آتشزدگی…
نامناسب حفاظتی انتظامات اور عدم آگاہی مسئلے کو سنگین تر بنا رہی ہے
جدت پسندی اور انسانی ترقی نے جہاں انسان کے لیے بہت ساری سہولیات پیدا کی ہیں وہاں انسانی حیات کے لیے کچھ خطرات بھی جنم لے رہے ہیں، جن میں سب سے بڑا خطرہ آتش زدگی ہے۔
عصر حاضر میں کی روز مرہ زندگی میں گھر، آفس، فرنیچر، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹرانسپورٹ، موبائل فون، کاسمیٹکس، ادویات، لباس اور برقی آلات سے لے کر انسان کے ارد گرد پائی جانے والی زیادہ تر اشیاء آگ کا باعث بننے اور آگ پکڑنے والی ہیں، جن کی وجہ سے قیمتی جانوں اور املاق کو نقصان پہنچ رہا ہے، خاص کر حالیہ حفیظ سنٹر لاہور اورآئے روز کراچی میں ہونے والے آتش زدگی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع و مکمل تحریر قارئین کی نظر کی جا رہی ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے ان واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ آگ ان چار بنیادی عناصر میں سے ایک ہے، جن سے کائنات کی تمام چیزیں تشکیل دی گئی ہیں۔ اس فسانے میں آگ ایک مقدس مادہ ہے، جو زندگی یا طاقت دیتا ہے۔ سائنسی طور پر آگ کسی مواد کے آکسیجن کی موجودگی میں جلنے کو کہتے ہیں۔ جدید دنیا نے آگ کے تین اجزا کو ایک مثلث کے طور پر پیش کیا ہے، جس میں جلنے والا مواد ،حرارت اور آکسیجن شامل ہیں۔ آگ کے لیے ان تین اجزاء کی موجودگی کے ساتھ ان میں رد عمل ضروری ہے۔مسلسل رد عمل حرارت مہیا کرتا ہے جو آگ کو جلتے رہنے میں مدد کرتا ہے۔ موجودہ سائنس نے آگ کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے۔
Ignition 1جلنا: فیول، آکسیجن اور حرارت ایک ساتھ مل کر کیمیکل ریکشن میں شامل ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں آگ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
Growth 2بڑھنا: ابتدائی طور پر شروع ہونے والی آگ گرمی کی وجہ سے بڑھتی ہے اور چھت تک جا پہنچتی ہے۔
Fully Developed 3مکمل طور پر تیار: اس مرحلے میں فیول کے ملنے سے آگ پوری طرح پھیل جاتی ہے اور حرارت اپنی آخری حددوں کو چھوتی ہے۔
4 Decayجل کر کوئلہ ہوجانا: اس مرحلے میں جلنے والی چیز مکمل طور پر جل کر کوئلہ یا راکھ ہو جاتی ہیں۔
آتش زدگی کے دوران کچھ واقعات بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں فلیش اور بیک ڈرافٹ شامل ہیں
فلیش اوور Flashover
اس میں کمرے میں موجود ہر چیز اچانک آگ پکڑ لیتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب درجہ حرارت ایک دم سے کچھ سکینڈ میں 1000F ڈگری ہو جاتا ہے اور کمرے کی ہر چیز کا درجہ حرارت اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ آگ پکڑ لیتی ہے۔یہاں تک کہ ایک فائر فائٹر جو کہ مکمل طور پر حفاظتی حصار میں موجود ہے اپنے آپ کو اس Flashover سے نہیں بچا سکتا۔ اسکی نشانی یہ ہے کہ عمارت سے گھنا سیاہ دھواں نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈرافٹ بیک Backdraft
اس میں آگ لگنے کے بعد جب بند کمرے میں درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کمرہ گیسوں سے بھر جاتا ہے اور کمرے میں آکسیجن ختم ہو جاتی ہے تو کمرے میں موجود گیس دروازے اور کھڑکیوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کچھ وقت بعد کمرے میں اچانک کسی راستے سے آکسیجن کی فراہمی شروع ہو تو دھماکہ ہوتا ہے اس کو Backdraft کہتے ہیں۔اس لیے ان علامات کی صورت میں کسی بھی کمرے کا دروازہ یا کھڑی یکدم نہیں کھولنی چاہیے۔
