میت کا کھانا اور کوڑا وٹہ کی رسم

بہتر یہ ہے کہ اہل میت کے کھانے کا انتظام ہمیں کرنا چاہیے نہ کہ وہاں سے خود کھانا چاہیے

میت والے گھر میں دسترخوان سجانا اور دعوت کا اہتمام کرنا درست نہیں۔ (فوٹو: فائل)

اس کی والدہ سرکاری اسپتال کے بستر پر آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ ڈاکٹروں نے بتادیا تھا کہ ضعیف العمری اور جگر کی بیماری کی شدت کے باعث ان کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ معراج دین اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر ایک بینچ پر بیٹھا کبھی ماں کی صحت یابی کےلیے دعا مانگتا، تو کبھی اس کے دماغ میں آنے والے حالات کا منظر گھومنے لگتا۔ اگر والدہ کا انتقال ہوگیا تو کیا کروں گا؟ ان کی تدفین، تعزیت کےلیے آنے والے خاندان اور رشتے داروں کےلیے کھانا، چائے، یہ انتظامات کیسے کروں گا؟ جیب میں تو پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔ سرکاری اسپتال میں علاج تو فری میں ہورہا تھا اور مرض کی دوائیں بھی حکومت مفت فراہم کررہی تھی۔ معراج دین کو اپنی ماں کے علاج سے بڑھ کر یہ فکر ستا رہی تھی کہ وہ بعد کے انتظامات کیسے کرے گا؟


ہمارے معاشرے میں غریب اور متوسط طبقے کی یہی سوچ ہوتی ہے۔ پنجاب کے دیہات میں تو مشترکہ قبرستان ہوتے ہیں، اس لیے وہاں قبر کےلیے کوئی معاوضہ نہیں دینا پڑتا اور برادری کے لوگ خود ہی قبر تیار کرنے چلے جاتے ہیں۔ قبرستان کے گورگن کے پاس قبر کھودنے کا سامان موجود ہوتا ہے۔ لیکن شہروں میں موجود قبرستانوں میں قبر کےلیے بھاری فیس مقرر ہے۔ اس کے علاوہ تجہیز و تکفین پر بھی اچھے خاصے اخراجات آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ تعزیت کےلیے آتے ہیں، ان کو موسم کی مناسبت سے چائے یا ٹھنڈا مشروب بھی دینا ہوتا ہے، جبکہ جو رشتے دار دور دراز سے آتے ہیں، ان کےلیے کھانے کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔


شہروں میں رہنے والوں کو عموماً یہ تمام اخراجات اپنی جیب سے ہی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ایک غریب آدمی کا بھی کم از کم 70 سے 80 ہزار روپیہ خرچ ہوجاتا ہے، تاہم امیر لوگ لاکھوں بھی خرچ کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس دیہات میں مختلف خاندانوں اور برادریوں میں کوڑا وٹہ کی رسم قائم ہے۔ اس رسم کے مطابق برادری کے جن خاندانوں کا آپس میں کوڑا وٹہ ہوتا ہے وہ خاندان میں کسی کی فوتگی کی صورت میں مل کر تمام اخراجات برداشت کرلیتے ہیں۔ جس میں تجہیز و تکفین، مہمانوں کےلیے کھانے کا اہتمام اور جس خاندان میں فوتگی ہوتی ہے ان کےلیے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔


خود میرا تعلق بھی لاہور کے ایک دیہی علاقے سے ہے۔ ہمارے خاندان میں بھی یہ رسم موجود ہے۔ ہماری برادری کے چند قریبی خاندان آپس میں کوڑا وٹہ کرتے ہیں۔ چند روز قبل جب یکے بعد دیگرے ہمارے خاندان کے دو بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس رسم کی افادیت کا احساس ہوا۔ 2 دسمبر کو میری سگی پھوپھی فوت ہوگئیں اور اس سے اگلے دن چھوٹے نانا (میرے حقیقی نانا کے چھوٹے بھائی) بھی چل بسے۔ گاؤں میں ہماری برادری اور خاندان بھی کافی بڑا ہے، جبکہ دوسرے شہروں میں رشتے داری بھی ہے۔ اس لیے تعزیت کےلیے آنے والے مہمانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، جن کےلیے کھانے کا اہتمام کرنا تھا۔


