دبئی میں مواقع بے شمار مگر کاہلی کی گنجائش نہیں

پاکستانی اپنا منفی طرزعمل اور غیر پیشہ ورانہ سوچ جیب میں لے کر جب نوکری نہیں ملتی تو واپس پاکستان سدھار جاتے ہیں

ایسے اسمارٹ اور جدید لوگوں کے ساتھ بے چارے فلپائنی، بنگالی یا بھارتیوں کا کیا مقابلہ؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

LONDON:
امارات کی ریاست دبئی جسے مِنی یورپ بھی کہا جاتا ہے، اب حقیقی معنوں میں ''یورپ'' ہی ہے۔ گزشتہ ماہ ''وسیع تر قومی مفادات'' میں دبئی کی حکومت نے ''نظریہ ضرورت'' کے تحت شراب اور بغیر شادی ایک ساتھ رہنے (لیو اِن ریلیشن شپ) کو لیگل قرار دے دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے دبئی کو خطے میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ دبئی دنیا بھر کے سیاحوں کےلیے پہلا اور بہترین انتخاب ہوتا ہے۔

سیاحتی نقطہ نظر سے ہٹ کر بھی ہر مہینے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں غریب ترقی پذیر ممالک کے لوگ اپنی قسمت آزمانے دبئی کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں انڈیا، بنگلہ دیش، فلپائن، مراکش، لبیا، شام، عراق، نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔

حال ہی میں آپ میں سے بہت سے لوگوں نے، جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ گلف ممالک سے تعلق ہے، یہ خبر سنی ہوگی کہ امارات نے سات ممالک کے ویزوں پر تاحکم ثانی پابندی عائد کردی ہے۔ لوگ اسے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق اقدامات قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ کورونا سے متاثرہ ٹاپ ممالک کی لسٹ میں موجود انڈیا اس پابندی والی لسٹ میں شامل نہیں ہے، بنگلہ دیش بھی شامل نہیں۔ البتہ نائیجیریا، لیبیا، شام، عراق اور افغانستان کے ساتھ پاکستان ضرور شامل ہے۔ جو ہماری بہترین اور بطور شاہ محمود قریشی کامیاب خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ لیکن عوام کا کہنا ہے کہ حکومت باقی معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی بھنگ پی کر سوئی ہوئی ہے، ورنہ کم از کم ہم ''دو ٹکے'' کے تو ہوتے۔

حال ہی میں وزیرِاعظم عمران خان کا ٹویٹ نظروں سے گزرا جس میں وہ عوام کو ارطغرل غازی کے بعد یونس ایمرے نامی ڈرامہ دیکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ عوام ڈراموں اور کھیل تماشے دیکھنے میں ہی مشغول رہے، خدانخواستہ اگر عوام کو کچھ فرصت میسر آگئی تو وہ کہیں حکومتی کارکردگی نہ دیکھ لے۔

خیر تو ہم بات کر رہے تھے منی یورپ دبئی کی، جو اب واقعی منی یورپ ہے۔ امارات کی ریت چھانتے ہوئے میرا یہاں پانچواں سال ہے۔ پہلے تین سال امارات کے دارالخلافہ ابوظہبی میں درس و تدریس، سوشل میڈیا پراجیکٹس اور لکھتے لکھاتے گزرے، پھر ایک سال ریاست عجمان میں ایک پاکستانی فرم کےلیے خدمات سرانجام دیں اور اب زندگی سے بھرپور اس بھاگتے دوڑتے شہر دبئی میں تعلقاتِ عامہ کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔


ڈاؤن ٹاؤن دبئی میں دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر موجود دبئی ریڈ لائن میٹرو سے اتر کر اپنے آفس آتے ہوئے ہر صبح برج خلیفہ سمیت اردگرد کی بلند و بالا نیلے یا سبز شفاف شیشوں والی عمارتیں، صاف ستھری نکھری فضا، دسمبر کی ٹھنڈی ہوا اور اوپر روشن نیلا آسمان، ایک لمحے کےلیے تو ساری الجھنیں بھلا دیتا ہے۔ اکثر و بیشتر منہ سے نکل جاتا ہے کہ اگر لاہور لاہور تھا تو دبئی بھی دبئی ہے۔

