زکریا ساجد۔۔۔ تعلیم کے ساتھ شفقت بانٹتے معلم

ایک شاگرد کے قلم سے عظیم استاد کے ساتھ گزرے دنوں کا دل چسپ احوال

ایک شاگرد کے قلم سے عظیم استاد کے ساتھ گزرے دنوں کا دل چسپ احوال

لاہور:
پروفیسر زکریا ساجد صاحب کا نام تدریس اور صحافت کے شعبے کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کا شمار اساتذہ کے اس طبقے سے ہے جنھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا میں پدرانہ شفقت بھی تقسیم کی۔

باپ کے بعد استاد ہی وہ واحد ہستی ہوتی ہے جو اپنے شاگرد کی ترقی پر پھولے نہیں سماتی اور طلبا کی آنے والی زندگی میں مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو رہتی ہے۔ استاد بھری محافل میں سینہ تان کر بتاتے ہیں کہ فلاں کام یاب سیاست داں، صحافی، ڈاکٹر یا جج ان کا شاگرد ہے۔ یہ شاگرد ان کی تدریسی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن کی کام یابی پر فخر کرنا ان کا حق بنتا ہے۔

آج دنیا کے کونے کونے میں پروفیسر زکریا ساجد کے شاگردوں کی تعداد بھری پڑی ہے جو کہ ہر وقت ان کی صحت اور تندرستی کے لیے دعا گو رہتے ہیں اور تقریباً ہر طالب علم کے پاس ان کی محبت اور شفقت کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور موجود ہوگی جو کہ ان کو زیرقلم لانی چاہیے۔ زکریا ساجد صاحب اپنی زندگی میں دولت تو نہیں مگر شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ یہی شوق مجھے بھی صحافت میں لے آیا۔

دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت دولت اور شہرت کے حصول کے لیے سرگرداں رہتی ہے بہت سے لوگ اس میں کام یاب بھی ہو جاتے ہیں جب کہ بعض کو صرف دولت اور بعض کو شہرت ملتی ہے جب کہ بعض ان دونوں چیزوں کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ میرا صحافت کے پیشے میں آنا اتفاق یا نظریہ ضرورت نہیں تھا بلکہ مجھے بچپن سے ہی لکھنے لکھانے اور اپنے نام کو اجاگر کرنے یعنی شہرت کا شوق تھا۔ اسکول کے زمانے میں بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت اور ہمدرد نونہال میں ان سے ملیے اور قلمی دوستی جیسے صفحات پر اپنی تصویر اور نام پتا مشغلے وغیرہ چھپواتا رہتا تھا۔

لاہور کے فلمی میگزین مصور میں فلمی فنکاروں پر بھی دو چار لائنیں لکھ دیا کرتا تھا۔ کالج میں آمد کے بعد روزنامہ مشرق پشاور، روزنامہ جنگ اور نوائے وقت راولپنڈی میں ایڈیٹر کے نام مراسلے لکھتا رہتا تھا جس میں زیادہ تر کوہاٹ شہر کے مسائل وغیرہ کا ذکر ہوتا تھا۔ ریڈیو پشاور پر خیبرہِٹ پریڈ اور آپ کی رائے نامی پروگراموں میں میرا نام پکارا جاتا تھا۔ کوہاٹ سے انٹر پاس کرکے کراچی آگیا اور یہاں سراج الدولہ کالج سے گریجویشن کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر انعام الرحمن شعبہ کے چیئرمین ہوتے تھے۔ پروفیسر زکریا ساجد صاحب کا شمار اس وقت شعبہ صحافت کے سنیئر ترین اساتذہ میں ہوتا تھا اور میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان کا شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

پروفیسر زکریا ساجد یوں تو بے شمار خوبیوں کے حامل ہیں مگر ان کی سب سے بڑی خوبی اپنے طالب علموں سے ان کا پدرانہ شفقت کا سلوک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک میں نے کسی کی زبان سے ان کی برائی یا غیبت نہیں سنی۔ طالب علم چاہے دائیں بازو یا بائیں بازو سے وابستہ ہو سب ان کی یکساں تعریف کرتے ہیں۔

