بھوک پاکستا ن کے غذائی تحفظ اور معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے زرتاج گل وزیر

گلوبل ہنگر انڈیکس کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان 24.6 اسکور کے ساتھ 107 ممالک میں 88 ویں نمبر پر ہے

گلوبل ہنگر انڈیکس کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان 24.6 اسکور کے ساتھ 107 ممالک میں 88 ویں نمبر پر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI:
2020 گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان 107 ممالک میں 88 ویں نمبر پر ہے اور یہ بات خوش آئند نہیں۔ ان خیالات کا اظہار زرتاج گل، وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی نے آن لائن ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت ملک سے غربت اور بھوک کے خاتمے کےلیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان کو غذائی تحفظ اور غذائیت (نیوٹریشن) کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیوں کہ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے لوگوں میں غذائیت کی بے حد کمی ہے جس کی وجہ سے بچوں کی اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔حکومت نے بہتر آب و ہوا کےلیے ایک ٹیکنالوجی سندھ اور جنوبی پنجاب میں متعارف کرائی ہے تاکہ زرعی پیداوار کو بہتر بنایا جاسکے۔

اس ضمن میں عابد قیوم سلہری، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، ایس ڈی پی آئی نے بتایا کہ 2020 گلوبل ہنگر انڈیکس کے اعداد و شمار مدنظر رکھے جائیں تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں غذائیت کے بحران کی وجہ سے انسانی اور معاشی ترقی متاثر ہوگی جس کے باعث ملکی سالمیت کو بھی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت، نجی شعبے، سول سوسائٹی، عوام اور افراد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس بحران سے بچا جاسکے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فوری عمل کا وقت ہے اور ہر کسی کو آئندہ پانچ سال کے دوران حکمت عملی میں مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔کورونا وبا کے با عث پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ غذائی اجناس کی نقل و حمل نہ ہونے، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اور لوگوں کے ذرائع آمدن میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ سے سیکڑوں پاکستانی متاثر ہورہے ہیں۔


آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان میں غربت کی سطح سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے جس کی بڑی وجوہ میں سے ایک کورونا وائرس کی عالمی وبا بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ 70 لاکھ (17 ملین) بچوں کو ہر سال ویکسین فراہم نہیں کی جا رہی اور کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کی صحت کو زیادہ خطرات درپیش ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 69 کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 14 کروڑ 40 لاکھ (144 ملین) بچے اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹے قد کے ہیں؛ چار کروڑ 70 لاکھ (47 ملین) بچوں کو انتہائی کم غذا میسر ہے جبکہ 2018 میں 53 لاکھ (5.3 ملین) بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔اگرچہ سال 2000 سے عالمی سطح پر بھوک میں کمی آئی ہے تاہم بہت سی جگہوں پر اس کی رفتار بہت سست ہے اور وہاں شدید غربت ہے۔ ان ممالک میں غذا اور غذائی عدم تحفظ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ 2020 میں صحت، معیشت اور ماحول کا بھی بحران پیدا ہورہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غذائی بحران اور بھوک سے تحفظ کےلیے ممالک، حکومتوں اور افراد کو جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی اور انہیں غذا، صحت اور معاشی نظام کو بہتر کرنا ہوگا تا کہ غذائی پیداوار اور تقسیم کو منصفانہ انداز میں ترتیب دیتے ہوئے بحران سے بچا جاسکے۔رپورٹ کے مطابق 37 فیصد پاکستان غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

مذکورہ ویبینار کے دیگر شرکاء میں ایچ ایل جولین ہارنیس، اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ اینڈ ہیومینی ٹیریئن کوآرڈینیٹر پاکستان؛ برنارڈ جیسپر فیجر، ہیڈ آف مشن، ای سی ایچ او پاکستان؛ کرس کائے، کنٹری ڈائرکٹر، یو این-ڈبلیو ایف پی؛ شاہد فاضل، نیوٹریشن اینڈ فوڈ پالیسی/ اسٹریٹیجی کنسلٹنٹ؛ ڈاکٹر ارشاد دانش، ایڈووکیسی ایڈوائزر، نیوٹریشن انٹرنیشنل، سن سی ایس اے؛ عائشہ جمشید، ڈبلیو ایچ ایچ کنٹری ڈائریکٹر؛ فرحان احمد خان، کیسوی ہیڈ آف مشن؛ مریم ویمرز، ماہر، گلوبل ہنگر انڈیکس اور ممبر ڈبلیو ایچ ایچ گلوبل پالیسی اینڈ ایڈووکیسی ٹیم؛ ڈاکٹر ارجمند نظامی، کنٹری ڈائریکٹر، ہیلویٹاس؛ ڈاکٹر شاداب فریدالدین، پالیسی تجزیہ کار/ کنسلٹنٹ؛ اور مسٹر محمد ناصر، مینیجر، ایس یو این بزنس شامل تھے۔
Load Next Story