دلوں کی آواز
پاکستان کی سیاست میں جو عوامی مقبولیت ذوالفقار علی بھٹو اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز پانے ...
پاکستان کی سیاست میں جو عوامی مقبولیت ذوالفقار علی بھٹو اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملی،کوئی دوسرا سیاست دان اس کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام، جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے اور ملک کے کروڑوں غریب عوام کے روشن مستقبل کی خاطر بھٹو خاندان کے شہیدوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے لہو سے جو تاریخ رقم کی ہے، بھٹو مخالف حلقے بھی اس کا اعتراف اور احترام کرتے ہیں۔
بھٹوکی شہادت کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو عوام کی امیدوں کا مرکز تھیں، بی بی کی شہادت کے بعد اب ان کے جواں عزم اور پرجوش فرزند بلاول بھٹو زرداری پر لاکھوں عوام کی نظریں مرکوز ہیں۔ ہر چند کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو چھ سال بیت گئے لیکن ان کی جدائی کل کی بات لگتی ہے۔ 27 دسمبر کی تاریخ قریب آتے ہی ذہن یاد ماضی میں کھوجاتاہے۔ ہر ایک منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے جب چھ برس قبل تمام تر خدشات، خطرات اور تحفظات کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کرکے اپنے پروگرام کے مطابق 18اکتوبر کو وطن کی محبت اور عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے ملک پاکستان پہنچیں،کراچی ایئرپورٹ پر طیارے سے اترنے کے بعد وہ خوشی و انبساط اور فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئیں اور بے ساختہ آسمان کی جانب نظریں اور دعائیہ ہاتھ اٹھاکر رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا۔
عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کے باہر موجود تھا چاروں صوبوں سے آئے ہوئے پی پی پی کے کارکنوں، رہنماؤں، ہمدردوں اور بھٹو ازم کے پرستاروں کے جم غفیر کے ساتھ محترمہ کا کاروان جمہوریت شاہراہ فیصل پر مزار قائد کی جانب آہستہ آہستہ رواں دواں تھا۔ جلوس میں شامل جیالے کارکن دیوانہ وار رقص کرتے، شادیانے بجاتے اور فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے کشاں کشاں محو سفر تھے کہ رات تقریباً 12بجے کے قریب کارساز روڈ پر اندیشوں، امکانات اور خدشات کے عین مطابق محترمہ کے استقبال کا یہ تاریخ ساز جلوس دہشت گردی کے اندوہناک واردات کا شکار ہوگیا۔ خودکش حملہ آور یقینی طورپر محترمہ کو نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن خوش قسمتی سے محترمہ اس بزدلانہ حملے میں بالکل محفوظ رہیں۔
کیوں کہ خودکش بمبار اس ٹرک تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکا جس پر محترمہ سوار تھیں اور جیالے کارکنوں نے اس ٹرک کو اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا۔ تاہم ٹرک کے قریب پولیس کی گاڑی سے خودکش حملہ آور ٹکراگیا اور دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت 150 کے قریب پی پی کے کارکن، صحافی اور متعدد دیگر لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ 500سے زائد زخمی ہوگئے، اس دلخراش سانحے کے بعد کارکنوں اور عوام کی ساری خوشیاں آنسوؤں میں ڈوب گئیں اور نہ صرف شہر قائد بلکہ پورے ملک میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔ نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون دنیا امریکا، فرانس، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی لیڈروں نے محترمہ کے استقبالی جلوس پر دہشت گرد عناصر کے بزدلانہ حملے کی شدید ترین مذمت کی۔
محترمہ نے بلاول ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ ان کی حفاظت کے حوالے سے ہی ملک میں حکومتی سطح پر بھی خدشات و خطرات کا اظہار کیا جارہاتھا اس کے باوجود حکومت نے ان کی حفاظت کے حوالے سے سنگین غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ محترمہ نے اپنی آمد سے قبل اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو باقاعدہ ایک خط تحریر کیا تھا جس میں انھیں پاکستان میں کن کن لوگوں سے خطرہ ہے اور اگر پاکستان آمد کے بعد انھیں (محترمہ کو) کچھ ہوا تو یہی لوگ ذمے دار ہوں گے اس اطلاع کے بعد بھی حکومت نے محترمہ کی فول پروف سیکیورٹی کے انتظامات سے گریز کیا۔ نتیجتاً 27دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی کے تاریخی مقام پر وہ الم ناک سانحہ رونما ہوگیا جس میں وطن دشمن دہشت گرد عناصر نے محترمہ بے نظیربھٹو کو شہید کرکے اپنا منصوبہ مکمل کرلیا۔