ساجد صاحب کے شاگرد تقریباً تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض تو صحافت کی دنیا میں آسمان پر تاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں جن کی کام یابی کا سن کر زکریا ساجد صاحب کے چہرے پر ایسی خوشی جھلکنے لگتی ہے جیسے کسی نے ان کے بچے کی کام یابی کی خبر انھیں سنا دی ہو۔ میرا تعلق بھی پروفیسر زکریا ساجد صاحب سے عام طالب علم جیسا ہی تھا میں تو نہ اتنا لائق تھا کہ ان کا چہیتا طالب علم ہوتا اور نہ ہی اتنا تابع دار۔ مگر بعد کے حالات میں، میں انھیں اپنے والد جتنا احترام اور وہ مجھے اپنے بیٹے جیسا پیار دینے لگے۔

ساجد صاحب کی کلاس میں پہلے ہی دن انھوں نے تمام طالب علموں سے ایک ایک کرکے کھڑے ہوکر اپنا تعارف کرانے کا کہا، یہ میرے لیے کوئی انہونی بات نہیں تھی مگر اس میں دل چسپ پہلو یہ تھا کہ ساجد صاحب بعض طالب علموں کے تعارف پر اپنے کمنٹس بھی پاس کرتے جاتے تھے، ان میں سے بعض کمنٹس بہت دل چسپ تھے مگر ساجد صاحب کی اجازت کے بغیر میں انھیں زیرتحریر لانا مناسب نہیں سمجھتا، مگر پھر بھی اپنے بارے میں ان کے کمنٹس میرے لیے اثاثہ ہیں۔

جب میں نے اپنا تعارف کرایا اور انھیں بتایا کہ میں نے کوہاٹ سے ہائی اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی ہے اور میرے والد محکمہ زراعت کے ملازم تھے اور یہ کہ میرے خاندان میں دور تک کوئی صحافی یا ادیب نہیں تو ساجد صاحب جوکہ کلاس میں چہل قدمی کرتے ہوئے تعارف سن رہے تھے ایک دم رکے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ بھئی! پھر تم اس کلاس میں کیا کر رہے ہو، جاؤ اپنے ابا کے ساتھ کھیتی باڑی کرو، اس پر مجھ سمیت پوری کلاس زور سے ہنسی اور خود ساجد صاحب بھی مسکرائے۔

شروع کے دنوں میں اسی طرح ایک کلاس میں اچانک ساجد صاحب نے سوال کردیا کہ تم میں سے کس کس کا کوئی بھی رشتہ دار بڑا صحافی، ادیب یا شاعر ہے، بعض طلبا نے بڑے بڑے نام لے کر اپنے رشتے داروں کے بارے میں بتایا کیونکہ میں پہلے دن ہی انھیں بتا چکا تھا کہ میرے گھر والوں میں کوئی لکھاری نہیں مگر مجھے پھر بھی شرارت سوجھی، میں کلاس میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا یک دم کھڑا ہوا اور ساجد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ سر خوشحال خان خٹک میرا چچا تھا جس پر پوری کلاس خوب زور سے ہنسی اور پروفیسر زکریا ساجد صاحب جو کہ بالکل میرے قریب کھڑے تھے انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ مسکراتے ہوئے اپنی لات مجھے جڑ دی جس کے بعد میں نے خود کو ساجد صاحب کی لات کھانے والے طالب علم کا اعزاز عطا کیا۔

میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں ساجد صاحب سے ضرور ملتا ہوں اور انھیں یہ تمام باتیں یاد دلاتا ہوں جس پر لات جڑنے والی بات جو کہ بقول ان کے انھیں یاد نہیں مگر مسکراتے ضرور ہیں۔ اس طرح ایک بار انھوں نے مجھے ایک اسائنمنٹ دیا میں نے بڑی محنت سے اسائنمنٹ مکمل کرکے جمع کرا دیا اگلے دن انھوں نے 10 میں سے 7 نمبر دیتے ہوئے مجھ سے طنزیہ طور پر کہا کہ تمہاری تو اُردو اتنی ہی اچھی ہے کہ جتنی تمہاری انگلش۔ پروفیسر زکریا ساجد صاحب کی اس صاف گوئی پر میری ان سے عقیدت اور بڑھ گئی اور پھر میں نے ان کے ساتھ مل کر شعبہ صحافت کے سابق طلبا کی غیرفعال تنظیم ''کوجا'' کی بحالی کے لیے خوب کام کیا اور شعبے میں رہتے ہوئے 2 سالانہ تقاریب منعقد کروائیں۔


