قوم کا چہرہ
ملک کو اس وقت تین طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے جس میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان اب آصف زرداری اور شریف خاندان سے باہر نکلیں اور اپنے مخالفین کے بجائے قوم کا چہرہ دیکھیں کہ وہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کیسا ہو گیا ہے اور وہ موجودہ حکومت میں سخت پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔
ملک کو اس وقت تین طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے جس میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں۔ کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں اور حکومت کی کریڈیبلٹی خراب ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے اقتدارکے 28 ماہ پورے کر رہے ہیں مگر ان پر زرداری اور شریف خاندان سوار ہے اور ہر جگہ وہ ان کے خلاف بولنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم خود اپوزیشن کی طرف سے سخت دباؤ میں ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ دیکھنا ہو تو اسحق ڈارکی شکل دیکھیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نواز شریف اور آصف زرداری کو 40 سال سے جانتے ہیں اور انھوں نے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتے دیکھا ہے۔
تجزیہ کار کے مطابق عمران خان کو اب آصف زرداری اور شریف خاندان سے باہر نکل کر قوم کا چہرہ دیکھنا چاہیے کیونکہ مہنگائی اور بیروزگاری کے عذاب میں اب وزیر اعظم کو قوم کے چہرے کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
28 ماہ کا اقتدارکم نہیں ہوتا اور وہ بھی اس صورت میں جب ملک کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کے سخت خلاف ہیں اور عمران خان نے اپنے مخالفین کو ایک ہونے پر مجبورکر دیا ہو۔ اس وقت کوئی بڑی قومی جماعت حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ پنجاب تک محدود مسلم لیگ (ق) اور سندھ کے شہری علاقوں تک محدود ایم کیو ایم کی حمایت کے باعث حکومت کھڑی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیان کے مطابق حکومت کے پاس اب عددی اکثریت موجود نہیں ہے۔ وعدے پورے نہ ہونے پر بی این پی مینگل حکومت کو چھوڑکر اپوزیشن کے ساتھ مل چکی ہے اور مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم حکومت کی حلیف کیوں ہیں،اس کا سب کو پتا ہے جو کسی بھی وقت حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو سکتی ہیں جس سے مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت اپنی اکثریت کھو سکتی ہے کیونکہ یہ حکومت مکمل تنہائی کا شکار اور محض بیانات کے باعث چل رہی ہے۔ یہ باتیں اب خفیہ نہیں رہیں۔
اس میں شک نہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں میں کرپشن ہوئی اور دونوں پر اس سلسلے میں نیب کے مقدمات قائم کیے مگر اپنی کسی بھی نیب عدالت سے ان پرکرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ نواز شریف کرپشن ثابت ہونے پر نااہل نہیں ہوئے تھے بلکہ پانامہ کی جے آئی ٹی بھی ان پر کرپشن ثابت نہ کر پائی تھی تو انھیں اقامہ پر نااہلی کی سزا دی گئی تھی جس میں ایک سزا پر انھیں ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی دوسرے مقدمے میں جج ارشد ملک کی دی گئی سزا پر ان کی اپیلوں کی سماعت نہیں ہو رہی تھی اور اس کیس میں سزا دینے والے جج برطرف ہو گئے تھے اور اب وہ اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے دنیا ہی میں نہیں رہے ۔
اب آگے کیا ہوگا، کچھ پتہ نہیں کیونکہ یہ سب قانونی معاملات ہیں۔نواز شریف سزا پوری کرنے کی بجائے وزیر اعظم کے بقول دھوکا دے کر علاج کے بہانے باہر گئے اور واپس نہیں آ رہے جس پر انھیں اشتہاری ملزم بھی قرار دے دیا گیا ہے اور وہ لندن کی آزاد فضا میں سیاست کر رہے ہیں۔
