مون سون اور ہماری تدابیر…
پاکستان کا 58 فیصد علاقہ شہری آبادی پر مشتمل ہے، جہاں شہر کو بھی شہری سہولتیں میسر نہیں
ISLAMABAD:
موئن جودڑو آج سے کوئی 4500-5000 سال پرانی تہذیب ہے لیکن اگر اس کی پلاننگ دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
شہری حکومت کا جو جو بہترین نظام زندگی وضع ہوسکتا ہے وہ اس کی پلاننگ کا حصّہ نظر آتا ہے۔ ہر وہ اقدام جو ایک شہر کو شہر بناتا ہے وہ وہاں موجود تھا۔ آثارِ قدیمہ سے واپسی پر ہم پاکستان میں پلاننگ کمیشن کی بات کرتے تو وہ ہمیں منہ چڑاتی ہوئی ملتی ہے۔آپ کا 42 فیصد ملک دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں شہر جیسی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور 58 فیصد علاقہ شہری آبادی پر مشتمل ہے، جہاں شہر کو بھی شہری سہولتیں میسر نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے وضع ایک واک پلان ہوتا ہے، جس کو سامنے رکھ کر ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہم کو یہ کرنا ہوگا، لہٰذا وہاں انسانی جانوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ ان کے مال مویشی یہاں تک کہ ان کی ضروریاتِ زندگی کی جو چیزیں ہوسکتی ہیں، وہاں سے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتی ہیں۔
ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، لیکن بدقسمتی کہ ہم اس سے کوئی خاطر خواہ مثبت نتائج حاصل نہیں کرپائے، چند ایک حکومتوں کے علاوہ ہر آئی گئی حکومت نے کوئی خاطر خواہ کام زراعت کے شعبے میں، صنعت و حرفت کے شعبے میں نہیں کیا، ان ہی علاقوں سے ہمیں جو دیہی علاقے ہیں ہم کو اجناسِ خورونوش، ڈرائی فروٹس، اشیائے ضرورت کی ہر چیز ملتی ہے، اگر ان علاقوں میں ناگہانی آفت آنے سے پہلے ہی ریسکیو کی کارروائیاں تیز کردی جائیں تو ہونے والے نقصانات میں حد درجہ کمی آسکتی ہے، دریائوں کے بہائو کے راستے میں کوئی مکان، کوئی دکان نہیں بننی چاہیے۔ ظاہر ہے سیلاب کی صورت میں پانی کچھ نہیں دیکھے گا۔ جب نقصان کم ہوگا تو مہنگائی کا عفریت بھی کمزور پڑ جائے گا۔
2011-2010 میں آنے والے سیلاب نے ہمیں ہماری ناقص حکمتِ عملی کی جانب ازسر نو سوچنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس سیلاب نے سندھ ہو کہ پنجاب، خیبر پختون خوا ہو کہ کشمیر سارے ہی ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ محکمۂ موسمیات نے 15,16 اگست 2012 کو ایک فورکاسٹ شایع کی جس میں کہا گیا کہ اس بار بارشیں 40 فیصد نچلی سطح پر ہوں گی اور صورتِ حال اِتنی سنگین نہیں ہوگی جتنی کہ 2010 میں ہوگئی تھی، کچھ قیاس آرائیاں قحط کے بارے میں بھی تھیں۔ قحط اور سیلاب کچھ جما نہیں، درختوں کا تیزی سے کٹنا بہت اہمیت رکھتا ہے یہاں درخت بہائو کو تھامے روکے رکھتے ہیں۔ محکمۂ جنگلات نے اس پر توجہ نہیں دی، خیر اب تو پانی سروں سے اوپر چلا گیا ہے۔