پروفیسر زکریا ساجد صاحب اس زمانے میں گلشن اقبال میں رہائش پذیر تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ہمارے عزیزآباد میں 3 بزنس ہوا کرتے تھے جن میں سے دو میڈیکل اینڈ جنرل اسٹور اور ایک اسنیک بار کا بزنس تھا۔ ایک دن ساجد صاحب یونیورسٹی میں اپنے آفس میں بیٹھے تھے کہ میں سلام کرنے چلا گیا اور پوچھا کہ سر! کیا سوچ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ میری بیگم بیمار ہیں اور مجھے ان کی ایک دوائی نہیں مل رہی، کراچی کے تمام بڑے میڈیکل اسٹوروں میں دیکھ لیا۔

یہ بات سنتے ہی میں نے کہا کہ سر! یہ کوئی مشکل کام ہی نہیں میرے بڑے بھائی فارمسٹ ہیں اور ہمارے دو میڈیکل اسٹور بھی ہیں میں آپ کا یہ کام کروا سکتا ہوں، ساجد صاحب کے پاس دوائی کا نسخہ اس وقت موجود نہیں تھا، انھوں نے مجھے اپنے گھر کا پتا دیا اور یونیورسٹی کے بعد گھر پر آنے کا کہا۔ گھر پر ساجد صاحب بہت پرتپاک طریقے سے ملے ان کی بیگم مرحومہ کو میں نے آنٹی مخاطب کرکے سلام کیا پھر انھوں نے دوائی کا وہ نسخہ میرے حوالے کیا جس کو لے کر میں اگلے دن پہلے وہاب مارکیٹ بندر روڈ گیا۔

جہاں حنیف بلو مرحوم اپنے ابا کے ساتھ ادویہ کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ اس وقت حنیف بلو مرحوم کسی جماعت سے منسلک نہیں تھے اور صرف دوائوں کی ہول سیلر ڈیلرز ایسوسی ایشن میں شامل تھے۔ بہرحال حنیف بلو مرحوم کے پاس یہ دوا دست یاب نہیں تھی مگر انھوں نے مجھے بتایا کہ اس دوا کی آج کل قلت ہے۔ وہاں سے میں سامنے ہی واقع کچی گلی چلا گیا، اپنے میڈیکل اسٹور کے لیے دوائیں خریدنے کی وجہ سے مجھے وہاں بھی بہت سے ڈیلر جانتے تھے جنھوں نے نسخہ دیکھنے کے بعد وہ دوائی بغیر بلیک پرائس کے یعنی اصل ہول سیل پرائس پر مجھے فراہم کردیں جس کے بعد ساجد صاحب نے سکون کا سانس لیا اور اس طرح میں ان کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ ایک دن میں موٹرسائیکل پر ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ گھر کے باہر ہی کھڑے ہیں۔

میں نے سلام کیا اور خیر خیریت پوچھی، کہنے لگے کہ گاڑی تو گھر میں کھڑی ہے مجھے چلانا نہیں آتی، بیگم اور بیٹی چلاتی ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں میرے دوست نذیر ناجی لاہور سے آنے والے ہیں، انھیں لینے ایئرپورٹ جانا ہے، مجھے گاڑی چلانی آتی تھی میں نے فوراً انھیں ان کی گاڑی میں ایئرپورٹ لے جانے کی پیش کش کردی۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میری خوشی دیدنی تھی کہ ایک تو اپنے استاد کی گاڑی چلاؤں گا اور دوسرے اتنے بڑے صحافی نذیر ناجی صاحب سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ اسی طرح ایک دفعہ پروفیسر نثار زبیری صاحب کے گھر بھی عید کی دعوت پر ساجد صاحب کو لے کر جانے کا اتفاق ہوا۔