ایک وفاقی وزیر کے مطابق آصف زرداری میاں نواز شریف سے زیادہ بیمار اور ضمانت پر رہا اپنے خلاف مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کر رہے ہیں اور انھیں بھی سوا دو سال میں کرپشن کے کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی اور شہباز شریف بھی حکومت کی قید میں ہیں ان پر بھی کرپشن کا کوئی الزام ثابت ہوا نہ انھیں سزا ہوئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور حکومتی ترجمان سوا دو سال سے زرداری اور شریفوں کوکرپٹ درکرپٹ قرار دیتے آ رہے ہیں مگر ان کے کہنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ وہ کسی احتساب عدالت سے کرپشن کے الزام میں سزایاب نہیں ہوئے ہیں اور اپنے خلاف زیر سماعت مقدمات کو حکومت کا سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں اور نیب جس طرح عدالتوں میں انھیں سزا دلنے میں ناکام رہا ہے اس پر نیب بھی اعلیٰ عدالتوں میں تنقید اور سخت عدالتی ریمارکس برداشت کر رہا ہے اور اپوزیشن الزام عائد کررہی ہے کہ منصفانہ احتساب نہیں ہو رہا۔
تحریک انصاف کی حکومت عوامی اعتبار سے واقعی کمزور ہے اور اس کی طاقت صرف بیانات کے زور پر ہے جس پر عمران خان کو اپوزیشن پر اس قدر غصہ اور اپنے اشتعال کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اقتدار میں آتے ہی قومی معاملات پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا اور احتساب کے معاملے میں خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنا چاہیے تھا۔ اور احتساب نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے تھا تا کہ نیب کی ساکھ اور حکومت کی غیر جانبداری پر سوالات نہ اٹھتے۔
وزیر اعظم کی دھمکیوں اور ہر معاملے میں زرداری اور شریفوں پر تنقید اور اپوزیشن سے دور رہنے اور بار بار این آر او نہیں دوں گا جیسی مسلسل تقاریر اور ہر چیز کا الزام ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے کی باتوں سے شروع میں عوام کو کچھ دلچسپی تھی مگر دو سال سے ایک ہی تکرار نے عوام کو بیزار اور ان کے اپنے حامیوں کو بھی یہ کہنا پڑ گیا ہے کہ وزیر اعظم اب شریف اور زرداری خاندان سے باہر نکلیں اور اپنی حکومت کی سوا دو سالہ کارکردگی پر تنقید کا تعمیری جذبے سے جائزہ، حکومت سے متعلق شکایات کے ازالے، گڈ گورننس کی بہتری اور مہنگائی و بیروزگاری جیسے اہم مسائل کے حل پر فوری توجہ دیں۔
عوام کو اب وزیر اعظم کے بیانات نہیں اپنے مسائل سے دلچسپی ہے اور حکومتی ترجمانوں کو بھی زرداری و شریف خاندانوں پر تنقید سے باہر نکالیں۔ یہ سب بے تکے بیانات سے وزیر اعظم کے لیے مسائل بڑھا رہے ہیں۔
ملک کو اس وقت تین طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے جس میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں۔ کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں اور حکومت کی کریڈیبلٹی خراب ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے اقتدارکے 28 ماہ پورے کر رہے ہیں مگر ان پر زرداری اور شریف خاندان سوار ہے اور ہر جگہ وہ ان کے خلاف بولنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم خود اپوزیشن کی طرف سے سخت دباؤ میں ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ دیکھنا ہو تو اسحق ڈارکی شکل دیکھیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نواز شریف اور آصف زرداری کو 40 سال سے جانتے ہیں اور انھوں نے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتے دیکھا ہے۔
تجزیہ کار کے مطابق عمران خان کو اب آصف زرداری اور شریف خاندان سے باہر نکل کر قوم کا چہرہ دیکھنا چاہیے کیونکہ مہنگائی اور بیروزگاری کے عذاب میں اب وزیر اعظم کو قوم کے چہرے کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
28 ماہ کا اقتدارکم نہیں ہوتا اور وہ بھی اس صورت میں جب ملک کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کے سخت خلاف ہیں اور عمران خان نے اپنے مخالفین کو ایک ہونے پر مجبورکر دیا ہو۔ اس وقت کوئی بڑی قومی جماعت حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ پنجاب تک محدود مسلم لیگ (ق) اور سندھ کے شہری علاقوں تک محدود ایم کیو ایم کی حمایت کے باعث حکومت کھڑی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیان کے مطابق حکومت کے پاس اب عددی اکثریت موجود نہیں ہے۔ وعدے پورے نہ ہونے پر بی این پی مینگل حکومت کو چھوڑکر اپوزیشن کے ساتھ مل چکی ہے اور مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم حکومت کی حلیف کیوں ہیں،اس کا سب کو پتا ہے جو کسی بھی وقت حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو سکتی ہیں جس سے مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت اپنی اکثریت کھو سکتی ہے کیونکہ یہ حکومت مکمل تنہائی کا شکار اور محض بیانات کے باعث چل رہی ہے۔ یہ باتیں اب خفیہ نہیں رہیں۔