لوگوں کو آگ لگنے کی صورت میں خطرات سے آگاہ رکھیں۔ آگ کے خطرات کاپتہ لگانے اور آگ سے لڑنے، ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے راستے کے بارے میں لوگوں کو متنبہ کریں کہ آگ لگنے کی صورت میں انھوں نے کیا کرنا ہے اور کس طرح بروقت و بحفاظت باہر نکلنا ہے۔ ایک عمارت میں آگ لگنے کے محرکات کے طور پر کے طور پر درج ذیل چیزیں موجود ہو سکتی ہیں مثلاً کھانا پکانے کا سامان، گرم پانی، فلش اور فلٹر، تمباکو نوشی، لائٹر، بجلی یا گیس سے جلنے والے ہیٹر کے علاوہ ٹھیکیداروں کی طرف سے غلط ویلڈنگ، غلط استعمال شدہ برقی آلات، روشنی سے متعلقہ اشیاء اور روشنی کے علاوہ سامان ہالوجن لیمپ یا ڈسپلے، محرارتی بوائیلر، ننگی آگ مثلاً موم بتی یا گیس، مائع ایندھن کی کھلی آگ، مشعل اور آتش بازی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بات بھی اہمیت کی ہامل ہے کہ آگ کے لیے بنیادی جزو آکسیجن ہمارے ارد گرد موجود ہوتی ہے۔ ایک بند عمارت میں آکسیجن وینٹی لیشن سسٹم کی مدد سے دی جاتی ہے۔ یہ دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ دروازے کھڑکیوں اور دیگر راستوں کے ذریعے قدرتی ہوا کے ذریعے یا ائیرکنڈیشنگ و ہنڈلنگ سسٹم کے ذریعے۔
آگ سے پیدا ہونے والا دھواں بھی خطرناک گیسوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو لوگوں کے لیے خطرناک ہوتاہے۔ ایک جدید عمارت میں لگی ہوئی آگ سے نکلنے والا دھواں گھنا اور سیاہ ہوتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ ہنگامی راستوں کو بند کر سکتا ہے۔ ہنگامی راستے مناسب اور محفوظ ہونے چاہیے جن کو کسی بھی وقت استعمال کیا جاسکے۔
وہاں روشنی کامناسب انتظام ہو۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ ہنگامی طور پر کھلنے والے تمام دروازے باہر کی طرف کھلتے ہوں۔ کمرے کا احاطہ اگر 60 لوگوں سے زیادہ ہے تو ہنگامی طور پر نکلنے کے لیے دو راستے ہونے چاہیے۔ آڈیٹوریم، شادی حال، سینما گھر،تھیڑ،امتحانی مراکز، سٹیڈیم میں سیٹیں ایسے لگانی چاہیے کہ تمام لوگ باہر کے راستے تک آسانی سے جا سکیں، وہ سیٹیں جو فکس ہوتی ہیں ان کے درمیان پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ کا فاصلہ کم سے کم1 فٹ ہونا چاہیے۔
آگ بجھانے کے آلات، جہاں جہاں ضروری ہو وہاں نوٹس لگائیں کہ آگ بجھانے والے آلات کو کیسے استعمال کرنا ہے اور آگ لگنے کی صورت میں کیا کیا اقدامات کرنے ہیں۔ ریسکیو، فائر فائٹر و امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے دیگر اہلکاروں کی مدد کریں مثلاً بجلی کاسوئچ بند کردیں اور آگ لگنے والی جگہ کی نشاندہی کریں۔ فائر سیفٹی و الارم کے نظام کو ہفتہ وار، ماہانہ وار یا چھ ماہ بعد چیک کریں۔ایمرجنسی لائٹ کی بیٹری چیک کریں، آگ بجھانے والے آلات کی جگہ اور ان کے کام کرنے کی صلاحیت چیک کریں۔
کسی بھی جگہ پر کام کرنے والے لوگوں کو آگ بجھانے کی تربیت دی جائے۔ تمام مشینیں، سازوسامان، کھانا پکانے والے آلات، تمام حرارت خارج کرنے والے آلات جیسے کہ فوٹو کاپی کرنے والی مشین وغیرہ کو کسی ماہر پیشہ ور سے چیک کرواتے رہنا چاہیے۔سب سے بڑا خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب مشینوں کو وقت پر چیک نہیں کروایا جاتا اور غیر تربیت یافتہ عملہ اس کو استعمال کرتا رہتا ہے۔ سگریٹ اور تمباکو نوشی کا سامان آگ لگنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ آلودہ ماحول میں ایک سگریٹ کئی گھنٹوں تک سلگ سکتا ہے جو کہ آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آگ لگنے کی صورت میں الارم کی آواز اتنی اونچی ہونی چاہیے کہ ہر شخص سن لے۔چھت سے پانی چھڑکنے والا نظام آگ بجھانے کے لئے بہت موثر ہے۔دیگر آلات میں پانی، فوم، گیس اور پاؤڈر والے سلنڈر شامل ہیں۔
