برصغیر میں کسان تحریکیں پہلاحصہ
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہم یہاں ایک ایسے اہم مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جو 66 سال سے...
FAISALABAD:
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہم یہاں ایک ایسے اہم مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جو 66 سال سے اس ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک دیوار کی طرح حائل ہے۔ یہ آہنی دیوار نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام ہے جسے مغلوں اور انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے پروان چڑھایا۔ عوام سے ٹیکس وصول کرنا، عوام کو حکمرانوں کے تابع رکھنا اور بادشاہوں کی جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انھیں سپاہی فراہم کرنا، جاگیرداروں کے فرائض میں شامل رہے۔ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے فوج کا کوئی مستقل ادارہ نہیں تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں فوج کا ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔
عوام پر جاگیرداروں کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لیے اس عوام کے ایک طبقے کو معاشرے کی ایلیٹ بنایا گیا، اسی ایلیٹ کو آج ہم زمینی اشرافیہ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اشرافیہ آج بھی زرعی معیشت میں بادشاہوں کی طرح راج کر رہی ہے۔ پاکستان کے جمہوری نظام پر قبضے کے لیے جاگیرداروں نے ہاریوں اور کسانوں کے ووٹ کا استعمال شروع کیا اور اپنے حلقہ انتخاب کو موروثی حکمرانی میں بدل ڈالا۔ ہاریوں اور کسانوں کو ہنکا کر پولنگ اسٹیشنوں میں لانا اور دھونس دھاندلی کے ذریعے ان کے ووٹ حاصل کر کے اپنے موروثی حق حکمرانی کو جمہوری حق حکمرانی میں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے انتہائی پسماندہ جاگیردارانہ قبائلی سرداری اور خوانین کے نظام میں پھنسے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں، جب مسلم لیگ کی قیادت میں تقسیم ہند کی تحریک کامیابی کی طرف بڑھنے لگی تو سندھ اور پنجاب کے جاگیر اپنی جاگیروں کو لاحق ہونے والے ممکنہ خطرات سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے نہ صرف مسلم لیگ میں شامل ہو گئے بلکہ اس کا ایک فعال کردار بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد حصول اقتدار کی سازشوں میں جاگیردار طبقہ پیش پیش رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تعلق ہندوستان کے ایک مسلم اقلیتی شہر سے تھا ۔ ہر شعبہ زندگی میں اردو بولنے والے اپنی جگہ بنا رہے تھے اور پنجاب کے جاگیرداروں کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، لیاقت علی خان نے ملک میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی بنا کر جاگیرداروں کے لیے ایک خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ اس لیے انھیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پنجاب کے جاگیرداروں نے پاکستانی سیاست اور حکومت میں اپنی جگہ بنالی اور یہ طبقہ سول بیوروکریسی کے ساتھ ملک اس قدر طاقتور ہوگیاکہ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں اس کی حیثیت مسلمہ اور فیصلہ کن بن گئی۔ یوں صدیوں سے حکمرانوں کا ساتھ دینے والا یہ طبقہ پاکستان میں خود حکمران بن گیا۔
1932ء میں سکھر بیراج کی تعمیر سے 75 لاکھ ایکڑ اراضی زیر کاشت آئی لیکن اس میں سے 15 لاکھ ایکڑ زمین بڑے زمینداروں اور آباد کاروں کو فروخت کر دی گئی۔ غلام محمد بیراج کے پانی سے سیراب ہونے والی 28 لاکھ ایکڑ زمین میں سے بھی ایک لاکھ ایکڑ زمین عسکری خاندانوں کو دی گئی۔
1947ء کے بعد سول حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اس قدر تیز ہو گئی کہ حکومتیں کپڑوں کی طرح بدلی جانے لگیں۔ سیاست دانوں کی ان لڑائیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایوب خان نے 1958 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایوب خان کے مشیروں نے ایوب خان کو جب یہ بتایاکہ جاگیردار طبقہ ہی اس کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو ایوب خان نے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردار طبقے کی طاقت توڑنے کی کوشش کی،ایوب خان کی زرعی اصلاحات جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ جاگیرداروں کو بلیک میل کرنے کے لیے نافذ کی گئی تھیں اور ایوب خان اپنی اس بلیک میلنگ میں کامیاب رہا، جاگیردار ایوب خان کے اقتدار کے لیے خطرہ بننے کے بجائے مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کنونشن لیگ ایوب خان کی خدمت میں پیش کر دیا اور اس کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ اس تابعداری کے صلے میں ایوب خان نے بہت سارے جاگیرداروں کو ان کی زمینیں واپس کر دیں۔ یوں جاگیردار طبقہ ایوبی زرعی اصلاحات سے بڑی حد تک محفوظ رہا۔