محترمہ شہید کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد حقیقی معنوں میں ان کی سیاسی وارث بن کر ابھریں اور اپنا حق ادا کردیا۔ وہ صحیح معنوں میں عالمی سطح کی مدبر سیاسی رہنماء تھیں، انھیں پوری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتاتھا۔ انھوںنے اپنے شہید والد کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار پوری دیانت داری اور اخلاص نیت کے ساتھ ادا کیا، جیسا کہ شہید بھٹو اپنی لاڈلی بیٹی کی سیاسی بصیرت اور مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ پر امید رہے وہ کہا کرتے تھے کہ ''بے نظیر پاک و ہند کی تاریخ میں بے نظیر ہی بن جائے گی'' اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ نے کس طرح اپنے والد کے خواب کی تکمیل کے لیے انتھک جد و جہد کی، ہر چند کہ خار زار سیاست میں انھیں صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑی۔ عین جوانی میں محبت و شفقت کرنے والے باپ کی جدائی کا صدمہ برداشت، قید و بند کا دکھ اور جلا وطنی کا عذاب جھیلا۔ شوہر آصف علی زرداری آٹھ سال جیل میں رہا۔
ایک بھائی فرانس میں مردہ پایاگیا جب کہ دوسرے بھائی کو ان کے اپنے دور حکومت میں خون میں نہلادیا گیا۔ ان کی والدہ نصرت بھٹو اپنے شوہر، بیٹوں اور بیٹی کی جدائی کے صدمات میں زندہ لاش بنی رہیں۔ غرض بی بی شہید کی تمام زندگی دکھوں اور آنسوؤں سے بھیگتی رہی۔ لیکن انھوں نے تمام مصائب و آلام کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ وہ جرأت و بہادری کا استعارہ تھیں۔ مشکل ترین نجی و خاندانی مسائل کے باوجود بھٹو شہید کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے عوام کے درمیان پوری استقامت اور خدمت کے جذبے سے سرشار عزم مصمم کے ساتھ کھڑی رہیں۔ انھیں دو مرتبہ اقتدار ملا اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز ملا، محترمہ نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی کا تحفہ دے کر فوجی استحکام کو یقینی بنایا، اقتدار میں آکر انتقام کی بجائے مفاہمت کی سیاست کی جانب قدم بڑھائے لیکن در پردہ قوتوں نے انھیں قوم کی خدمت کا موقع فراہم نہ کیا اور دونوں مرتبہ 5سالہ حکومتی مدت پوری ہونے سے قبل ہی انھیں اقتدار سے بے دخل کردیاگیا۔ محترمہ آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کا سیاسی وژن ان کے بیٹے بلاول بھٹو میں منتقل ہوچکا ہے اور اب بلاول ہی نہ صرف پیپلزپارٹی کے مستقبل کی ضمانت ہے بلکہ اپنی والدہ اور نانا کی طرح ملک کے لاکھوں غریب مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں اور پسماندہ طبقے کے دلوں کی آواز اور امیدوں کا واحد سہارا ہے۔
بھٹوکی شہادت کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو عوام کی امیدوں کا مرکز تھیں، بی بی کی شہادت کے بعد اب ان کے جواں عزم اور پرجوش فرزند بلاول بھٹو زرداری پر لاکھوں عوام کی نظریں مرکوز ہیں۔ ہر چند کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو چھ سال بیت گئے لیکن ان کی جدائی کل کی بات لگتی ہے۔ 27 دسمبر کی تاریخ قریب آتے ہی ذہن یاد ماضی میں کھوجاتاہے۔ ہر ایک منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے جب چھ برس قبل تمام تر خدشات، خطرات اور تحفظات کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کرکے اپنے پروگرام کے مطابق 18اکتوبر کو وطن کی محبت اور عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے ملک پاکستان پہنچیں،کراچی ایئرپورٹ پر طیارے سے اترنے کے بعد وہ خوشی و انبساط اور فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئیں اور بے ساختہ آسمان کی جانب نظریں اور دعائیہ ہاتھ اٹھاکر رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا۔
عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کے باہر موجود تھا چاروں صوبوں سے آئے ہوئے پی پی پی کے کارکنوں، رہنماؤں، ہمدردوں اور بھٹو ازم کے پرستاروں کے جم غفیر کے ساتھ محترمہ کا کاروان جمہوریت شاہراہ فیصل پر مزار قائد کی جانب آہستہ آہستہ رواں دواں تھا۔ جلوس میں شامل جیالے کارکن دیوانہ وار رقص کرتے، شادیانے بجاتے اور فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے کشاں کشاں محو سفر تھے کہ رات تقریباً 12بجے کے قریب کارساز روڈ پر اندیشوں، امکانات اور خدشات کے عین مطابق محترمہ کے استقبال کا یہ تاریخ ساز جلوس دہشت گردی کے اندوہناک واردات کا شکار ہوگیا۔ خودکش حملہ آور یقینی طورپر محترمہ کو نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن خوش قسمتی سے محترمہ اس بزدلانہ حملے میں بالکل محفوظ رہیں۔