اصل کہانی آفس آنے کے بعد شروع ہوتی ہے، جہاں ہر روز بہت ساری سی ویز میری ٹیبل اور ای میل اِنباکس میں میری منتظر ہوتی ہیں۔ میں دوسرے ممالک یا دوسرے ممالک کے لوگوں کا ذکر کرنا یہاں فی الحال اس لیے بھی مناسب نہیں سمجھوں گی کہ میرا ان سے کوئی سرو کار نہیں۔ میں خالصتاً اپنے پاکستانیوں کی بات کروں گی۔ جن کےلیے اب یہاں ''شکنجہ'' مزید تنگ ہوتا جارہا ہے۔ ہماری بدترین خارجہ پالیسی، تجارتی اور سفارتی تعلقات، تیزی سے بدلتا ہوا سیاسی اور جغرافیائی منظرنامہ اور انفرادی سطح پر ہماری اپنی کوتاہیاں بھی اس ''شکنجے'' کے تنگ ہونے کی بڑی وجوہ ہیں۔ ہمیں ماننا چاہیے اور اپنی خامیوں، کوتاہیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے کہ جب تک ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہی نہیں ہوں گے تو ان کے تدارک اور بہتری کےلیے کیونکر اور کیسے سنجیدہ ہوں گے؟

میں لیبر کلاس کی بات نہیں کروں گی، وہ تو بیچارے قسمت کے مارے ہیں۔ میں بیچلرز، ماسٹرز، اچھی فیملیز سے تعلق رکھنے والے، تھوڑا بہت تجربہ رکھنے والے نوجوانوں کا ذکر کرنا چاہوں گی، جو دبئی کے خواب آنکھوں میں سجائے ایک بہترین زندگی کی امید لیے ویزہ لے کر ٹکٹ کٹاتے ہیں اور دبئی آجاتے ہیں۔ دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ نوجوان اپنی رہائش، کھانے پینے، میٹرو بس کا ٹکٹ اور موبائل کے خرچے تک کا بھی درست تخمینہ لگائے بِنا آتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے ہفتے میں ہی انہیں ایک شاندار آفس میں جہازی سائز دفتری میز کے دوسری جانب گھومنے والی کرسی منتظر ملے گی۔ جب کہ حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔

ہماری تعلیم ماسٹرز، ایم فل ہوتی ہے اور انگریزی جو یہاں آفس بوائے کےلیے بھی پہلی شرط ہے، کے دو جملے بولتے ہوئے ہماری زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ ہم نے بزنس، فائنانس اور کامرس میں ڈگریاں تو لے رکھی ہوتی ہیں لیکن جب عملی اطلاق کی باری آتی ہے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔

جب ہم فون پر بات کرتے ہیں تو فلور پر موجود آس پاس دفاتر کے لوگ ہماری گائے بھینسوں کی تعداد اور گھر میں بچوں کے ناموں تک سے واقف ہوجاتے ہیں۔ صبح نو بجے سے شام پانچ چھ بجے تک ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پرانی روایات کو زندہ رکھیں۔ آفس ٹائم میں دوستوں کے ساتھ موبائل چیٹنگ، گپ شپ، ہر پندرہ منٹ بعد دس منٹ کے لیے خود کو فریش کرنے کےلیے ریسٹ روم کا چکر، فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر پر ملکی حالات، سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے خود کو اپ ڈیٹ کرنا بھی اسی نو سے چھ کے دفتری اوقات کا حصہ ہوتا ہے۔ اب ایسے اسمارٹ اور جدید لوگوں کے ساتھ بے چارے فلپائنی، بنگالی یا بھارتیوں کا کیا مقابلہ؟ یہ ہم سے مقابلہ واقعی کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یقین کیجئے کہ وہ ہم سے مقابلے کےلیے اترتے بھی نہیں، خود کو کم تر سمجھتے ہوئے دھیمے لہجے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کم تنخواہوں پر کام کرنے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں اور معذرت کے ساتھ ہم اپنی یہ اسمارٹنس، طرزعمل اور غیر پیشہ ورانہ سوچ جیب میں لے کر تین ماہ بعد جب نوکری نہیں ملتی تو واپس پاکستان سدھار جاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story