میں ان جیسے بہت سے احباب اس موذی مرض کا شکار ہو کر اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔
مرنے والوں کی روزانہ تعداد 40سے45تک پہنچ چکی ہے، تین ہزار کے لگ بھگ کنفرم کیسز سامنے آرہے ہیں، ایک بار پھر اسپتالوں پرغیر معمولی دباؤ بڑھنا شروع ہوچکا ہے، حکومت اور ریاستی ادارے کورونا کی دوسری لہر سے بچنے کے لیے ایک بار پھر سخت اقدامات کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
ملک بھر کے نجی و سرکاری تعلیمی ادارے ایک بار پھر ڈیڑھ ماہ کے لیے بند کردیے گئے ہیں، متاثرہ علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سماجی تقریبات کے لیے ایس او پیز جاری کردیے گئے ہیں، پاکستان بھر میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پیر کو تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مابین ملاقات ہوئی جس میں مدارس اور مساجد کا معاملہ زیر بحث آیا۔ اطلاع یہ ملی ہے کہ حکومتی فیصلے کا اطلاق مدارس پر بھی ہو گا البتہ مساجد کا نظام معمول کے مطابق ہی چلتا رہے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا ہر انسان کے لیے خطرہ ہے لیکن اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسی معاملات حل کرنے کے بجائے مزید گمبھیر کررہی ہے۔ یوں تو کورونا کی دوسری لہر کافی عرصے سے تھی مگر حکومت نے جب پی ڈی ایم اے کے کامیاب جلسوں کو دیکھا تو بجائے اپوزیشن کو قائل کرنے کے خود جلسے شروع کیے اور جب مزا نہ آیا تو حکومت اپوزیشن سے تصادم کی راہ پر چل پڑی، پشاور کے جلسے کے بعد خاموش ایف آئی آر درج ہوئی اور ملتان میں جلسے سے پہلے جو ہوا حکومت کی رسوائی کا باعث بنا۔
حکومت اگر ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کر تی تو اپوزیشن ضرور تعاون کرتی مگر حکمت اور مصلحت تو حکومت کی کتاب میں ہے ہی نہیں۔ حکومت نے اپنی ضد اور انا کی وجہ سے ماحول خراب کیا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر کورونا کیسز سے صورتحال پریشان کن تھی تو اپوزیشن جماعتوں کو آن بورڈ لیا جاتا انھیں حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا جاتا اور جلسوں سے روکنے کے لیے قائل کیا جاتا، لیکن حکومت نے اس معاملے کو بھی بھونڈے انداز میں لے کر اپنی نااہلی ثابت کی، اس بار بھی حکومتی ترجمان مدبرانہ گفتگو کے بجائے وہی گھسی پٹی باتیں اور اپوزیشن کو دھمکیاں دیتے رہے۔
کیا حکومتوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے؟ حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے وہ 13دسمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے سے قبل سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لے کر حالات کی سنگینی سے آگاہ کرے، یقینی طور پر اپوزیشن جماعتیں ذمے داری کا مظاہرہ کریں گی، اگر طاقت کے بل بوتے پر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی جیسا کہ ملتان جلسے سے قبل ہوا تو یہ محاذ آرائی کم نہیں ہوگی مزید بڑھے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومت کو ہوگا۔
اس مشورے کے بعد ہم دوبارہ کورونا کے پھیلاؤ سے پیدا ہو ے والی صورتحال کی جانب آتے ہیں، کورونا کی پہلی لہر کے دوران بہت سے دوست اس مرض میں مبتلا ہوئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھیں اس مہلک وباء کا مقابلہ کرنے کی ہمت سے نوازا۔ پھر ان دوستوں نے اپنے اپنے تجربات اس غرض سے شیئر کیے تاکہ لوگ ان سے استفادہ کریں اور اس بیماری کا مقابلہ جوانمردی سے کریں۔
گزشتہ دنوں ہمارے دوست عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے بھی ایک کالم کے ذریعے آپ بیتی بیان کی اور نہایت مفید مشورے دیے۔ اسی طرح جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذالحدیث، نامور عالم دین اور محقق مولانا یوسف خان صاحب بھی اس مہلک مرض کا شکار ہوئے اور تقریباً اڑھائی ماہ تک اس سے لڑتے رہے۔
گزشتہ دنوں جب وہ حدیث شریف پڑھارہے تھے تو اس دوران انھوں نے اپنے طلباء کے ذریعے ملک بھر کے عوام تک پہنچانے کے لیے اپنی روداد بیان کی اور کچھ تلقین بھی فرمائی۔ مولانا یوسف خان صاحب نے کہا کہ "کورونا ایک جان لیوا بیماری ہے اس سے بچنے کا ایک بہترین راستہ یہ ہے کہ آپ پابندی کے ساتھ ماسک کا استعمال کریں۔
