وکلا کے طرز عمل پر قیدی کا کھلا خط
سپریم کورٹ کے باہر وکلا برادری کی جانب سے مظاہرے اور احتجاج کے بعد پولیس تصادم میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے...
MANSEHRA:
سپریم کورٹ کے باہر وکلا برادری کی جانب سے مظاہرے اور احتجاج کے بعد پولیس تصادم میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور سپریم کورٹ کی عمارت کے شیشے بھی ٹوٹے۔ دوسرے لفظوں میں وکلا برادری کے ہاتھوں اعلیٰ عدلیہ کا تقدس پامال ہوا۔ تاہم اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو وکلا برادری کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کا اعلان تھا اور 27 نومبر کو وکلا حضرات نے باہمی اختلافات بھلاکر بھرپور ہڑتال کی اور ان کی اس ہڑتال سے تمام تر نقصان صرف قیدیوں کا ہوا۔
وکلا کی جانب سے آئے دن ہڑتالوں اور احتجاجوں کے سبب صرف قیدی متاثر ہوتے ہیں اور قیدیوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی ہے۔ وکلا برادری اپنے احتجاج، مظاہرے و ہڑتالوں کے لیے قیدیوں کو تکلیف میں مبتلا کرکے حکومت یا بار روم میں دباؤ بڑھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں قیدیوں کی سماعت ممکن نہیں ہو پاتی اور ہزاروں قیدی اپنی آیندہ سماعت کی تاریخ کے لیے انتہائی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ضمانتوں پر جانے والے ملزمان کو اپنے مقدمات کی سماعت کے لیے نئی تاریخ کے حصول کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم جیلوں کے اندر ان قیدیوں کے دل و دماغ پر بجلی گر جاتی ہے۔ جب کورٹس کسی نہ کسی حوالے سے بند ہوجاتے ہیں۔ حالات یا شہر میں کسی افتاد کے باعث کورٹس میں قیدیوں کا نہ پہنچنا قدرتی آفت سمجھ کر برداشت کر لیا جاتا ہے۔ لیکن عام حالات میں جب وکلا کی جانب سے اچانک کورٹس کا بائیکاٹ، یوم سیاہ یا ہڑتال کی کال دے دی جاتی ہے تو قیدیوں کی پریشانی اور انھیں درپیش مسائل کا ادراک ہونے کے باوجود وکلا برادری کی بے حسی سوہان روح بن جاتی ہے۔
وکلا برادری کی جانب سے اچانک ہڑتالوں کے باعث جیلوں میں مقید قیدیوں کو سب سے بڑی پریشانی آنے والی سماعت کی تاریخ کا حصول ہوتا ہے۔ ہزاروں قیدیوں کی ایک بہت بڑی ایسی تعداد ہے، جنھیں اپنی مالی استطاعت نہ ہونے کے سبب وکلا کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ وہ اپنے مقدمات میں از خود کسی فیصلے کے انتظار میں جج صاحبان یا مجسٹریٹ صاحبان کے سامنے پیش ہوکر انصاف کے متمنی ہوتے ہیں۔ ہزاروں قیدی جیلوں کے اندر انتہائی کم تعداد میں آنے والے پڑھے لکھے قیدیوں کی منت سماجت کرکے اپنے لیے درخواستیں لکھواتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر عدالتوں میں مقدمات چلانے، ضمانتوں میں زر ضمانت کی کمی، یا کسی عدالت میں تاخیر سے مقدمات نہ چلنے کی وجہ سے جیلوں میں زائدالمیعاد وقت کے سبب قبول داری جیسے معاملات پر درخواستیں ہوتی ہیں۔
عمومی طور پر وکلا حاصل نہ کرنے والے قیدیوں کو اپنی تاریخوں میں جانے کے لیے بڑی تگ و دو و مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے قیدی اپنے لواحقین کی عدم دستیابی کے سبب، قدرت و حکومت کے آسرے پر وقت گزارتے ہیں اور بڑی جدوجہد کے بعد شومئی قسمت سے ان کی تاریخیں آجاتی ہیں تو مہینوں بعد جب وہ کورٹس جانے کے لیے کئی روز قبل سے تیاریوں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور پھر وکلا برادری کی جانب سے اچانک ہڑتال کا اعلان ہوجاتا ہے اور جیلوں سے قیدیوں کو کورٹ میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اس عمل کی وجہ سے ہزاروں قیدی ایک بار پھر مہینوں دوری کے مرحلے میں چلے جاتے ہیں اور انھیں کافی عرصے تک نئی تاریخ کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جن قیدیوں کو وکلا کی خدمات حاصل ہوتی ہیں اور انھوں نے اپنے موکل کا دفاع کرنے کے لیے خاطر خواہ معاوضہ لیا ہوتا ہے ان قیدیوں کو اپنے مقدمات کے حوالے سے دہری مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