آتش زدگی کے واقعات کو روکنے اور جانی وانسانی نقصانات سے بچنے کے لیے ملک بھر میں بلڈنگ کوڈز متعارف کرانے چاہیں، جس میں بلڈنگ کی نوعیت مثلاً سرکاری ونیم سرکاری، کمرشل، رہائشی وغیرہ کے مطابق فائرسیفٹی کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ایریا فی مربع فٹ،فلور،منزلوں کی تعداد اور لوگوں کی تعداد و آمدو رفت کے حوالے سے فائر سیفٹی کے انتظامات کیے جانے چاہیں۔
اس کے علاوہ واٹر ہائیڈرنٹس کی تنصیبات کو یقینی بنانا چاہیے آگ سے مزاحمت کرنے والے خصوصی دروازے، جو مارکیٹ میں آسانی سے دسیتاب ہیں، لگوانے چاہیں۔ تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں سیٹوں کی تعداد کے مطابق آگ بجھانے والے سلنڈر اور ہنگامی انخلا کے دروازے یقیناً موجود ہونے چاہیں۔ وہ بڑے آئل ٹرالر اور کنٹینر جو پٹرولیم مصنوعات کو لے کر سفر کرتے ہیں ان میں بھی آگ بجھانے والے سلنڈر اور ڈرائیور و ہیلپر کو ان کے استعمال کی تربیت ہونی چاہیے۔ کسی بڑے لیکیج کی صورت میں ٹرالر کو مین روڈ سے ہٹ کے سائیڈ پر کھڑا کیا جائے۔
حفاظتی کون کے ذریعے ایرے کو سیل کر دینا چاہیے۔پٹرولیم کی آگ کو کبھی پانی سے نہیں بجھانا چاہیے کیونکہ پانی بھاری اور پٹرولیم ہلکا ہوتا ہے اور اگر پانی ڈالا جائے توپانی نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پٹرول اوپر ہو جاتا ہے اور پانی کے اوپر آگ لگی رہتی ہے۔ اس صورتحال میں مقامی طور پر موجود مٹی یا ریت فوراً لیک ہونے والی جگہ پر ڈال دینا چاہیے۔
موجودہ جدت پسندی کے دور میں ہر گھر کے اندر آگ بجھانے والا چھوٹا ڈرائی کیمیکل پاؤڈر والا سلنڈر موجود ہونا چاہیے جو کہ ہر کلاس والی آگ کے لیے موثر ہوتا ہے۔ صنعتی اداروں، پبلک ڈیلنگ والے اداروں، تعلیمی اداروں، بینکس، لائبریری، ہسپتال، لیبارٹری، بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور، مارکیٹس، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، ہوائی اڈے، پریزیڈنٹ ہاؤس، وزیرِ اعظم ہاؤس، صوبائی و قومی اسنمبلیاں اور وہ تمام ادارے جہاں پراہم سرکاری دستاویزات و ریکارڈررکھا جاتاہے، گودام، ٹمبر مارکیٹ،فرنیچرو پالش مارکیٹ کی انتظامیہ و ذمہ دار افراد کے لیے کسی مستند ادارے سے تربیت اور فائر سیفٹی کی تنصیبات کو لازمی قرار دینا چاہیے اور ان جگہوں پر ایک فوکل پرسن نامزد کرنا چاہیے جو صرف اور صرف فائر سیفٹی کے معاملات کو دیکھے۔ ٹی ایم اے و دیگر اتھارٹیز کو بلڈنگ نقشہ بنانے یا پاس کرتے ہوئے اور این او سی(NOC) جاری کرتے ہوئے فائر سیفٹی کے عملی اقدامات کو لازمی جزو قرار دینا چاہیے۔
کرونا وبا ء کے پیش نظر ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھناچاہیے کہ سینیٹائزر بھی آگ پکڑنے والا مادہ ہے اس لیے سینیٹائزر کو ہیٹر، چولہے اور حرارت والی جگہ سے سے دور رکھیں ۔بچے اور بزرگ ہاتھوں پر سینیٹائزر لگا کر کبھی بھی آگ،ہیڑ،چولہے کے سامنے مت جاہیں اور خواتین کھانا پکاتے ہو خاص احتیاط کریں۔ مملکت خداداد میں نئی حکومت وجود میں آئی ہے، جس کا فرض ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی سطح پر فائر سیفٹی کے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے تحت ان قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے نئی قانون سازی کرے اور اس پر سو فیصد عمل درآمد کروائے۔