ایوب خان کے بعد جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اپنے وعدوں اور نعروں کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے بھی زرعی اصلاحات نافذ کیں لیکن پیپلز پارٹی میں مضبوط حیثیت حاصل کرنے والے جاگیرداروں نے بیوروکریسی کی مدد سے بھٹو کی زرعی اصلاحات کو بھی ناکام بنا دیا، جاگیردار طبقے کی طاقت کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ عشروں کی حکومتی کوششوں کے باوجود کوئی حکومت جاگیرداروں سے زرعی ٹیکس تک وصول نہ کر سکی، آج بھی قانون ساز اداروں اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں جاگیردار ایک بالادست قوت کے طور پر موجود ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں نواز شریف کی آمدسے دانشورانہ حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ صنعت کار اپنے طبقاتی کردار کے حوالے سے ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کی کوشش کرے گا لیکن اس تربیت یافتہ صنعت کار کا جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کے بجائے اپنی پارٹی میں جاگیرداروں کی بڑی تعداد کو شامل کرنا جاگیردار طبقے کو اور مضبوط کرنے کا بالواسطہ سبب بنا۔ دنیا کی تاریخ میں جاگیردار طبقے کے مقابلے میں صنعت کار طبقے کا کردار نسبتاً ترقی پسندانہ ہوتا ہے، کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر پیش رفت نہیں کر سکتا، جب تک وہ معاشرہ صنعتی نہیں بن جاتا اور کسی معاشرے کو صنعتی بنانے کے لیے اس کی راہ میں حائل جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے، اپنے طبقاتی کردار کے حوالے سے نواز شریف کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اس جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کو اپنی اولین ترجیح بناتے لیکن دو بار کے اقتدار میں موصوف نے اس طرف توجہ نہیں دی اور اب اپنے تیسرے دور حکومت میں بھی نواز حکومت کی ترجیحات میں زرعی اصلاحات کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ نواز شریف بار بار روشن پاکستان کی طرف قدم بڑھانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن اس 66 سالہ اندھیروں کو دور کیے بغیر روشن پاکستان کی طرف سفر کیونکر ممکن ہو گا؟
جاگیردارانہ نظام کے خلاف تحریکوں میں متحدہ ہندوستان کی ترقی پسند جماعتوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے آل انڈیا کسان سبھاکے پلیٹ فارم سے کسانوں کے حقوق کی تحریکیں چلائیں، قیام پاکستان سے پہلے 1930ء میں ٹنڈو جام میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں سندھ ہاری کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، 1945ء میں حیدر بخش جتوئی اپنے کلکٹری کے عہدے سے الگ ہو کر ہاری کمیٹی میں شامل ہو گئے اور اسے فعال بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ ان کوششوں میں ان کے دو کلکٹر دوست ایم مسعود اور تھام کینن نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
4 مارچ 1950ء کو دادو میں منعقد ہونے والی ایک بڑی کانفرنس میں ''آدھوں آدھ'' اور ہاری حق دار کا نعرہ منظور ہوا۔ 12 مارچ 1950ء کو دادو ہی میں ایک بڑی کسان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں جاگیرداری کو بلا معاوضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 1950ء ہی میں کراچی میں سندھ ہاری کمیٹی کے زیر اہتمام ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی گئی جس میں کراچی کے مزدوروں، طلبا وغیرہ کے علاوہ اندرون سندھ سے 15 ہزار ہاریوں نے شرکت کی، حیدر بخش جتوئی کی ساری زندگی کسانوں ہاریوں کو منظم کرنے اور جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے میں گزر گئی، انھیں ان خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(نوٹ: ارتقاء انسٹی ٹیوٹ کے جلسے میں پیش کردہ ہماری گزارشات)