عید کے تیسرے ہی دن ملک کے اکثر و بیشتر علاقوں میں بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جنھوں نے بڑے پیمانے پر نہیں تو کم از کم 40 کے قریب انسانوں کی جانیں لے لیں، پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئیں جس کے سبب راستے بند ہوگئے۔ بارشیں اتنی تیز تھیں کہ خیبر پختون خوا اور کشمیر میں مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا اور نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے، جس سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ شاہراہِ نیلم پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی اور شاہراہِ کاغان سیلابی ریلے کے باعث بند ہو کر رہ گئی۔ گھروں کی دیواروں کے منہدم ہونے کی وجہ سے کئی لوگ زخمی بھی ہوئے اور اسلام آباد، پنڈی سمیت بالائی پنجاب، خیبر پختون خوا، کشمیر، گلگت بلتستان میں تیز ہوائوں کے ساتھ بارشوں نے اپنا کام دِکھانا شروع کردیا۔
سرگودھا، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لاہور، ہزارہ ڈویژن، مالاکنڈ، نوشہرہ سمیت کشمیر کے مختلف اضلاع میں شدید بارشوں نے کاروبارِ زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا۔ سب سے زیادہ بارش کاکول میں ریکارڈ کی گئی۔ 84 ملی میٹر کے قریب، جس سے نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے۔ مال مویشیوں کو نقصان پہنچا۔ مانسہرہ کے نواحی علاقے درہ جوگڈمنگ، پلھل ویلی، درہ جبوری میں پہاڑی تودے گرے، مکیگان میں سیاحی مرکزی جھیل شاہ زیب کا بند طغیانی کے سبب ٹوٹ گیا۔ شاہراہِ نیلم کے بند ہونے کے باعث لیپا، وادی جہلم اور وادی نیلم میں اشیائے خورونوش اور دوائوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ ایبٹ آباد میں بارش کے پانی نے گھروں میں گھسنا شروع کردیا۔
جنوبی وزیرستان میں ندی نالوں میں طغیانی آگئی جس کے باعث پشاور، وزیرستان، شاہراہ گل امام کے مقام پر ٹریفک بند ہوگیا۔ دریائے چناب اور راوی میں نچلے درجے کا سیلاب جب کہ ارسا کے مطابق بارشوں کے باعث دریائوں کے بہائو میں اضافہ ہوگیا ہے۔یہاں این ڈی ایم اے کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال اور پی ڈی ایم اے کے ڈی جی مجاہد شیردل ان بارشوں کو اب تک تسکین بخش قرار دے رہے ہیں۔ وہ اپنے اپنے اداروں کے سربراہان ہیں اور ان کے پاس باقاعدہ ایک پلان ہے، دریا ابھی نچلی سطح ہی کی طرف ہیں لیکن ماضیِ بعید کی کارگذاری ان کو اپنے سامنے رکھنی ہوگی۔
ہم موسموں کے تغیر، گلوبل وارمنگ کی پیچیدہ صورتِ حال سے نبرد آزما ہوسکیں۔ کوئی بھی ناگہانی اور قدرتی آفات کے آنے سے پہلے الارم بیل بجادی جائے تاکہ ہر وہ ذی ہوش اپنا کام صحیح سمت میں کرسکے۔ ہم سائنس کو بنیاد بنا کر انسانی جانوں کے ضیاع کو روک سکتے ہیں، پہلے سے تدارک کرکے۔
وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں کے باعث سیلابی ریلوں میں قیمتی جانوں کے نقصان پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور انھوں نے فیڈرل فلڈ کمیشن، وزارتِ پانی و بجلی، N.D.M.A کو ملک میں بارشوں اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو قریب سے مانیٹر کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں ہر وقت باخبر رکھا جائے، یہ اچھا اور مستحسن اقدام ہے۔ انھیں ابھی سے ضلعی، صوبائی سطح پر انتظامی ٹیمیں مرتب کرکے ان علاقوں میں بھیج دینی چاہییں، جہاں نقصانات کے امکان زیادہ ہوسکتے ہیں۔ کم از کم جانی نقصان ہی کم ہوجائے گا، باقی خدا رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس سال بارانِ رحمت ہو، زحمت نہیں۔