اس میں شک نہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں میں کرپشن ہوئی اور دونوں پر اس سلسلے میں نیب کے مقدمات قائم کیے مگر اپنی کسی بھی نیب عدالت سے ان پرکرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ نواز شریف کرپشن ثابت ہونے پر نااہل نہیں ہوئے تھے بلکہ پانامہ کی جے آئی ٹی بھی ان پر کرپشن ثابت نہ کر پائی تھی تو انھیں اقامہ پر نااہلی کی سزا دی گئی تھی جس میں ایک سزا پر انھیں ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی دوسرے مقدمے میں جج ارشد ملک کی دی گئی سزا پر ان کی اپیلوں کی سماعت نہیں ہو رہی تھی اور اس کیس میں سزا دینے والے جج برطرف ہو گئے تھے اور اب وہ اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے دنیا ہی میں نہیں رہے ۔
اب آگے کیا ہوگا، کچھ پتہ نہیں کیونکہ یہ سب قانونی معاملات ہیں۔نواز شریف سزا پوری کرنے کی بجائے وزیر اعظم کے بقول دھوکا دے کر علاج کے بہانے باہر گئے اور واپس نہیں آ رہے جس پر انھیں اشتہاری ملزم بھی قرار دے دیا گیا ہے اور وہ لندن کی آزاد فضا میں سیاست کر رہے ہیں۔
ایک وفاقی وزیر کے مطابق آصف زرداری میاں نواز شریف سے زیادہ بیمار اور ضمانت پر رہا اپنے خلاف مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کر رہے ہیں اور انھیں بھی سوا دو سال میں کرپشن کے کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی اور شہباز شریف بھی حکومت کی قید میں ہیں ان پر بھی کرپشن کا کوئی الزام ثابت ہوا نہ انھیں سزا ہوئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور حکومتی ترجمان سوا دو سال سے زرداری اور شریفوں کوکرپٹ درکرپٹ قرار دیتے آ رہے ہیں مگر ان کے کہنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ وہ کسی احتساب عدالت سے کرپشن کے الزام میں سزایاب نہیں ہوئے ہیں اور اپنے خلاف زیر سماعت مقدمات کو حکومت کا سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں اور نیب جس طرح عدالتوں میں انھیں سزا دلنے میں ناکام رہا ہے اس پر نیب بھی اعلیٰ عدالتوں میں تنقید اور سخت عدالتی ریمارکس برداشت کر رہا ہے اور اپوزیشن الزام عائد کررہی ہے کہ منصفانہ احتساب نہیں ہو رہا۔
تحریک انصاف کی حکومت عوامی اعتبار سے واقعی کمزور ہے اور اس کی طاقت صرف بیانات کے زور پر ہے جس پر عمران خان کو اپوزیشن پر اس قدر غصہ اور اپنے اشتعال کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اقتدار میں آتے ہی قومی معاملات پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا اور احتساب کے معاملے میں خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنا چاہیے تھا۔ اور احتساب نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے تھا تا کہ نیب کی ساکھ اور حکومت کی غیر جانبداری پر سوالات نہ اٹھتے۔
وزیر اعظم کی دھمکیوں اور ہر معاملے میں زرداری اور شریفوں پر تنقید اور اپوزیشن سے دور رہنے اور بار بار این آر او نہیں دوں گا جیسی مسلسل تقاریر اور ہر چیز کا الزام ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے کی باتوں سے شروع میں عوام کو کچھ دلچسپی تھی مگر دو سال سے ایک ہی تکرار نے عوام کو بیزار اور ان کے اپنے حامیوں کو بھی یہ کہنا پڑ گیا ہے کہ وزیر اعظم اب شریف اور زرداری خاندان سے باہر نکلیں اور اپنی حکومت کی سوا دو سالہ کارکردگی پر تنقید کا تعمیری جذبے سے جائزہ، حکومت سے متعلق شکایات کے ازالے، گڈ گورننس کی بہتری اور مہنگائی و بیروزگاری جیسے اہم مسائل کے حل پر فوری توجہ دیں۔
عوام کو اب وزیر اعظم کے بیانات نہیں اپنے مسائل سے دلچسپی ہے اور حکومتی ترجمانوں کو بھی زرداری و شریف خاندانوں پر تنقید سے باہر نکالیں۔ یہ سب بے تکے بیانات سے وزیر اعظم کے لیے مسائل بڑھا رہے ہیں۔