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہم یہاں ایک ایسے اہم مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جو 66 سال سے اس ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک دیوار کی طرح حائل ہے۔ یہ آہنی دیوار نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام ہے جسے مغلوں اور انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے پروان چڑھایا۔ عوام سے ٹیکس وصول کرنا، عوام کو حکمرانوں کے تابع رکھنا اور بادشاہوں کی جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انھیں سپاہی فراہم کرنا، جاگیرداروں کے فرائض میں شامل رہے۔ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے فوج کا کوئی مستقل ادارہ نہیں تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں فوج کا ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔
عوام پر جاگیرداروں کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لیے اس عوام کے ایک طبقے کو معاشرے کی ایلیٹ بنایا گیا، اسی ایلیٹ کو آج ہم زمینی اشرافیہ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اشرافیہ آج بھی زرعی معیشت میں بادشاہوں کی طرح راج کر رہی ہے۔ پاکستان کے جمہوری نظام پر قبضے کے لیے جاگیرداروں نے ہاریوں اور کسانوں کے ووٹ کا استعمال شروع کیا اور اپنے حلقہ انتخاب کو موروثی حکمرانی میں بدل ڈالا۔ ہاریوں اور کسانوں کو ہنکا کر پولنگ اسٹیشنوں میں لانا اور دھونس دھاندلی کے ذریعے ان کے ووٹ حاصل کر کے اپنے موروثی حق حکمرانی کو جمہوری حق حکمرانی میں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے انتہائی پسماندہ جاگیردارانہ قبائلی سرداری اور خوانین کے نظام میں پھنسے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں، جب مسلم لیگ کی قیادت میں تقسیم ہند کی تحریک کامیابی کی طرف بڑھنے لگی تو سندھ اور پنجاب کے جاگیر اپنی جاگیروں کو لاحق ہونے والے ممکنہ خطرات سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے نہ صرف مسلم لیگ میں شامل ہو گئے بلکہ اس کا ایک فعال کردار بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد حصول اقتدار کی سازشوں میں جاگیردار طبقہ پیش پیش رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تعلق ہندوستان کے ایک مسلم اقلیتی شہر سے تھا ۔ ہر شعبہ زندگی میں اردو بولنے والے اپنی جگہ بنا رہے تھے اور پنجاب کے جاگیرداروں کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، لیاقت علی خان نے ملک میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی بنا کر جاگیرداروں کے لیے ایک خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ اس لیے انھیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پنجاب کے جاگیرداروں نے پاکستانی سیاست اور حکومت میں اپنی جگہ بنالی اور یہ طبقہ سول بیوروکریسی کے ساتھ ملک اس قدر طاقتور ہوگیاکہ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں اس کی حیثیت مسلمہ اور فیصلہ کن بن گئی۔ یوں صدیوں سے حکمرانوں کا ساتھ دینے والا یہ طبقہ پاکستان میں خود حکمران بن گیا۔
1932ء میں سکھر بیراج کی تعمیر سے 75 لاکھ ایکڑ اراضی زیر کاشت آئی لیکن اس میں سے 15 لاکھ ایکڑ زمین بڑے زمینداروں اور آباد کاروں کو فروخت کر دی گئی۔ غلام محمد بیراج کے پانی سے سیراب ہونے والی 28 لاکھ ایکڑ زمین میں سے بھی ایک لاکھ ایکڑ زمین عسکری خاندانوں کو دی گئی۔
1947ء کے بعد سول حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اس قدر تیز ہو گئی کہ حکومتیں کپڑوں کی طرح بدلی جانے لگیں۔ سیاست دانوں کی ان لڑائیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایوب خان نے 1958 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایوب خان کے مشیروں نے ایوب خان کو جب یہ بتایاکہ جاگیردار طبقہ ہی اس کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو ایوب خان نے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردار طبقے کی طاقت توڑنے کی کوشش کی،ایوب خان کی زرعی اصلاحات جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ جاگیرداروں کو بلیک میل کرنے کے لیے نافذ کی گئی تھیں اور ایوب خان اپنی اس بلیک میلنگ میں کامیاب رہا، جاگیردار ایوب خان کے اقتدار کے لیے خطرہ بننے کے بجائے مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کنونشن لیگ ایوب خان کی خدمت میں پیش کر دیا اور اس کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ اس تابعداری کے صلے میں ایوب خان نے بہت سارے جاگیرداروں کو ان کی زمینیں واپس کر دیں۔ یوں جاگیردار طبقہ ایوبی زرعی اصلاحات سے بڑی حد تک محفوظ رہا۔