بلڈنگ و ٹرانسپورٹ کوڈز متعارف کرانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں احمدپور شرقیہ بہاولپورمیں جون 2017 میں ہونے والے آئل ٹینکر کے حادثے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزات صحت پورے پاکستان میں ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال کی سطح پر 10 بیڈپر مشتمل پر جدید برن یونٹ بنائے تا کہ آتش زدگی کے شکار متاثرین کا بروقت علاج ممکن ہو۔
اس وقت پاکستان میں سکن بینک کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وفاقی سطح پر ایک سکن بینک قائم ہونا چاہیے، اس ضمن میں آرگن ڈونیشن کے قانون کو موثر بنایا جائے اور لوگوں کوموت کے بعد دیگر اعضاء سمیت جلدکوبھی عطیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ایک انسانی جلد کا عطیہ سکن بینک میں کئی سالوں تک محفوظ رکھا جا سکتاہے اور سکن بینک کے قیام سے لوگوں کی قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو سکے گا۔ اگرچہ کہ پاکستان میں فائر بریگیڈ کا محکمہ عرصہ دراز سے ہر تحصیل کی سطح پر کام کر رہا ہے جس کا یونیورسل نمبر 16 ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ہمیشہ سے محرومی کا شکار رہا ہے۔کسی بھی حکومت نے اس کی سرپرستی نہیں کی اور نہ ہی اس طرف توجہ دی ہے ۔محکمے کے پاس جدید گاڑیوں، جدید آلات، سازو سامان،جدید تربیت یافتہ عملے سمیت ایک منظم و مربوط نظام کا فقدان ہے۔ اس سروس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ حفیظ سینٹر لاہور میں ہونے والے آتش زدگی کی واقعہ نے بلندوبانگ دعوے کرنے والے تمام متعلقہ محکمہ جات کی قلعی کھول دی ہے۔ اور دس گھنٹوں سے زائد دورانیہ کی اس آگ نے ان کی ناقص کارکردگی وحکمت عملی کو عیاںکیا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے ریسکیو اداروں کے پاس عالمی معیار کے سازوسامان، آلات، آگ پر قابو پانے کے لیے فائر فائٹنگ سوٹ، جوتے، دستانے، عینکیں، ہیلمٹ، سانس لینے والے سلنڈر وغیرہ تک دستیاب نہیں ہیں اور اگر ہیں تو زیادہ درجہ حرارت اوربہت بڑی و طویل دورانیہ کی آگ کے لیے موزوں نہیں ہیں، جس سے عوام کے ساتھ ساتھ خود ریسکیو اہلکاروں کی زندگی بھی شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اداروں کے پاس جدید آلات و سازوسامان کی عدم دستیابی ان اداروں کی کارکردگی پربہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ان اداروں کو چاہیے کہ اپنے سٹاف اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کریں،اس طرح ان کی استعداد کار اور کارکردگی میں بہتری آئے گی۔
آگ ایک بہت بڑی آفت ہے جو کہ جانی ومالی نقصان کے لیے ایک مستقل خطرہ کے طور پر موجودہے اگر ہم ہر سطح پر لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کریں،حفاظتی انتظامات اور مندرجہ بالا دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ محفوظ رویوں کو پروان چڑھائیں تو ہم اس آفت پر قابو پاسکتے ہیں۔
