ایرانی مشکلات نئے موڑ پر
ایران مخالف ہمسایہ ریاستیں ایران سے براہِ راست ٹکر لینے کی ہمت و سکت نہیں رکھتیں۔
ایران اس وقت بہت ہی کٹھن، تکلیف دہ اور صبر آزما دور سے گزر رہا ہے۔ اس کو اکسانے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ اسرائیل کی شدید خواہش ہے کہ ایران کوئی ایسا قدم اُٹھائے جس کو بہانہ بنا کر امریکا اس پر حملہ کر دے۔
ایران مخالف ہمسایہ ریاستیں ایران سے براہِ راست ٹکر لینے کی ہمت و سکت نہیں رکھتیں۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت اور قابلیت حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے گا۔ ایران کو ابھی اسی وقت امریکی حملے کے ذریعے دبوچ لینا قرینِ مصلحت ہے۔ ایران کے پڑوسی ممالک میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ایران دشمنی میں بہت اندھا ہو۔ لیکن اسرائیل اور امریکا موقعے کی تلاش میں ہیں۔
جنوری 2018کی ایک سخت سرد رات گیارہ اسرائیلی کمانڈوز تہران کی ایک ایسی عمارت میں داخل ہوئے جو بہت محفوظ کی گئی تھی۔ یہاں ایرانی نیوکلیر پروگرام کی ٹاپ سیکرٹ فائلیں تھیں، عمارت کی حفاظت کے لیے انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کا کڑا پہرہ تھا لیکن کسی غیر متعلقہ افراد کا جتھہ کیسے عمارت میں داخل ہوا' یہ جان کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ لوگ عمارت میں داخل ہونے کے بعد چار گھنٹے اور انتیس منٹ ہر کاغذ کی جانچ پڑتال کرتے رہے، اس دوران انھوں نے روشنی کے لیے ٹارچ بھی استعمال کیں۔
کم و بیش بتیس سیف کاٹے، ان میں سے انتہائی خفیہ دستاویزات کو علیحدہ کیا اور باہر ٹرک میں لاد کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ سارا آپریشن کوئی بیس گھنٹوں پر محیط تھا اور یہ فائلیںتل ابیب پہنچا دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم نتن یاہو نے کچھ دن بعد ایک پریس کانفرنس میں ان فائلوں کا تذکرہ کیا اور اپنے اداروں کو اشارہ کرتے ہوئے ایرانی ایٹمی پروگرام کے موجد جناب محسن فخری زادے کے نام کو یاد رکھنے کا کہا۔ جون2018 میں یہ ایرانی دستاویزات امریکا پہنچ گئیں۔ اس وقت سی آئی اے کے سربراہ اور موجودہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو تھے۔
امریکی اور اسرائیلی ماہرین نے ایرانی فائلوں کی روشنی میں چند فیصلے کیے۔ اس سے پہلے ایرانی میجر جنرل حسن شاتری، ایٹمی سائنس دان مصطفیٰ احمدی، ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے سربراہ جنرل حسن مقدم اور ایٹمی پروگرام کے انتہائی اہم انجینئر درویش کو ایران کے اندر حملہ کر کے موت کی نیند سلایا جا چکا ہے۔ اسی سال اگست میں القاعدہ کے ڈپٹی لیڈر عبداﷲ مصری جو ایران میں تھا اسے بھی اس کی بیٹی کے ساتھ تہران میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
جمعہ 27 نومبر 2020کو ایرانی وزارتِ دفاع کے ایک تحقیقاتی ادارے کے سربراہ اور قابلِ فخر ایٹمی سائنس دان جناب محسن فخری زادہ کی زندگی ختم کرنے کے لیے تہران کے مشرق میں 80 کلومیٹر دور پہاڑی مقام آبِ سرد کو جانے والی سڑک پر گھات لگائی گئی۔ یہ وہی شخص ہیں جن کا اسرائیلی وزیرِ اعظم نے نام یاد رکھنے کا کہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق قاتلین کا یہ گروہ 62 افراد پر مشتمل تھا جن میں بارہ انتہائی تربیت یافتہ افراد نے فخری کو مارنا تھا اور باقی افراد لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے والے تھے۔
قاتلین میں 2 نشانہ باز تھے۔ محسن فخری زادے کے پہنچنے سے آدھا گھنٹہ پہلے آبِ سرد کے سارے علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی۔ قاتلین نے قصبے سے ذرا پہلے سڑک پر ایک گول چکر سے چند گز دور اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں' اصل قاتل ایک کار میں سوار تھے جب کہ باقی افراد موٹر سائیکلوں پر تھے۔ بوبی ٹریپ کے لیے ایک پک اپ سڑک کنارے کھڑی تھی۔
اس پارٹی نے دور سے فخری زادے کے تین بلٹ پروف کاروں پر مشتمل قافلے کو آتے دیکھا۔ فخری دوسری کار میں سوار تھے۔ پہلی گاڑی گول چکر سے نکلی تو سڑک کنارے کھڑی پک اپ ایک انتہائی زور دار دھماکے سے اڑ گئی۔ دھماکے سے سڑک کنارے بجلی کے کھمبے اور ٹرانسفارمر شعلوں کی نذر ہو گئے اور فخری کا قافلہ رک گیا۔ 12 قاتلین نے بیک وقت فخری زادے کی گاڑی پر فائر کھول دیا، قاتل پارٹی کے سربراہ نے فخری زادے کو گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور موت سے ہمکنار کر دیا۔ ایرانی سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنے سائنس دان کو بچانے کی کوشش کی لیکن حملہ آوروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔
ایران کا امریکا اور اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جانا اس کے لیے بے پناہ مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ ایرانی جوہری اداروں کے بہت سے افراد مارے جا چکے ہیں یا پھر نشانے پر ہیں They walk in death ۔ اتنے اہم ترین افراد کے قتل کے بعد غور کیا جائے تو ایرانی خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی کمزوریاں طشت ازبام ہوتی نظر آتی ہیں۔
جنوری 2018 میں غیر ملکی کمانڈوز کا تہران میں ایٹمی رازوں کی حامل عمارت میں داخل ہو جانا، کئی گھنٹے اس کے اندر فائلوں کی جانچ پڑتال کرنا اور پھر مطلوبہ فائلوں کے پلندوں کو ٹرک میں لاد کر سیکڑوں میل کی مسافت طے کر کے لے جانا اور اس سارے واقعے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونا، ایرانی حفاظتی انتظامات کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی ابھی چند مہینے پہلے ہی مارے گئے تھے اور اب محسن فخری زادے کا دن دہاڑے ہائی وے پرگاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالنا اور بہیمانہ قتل۔ مارنے والا جتھہ ہائی وے پر آدھا گھنٹہ کئی گاڑیوں، اسلحے اور باسٹھ آدمیوں کے ساتھ موجود رہا، اس نے پورے علاقے کی بجلی اڑا دی اور ایرانی اداروں کو خبر نہیں ہو سکی۔ انتہائی قابل سائنس دان کا اٹھ جانا کروڑوں آدمیوں کی زندگی پر بھاری ہے۔
علم و عمل کی ایسی صلاحیت روز روز نہیں پیدا ہو جاتی۔ ایسا لگتا ہے کہ دشمن اعلیٰ سے اعلیٰ ایرانی عہدے دار کو اُٹھا کر بھی لے جا سکتے ہیں۔ امریکی وزرا کا نئی دہلی پہنچ کر بھارت کو جدید ہتھیار اور حساس ڈیٹا فراہم کرنے کے معاہدے سے مجھے تو اپنے وطنِ عزیز کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول اور حال ہی میں ایک مدرسے پر حملہ سوالیہ نشان چھوڑ چکے ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور بھارت کی ملی بھگت ہمارے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ اﷲ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
ایران مخالف ہمسایہ ریاستیں ایران سے براہِ راست ٹکر لینے کی ہمت و سکت نہیں رکھتیں۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت اور قابلیت حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے گا۔ ایران کو ابھی اسی وقت امریکی حملے کے ذریعے دبوچ لینا قرینِ مصلحت ہے۔ ایران کے پڑوسی ممالک میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ایران دشمنی میں بہت اندھا ہو۔ لیکن اسرائیل اور امریکا موقعے کی تلاش میں ہیں۔
جنوری 2018کی ایک سخت سرد رات گیارہ اسرائیلی کمانڈوز تہران کی ایک ایسی عمارت میں داخل ہوئے جو بہت محفوظ کی گئی تھی۔ یہاں ایرانی نیوکلیر پروگرام کی ٹاپ سیکرٹ فائلیں تھیں، عمارت کی حفاظت کے لیے انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کا کڑا پہرہ تھا لیکن کسی غیر متعلقہ افراد کا جتھہ کیسے عمارت میں داخل ہوا' یہ جان کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ لوگ عمارت میں داخل ہونے کے بعد چار گھنٹے اور انتیس منٹ ہر کاغذ کی جانچ پڑتال کرتے رہے، اس دوران انھوں نے روشنی کے لیے ٹارچ بھی استعمال کیں۔
کم و بیش بتیس سیف کاٹے، ان میں سے انتہائی خفیہ دستاویزات کو علیحدہ کیا اور باہر ٹرک میں لاد کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ سارا آپریشن کوئی بیس گھنٹوں پر محیط تھا اور یہ فائلیںتل ابیب پہنچا دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم نتن یاہو نے کچھ دن بعد ایک پریس کانفرنس میں ان فائلوں کا تذکرہ کیا اور اپنے اداروں کو اشارہ کرتے ہوئے ایرانی ایٹمی پروگرام کے موجد جناب محسن فخری زادے کے نام کو یاد رکھنے کا کہا۔ جون2018 میں یہ ایرانی دستاویزات امریکا پہنچ گئیں۔ اس وقت سی آئی اے کے سربراہ اور موجودہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو تھے۔