کیوں کہ خودکش بمبار اس ٹرک تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکا جس پر محترمہ سوار تھیں اور جیالے کارکنوں نے اس ٹرک کو اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا۔ تاہم ٹرک کے قریب پولیس کی گاڑی سے خودکش حملہ آور ٹکراگیا اور دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت 150 کے قریب پی پی کے کارکن، صحافی اور متعدد دیگر لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ 500سے زائد زخمی ہوگئے، اس دلخراش سانحے کے بعد کارکنوں اور عوام کی ساری خوشیاں آنسوؤں میں ڈوب گئیں اور نہ صرف شہر قائد بلکہ پورے ملک میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔ نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون دنیا امریکا، فرانس، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی لیڈروں نے محترمہ کے استقبالی جلوس پر دہشت گرد عناصر کے بزدلانہ حملے کی شدید ترین مذمت کی۔
محترمہ نے بلاول ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ ان کی حفاظت کے حوالے سے ہی ملک میں حکومتی سطح پر بھی خدشات و خطرات کا اظہار کیا جارہاتھا اس کے باوجود حکومت نے ان کی حفاظت کے حوالے سے سنگین غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ محترمہ نے اپنی آمد سے قبل اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو باقاعدہ ایک خط تحریر کیا تھا جس میں انھیں پاکستان میں کن کن لوگوں سے خطرہ ہے اور اگر پاکستان آمد کے بعد انھیں (محترمہ کو) کچھ ہوا تو یہی لوگ ذمے دار ہوں گے اس اطلاع کے بعد بھی حکومت نے محترمہ کی فول پروف سیکیورٹی کے انتظامات سے گریز کیا۔ نتیجتاً 27دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی کے تاریخی مقام پر وہ الم ناک سانحہ رونما ہوگیا جس میں وطن دشمن دہشت گرد عناصر نے محترمہ بے نظیربھٹو کو شہید کرکے اپنا منصوبہ مکمل کرلیا۔
محترمہ شہید کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد حقیقی معنوں میں ان کی سیاسی وارث بن کر ابھریں اور اپنا حق ادا کردیا۔ وہ صحیح معنوں میں عالمی سطح کی مدبر سیاسی رہنماء تھیں، انھیں پوری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتاتھا۔ انھوںنے اپنے شہید والد کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار پوری دیانت داری اور اخلاص نیت کے ساتھ ادا کیا، جیسا کہ شہید بھٹو اپنی لاڈلی بیٹی کی سیاسی بصیرت اور مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ پر امید رہے وہ کہا کرتے تھے کہ ''بے نظیر پاک و ہند کی تاریخ میں بے نظیر ہی بن جائے گی'' اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ نے کس طرح اپنے والد کے خواب کی تکمیل کے لیے انتھک جد و جہد کی، ہر چند کہ خار زار سیاست میں انھیں صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑی۔ عین جوانی میں محبت و شفقت کرنے والے باپ کی جدائی کا صدمہ برداشت، قید و بند کا دکھ اور جلا وطنی کا عذاب جھیلا۔ شوہر آصف علی زرداری آٹھ سال جیل میں رہا۔
ایک بھائی فرانس میں مردہ پایاگیا جب کہ دوسرے بھائی کو ان کے اپنے دور حکومت میں خون میں نہلادیا گیا۔ ان کی والدہ نصرت بھٹو اپنے شوہر، بیٹوں اور بیٹی کی جدائی کے صدمات میں زندہ لاش بنی رہیں۔ غرض بی بی شہید کی تمام زندگی دکھوں اور آنسوؤں سے بھیگتی رہی۔ لیکن انھوں نے تمام مصائب و آلام کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ وہ جرأت و بہادری کا استعارہ تھیں۔ مشکل ترین نجی و خاندانی مسائل کے باوجود بھٹو شہید کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے عوام کے درمیان پوری استقامت اور خدمت کے جذبے سے سرشار عزم مصمم کے ساتھ کھڑی رہیں۔ انھیں دو مرتبہ اقتدار ملا اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز ملا، محترمہ نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی کا تحفہ دے کر فوجی استحکام کو یقینی بنایا، اقتدار میں آکر انتقام کی بجائے مفاہمت کی سیاست کی جانب قدم بڑھائے لیکن در پردہ قوتوں نے انھیں قوم کی خدمت کا موقع فراہم نہ کیا اور دونوں مرتبہ 5سالہ حکومتی مدت پوری ہونے سے قبل ہی انھیں اقتدار سے بے دخل کردیاگیا۔ محترمہ آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کا سیاسی وژن ان کے بیٹے بلاول بھٹو میں منتقل ہوچکا ہے اور اب بلاول ہی نہ صرف پیپلزپارٹی کے مستقبل کی ضمانت ہے بلکہ اپنی والدہ اور نانا کی طرح ملک کے لاکھوں غریب مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں اور پسماندہ طبقے کے دلوں کی آواز اور امیدوں کا واحد سہارا ہے۔