عصر حاضر میں کی روز مرہ زندگی میں گھر، آفس، فرنیچر، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹرانسپورٹ، موبائل فون، کاسمیٹکس، ادویات، لباس اور برقی آلات سے لے کر انسان کے ارد گرد پائی جانے والی زیادہ تر اشیاء آگ کا باعث بننے اور آگ پکڑنے والی ہیں، جن کی وجہ سے قیمتی جانوں اور املاق کو نقصان پہنچ رہا ہے، خاص کر حالیہ حفیظ سنٹر لاہور اورآئے روز کراچی میں ہونے والے آتش زدگی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع و مکمل تحریر قارئین کی نظر کی جا رہی ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے ان واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ آگ ان چار بنیادی عناصر میں سے ایک ہے، جن سے کائنات کی تمام چیزیں تشکیل دی گئی ہیں۔ اس فسانے میں آگ ایک مقدس مادہ ہے، جو زندگی یا طاقت دیتا ہے۔ سائنسی طور پر آگ کسی مواد کے آکسیجن کی موجودگی میں جلنے کو کہتے ہیں۔ جدید دنیا نے آگ کے تین اجزا کو ایک مثلث کے طور پر پیش کیا ہے، جس میں جلنے والا مواد ،حرارت اور آکسیجن شامل ہیں۔ آگ کے لیے ان تین اجزاء کی موجودگی کے ساتھ ان میں رد عمل ضروری ہے۔مسلسل رد عمل حرارت مہیا کرتا ہے جو آگ کو جلتے رہنے میں مدد کرتا ہے۔ موجودہ سائنس نے آگ کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے۔
Ignition 1جلنا: فیول، آکسیجن اور حرارت ایک ساتھ مل کر کیمیکل ریکشن میں شامل ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں آگ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
Growth 2بڑھنا: ابتدائی طور پر شروع ہونے والی آگ گرمی کی وجہ سے بڑھتی ہے اور چھت تک جا پہنچتی ہے۔
Fully Developed 3مکمل طور پر تیار: اس مرحلے میں فیول کے ملنے سے آگ پوری طرح پھیل جاتی ہے اور حرارت اپنی آخری حددوں کو چھوتی ہے۔
4 Decayجل کر کوئلہ ہوجانا: اس مرحلے میں جلنے والی چیز مکمل طور پر جل کر کوئلہ یا راکھ ہو جاتی ہیں۔
آتش زدگی کے دوران کچھ واقعات بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں فلیش اور بیک ڈرافٹ شامل ہیں
فلیش اوور Flashover
اس میں کمرے میں موجود ہر چیز اچانک آگ پکڑ لیتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب درجہ حرارت ایک دم سے کچھ سکینڈ میں 1000F ڈگری ہو جاتا ہے اور کمرے کی ہر چیز کا درجہ حرارت اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ آگ پکڑ لیتی ہے۔یہاں تک کہ ایک فائر فائٹر جو کہ مکمل طور پر حفاظتی حصار میں موجود ہے اپنے آپ کو اس Flashover سے نہیں بچا سکتا۔ اسکی نشانی یہ ہے کہ عمارت سے گھنا سیاہ دھواں نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈرافٹ بیک Backdraft
اس میں آگ لگنے کے بعد جب بند کمرے میں درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کمرہ گیسوں سے بھر جاتا ہے اور کمرے میں آکسیجن ختم ہو جاتی ہے تو کمرے میں موجود گیس دروازے اور کھڑکیوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کچھ وقت بعد کمرے میں اچانک کسی راستے سے آکسیجن کی فراہمی شروع ہو تو دھماکہ ہوتا ہے اس کو Backdraft کہتے ہیں۔اس لیے ان علامات کی صورت میں کسی بھی کمرے کا دروازہ یا کھڑی یکدم نہیں کھولنی چاہیے۔
