چاند کے مدار میں چینی ’چاند گاڑی‘ اور گردشی ماڈیول کا ’خودکار‘ ملاپ

چانگ ای فائیو خلائی مشن کے دونوں حصوں کی آپس میں جڑتے وقت رفتار 5760 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی

اس تصویر میں ’چانگ ای فائیو‘ کا مدار دکھایا گیا ہے جبکہ چھوٹی تصویر میں ’ایسینڈر‘ اور ’آربٹر‘ کے آپس میں جڑنے کا منظر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD:
چاند کی طرف بھیجے گئے تازہ ترین چینی خلائی مشن ''چانگ ای فائیو'' کے دو حصوں یعنی 'آربٹر' اور 'ایسینڈر' نے چاند کے گرد مدار میں تیزی سے چکر لگاتے ہوئے خودکار انداز سے آپس میں کامیابی سے جڑ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

چینی اور عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق، یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جب چاند کے گرد مدار میں دو چیزوں کو خودکار طور پر اور مکمل کامیابی سے آپس میں منسلک کیا گیا ہے۔

یہ کامیابی اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ جڑتے وقت 'چانگ ای فائیو' کے یہ دونوں حصے 5760 کلومیٹر فی گھنٹہ کی غیرمعمولی رفتار سے حرکت کررہے تھے اور ذرا سی غلطی ان دونوں حصوں میں شدید تصادم اور تباہی کی وجہ بن سکتی تھی۔


انتہائی حساس اور محتاط مشن


یاد رہے کہ چین کا ''چانگ ای فائیو'' (Chang'e 5) خلائی مشن پچھلے 44 سال میں وہ پہلا مشن ہے جس کا مقصد چاند سے مٹی اور پتھروں کے نمونے جمع کرکے واپس زمین تک لانا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق، سابق سوویت یونین کا ''لیونا 24'' وہ آخری خلائی مشن تھا جو 1976 میں چاند سے مٹی کے نمونے جمع کرکے واپس زمین تک لایا تھا۔

24 نومبر 2020 کو اُڑان بھرنے والا ''چانگ ای فائیو'' مشن چار حصوں یعنی چار ماڈیولز پر مشتمل ہے: مدار میں گردش کرنے والا ماڈیول (آربٹر)، چاند پر اُترنے والا ماڈیول (لینڈر)، چاند سے نمونے جمع کرکے واپس مدار میں پہنچنے والا ماڈیول (ایسینڈر)، اور یہ نمونے بحفاظت زمین تک پہنچانے والا ماڈیول (ریٹرنر)۔

یہ خبر بھی پڑھیے: چاند سے مٹی کے نمونے لانے کے لیے چین کا 'روبوٹک خلائی مشن' روانہ

چانگ ای فائیو کا ''لینڈر'' یکم دسمبر کو چاند کے ایک آتش فشانی میدان ''ماؤنٹ روئمکر'' پر اترا تھا جہاں سے اس نے چاند کی مٹی اور پتھروں پر مشتمل تقریباً دو کلوگرام نمونے جمع کیے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ مقام خاصا ''نیا'' ہے، یعنی یہاں موجود مٹی اور پتھر صرف ایک ارب 20 کروڑ سال ہی قدیم ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: چٹانی نمونے لانے کیلیے چینی خلائی گاڑی کی چاند پر کامیاب لینڈنگ

یہاں سے لیے گئے ان نمونوں کو ''ایسینڈر'' ماڈیول میں بحفاظت منتقل کیا گیا جو ''لینڈر'' کے ساتھ ہی منسلک تھا۔

اسی دوران ''لینڈر'' سے ایک روبوٹ بازو کے ذریعے چاند پر چینی جھنڈا بھی گاڑ دیا گیا۔ اس طرح امریکا کے بعد چین وہ دوسرا ملک بنا جس نے چاند پر اپنا جھنڈا لگایا ہے۔


یہ خبر بھی پڑھیے: چین چاند پر جھنڈا گاڑنے والا دنیا کا دوسرا ملک بن گیا

ساری کارروائی مکمل ہونے کے بعد ''لینڈر'' وہیں چاند کی سطح پر رہ گیا جبکہ ''ایسینڈر'' نے اس سے الگ ہو کر اُڑان بھری اور ''آربٹر'' ماڈیول کی طرف بڑھنے لگا۔

چاند کے گرد مدار میں مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ایسینڈر اور آربٹر بہت آہستگی سے ایک دوسرے کے قریب آنے لگے کیونکہ یہ اس مشن کا ایک اور اہم مرحلہ تھا جس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

چانگ ای فائی کے ان دونوں حصوں کو خاص طرح کے روبوٹ بازوؤں نے آپس میں جوڑ دیا۔ اس کے بعد چاند کی مٹی اور پتھروں کے نمونے، جو ایسینڈر ماڈیول میں بند تھے، انہیں مکمل احتیاط کے ساتھ ''ریٹرنر'' ماڈیول میں منتقل کردیا گیا جو اسی آربٹر کے ساتھ منسلک ہے۔

اس طرح یہ حساس مرحلہ بھی کامیابی سے پورا ہوگیا اور خلائی تحقیق میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔

کچھ دیر بعد ایسینڈر ماڈیول بھی چانگ ای فائیو سے الگ کردیا گیا اور اب یہ مشن چاند کے گرد چکر لگانے میں مصروف ہے۔

چانگ ای فائیو مشن کا باقی ماندہ حصہ متوقع طور پر 12 یا 13 دسمبر کو اپنے راکٹ اسٹارٹ کرے گا اور کچھ دیر بعد زمین کے گرد مدار میں داخل ہوجائے گا۔

منصوبے کے مطابق، چانگ ای فائیو 17 دسمبر تک زمین کے گرد مدار میں چکر لگاتے ہوئے ایک خاص مقام تک پہنچ جائے گا، جہاں اس کا ''ریٹرنر'' یعنی ری اینٹری ماڈیول اس سے الگ ہو کر زمین کی طرف گرنے لگے گا۔

پوری احتیاط سے اس کی رفتار کو کنٹرول کرتے ہوئے اسے اندرونی منگولیا میں ''سیزیوانگ بانر'' نامی ایک ویران میدانی علاقے میں اتار لیا جائے گا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ زمین اور چاند کا درمیانی فاصلہ تقریباً 380,000 (تین لاکھ اسّی ہزار) کلومیٹر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کام کا مکمل خودکار انداز میں انجام پانا ضروری تھا۔

چینی خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند کے گرد مدار میں انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے ان دونوں ماڈیولز کو آپس میں جوڑنے کا عمل خودکار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد درست ہونا بھی ضروری تھا؛ اور اس مرحلے کی کامیاب تکمیل بلاشبہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہے۔

یہ اور اس جیسی دوسری کامیابیوں سے چینی خلا نوردوں کو 2030 تک چاند پر بھیجنے کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کا امکان بھی روشن ہوا ہے جبکہ دوسری جانب چاند کی ساخت اور تشکیل سے متعلق ان نمونوں کے ذریعے کچھ نئی معلومات حاصل ہونے کی امید بھی ہے۔
Load Next Story