صحافت میں ماسٹرز کرنے کے بعد میں نے اسلامیہ کالج سے شام کے اوقات میں ایل ایل بی بھی کرلیا تھا مگر کئی جگہ ملازمت کی درخواست دینے کے باوجود کہیں سے بلاوا نہیں آیا تو ساجد صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ انھوں نے ایک دو دن میں آنے کا کہہ کر مجید نظامی مرحوم کو فون کیا اور میرے بارے میں بتایا۔ دو دن کے بعد ساجد صاحب مجھے لے کر محبوب علی خان صاحب کے پاس نوائے وقت کے دفتر گئے اور وہاں سے میں نے ٹرینی سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ میری یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ساجد صاحب شعبہ کے چیئرمین بن گئے۔

میں باقاعدگی سے انھیں سلام کرنے یونیورسٹی جاتا تھا۔ اسی زمانے میں شعبہ صحافت کے زیراہتمام ایک تقریب تاج محل ہوٹل کراچی میں منعقد ہوئی۔ زکریا ساجد صاحب نے مجھے بھی مدعو کیا۔ ضیا الحق کا دور تھا۔ راجہ ظفر الحق اس وقت وزیر اطلاعات تھے جوکہ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے جب کہ میر خلیل الرحمن مرحوم تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ میں اس تقریب میں دوسری رو میں براجمان تھا۔ میر خلیل الرحمن مرحوم نے جب اپنے خطاب میں یہ کہا کہ ہمیں شعبہ صحافت نے اچھے صحافی نہیں دیے تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر کہا کہ میر صاحب! تقریر میں مداخلت پر معافی چاہتا ہوں۔

آپ کو تو شعبہ صحافت سے فارغ ہونے والے نوآموز صحافی تو چاہیے ہی نہیں، آپ تو انتظار کرتے ہیں کہ کب پروفیسر زکریا ساجد صاحب جیسے تجربہ کا ملازمت سے ریٹائرڈ ہوں اور آپ انھیں اپنے پاس بلالیں۔ میری اس جرأت پر ہال طلبا کی تالیوں سے گونج اٹھا، جس پر میر خلیل الرحمن مرحوم نے پروفیسر زکریا ساجد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ اپنے شعبے کی طلبا کی کافی تعداد کو یہاں لے کر آئے ہیں۔

بعدازاں تقریر کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے سے قبل میر صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے تقریب کے بعد ملنے کا کہا۔ تقریب کے بعد وفاقی وزیر اور ساجد صاحب کے ساتھ میری میر خلیل الرحمن مرحوم سے ملاقات بھی ہوئی اور پھر انھوں نے دفتر طلب کرکے ملازمت بھی عطا کی مگر ہائے کنٹریکٹ سسٹم کہ کی وجہ سے یہ سلسلہ زیادہ چل نہ سکا اور پھر مجھے روزنامہ نوائے وقت سے دوبارہ مستقل جاب کی آفر ہوئی جو میں نے قبول کرلی۔

پروفیسر زکریا ساجد صاحب شعبہ کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک درس و تدریس کا سلالہ کرتے رہے اور بعدازاں پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر منتخب ہوئے۔ پریس

انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ہونے والے تقریباً تمام سیمیناروں اور تقاریب میں میری شمولیت لازمی ہوتی تھی ماسوائے ان کے جو شام کے وقت میری جاب کے اوقات میں منعقد ہوتی تھیں۔ 2000 میں امریکا آنے سے پہلے تک ساجد صاحب کے گھر حاضری لازمی سمجھتا تھا اور اس کے بعد جب بھی کراچی جاتا ہوں ایک دفعہ بھی ساجد صاحب سے ملے بغیر کبھی واپس امریکا نہیں آیا۔

2019 کے جولائی میں بھی ساجد صاحب سے ملنے یونیورسٹی میں واقع ان کی بیٹی سیما ساجد کے گھر پر جاکر ان سے ملاقات کی۔ بہت خوش ہوئے۔ اب ان کی بینائی بھی چلی گئی ہے، کمزور بھی بہت ہوگئے ہیں جس کے باعث انھوں نے ملاقاتیں بھی بہت کم اور اپنے مخصوص اوقات میں کردی ہیں۔ اللہ پاک پروفیسر زکریا ساجد صاحب کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے انھیں صحت اور تن درستی کے ساتھ عاقبت والی زندگی عطا کرے آمین۔
Load Next Story