موئن جودڑو آج سے کوئی 4500-5000 سال پرانی تہذیب ہے لیکن اگر اس کی پلاننگ دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
شہری حکومت کا جو جو بہترین نظام زندگی وضع ہوسکتا ہے وہ اس کی پلاننگ کا حصّہ نظر آتا ہے۔ ہر وہ اقدام جو ایک شہر کو شہر بناتا ہے وہ وہاں موجود تھا۔ آثارِ قدیمہ سے واپسی پر ہم پاکستان میں پلاننگ کمیشن کی بات کرتے تو وہ ہمیں منہ چڑاتی ہوئی ملتی ہے۔آپ کا 42 فیصد ملک دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں شہر جیسی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور 58 فیصد علاقہ شہری آبادی پر مشتمل ہے، جہاں شہر کو بھی شہری سہولتیں میسر نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے وضع ایک واک پلان ہوتا ہے، جس کو سامنے رکھ کر ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہم کو یہ کرنا ہوگا، لہٰذا وہاں انسانی جانوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ ان کے مال مویشی یہاں تک کہ ان کی ضروریاتِ زندگی کی جو چیزیں ہوسکتی ہیں، وہاں سے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتی ہیں۔
ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، لیکن بدقسمتی کہ ہم اس سے کوئی خاطر خواہ مثبت نتائج حاصل نہیں کرپائے، چند ایک حکومتوں کے علاوہ ہر آئی گئی حکومت نے کوئی خاطر خواہ کام زراعت کے شعبے میں، صنعت و حرفت کے شعبے میں نہیں کیا، ان ہی علاقوں سے ہمیں جو دیہی علاقے ہیں ہم کو اجناسِ خورونوش، ڈرائی فروٹس، اشیائے ضرورت کی ہر چیز ملتی ہے، اگر ان علاقوں میں ناگہانی آفت آنے سے پہلے ہی ریسکیو کی کارروائیاں تیز کردی جائیں تو ہونے والے نقصانات میں حد درجہ کمی آسکتی ہے، دریائوں کے بہائو کے راستے میں کوئی مکان، کوئی دکان نہیں بننی چاہیے۔ ظاہر ہے سیلاب کی صورت میں پانی کچھ نہیں دیکھے گا۔ جب نقصان کم ہوگا تو مہنگائی کا عفریت بھی کمزور پڑ جائے گا۔
2011-2010 میں آنے والے سیلاب نے ہمیں ہماری ناقص حکمتِ عملی کی جانب ازسر نو سوچنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس سیلاب نے سندھ ہو کہ پنجاب، خیبر پختون خوا ہو کہ کشمیر سارے ہی ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ محکمۂ موسمیات نے 15,16 اگست 2012 کو ایک فورکاسٹ شایع کی جس میں کہا گیا کہ اس بار بارشیں 40 فیصد نچلی سطح پر ہوں گی اور صورتِ حال اِتنی سنگین نہیں ہوگی جتنی کہ 2010 میں ہوگئی تھی، کچھ قیاس آرائیاں قحط کے بارے میں بھی تھیں۔ قحط اور سیلاب کچھ جما نہیں، درختوں کا تیزی سے کٹنا بہت اہمیت رکھتا ہے یہاں درخت بہائو کو تھامے روکے رکھتے ہیں۔ محکمۂ جنگلات نے اس پر توجہ نہیں دی، خیر اب تو پانی سروں سے اوپر چلا گیا ہے۔