ہمارے گاؤں کے چند معتبر افراد نے کچھ عرصہ پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جس گھر میں فوتگی ہوگی یا مرحوم کےلیے قرآن خوانی کی جائے گی تو گاؤں کے لوگ اس میں شریک تو ہوں گے لیکن وہاں سے کھانا نہیں کھائیں گے اور اللہ کا شکرہے اس پر عمل بھی ہورہا ہے۔ اس لیے کھانا صرف باہر سے آنے والے مہمانوں یا پھر اس گھر کے افراد کےلیے تیار کرنا پڑتا ہے جس گھر کا کوئی فرد فوت ہوجاتا ہے۔


گاؤں میں رہتے ہوئے ہمیں قبر کی تو کوئی فیس ادا نہیں کرنا پڑی البتہ قبر کےلیے جو سیمنٹ کی سلیب، کفن، پھول وغیرہ لانے ہوتے ہیں، اس کا خرچہ ہوتا ہے۔ خاندان میں ہونے والی ان دونوں اموات پر مجموعی طور پر کوئی دو لاکھ روپے کے قریب خرچ آگیا۔ یہ دو لاکھ کی رقم میری پھوپھی کے بیٹوں کےلیے بھی بڑی بھاری تھی۔ ممکن ہے وہ کسی سے قرض لیتے اور پھر کئی ماہ تک قرض اتارتے رہتے۔ لیکن اب ہمیں اس کوڑا وٹہ کی رسم کے تحت یہ خرچ 5 خاندانوں میں تقسیم کرنا تھا۔ اس حساب سے تقریباً ایک خاندان کو چالیس ہزار روپے دینا پڑے۔ میری فیملی نے بھی چالیس ہزار دینے تھے۔ ہم چار بھائیوں نے دس، دس ہزار شامل کرکے اپنے حصے کے چالیس ہزار دے دیے۔ تب مجھے اس رسم کے فائدہ مند ہونے کا احساس ہوا، دس ہزار دینا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ تاہم ایک سوال میرے ذہن میں ضرور تھا کہ میں کسی مفتی اور عالم دین سے اس کی شرعی حیثیت معلوم کروں تاکہ دل کو تسلی ہوسکے۔ اس حوالے سے جب مختلف دارالفتا سے رابطہ کیا تو بہت سی تفصیلات آن لائن ہی میسر ہوگئیں۔


علمائے کرام کے مطابق کسی کی وفات پر تین دن سوگ کرنے کا ثبوت تو واضح ہے لیکن تیسرا، دسواں، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کیے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں، جن میں بیمار کی عیادت کرنا، مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ عموماً مرنے والے کے عزیز، رشتے دار اور دوست احباب میں سے کچھ تو جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں، جبکہ کچھ بوجوہ شریک نہیں ہوسکتے۔ اب دو صورتیں بنتی ہیں، ایک تو وہ چپ کرکے بیٹھے رہیں اور آنے کی زحمت ہی نہ کریں۔ دوسرا یہ کہ وہ میت کے عزیز و اقارب کے پاس اظہار تعزیت کےلیے آئیں۔ بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کےلیے مخصوص کردیے تاکہ دونوں کو سہولت رہے۔ یہی دن بعد میں تیسرا یا چالیسواں کے نام سے مشہور ہوگئے۔ جو جنازے سے رہ گیا وہ قل خوانی پر آجائے، جو اس سے رہ گیا وہ دسواں یا چالیسویں میں شریک ہوجائے۔


