شہید بی بی ‘المیہ در المیہ
27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹوکا لیاقت باغ میں سفاکانہ قتل سابق صدر جناب آصف علی زرداری ، محترم بلاول بھٹو...
27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹوکا لیاقت باغ میں سفاکانہ قتل سابق صدر جناب آصف علی زرداری ، محترم بلاول بھٹو زرداری ، بختاور اور آصفہ کے لیے عظیم صدمہ ہے اور یہ پیپلز پارٹی کے ہر کارکن اور ہر عام پاکستانی کا دکھ بھی ہے۔محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کو چھ سال ہو چکے ہیں لیکن ان کا قتل ہنوز معمہ بنا ہوا ہے۔ ان کے قتل کے سلسلے میں کئی کتابیں منظرعام پر آ چکی ہیں مگر جن خفیہ ہاتھوں نے انھیں قتل کیا ہے وہ نہ تو بے نقاب ہو سکے اور نہ ہی ان تک رسائی ہوسکی۔ دراصل ان کے قتل کو شکوک و شبہات کے گردوغبار میں چھپا دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن اور تمام پاکستانی آج تک اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی عظیم اور اتنی بڑی عالمی لیڈر کسی بین الاقوامی سازش کا شکار ہوئی ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ان کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہوئی اور سیاسی رہنماؤں نے بھی اس پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ وعدے کیے کہ ''ہم اقتدار میں آ کر بی بی شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے'' اس سلسلے میں ن لیگ کے سربراہ نے کم و بیش ہر موقع پر اس کا اعادہ کیا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی عوامی جلسوں میں یہ کہا کہ ''ہم محترمہ کے قاتلوں کو گرفتار کرینگے۔''
یہ مقام حیرت ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد قاتلوں کی گرفتاری کے وعدوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بینظیربھٹو کی شہادت پر بھی سیاست کی گئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس کے رہنماؤں کے قول وفعل تضاد سے آلودہ ہیں۔
27دسمبر 2007ء کی منحوس شام کو لیاقت باغ میں دختر مشرق کا خون بہایا گیا لیکن قاتل ان کو مار نہیں سکے وہ آج بھی اپنے کارکنوں اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور پارٹی کے بعض لیڈروں نے بھی ان کے نام پر سیاست کا کاروبار کیا۔ لیکن اس کے برعکس عام آدمی کا دلآج بھی ان کی یاد سے معمور ہے۔ دسمبرکیآمد کے ساتھ ہی بی بی سے وابستہ یادوں کی مہک تیز ہوجاتی ہے اور ان سے عقیدت رکھنے والے ان لمحات میں کھو جاتے ہیں جو ان کی یاد سے وابستہ ہیں۔ محترمہ شہید کی سیاست' نظریات' عوام کے لیے دردمندی اور جمہوری و انسانی حقوق کے لیے عالمی سطح پر ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شخصیت کے کئی پہلو ان کی ذات ہی کی طرح دلچسپ اور خوبصورت ہیں۔ بی بی زبردست سینسآف ہیومر کی مالک تھیں وہ اپنے انداز میں کارکنوں اور رہنماؤں کو سیاسی و سماجی آداب سکھاتی رہتی تھیں۔ ایک دفعہ اپریل کے مہینے میں وہ ڈی جی خان کے دورہ پر گئیں۔ڈرائیو کرنے والے لیڈر نے تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا، گرمی کی شدت سے وہ پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔بی بی کے ہمراہ ان کی سہیلی پوچی بی بی بھی تھیں دورہ سے واپسی کے بعد انھوں نے پوچی سے کہا کہ اس لیڈر کو بتائیں کہ گرمیوں میں سفر کے دوران موسم کی مناسبت سے ہلکا پھلکا لباس پہننا چاہیے۔1986ء میں پاکستان واپسی کے بعد لاہور میں بی بی کا قیام بیگم عذرا خالد کھرل کے ہاں ہوتا۔ ایک دفعہ ایک شام طے پایا کہ لبرٹی میں جا کر انار جوس پیا جائے۔
وہاں جا کر بی بی نے پجارو میں بیٹھ کر جوس پیا۔ پھر ایبٹ روڈ پر مرغ چنے کھانے کا پروگرام بنا۔ چنانچہ ڈرائیور کو ایبٹ روڈ چلنے کا کہا۔ مسز عذرا خالد اور میں ان کے ساتھ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ملتان سے ایک پارٹی لیڈر ناظم حسین شاہ نے ہمارا پیچھا شروع کردیا۔ بی بی نے یہ دیکھا تو گاڑی کا رخ دوسری طرف کرنے کو کہا لیکن اس کے باوجود اس نے تعاقب جاری رکھا۔ بی بی کے کہنے پر میں نے ان کے پاس جاکر کہا کہ آپ پیچھا نہ کریں بی بی کو اپنی پرائیویسی میں اس قسم کی دخل اندازی پسند نہیں۔ اس نے یہ دلچسپ جواب دیا کہ میں تو اپنی لیڈر کا پیچھا کررہا ہوں۔ آخر کار انھوں نے مان لیا کہ انھیں پیچھا نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہم ایک چکر کاٹنے کے بعد دوبارہ ایبٹ روڈ آئے اور مرغ چنے کھائے۔