ایوب خان کے بعد جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اپنے وعدوں اور نعروں کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے بھی زرعی اصلاحات نافذ کیں لیکن پیپلز پارٹی میں مضبوط حیثیت حاصل کرنے والے جاگیرداروں نے بیوروکریسی کی مدد سے بھٹو کی زرعی اصلاحات کو بھی ناکام بنا دیا، جاگیردار طبقے کی طاقت کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ عشروں کی حکومتی کوششوں کے باوجود کوئی حکومت جاگیرداروں سے زرعی ٹیکس تک وصول نہ کر سکی، آج بھی قانون ساز اداروں اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں جاگیردار ایک بالادست قوت کے طور پر موجود ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں نواز شریف کی آمدسے دانشورانہ حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ صنعت کار اپنے طبقاتی کردار کے حوالے سے ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کی کوشش کرے گا لیکن اس تربیت یافتہ صنعت کار کا جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کے بجائے اپنی پارٹی میں جاگیرداروں کی بڑی تعداد کو شامل کرنا جاگیردار طبقے کو اور مضبوط کرنے کا بالواسطہ سبب بنا۔ دنیا کی تاریخ میں جاگیردار طبقے کے مقابلے میں صنعت کار طبقے کا کردار نسبتاً ترقی پسندانہ ہوتا ہے، کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر پیش رفت نہیں کر سکتا، جب تک وہ معاشرہ صنعتی نہیں بن جاتا اور کسی معاشرے کو صنعتی بنانے کے لیے اس کی راہ میں حائل جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے، اپنے طبقاتی کردار کے حوالے سے نواز شریف کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اس جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کو اپنی اولین ترجیح بناتے لیکن دو بار کے اقتدار میں موصوف نے اس طرف توجہ نہیں دی اور اب اپنے تیسرے دور حکومت میں بھی نواز حکومت کی ترجیحات میں زرعی اصلاحات کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ نواز شریف بار بار روشن پاکستان کی طرف قدم بڑھانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن اس 66 سالہ اندھیروں کو دور کیے بغیر روشن پاکستان کی طرف سفر کیونکر ممکن ہو گا؟
جاگیردارانہ نظام کے خلاف تحریکوں میں متحدہ ہندوستان کی ترقی پسند جماعتوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے آل انڈیا کسان سبھاکے پلیٹ فارم سے کسانوں کے حقوق کی تحریکیں چلائیں، قیام پاکستان سے پہلے 1930ء میں ٹنڈو جام میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں سندھ ہاری کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، 1945ء میں حیدر بخش جتوئی اپنے کلکٹری کے عہدے سے الگ ہو کر ہاری کمیٹی میں شامل ہو گئے اور اسے فعال بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ ان کوششوں میں ان کے دو کلکٹر دوست ایم مسعود اور تھام کینن نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
4 مارچ 1950ء کو دادو میں منعقد ہونے والی ایک بڑی کانفرنس میں ''آدھوں آدھ'' اور ہاری حق دار کا نعرہ منظور ہوا۔ 12 مارچ 1950ء کو دادو ہی میں ایک بڑی کسان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں جاگیرداری کو بلا معاوضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 1950ء ہی میں کراچی میں سندھ ہاری کمیٹی کے زیر اہتمام ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی گئی جس میں کراچی کے مزدوروں، طلبا وغیرہ کے علاوہ اندرون سندھ سے 15 ہزار ہاریوں نے شرکت کی، حیدر بخش جتوئی کی ساری زندگی کسانوں ہاریوں کو منظم کرنے اور جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے میں گزر گئی، انھیں ان خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(نوٹ: ارتقاء انسٹی ٹیوٹ کے جلسے میں پیش کردہ ہماری گزارشات)