جسٹس فائز عیسی نظرثانی کیس میں بنچ کی تشکیل پر فیصلہ محفوظ
عدالت نے صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی سے ایک ہفتے میں تحریری دلائل مانگ لیے
سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی نظرثانی کیس میں بنچ کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی سے ایک ہفتے میں تحریری دلائل مانگ لیے۔ جسٹس فائز عیسی سمیت دیگر درخواست گزاروں نے چھ رکنی بنچ پر اعتراض کیا ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ کرنے والا دس رکنی فل کورٹ ہی سماعت کرسکتا ہے۔
جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیا گیا تھا، جسٹس دراب پٹیل فیصلے کا پیرا گراف 27 پڑھیں، نظر ثانی کیس میں جسٹس دراب پٹیل نے بنچ اعتراضات کے حوالے سے رائے دینے سے گریز کیا تھا۔
جسٹس قاضیٰ فائز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ ایک بنچ میں جتنے ججز نے فیصلہ دیا اس سے کم ججز نظر ثانی فیصلہ نہیں سن سکتے، ناممکن نہ ہو تو اسی بینچ کو نظر ثانی کیس میں بیٹھنا چاہیے، ججز کی تعداد نظر ثانی کیس میں تبدیل یا کم نہیں ہونی چاہیے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ کرنے والے تمام دستیاب ججز کو بینچ میں بیٹھنا چاہیے۔ وکیل رشید رضوی نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس دراب پٹیل کی رائے پر بھی اس فل کورٹ کو اپنی رائے دینے کی اجازت دی جانے چاہیے۔
سرینا عیسی نے کہا کہ قانون کے مطابق اصل کیس میں شامل تمام ججز کو بنچ میں شامل ہونا چاہیے، کیا میں کیس کارروائی کی ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ حاصل کر سکتی ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ رجسٹرار آفس میں درخواست دے سکتی ہیں، آپ کے لیے ہمدردی ہے آپ کو وکیل کی معاونت لینی چاہیے، مناسب سمجھیں تو ہم کسی قابل وکیل کو معاونت کا کہہ دیتے ہیں۔
سرینا عیسی نے کہا کہ مانتی ہوں کہ بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے لیکن ہمارے کیس میں چیف جسٹس فریق ہیں، تو وہ کیسے بنچ بناسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی دو روز میں بنچ کی تشکیل پر دلائل دیں گے، بینچ کی تشکیل پر فیصلہ چند روز میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خارج کر دیا تھا اور ان میں سے سات ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے ٹیکس سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا تھا جبکہ تین ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کی ہیں جن کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا چھ رکنی بنچ بنایا گیا ہے اور اختلافی نوٹ لکھنے والے تین ججز کو حصہ نہیں بنایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اس پر اعتراض کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق جو بینچ فیصلہ کرتا ہے وہی نظر ثانی کی درخواستوں کو بھی سنتا ہے اور اختلافی نوٹ لکھنے والے تین ججز کو بنچ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ واضح رہے کہ اکثریتی فیصلہ سنانے والے 7 ججز میں سے ایک جج جسٹس فیصل عرب ریٹائر ہوچکے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی سے ایک ہفتے میں تحریری دلائل مانگ لیے۔ جسٹس فائز عیسی سمیت دیگر درخواست گزاروں نے چھ رکنی بنچ پر اعتراض کیا ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ کرنے والا دس رکنی فل کورٹ ہی سماعت کرسکتا ہے۔
جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیا گیا تھا، جسٹس دراب پٹیل فیصلے کا پیرا گراف 27 پڑھیں، نظر ثانی کیس میں جسٹس دراب پٹیل نے بنچ اعتراضات کے حوالے سے رائے دینے سے گریز کیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم کسی خاص کیس پر نہیں بلکہ اصول پر بات کر رہے ہیں، اگر جج کا شامل ہونا ضروری ہے تو تمام کیسز میں ضروری ہے۔
جسٹس قاضیٰ فائز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ ایک بنچ میں جتنے ججز نے فیصلہ دیا اس سے کم ججز نظر ثانی فیصلہ نہیں سن سکتے، ناممکن نہ ہو تو اسی بینچ کو نظر ثانی کیس میں بیٹھنا چاہیے، ججز کی تعداد نظر ثانی کیس میں تبدیل یا کم نہیں ہونی چاہیے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ کرنے والے تمام دستیاب ججز کو بینچ میں بیٹھنا چاہیے۔ وکیل رشید رضوی نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس دراب پٹیل کی رائے پر بھی اس فل کورٹ کو اپنی رائے دینے کی اجازت دی جانے چاہیے۔
سرینا عیسی نے کہا کہ قانون کے مطابق اصل کیس میں شامل تمام ججز کو بنچ میں شامل ہونا چاہیے، کیا میں کیس کارروائی کی ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ حاصل کر سکتی ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ رجسٹرار آفس میں درخواست دے سکتی ہیں، آپ کے لیے ہمدردی ہے آپ کو وکیل کی معاونت لینی چاہیے، مناسب سمجھیں تو ہم کسی قابل وکیل کو معاونت کا کہہ دیتے ہیں۔
سرینا عیسی نے کہا کہ مانتی ہوں کہ بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے لیکن ہمارے کیس میں چیف جسٹس فریق ہیں، تو وہ کیسے بنچ بناسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی دو روز میں بنچ کی تشکیل پر دلائل دیں گے، بینچ کی تشکیل پر فیصلہ چند روز میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خارج کر دیا تھا اور ان میں سے سات ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے ٹیکس سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا تھا جبکہ تین ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کی ہیں جن کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا چھ رکنی بنچ بنایا گیا ہے اور اختلافی نوٹ لکھنے والے تین ججز کو حصہ نہیں بنایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اس پر اعتراض کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق جو بینچ فیصلہ کرتا ہے وہی نظر ثانی کی درخواستوں کو بھی سنتا ہے اور اختلافی نوٹ لکھنے والے تین ججز کو بنچ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ واضح رہے کہ اکثریتی فیصلہ سنانے والے 7 ججز میں سے ایک جج جسٹس فیصل عرب ریٹائر ہوچکے ہیں۔