اخلاق کا دُہرا معیار… کیوں

اخلاق کے اس دُہرے معیار کے باعث زندگی میں ہمیں کئی تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے

جب ہم اپنے بارے میں اچھا سوچ رہے ہیں تو اپنے ساتھی کےلیے کیوں نہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شاعر اسد ملتانی نے کیا خوب کہا ہے:


ہر شخص بنا لیتا ہے اخلاق کا معیار
خود اپنے لیے اور زمانے کے لیے اور


آج کے دور میں ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو ہر شخص کے اطوار اس شعر کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ انسانی سرشت ہے کہ ہر شخص اپنی بھلائی کے متعلق سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ یقیناً اچھا اور مثبت پہلو سامنے رکھنا ایک خوش گوار عمل ہے لیکن جب آپ اپنے لیے اچھا سوچتے ہیں تو پھر اپنے دوست احباب کےلیے بھی وہی بات کیوں نہیں سوچ سکتے؟


ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیابیاں حاصل کرے، اس کا معاشرتی درجہ بلند ہو، عزت و شہرت کی کمی نہ ہو، ہر شخص اس کی مثال دیتا نظر آئے۔ لیکن جب وہ یہ بات سوچتا ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ کہیں اس کے کسی ساتھی کو یہ سب چیزیں نہ مل جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا ساتھی اس کی برابری کرسکے گا۔ اس طرح اس کی اہمیت کم ہوجائے گی۔


اکثر لوگوں کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر شخص ان کے ساتھ ادب سے پیش آئے اور ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرے۔ لیکن جب بات خود اُن کے رویوں کی آتی ہے تو اُن کی اَنا مجروح ہوتی ہے اور کسی کی بات تسلیم کرتے ہوئے اُن کی عزت پر حرف آتا ہے۔ کیا اس قسم کے رویے درست ہیں؟


جب ہم اپنے بارے میں اچھا سوچ رہے ہیں تو اپنے ساتھی کےلیے کیوں نہیں؟ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے لیے جو کچھ پسند ہو، وہی اپنے مسلمان بھائی کےلیے بھی پسند ہونا چاہیے اور پھر کسی کےلیے بھی منفی رویے کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس اخلاق کے دُہرے معیار کی مثالیں جگہ جگہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ اخلاق کے اس دُہرے معیار کا سامنا ہمیں ہر میدان میں کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ اسکول و کالج میں پڑھنے والے طلبا کے درمیان ہو یا پھر ایک دفتر کے ملازمین کے بیچ، بعض اوقات یہ مظاہرے اپنے قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں کے تعلقات میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔



اخلاق کے اس دُہرے معیار کے باعث زندگی میں ہمیں کئی تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ اس قسم کے دُہرے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی نفسیات کی ابتدا بچپن ہی سے ہوتی ہے۔ یقیناً اس رویے کے پیچھے بھی بچپن کی ترغیب یا تربیت کارفرما ہے۔


ہم ایک اسلامی مملکت کے رہائشی ہیں اور بطور مسلمان ہمارا دین بھی ہمیں رواداری و مروت کا سبق دیتا ہے اور مسلمان بھائی کےلیے وہی پسند کرنے کا حکم دیتا ہے جو ہمیں خود پسند ہو۔ ایسی صورت میں اس قسم کے دُہرے معیار کے حامل اخلاق کی ہماری زندگی میں چنداں گنجائش نہیں۔ اس سے پہلے کہ اپنے منافقانہ اخلاق کے باعث ہم کوئی بڑا نقصان اٹھائیں اور چاہنے والوں کی نفرت کا سامنا کریں، ہمیں ایسے دُہرے معیار سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔


ہمیں اپنی دیگر خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ اس کا طریقہ نہایت آسان ہے۔ اپنے آپ کو یہ باور کرائیے کہ جو رویے آپ کو ناپسند ہیں وہ دوسروں کو بھی گراں گزریں گے، اس لیے ان رویوں کا مظاہرہ نہ کیجئے۔ یقیناً آپ بہت جلد اپنے حلقہ احباب میں پُرعزت مقام حاصل کرلیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story