اپریل 1986ء میں جلاوطنی کے بعد بی بی نے پنجاب کا دورہ کیا۔ ہم جس شہر میں جاتے وہاں بی بی کی پسندیدہ جلیبی اور برفی تلاش کی جاتی جسے وہ بڑے شوق سے کھاتیں۔ بی بی کو ساحر لدھیانوی کا یہ گیت ''کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے'' بہت پسند تھا۔ مکیش کی آواز میں یہ یادگار گیت وہ دوران سفر اکثر سنا کرتیں۔ مجھے بھی مکیش کے گانے پسند تھے اور ہم نے مکیش کے گانوں کی کیسٹ بی بی کے لیے حاصل کی جس سے وہ اپنی سیاسی مصروفیات کے بعد اکثر محظوظ ہوتی تھیں اور ان کا دیرینہ ملازم عرس دوران سفر اس کیسٹ کو اپنے ساتھ رکھتا اور کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتا۔
1994ء میں محترمہ نے پاک ٹی ہاؤس کے معروف ویٹر شریف بنجارہ کو ایک لاکھ روپے کی مالی امداد دی جس سے اس نے اپنی بیٹی کی شادی کا فریضہ ادا کیا۔اس کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ انتقال کر گیا۔بی بی کی عادت تھی کہ وہ عوامی رابطہ مہم کے دوران عموماً غریب لوگوں سے ملاقات کرتیں۔ غربت زدہ خواتین کو گلے لگاتیں اور ان کی مدد کرتیں۔ بی بی کو اولیاء کرام سے بہت عقیدت تھی اور وہ مزارات پر جا کر دعا اور نفل ادا کیا کرتیں۔ وہ توہم پرست نہیں تھیں بلکہ اس سے انھیں ذہنی و قلبی سکون ملتا تھا۔
بی بی شہید کا حکومت میں آنے کے بعد بھی اپنے دوستوں کے ساتھ رشتہ اسی طرح برقرار رہتا۔ بلاشبہ حکومتی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے جاننے والوں کے لیے وقت نکالتی تھیں۔ ایک بار چھٹی کے دن مجھے ان کا اچانک فون آیا کہ فوراً وزیراعظم ہاؤس پہنچوں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ دو وزراء نواب یوسف تالپور اور نوید قمر کی بیگمات اوربچوں کے ہمراہ نتھیاگلی جانے کا پروگرام ہے چنانچہ ہیلی کاپٹر میں نتھیا گلی روانہ ہوئے لیکن خراب موسم کے باعث واپس وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور پھر وہاں سے اسلام آباد میں سملی ڈیم گئے اور وہاں بچوں کے ساتھ کافی وقت گزارا۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ دوستوں کے لیے تفریح کا وقت نکال لیتی تھیں۔ انھوں نے اپنے کام اور باقی امور میں توازن قائم کررکھا تھا۔وہ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں۔ ان کی زندگی کے یہ خوبصورت پہلو 27 دسمبر 2007ء کی شام ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئے لیکن ان کی سدابہار یادوں کے پھول ہمیشہ تروتازہ رہیں گے۔
یہ مقام حیرت ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد قاتلوں کی گرفتاری کے وعدوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بینظیربھٹو کی شہادت پر بھی سیاست کی گئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس کے رہنماؤں کے قول وفعل تضاد سے آلودہ ہیں۔
27دسمبر 2007ء کی منحوس شام کو لیاقت باغ میں دختر مشرق کا خون بہایا گیا لیکن قاتل ان کو مار نہیں سکے وہ آج بھی اپنے کارکنوں اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور پارٹی کے بعض لیڈروں نے بھی ان کے نام پر سیاست کا کاروبار کیا۔ لیکن اس کے برعکس عام آدمی کا دلآج بھی ان کی یاد سے معمور ہے۔ دسمبرکیآمد کے ساتھ ہی بی بی سے وابستہ یادوں کی مہک تیز ہوجاتی ہے اور ان سے عقیدت رکھنے والے ان لمحات میں کھو جاتے ہیں جو ان کی یاد سے وابستہ ہیں۔ محترمہ شہید کی سیاست' نظریات' عوام کے لیے دردمندی اور جمہوری و انسانی حقوق کے لیے عالمی سطح پر ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شخصیت کے کئی پہلو ان کی ذات ہی کی طرح دلچسپ اور خوبصورت ہیں۔ بی بی زبردست سینسآف ہیومر کی مالک تھیں وہ اپنے انداز میں کارکنوں اور رہنماؤں کو سیاسی و سماجی آداب سکھاتی رہتی تھیں۔ ایک دفعہ اپریل کے مہینے میں وہ ڈی جی خان کے دورہ پر گئیں۔ڈرائیو کرنے والے لیڈر نے تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا، گرمی کی شدت سے وہ پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔بی بی کے ہمراہ ان کی سہیلی پوچی بی بی بھی تھیں دورہ سے واپسی کے بعد انھوں نے پوچی سے کہا کہ اس لیڈر کو بتائیں کہ گرمیوں میں سفر کے دوران موسم کی مناسبت سے ہلکا پھلکا لباس پہننا چاہیے۔1986ء میں پاکستان واپسی کے بعد لاہور میں بی بی کا قیام بیگم عذرا خالد کھرل کے ہاں ہوتا۔ ایک دفعہ ایک شام طے پایا کہ لبرٹی میں جا کر انار جوس پیا جائے۔
وہاں جا کر بی بی نے پجارو میں بیٹھ کر جوس پیا۔ پھر ایبٹ روڈ پر مرغ چنے کھانے کا پروگرام بنا۔ چنانچہ ڈرائیور کو ایبٹ روڈ چلنے کا کہا۔ مسز عذرا خالد اور میں ان کے ساتھ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ملتان سے ایک پارٹی لیڈر ناظم حسین شاہ نے ہمارا پیچھا شروع کردیا۔ بی بی نے یہ دیکھا تو گاڑی کا رخ دوسری طرف کرنے کو کہا لیکن اس کے باوجود اس نے تعاقب جاری رکھا۔ بی بی کے کہنے پر میں نے ان کے پاس جاکر کہا کہ آپ پیچھا نہ کریں بی بی کو اپنی پرائیویسی میں اس قسم کی دخل اندازی پسند نہیں۔ اس نے یہ دلچسپ جواب دیا کہ میں تو اپنی لیڈر کا پیچھا کررہا ہوں۔ آخر کار انھوں نے مان لیا کہ انھیں پیچھا نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہم ایک چکر کاٹنے کے بعد دوبارہ ایبٹ روڈ آئے اور مرغ چنے کھائے۔
اپریل 1986ء میں جلاوطنی کے بعد بی بی نے پنجاب کا دورہ کیا۔ ہم جس شہر میں جاتے وہاں بی بی کی پسندیدہ جلیبی اور برفی تلاش کی جاتی جسے وہ بڑے شوق سے کھاتیں۔ بی بی کو ساحر لدھیانوی کا یہ گیت ''کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے'' بہت پسند تھا۔ مکیش کی آواز میں یہ یادگار گیت وہ دوران سفر اکثر سنا کرتیں۔ مجھے بھی مکیش کے گانے پسند تھے اور ہم نے مکیش کے گانوں کی کیسٹ بی بی کے لیے حاصل کی جس سے وہ اپنی سیاسی مصروفیات کے بعد اکثر محظوظ ہوتی تھیں اور ان کا دیرینہ ملازم عرس دوران سفر اس کیسٹ کو اپنے ساتھ رکھتا اور کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتا۔
1994ء میں محترمہ نے پاک ٹی ہاؤس کے معروف ویٹر شریف بنجارہ کو ایک لاکھ روپے کی مالی امداد دی جس سے اس نے اپنی بیٹی کی شادی کا فریضہ ادا کیا۔اس کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ انتقال کر گیا۔بی بی کی عادت تھی کہ وہ عوامی رابطہ مہم کے دوران عموماً غریب لوگوں سے ملاقات کرتیں۔ غربت زدہ خواتین کو گلے لگاتیں اور ان کی مدد کرتیں۔ بی بی کو اولیاء کرام سے بہت عقیدت تھی اور وہ مزارات پر جا کر دعا اور نفل ادا کیا کرتیں۔ وہ توہم پرست نہیں تھیں بلکہ اس سے انھیں ذہنی و قلبی سکون ملتا تھا۔
بی بی شہید کا حکومت میں آنے کے بعد بھی اپنے دوستوں کے ساتھ رشتہ اسی طرح برقرار رہتا۔ بلاشبہ حکومتی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے جاننے والوں کے لیے وقت نکالتی تھیں۔ ایک بار چھٹی کے دن مجھے ان کا اچانک فون آیا کہ فوراً وزیراعظم ہاؤس پہنچوں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ دو وزراء نواب یوسف تالپور اور نوید قمر کی بیگمات اوربچوں کے ہمراہ نتھیاگلی جانے کا پروگرام ہے چنانچہ ہیلی کاپٹر میں نتھیا گلی روانہ ہوئے لیکن خراب موسم کے باعث واپس وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور پھر وہاں سے اسلام آباد میں سملی ڈیم گئے اور وہاں بچوں کے ساتھ کافی وقت گزارا۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ دوستوں کے لیے تفریح کا وقت نکال لیتی تھیں۔ انھوں نے اپنے کام اور باقی امور میں توازن قائم کررکھا تھا۔وہ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں۔ ان کی زندگی کے یہ خوبصورت پہلو 27 دسمبر 2007ء کی شام ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئے لیکن ان کی سدابہار یادوں کے پھول ہمیشہ تروتازہ رہیں گے۔