اگر آپ ڈاکٹروں کی ہدایت کی روشنی میں اپنے چہرے پر ماسک لگانا شروع کردیں گے توسب سکون میں آجائیں گے ورنہ یہ وائرس معاشرے میں پھیلتا چلا جائے گا اور انسانی جانوں کو خطرات سے دوچار کرتا رہے گا پھر ظاہر ہے حکومت بھی سختیوں پر مجبور ہوگی، اگر ہم نے خود احتیاط نہ کی تو ہمیں مشکل حالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم سب کو اس موذی مرض سے بچنا ہوگا، میں خود اڑھائی مہینے اس بیماری کو بھگت چکا ہوں، اللہ نے دوبارہ زندگی دی ہے، تین چار دن تک تو ڈاکٹرز گھر والوں کو یہی کہتے رہے کہ ہم معذرت خواہ ہیں کیونکہ مولانا جس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے ان کی واپسی مشکل ہے۔ لیکن اللہ نے زندگی دی اور میں دوبارہ بخاری شریف پڑھا رہا ہوں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اس بیماری کو لے کر سنجیدہ نہیں۔ ماسک تک پہننے کو تیار نہیں حالانکہ چند ماہ کی ہی تو بات ہے۔ یہ نظر نہ آنے والا جرثومہ ہے جو ہاتھوں کو لگ جاتا ہے اور وہی ہاتھ جب منہ، ناک اور آنکھوں کو لگتے ہیں تو انھیں کے راستے جا کر ہمارے حلق میں بیٹھ جاتا ہے، وہاں مسلسل چار دن تک موجود رہتا ہے اس کے بعد یہ پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے۔
اس لیے آج کل ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں نہ گلے ملیں، غیر ضروری اشیاء کو مت چھوئیں، یہ چھوت چھات کامسئلہ نہیں صرف احتیاط ہے۔ جب یہ جرثومہ حلق میں جاتا ہے تو سب سے پہلے گلہ خراب ہوتا ہے پھر جسم میں درد شروع ہوجاتا ہے، چار دن بعد سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے، یہ جسم کے کسی اور حصے میں نہیں جاتا صرف پھیپھڑوں میں ہی جاتا ہے، وہاں جاکر ایک جرثومے سے کئی اور جرثومے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے جو اب مل کر پھیپھڑوں کو گلا دیتے ہیں۔
میرا ڈیڑھ پھیپھڑا گل چکا تھا، ایکسرے میں ڈیڑھ پھیپھڑا سفید نظر آتا تھا جیسے سینے میں ہے ہی نہیں، ہر جوثومے پر لیس دار مادہ ہوتا ہے جب متاثرہ انسان چھینکتا ہے یا بات کرتا ہے تواس کے منہ سے نکلنے والے جرثومے ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیتے ہیں۔ متاثرہ مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور اسے آکیسجن لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک متاثرہ جسم میں یہ جرثومہ 14 دن تک رہتا ہے اس کے بعد یہ خود بخود مر جاتا ہے اور انسان ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر متاثرہ مریض نہیں مرتا جس میں قوت مدافعت زیادہ ہووہ نزلہ زکام، بخاراور کھانسی کے بعد تندرست ہوجاتا ہے۔ اس کی دوائی اب تک دنیا میں نہیں، بڑے بڑے سائنسدان بے بس ہوچکے ہیں۔
کوئی انسان اس کے علاج کا دعویٰ نہیں کرسکا، لیکن اللہ کا نظام ہے کہ 14دن بعد انسان خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی میں کورونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو وہ خود کو ایک کمرے تک محدود کرلے کیونکہ جو انسان اس کے قریب آئے گا وہ اس کا شکار ہوجائے گا۔
مجھے اڑھائی ماہ تک ایک کمرے میں بند رکھا گیا، اس دوران کسی انسان کی شکل تک نہیں دیکھی، پلاسٹک کے ڈبوں میں کھانا دیا جاتا تھا ، وہ ڈبے واپس لینے بھی کوئی نہیں آتا تھا، ایک ڈاکٹر اپنی جان پر کھیل کر دن میں ایک بار وزٹ کرتا تھا لیکن وہ بھی مکمل حفاظتی لباس پہن کر آتا تھا۔ اس لیے درد دل سے عرض کررہا ہوں کہ ماسک اس نیت سے پہننا شروع کریں کہ ہم سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، یہ باتیں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ لاہور میں متعدد مقامات پر دوبارہ لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ میری عمر کے جتنے لوگوں کو بھی کورونا ہوا وہ تین سے چار دن میں اللہ کے پاس پہنچ جاتے تھے اللہ نے مجھے زندگی دی، اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے"۔
مولانا یوسف خان صاحب کی باتیں فکر انگیز ہیں، جس رفتار سے کورونا دوبارہ پھیل رہا ہے ہمارے پاس احتیاط اور رجوع الی اللہ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ لہٰذا احتیاط ابھی سے شروع کردیں، اللہ پاک ہم سب کو اس وباء سے محفوظ رکھے اور اس کا جلد خاتمہ فرمائے( آمین)