امریکی اور اسرائیلی ماہرین نے ایرانی فائلوں کی روشنی میں چند فیصلے کیے۔ اس سے پہلے ایرانی میجر جنرل حسن شاتری، ایٹمی سائنس دان مصطفیٰ احمدی، ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے سربراہ جنرل حسن مقدم اور ایٹمی پروگرام کے انتہائی اہم انجینئر درویش کو ایران کے اندر حملہ کر کے موت کی نیند سلایا جا چکا ہے۔ اسی سال اگست میں القاعدہ کے ڈپٹی لیڈر عبداﷲ مصری جو ایران میں تھا اسے بھی اس کی بیٹی کے ساتھ تہران میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
جمعہ 27 نومبر 2020کو ایرانی وزارتِ دفاع کے ایک تحقیقاتی ادارے کے سربراہ اور قابلِ فخر ایٹمی سائنس دان جناب محسن فخری زادہ کی زندگی ختم کرنے کے لیے تہران کے مشرق میں 80 کلومیٹر دور پہاڑی مقام آبِ سرد کو جانے والی سڑک پر گھات لگائی گئی۔ یہ وہی شخص ہیں جن کا اسرائیلی وزیرِ اعظم نے نام یاد رکھنے کا کہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق قاتلین کا یہ گروہ 62 افراد پر مشتمل تھا جن میں بارہ انتہائی تربیت یافتہ افراد نے فخری کو مارنا تھا اور باقی افراد لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے والے تھے۔
قاتلین میں 2 نشانہ باز تھے۔ محسن فخری زادے کے پہنچنے سے آدھا گھنٹہ پہلے آبِ سرد کے سارے علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی۔ قاتلین نے قصبے سے ذرا پہلے سڑک پر ایک گول چکر سے چند گز دور اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں' اصل قاتل ایک کار میں سوار تھے جب کہ باقی افراد موٹر سائیکلوں پر تھے۔ بوبی ٹریپ کے لیے ایک پک اپ سڑک کنارے کھڑی تھی۔
اس پارٹی نے دور سے فخری زادے کے تین بلٹ پروف کاروں پر مشتمل قافلے کو آتے دیکھا۔ فخری دوسری کار میں سوار تھے۔ پہلی گاڑی گول چکر سے نکلی تو سڑک کنارے کھڑی پک اپ ایک انتہائی زور دار دھماکے سے اڑ گئی۔ دھماکے سے سڑک کنارے بجلی کے کھمبے اور ٹرانسفارمر شعلوں کی نذر ہو گئے اور فخری کا قافلہ رک گیا۔ 12 قاتلین نے بیک وقت فخری زادے کی گاڑی پر فائر کھول دیا، قاتل پارٹی کے سربراہ نے فخری زادے کو گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور موت سے ہمکنار کر دیا۔ ایرانی سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنے سائنس دان کو بچانے کی کوشش کی لیکن حملہ آوروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔
ایران کا امریکا اور اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جانا اس کے لیے بے پناہ مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ ایرانی جوہری اداروں کے بہت سے افراد مارے جا چکے ہیں یا پھر نشانے پر ہیں They walk in death ۔ اتنے اہم ترین افراد کے قتل کے بعد غور کیا جائے تو ایرانی خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی کمزوریاں طشت ازبام ہوتی نظر آتی ہیں۔
جنوری 2018 میں غیر ملکی کمانڈوز کا تہران میں ایٹمی رازوں کی حامل عمارت میں داخل ہو جانا، کئی گھنٹے اس کے اندر فائلوں کی جانچ پڑتال کرنا اور پھر مطلوبہ فائلوں کے پلندوں کو ٹرک میں لاد کر سیکڑوں میل کی مسافت طے کر کے لے جانا اور اس سارے واقعے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونا، ایرانی حفاظتی انتظامات کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی ابھی چند مہینے پہلے ہی مارے گئے تھے اور اب محسن فخری زادے کا دن دہاڑے ہائی وے پرگاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالنا اور بہیمانہ قتل۔ مارنے والا جتھہ ہائی وے پر آدھا گھنٹہ کئی گاڑیوں، اسلحے اور باسٹھ آدمیوں کے ساتھ موجود رہا، اس نے پورے علاقے کی بجلی اڑا دی اور ایرانی اداروں کو خبر نہیں ہو سکی۔ انتہائی قابل سائنس دان کا اٹھ جانا کروڑوں آدمیوں کی زندگی پر بھاری ہے۔
علم و عمل کی ایسی صلاحیت روز روز نہیں پیدا ہو جاتی۔ ایسا لگتا ہے کہ دشمن اعلیٰ سے اعلیٰ ایرانی عہدے دار کو اُٹھا کر بھی لے جا سکتے ہیں۔ امریکی وزرا کا نئی دہلی پہنچ کر بھارت کو جدید ہتھیار اور حساس ڈیٹا فراہم کرنے کے معاہدے سے مجھے تو اپنے وطنِ عزیز کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول اور حال ہی میں ایک مدرسے پر حملہ سوالیہ نشان چھوڑ چکے ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور بھارت کی ملی بھگت ہمارے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ اﷲ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