لہٰذا درود و سلام پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا، خلوص و دل سے ہو، رزق حلال سے ہو تو نیکی ہے اور کارِ ثواب ہے۔ ان تمام ثوابوں کو جمع کرکے مرنے والوں کے نام بھیجنا اور ان کےلیے دعائے مغفرت کرنا قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔


جہاں تک مرنے والے کی تعزیت کےلیے آنے والوں کے کھانے کا اہتمام کرنا ہے تو میت والے گھر میں دسترخوان سجانا اور دعوت کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم جو مہمان دور دراز کا سفر طے کرکے آتے ہیں ان کو کھانا نہ کھلانا بھی مناسب نہیں لگتا۔ لہٰذا مہمانوں کےلیے کھانے کا اہتمام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا بوجھ مرنے والے کے ورثا پر نہ پڑے، اگر وہ غریب ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کے کھانے کا انتظام ہمیں کرنا چاہیے نہ کہ وہاں سے خود کھانا چاہیے۔



حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: جعفر کے گھر والوں کےلیے کھانا تیار کرو کہ ان پر صدمہ آیا ہے جس نے ان کی توجہ اس سے ہٹادی ہے۔ (احمد بن حنبل، 1: 205، رقم: 1751) ، (ابن ماجہ، السنن، 1: 514، رقم: 1610)


آج کل بعض شہروں میں کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو ایسے مواقعوں پر اہل میت کےلیے کھانا تیار کرکے حکم نبوی پر عمل کرتے ہیں۔ یونہی بعض حساس پڑوسی مسلمان اپنی طرف سے کھانے کا بندوبست کردیتے ہیں، بلکہ کئی کئی دن تک اہل میت کےلیے کھانا بھیجا جاتا ہے۔ مقامی عزیزوں کو تو ویسے ہی اپنے گھروں پر کھانا کھانا چاہیے، ہاں دور دراز سے آنے والے یا گھر والے اس سے فائدہ اٹھائیں گے، کم از کم اہل میت کو اس طرف سے تو پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہی۔


دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ کھانا ایصال ثواب کےلیے ہے تو پھر بھی دیکھیں اس پر خرچ کس کا اٹھ رہا ہے؟ کیا یہ خیرات مرنے والے کے ترکہ سے ہے؟ اگر ایسا ہے تو خوب سمجھ لیجیے کہ مرنے والے کے کل ترکہ سے پہلے میت کی تجہیز و تکفین کی جائے۔ پھر جو بچے اس سے اگر میت کے ذمے قرض ہے تو وہ اتارا جائے۔ بقایا ترکہ میں سے میت کی وصیت پوری کی جائے جو کہ کل ترکہ کی ایک تہائی سے زائد نہ ہو، اس کے بعد میت کے ترکہ میں تمام وارثوں پر مقرر تناسب سے تقسیم کیا جائے۔ میت کے تمام ترکہ میں تمام وارثوں کا حق ہوتا ہے اور جب تک وہ تمام ورثا اجازت نہ دیں آپ اس جائیداد میں کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اس غیر منقسم جائیداد میں سے وارثوں کی اجازت کے بغیر خیرات کرنا حرام ہے، اس میں کوئی ثواب نہیں۔


اگر اہل خانہ کسی وارث یا بچوں کا حق نہیں مارتے اور اپنی جیب سے کرتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر خوشحال ہیں تو ایسے مواقع پر ایصال ثواب کےلیے کھانے پینے اور قرآن خوانی کا اہتمام کرنا نیکی ہے، غریب پروری ہے، اس کا یقیناً میت کو ثواب پہنچے گا۔ اگر غریب و مساکین ہیں اور لوگوں کی دیکھا دیکھی یا لوگوں کے طعنوں سے بچنے یا عزت بچانے کےلیے قرض لے کر یہ تقریبات انجام دیتے ہیں تو کوئی نیکی نہیں۔ یہ حماقت اور گناہ ہے۔



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story