عید کے تیسرے ہی دن ملک کے اکثر و بیشتر علاقوں میں بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جنھوں نے بڑے پیمانے پر نہیں تو کم از کم 40 کے قریب انسانوں کی جانیں لے لیں، پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئیں جس کے سبب راستے بند ہوگئے۔ بارشیں اتنی تیز تھیں کہ خیبر پختون خوا اور کشمیر میں مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا اور نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے، جس سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ شاہراہِ نیلم پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی اور شاہراہِ کاغان سیلابی ریلے کے باعث بند ہو کر رہ گئی۔ گھروں کی دیواروں کے منہدم ہونے کی وجہ سے کئی لوگ زخمی بھی ہوئے اور اسلام آباد، پنڈی سمیت بالائی پنجاب، خیبر پختون خوا، کشمیر، گلگت بلتستان میں تیز ہوائوں کے ساتھ بارشوں نے اپنا کام دِکھانا شروع کردیا۔
سرگودھا، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لاہور، ہزارہ ڈویژن، مالاکنڈ، نوشہرہ سمیت کشمیر کے مختلف اضلاع میں شدید بارشوں نے کاروبارِ زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا۔ سب سے زیادہ بارش کاکول میں ریکارڈ کی گئی۔ 84 ملی میٹر کے قریب، جس سے نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے۔ مال مویشیوں کو نقصان پہنچا۔ مانسہرہ کے نواحی علاقے درہ جوگڈمنگ، پلھل ویلی، درہ جبوری میں پہاڑی تودے گرے، مکیگان میں سیاحی مرکزی جھیل شاہ زیب کا بند طغیانی کے سبب ٹوٹ گیا۔ شاہراہِ نیلم کے بند ہونے کے باعث لیپا، وادی جہلم اور وادی نیلم میں اشیائے خورونوش اور دوائوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ ایبٹ آباد میں بارش کے پانی نے گھروں میں گھسنا شروع کردیا۔
جنوبی وزیرستان میں ندی نالوں میں طغیانی آگئی جس کے باعث پشاور، وزیرستان، شاہراہ گل امام کے مقام پر ٹریفک بند ہوگیا۔ دریائے چناب اور راوی میں نچلے درجے کا سیلاب جب کہ ارسا کے مطابق بارشوں کے باعث دریائوں کے بہائو میں اضافہ ہوگیا ہے۔یہاں این ڈی ایم اے کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال اور پی ڈی ایم اے کے ڈی جی مجاہد شیردل ان بارشوں کو اب تک تسکین بخش قرار دے رہے ہیں۔ وہ اپنے اپنے اداروں کے سربراہان ہیں اور ان کے پاس باقاعدہ ایک پلان ہے، دریا ابھی نچلی سطح ہی کی طرف ہیں لیکن ماضیِ بعید کی کارگذاری ان کو اپنے سامنے رکھنی ہوگی۔
ہم موسموں کے تغیر، گلوبل وارمنگ کی پیچیدہ صورتِ حال سے نبرد آزما ہوسکیں۔ کوئی بھی ناگہانی اور قدرتی آفات کے آنے سے پہلے الارم بیل بجادی جائے تاکہ ہر وہ ذی ہوش اپنا کام صحیح سمت میں کرسکے۔ ہم سائنس کو بنیاد بنا کر انسانی جانوں کے ضیاع کو روک سکتے ہیں، پہلے سے تدارک کرکے۔
وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں کے باعث سیلابی ریلوں میں قیمتی جانوں کے نقصان پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور انھوں نے فیڈرل فلڈ کمیشن، وزارتِ پانی و بجلی، N.D.M.A کو ملک میں بارشوں اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو قریب سے مانیٹر کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں ہر وقت باخبر رکھا جائے، یہ اچھا اور مستحسن اقدام ہے۔ انھیں ابھی سے ضلعی، صوبائی سطح پر انتظامی ٹیمیں مرتب کرکے ان علاقوں میں بھیج دینی چاہییں، جہاں نقصانات کے امکان زیادہ ہوسکتے ہیں۔ کم از کم جانی نقصان ہی کم ہوجائے گا، باقی خدا رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس سال بارانِ رحمت ہو، زحمت نہیں۔