بھارتی کسانوں کے احتجاج میں ٹرانسپورٹرز بھی شریک پہیہ جام ہڑتال کی دھمکی
بھارتی طلبہ کی تنظیمیں، پنچایتیں اور ممتاز بھارتی کھلاڑی بھی کسانوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہورہے ہیں
KARACHI:
مودی سرکار کے غیر منصفانہ زرعی بل کے خلاف بھارتی کسانوں کا ملک گیر احتجاج آج آٹھویں روز میں داخل ہوچکا ہے جبکہ ہندوستانی ٹرانسپوٹروں کی سب سے بڑی تنظیم "آل انڈیا موٹر ٹرانسپورٹ کانگریس" نے بھی کسانوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسانوں کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ 8 دسمبر سے پورے بھارت میں پہیہ جام ہڑتال شروع کردیں گے۔
واضح رہے کہ اس سال ستمبر کے مہینے میں مودی سرکار نے زرعی اصلاحات کے نام پر ایک نیا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اہم زرعی اجناس کی کم سے کم قیمتوں کے تعین پر حکومت کا کنٹرول مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے نجی سرمایہ کاروں کو آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ کسانوں سے براہِ راست بھاؤ تاؤ کرکے اپنی من پسند قیمت پر زرعی اجناس خرید سکیں۔
اس بل کی منظوری کے خلاف بھارتی کسانوں کا احتجاج جاری ہے اور حالیہ "دہلی چلو" مہم کے تحت لاکھوں کسان بھارتی دارالحکومت دہلی کا گھیرا تنگ کرچکے ہیں۔ دریں اثناء بی جے پی حکومت کے مختلف عہدیداروں نے بھی کسانوں سے مذاکرات کیے اور انہیں احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
کسانوں کی حمایت میں اب تک بھارتی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ خود حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی سامنے آگئی ہیں جبکہ بعض بھارتی ریاستوں میں خود بی جے پی کے اپنے رہنما بھی نئے زرعی قانون کے خلاف بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروپ بھی کسانوں کی حمایت میں کھڑے ہورہے ہیں جن میں طلبہ تنظیموں اور پنچایتوں کے علاوہ ممتاز بھارتی کھلاڑی بھی شامل ہیں جنہوں نے 5 دسمبر کو کسانوں کے حق میں 'دہلی مارچ' کا اعلان کیا ہے۔
چند روز قبل کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی ہندوستانی کسانوں کے حق میں بیان دیتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ ان کی حکومت ہمیشہ پرامن احتجاج کی حامی رہی ہے۔ اس پر مودی سرکار کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے اور جسٹن ٹروڈو کے اس بیان کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔
کسانوں کے احتجاج میں بھارتی ٹرانسپورٹرز کی ملک گیر تنظیم کی شمولیت کو بہت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ کسانوں کے ساتھ ٹرانسپورٹرز کے شامل ہونے سے بھارتی معیشت کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مودی سرکار کے غیر منصفانہ زرعی بل کے خلاف بھارتی کسانوں کا ملک گیر احتجاج آج آٹھویں روز میں داخل ہوچکا ہے جبکہ ہندوستانی ٹرانسپوٹروں کی سب سے بڑی تنظیم "آل انڈیا موٹر ٹرانسپورٹ کانگریس" نے بھی کسانوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسانوں کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ 8 دسمبر سے پورے بھارت میں پہیہ جام ہڑتال شروع کردیں گے۔
واضح رہے کہ اس سال ستمبر کے مہینے میں مودی سرکار نے زرعی اصلاحات کے نام پر ایک نیا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اہم زرعی اجناس کی کم سے کم قیمتوں کے تعین پر حکومت کا کنٹرول مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے نجی سرمایہ کاروں کو آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ کسانوں سے براہِ راست بھاؤ تاؤ کرکے اپنی من پسند قیمت پر زرعی اجناس خرید سکیں۔
اس بل کی منظوری کے خلاف بھارتی کسانوں کا احتجاج جاری ہے اور حالیہ "دہلی چلو" مہم کے تحت لاکھوں کسان بھارتی دارالحکومت دہلی کا گھیرا تنگ کرچکے ہیں۔ دریں اثناء بی جے پی حکومت کے مختلف عہدیداروں نے بھی کسانوں سے مذاکرات کیے اور انہیں احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
کسانوں کی حمایت میں اب تک بھارتی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ خود حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی سامنے آگئی ہیں جبکہ بعض بھارتی ریاستوں میں خود بی جے پی کے اپنے رہنما بھی نئے زرعی قانون کے خلاف بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروپ بھی کسانوں کی حمایت میں کھڑے ہورہے ہیں جن میں طلبہ تنظیموں اور پنچایتوں کے علاوہ ممتاز بھارتی کھلاڑی بھی شامل ہیں جنہوں نے 5 دسمبر کو کسانوں کے حق میں 'دہلی مارچ' کا اعلان کیا ہے۔
چند روز قبل کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی ہندوستانی کسانوں کے حق میں بیان دیتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ ان کی حکومت ہمیشہ پرامن احتجاج کی حامی رہی ہے۔ اس پر مودی سرکار کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے اور جسٹن ٹروڈو کے اس بیان کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔
کسانوں کے احتجاج میں بھارتی ٹرانسپورٹرز کی ملک گیر تنظیم کی شمولیت کو بہت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ کسانوں کے ساتھ ٹرانسپورٹرز کے شامل ہونے سے بھارتی معیشت کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