ایک جانب نئی تاریخ کے لیے انھیں رشوت دینی ہوتی ہے تاکہ عملہ PO بھیج کر نئی تاریخ پر حاضری یقینی بنائے تو دوسری جانب ان قیدیوں کے اہل خانہ و احباب کو شدید پریشانی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو جیل کے بجائے کورٹ میں اپنے اہل خانہ بچوں کے ساتھ شیشے کی دیوار کے بجائے قدرے آزاد ماحول میں ملاقات کر لیتے ہیں۔
معاوضوں پر خدمات دینے والے وکلا برادری کا چونکہ عدالتوں میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ لہٰذا انھیں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ انھیں ایک دن مزید تعطل کا مل جاتا ہے اور ذہنی آسودگی کے لیے وہ دن اپنے دوست احباب یا اہل خانہ کے ساتھ گزارتے ہیں اور انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہزاروں قیدی کس ذہنی اذیت سے گزر رہے ہوں گے۔
پچھلے دنوں آئے روز کورٹس میں ہڑتالوں کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ تاہم اس درخواست پرسماعت نہیں کی گئی۔ جس بنا پر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے ۔
قیدیوں کی زبوں حالی پر 5 اسٹار پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر تو ہر ایک اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کے حقوق کی پامالی پر کسی جانب سے متحرک اقدام نہیں اٹھایا جاتا اور اس بات کا احساس کیے بغیر قیدیوں کی ذہنی اذیت میں اضافہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
وکلا برادری، قیدیوں کی جانب سے اپنی ذمے داری نبھانے کے لیے معاوضوں کے حصول کے بعد پابند ہیں کہ وہ انھیں سہولت فراہم کریں اور انھیں پریشانی سے بچائیں۔ انھیں اس قسم کی ہڑتالوں سے بری الذمہ رہنا چاہیے جس سے ملک گیر سطح پر ہزاروں قیدیوں کو کوفت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے عدالتی نظام میں بگاڑ کی سب سے بڑی ذمے داری وکلا برادری پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ جوڈیشنل اور وکلا کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
وکلا برادری کو عدلیہ کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے سمجھ داری اور ہوش مندی کا ثبوت دینا چاہیے۔ تاہم بدقسمتی سے عدلیہ بحالی تحریک کے بعد وکلا برادری کی جانب سے اپنے اختیارات و حدود سے تجاوز کرنے کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔
میڈیا ایسے وکلا پر اپنے کیمروں کے ذریعے فوکس کر چکا ہے کہ جنھوں نے کسی غنڈوں کی طرح پولیس اہلکاروں کو ''دھو'' دیا تھا۔پولیس پر وکلا کی اجتماعی تشدد کے واقعات کھلے چھپے نہیں ہیں۔ اسی طرح وکلا کی جانب سے جج صاحبان کے چیمبر میں ان کے ساتھ بدتمیزی کرنا بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں دوبارہ ایک ایسا ہی واقعہ خبروں کی زینت بنا، جس میں بعض وکلا کی جانب سے ججوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور انھوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
وکلا گردی کی اصطلاح ان کے ایسے رویوں کی وجہ سے سامنے آئے اور وکلا کی جانب سے بار بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں غل مچایا گیا، اس کے بعد اگر کسی سیاست دان یا کسی ملزم کی جانب سے کسی جج کے لیے سخت رویہ اختیار کیا جاتا تو پھر انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے سخت عمل پر احتجاج کریں اور عدلیہ کے تقدس کا ڈھنڈورا پیٹیں۔
اہم بات یہ ہے کہ وکلا قیدی کے ملازم ہیں۔ قیدی انھیں اپنے مقدمات کی سماعت کے لیے بھاری رقوم دیتے ہیں۔ ہر تاریخ پر وکیلوں کے گھر کا چولہا جلانے کے لیے انھیں خرچا دیتے ہیں۔ کسی ملزم یا قیدی کے پاس اگر وکیلوں کو اپنے لیے پیسے نہ ہوں تو وہ انھیں پریشان کرنے کے لیے بار بار ٹیلی فون پر بلانے پر نہیں آتے بلکہ فون ہی اکثر بندکردیتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ان کے گھروں کا چولہا قیدیوں کے دم سے جل رہا ہے اور انھیں یہ غیر جمہوری وغیر اخلاقی عمل سے گریز کرنا چاہیے کہ جن کے وہ ملازم ہیں انھیں بلاوجہ پریشان نہ کریں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو وکلا گردی پر نوٹس لینا چاہیے اور قیدیوں کو پہنچنے والی پریشانی پر انھیں احساس ذمے داری دلانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے باہر وکلا برادری کی جانب سے مظاہرے اور احتجاج کے بعد پولیس تصادم میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور سپریم کورٹ کی عمارت کے شیشے بھی ٹوٹے۔ دوسرے لفظوں میں وکلا برادری کے ہاتھوں اعلیٰ عدلیہ کا تقدس پامال ہوا۔ تاہم اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو وکلا برادری کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کا اعلان تھا اور 27 نومبر کو وکلا حضرات نے باہمی اختلافات بھلاکر بھرپور ہڑتال کی اور ان کی اس ہڑتال سے تمام تر نقصان صرف قیدیوں کا ہوا۔
وکلا کی جانب سے آئے دن ہڑتالوں اور احتجاجوں کے سبب صرف قیدی متاثر ہوتے ہیں اور قیدیوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی ہے۔ وکلا برادری اپنے احتجاج، مظاہرے و ہڑتالوں کے لیے قیدیوں کو تکلیف میں مبتلا کرکے حکومت یا بار روم میں دباؤ بڑھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں قیدیوں کی سماعت ممکن نہیں ہو پاتی اور ہزاروں قیدی اپنی آیندہ سماعت کی تاریخ کے لیے انتہائی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ضمانتوں پر جانے والے ملزمان کو اپنے مقدمات کی سماعت کے لیے نئی تاریخ کے حصول کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم جیلوں کے اندر ان قیدیوں کے دل و دماغ پر بجلی گر جاتی ہے۔ جب کورٹس کسی نہ کسی حوالے سے بند ہوجاتے ہیں۔ حالات یا شہر میں کسی افتاد کے باعث کورٹس میں قیدیوں کا نہ پہنچنا قدرتی آفت سمجھ کر برداشت کر لیا جاتا ہے۔ لیکن عام حالات میں جب وکلا کی جانب سے اچانک کورٹس کا بائیکاٹ، یوم سیاہ یا ہڑتال کی کال دے دی جاتی ہے تو قیدیوں کی پریشانی اور انھیں درپیش مسائل کا ادراک ہونے کے باوجود وکلا برادری کی بے حسی سوہان روح بن جاتی ہے۔
وکلا برادری کی جانب سے اچانک ہڑتالوں کے باعث جیلوں میں مقید قیدیوں کو سب سے بڑی پریشانی آنے والی سماعت کی تاریخ کا حصول ہوتا ہے۔ ہزاروں قیدیوں کی ایک بہت بڑی ایسی تعداد ہے، جنھیں اپنی مالی استطاعت نہ ہونے کے سبب وکلا کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ وہ اپنے مقدمات میں از خود کسی فیصلے کے انتظار میں جج صاحبان یا مجسٹریٹ صاحبان کے سامنے پیش ہوکر انصاف کے متمنی ہوتے ہیں۔ ہزاروں قیدی جیلوں کے اندر انتہائی کم تعداد میں آنے والے پڑھے لکھے قیدیوں کی منت سماجت کرکے اپنے لیے درخواستیں لکھواتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر عدالتوں میں مقدمات چلانے، ضمانتوں میں زر ضمانت کی کمی، یا کسی عدالت میں تاخیر سے مقدمات نہ چلنے کی وجہ سے جیلوں میں زائدالمیعاد وقت کے سبب قبول داری جیسے معاملات پر درخواستیں ہوتی ہیں۔
عمومی طور پر وکلا حاصل نہ کرنے والے قیدیوں کو اپنی تاریخوں میں جانے کے لیے بڑی تگ و دو و مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے قیدی اپنے لواحقین کی عدم دستیابی کے سبب، قدرت و حکومت کے آسرے پر وقت گزارتے ہیں اور بڑی جدوجہد کے بعد شومئی قسمت سے ان کی تاریخیں آجاتی ہیں تو مہینوں بعد جب وہ کورٹس جانے کے لیے کئی روز قبل سے تیاریوں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور پھر وکلا برادری کی جانب سے اچانک ہڑتال کا اعلان ہوجاتا ہے اور جیلوں سے قیدیوں کو کورٹ میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اس عمل کی وجہ سے ہزاروں قیدی ایک بار پھر مہینوں دوری کے مرحلے میں چلے جاتے ہیں اور انھیں کافی عرصے تک نئی تاریخ کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جن قیدیوں کو وکلا کی خدمات حاصل ہوتی ہیں اور انھوں نے اپنے موکل کا دفاع کرنے کے لیے خاطر خواہ معاوضہ لیا ہوتا ہے ان قیدیوں کو اپنے مقدمات کے حوالے سے دہری مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
ایک جانب نئی تاریخ کے لیے انھیں رشوت دینی ہوتی ہے تاکہ عملہ PO بھیج کر نئی تاریخ پر حاضری یقینی بنائے تو دوسری جانب ان قیدیوں کے اہل خانہ و احباب کو شدید پریشانی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو جیل کے بجائے کورٹ میں اپنے اہل خانہ بچوں کے ساتھ شیشے کی دیوار کے بجائے قدرے آزاد ماحول میں ملاقات کر لیتے ہیں۔
معاوضوں پر خدمات دینے والے وکلا برادری کا چونکہ عدالتوں میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ لہٰذا انھیں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ انھیں ایک دن مزید تعطل کا مل جاتا ہے اور ذہنی آسودگی کے لیے وہ دن اپنے دوست احباب یا اہل خانہ کے ساتھ گزارتے ہیں اور انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہزاروں قیدی کس ذہنی اذیت سے گزر رہے ہوں گے۔
پچھلے دنوں آئے روز کورٹس میں ہڑتالوں کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ تاہم اس درخواست پرسماعت نہیں کی گئی۔ جس بنا پر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے ۔
قیدیوں کی زبوں حالی پر 5 اسٹار پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر تو ہر ایک اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کے حقوق کی پامالی پر کسی جانب سے متحرک اقدام نہیں اٹھایا جاتا اور اس بات کا احساس کیے بغیر قیدیوں کی ذہنی اذیت میں اضافہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
وکلا برادری، قیدیوں کی جانب سے اپنی ذمے داری نبھانے کے لیے معاوضوں کے حصول کے بعد پابند ہیں کہ وہ انھیں سہولت فراہم کریں اور انھیں پریشانی سے بچائیں۔ انھیں اس قسم کی ہڑتالوں سے بری الذمہ رہنا چاہیے جس سے ملک گیر سطح پر ہزاروں قیدیوں کو کوفت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے عدالتی نظام میں بگاڑ کی سب سے بڑی ذمے داری وکلا برادری پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ جوڈیشنل اور وکلا کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
وکلا برادری کو عدلیہ کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے سمجھ داری اور ہوش مندی کا ثبوت دینا چاہیے۔ تاہم بدقسمتی سے عدلیہ بحالی تحریک کے بعد وکلا برادری کی جانب سے اپنے اختیارات و حدود سے تجاوز کرنے کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔
میڈیا ایسے وکلا پر اپنے کیمروں کے ذریعے فوکس کر چکا ہے کہ جنھوں نے کسی غنڈوں کی طرح پولیس اہلکاروں کو ''دھو'' دیا تھا۔پولیس پر وکلا کی اجتماعی تشدد کے واقعات کھلے چھپے نہیں ہیں۔ اسی طرح وکلا کی جانب سے جج صاحبان کے چیمبر میں ان کے ساتھ بدتمیزی کرنا بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں دوبارہ ایک ایسا ہی واقعہ خبروں کی زینت بنا، جس میں بعض وکلا کی جانب سے ججوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور انھوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
وکلا گردی کی اصطلاح ان کے ایسے رویوں کی وجہ سے سامنے آئے اور وکلا کی جانب سے بار بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں غل مچایا گیا، اس کے بعد اگر کسی سیاست دان یا کسی ملزم کی جانب سے کسی جج کے لیے سخت رویہ اختیار کیا جاتا تو پھر انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے سخت عمل پر احتجاج کریں اور عدلیہ کے تقدس کا ڈھنڈورا پیٹیں۔
اہم بات یہ ہے کہ وکلا قیدی کے ملازم ہیں۔ قیدی انھیں اپنے مقدمات کی سماعت کے لیے بھاری رقوم دیتے ہیں۔ ہر تاریخ پر وکیلوں کے گھر کا چولہا جلانے کے لیے انھیں خرچا دیتے ہیں۔ کسی ملزم یا قیدی کے پاس اگر وکیلوں کو اپنے لیے پیسے نہ ہوں تو وہ انھیں پریشان کرنے کے لیے بار بار ٹیلی فون پر بلانے پر نہیں آتے بلکہ فون ہی اکثر بندکردیتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ان کے گھروں کا چولہا قیدیوں کے دم سے جل رہا ہے اور انھیں یہ غیر جمہوری وغیر اخلاقی عمل سے گریز کرنا چاہیے کہ جن کے وہ ملازم ہیں انھیں بلاوجہ پریشان نہ کریں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو وکلا گردی پر نوٹس لینا چاہیے اور قیدیوں کو پہنچنے والی پریشانی پر انھیں احساس ذمے داری دلانا چاہیے۔