لوگوں کو آگ لگنے کی صورت میں خطرات سے آگاہ رکھیں۔ آگ کے خطرات کاپتہ لگانے اور آگ سے لڑنے، ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے راستے کے بارے میں لوگوں کو متنبہ کریں کہ آگ لگنے کی صورت میں انھوں نے کیا کرنا ہے اور کس طرح بروقت و بحفاظت باہر نکلنا ہے۔ ایک عمارت میں آگ لگنے کے محرکات کے طور پر کے طور پر درج ذیل چیزیں موجود ہو سکتی ہیں مثلاً کھانا پکانے کا سامان، گرم پانی، فلش اور فلٹر، تمباکو نوشی، لائٹر، بجلی یا گیس سے جلنے والے ہیٹر کے علاوہ ٹھیکیداروں کی طرف سے غلط ویلڈنگ، غلط استعمال شدہ برقی آلات، روشنی سے متعلقہ اشیاء اور روشنی کے علاوہ سامان ہالوجن لیمپ یا ڈسپلے، محرارتی بوائیلر، ننگی آگ مثلاً موم بتی یا گیس، مائع ایندھن کی کھلی آگ، مشعل اور آتش بازی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بات بھی اہمیت کی ہامل ہے کہ آگ کے لیے بنیادی جزو آکسیجن ہمارے ارد گرد موجود ہوتی ہے۔ ایک بند عمارت میں آکسیجن وینٹی لیشن سسٹم کی مدد سے دی جاتی ہے۔ یہ دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ دروازے کھڑکیوں اور دیگر راستوں کے ذریعے قدرتی ہوا کے ذریعے یا ائیرکنڈیشنگ و ہنڈلنگ سسٹم کے ذریعے۔
آگ سے پیدا ہونے والا دھواں بھی خطرناک گیسوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو لوگوں کے لیے خطرناک ہوتاہے۔ ایک جدید عمارت میں لگی ہوئی آگ سے نکلنے والا دھواں گھنا اور سیاہ ہوتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ ہنگامی راستوں کو بند کر سکتا ہے۔ ہنگامی راستے مناسب اور محفوظ ہونے چاہیے جن کو کسی بھی وقت استعمال کیا جاسکے۔
وہاں روشنی کامناسب انتظام ہو۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ ہنگامی طور پر کھلنے والے تمام دروازے باہر کی طرف کھلتے ہوں۔ کمرے کا احاطہ اگر 60 لوگوں سے زیادہ ہے تو ہنگامی طور پر نکلنے کے لیے دو راستے ہونے چاہیے۔ آڈیٹوریم، شادی حال، سینما گھر،تھیڑ،امتحانی مراکز، سٹیڈیم میں سیٹیں ایسے لگانی چاہیے کہ تمام لوگ باہر کے راستے تک آسانی سے جا سکیں، وہ سیٹیں جو فکس ہوتی ہیں ان کے درمیان پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ کا فاصلہ کم سے کم1 فٹ ہونا چاہیے۔
آگ بجھانے کے آلات، جہاں جہاں ضروری ہو وہاں نوٹس لگائیں کہ آگ بجھانے والے آلات کو کیسے استعمال کرنا ہے اور آگ لگنے کی صورت میں کیا کیا اقدامات کرنے ہیں۔ ریسکیو، فائر فائٹر و امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے دیگر اہلکاروں کی مدد کریں مثلاً بجلی کاسوئچ بند کردیں اور آگ لگنے والی جگہ کی نشاندہی کریں۔ فائر سیفٹی و الارم کے نظام کو ہفتہ وار، ماہانہ وار یا چھ ماہ بعد چیک کریں۔ایمرجنسی لائٹ کی بیٹری چیک کریں، آگ بجھانے والے آلات کی جگہ اور ان کے کام کرنے کی صلاحیت چیک کریں۔
کسی بھی جگہ پر کام کرنے والے لوگوں کو آگ بجھانے کی تربیت دی جائے۔ تمام مشینیں، سازوسامان، کھانا پکانے والے آلات، تمام حرارت خارج کرنے والے آلات جیسے کہ فوٹو کاپی کرنے والی مشین وغیرہ کو کسی ماہر پیشہ ور سے چیک کرواتے رہنا چاہیے۔سب سے بڑا خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب مشینوں کو وقت پر چیک نہیں کروایا جاتا اور غیر تربیت یافتہ عملہ اس کو استعمال کرتا رہتا ہے۔ سگریٹ اور تمباکو نوشی کا سامان آگ لگنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ آلودہ ماحول میں ایک سگریٹ کئی گھنٹوں تک سلگ سکتا ہے جو کہ آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آگ لگنے کی صورت میں الارم کی آواز اتنی اونچی ہونی چاہیے کہ ہر شخص سن لے۔چھت سے پانی چھڑکنے والا نظام آگ بجھانے کے لئے بہت موثر ہے۔دیگر آلات میں پانی، فوم، گیس اور پاؤڈر والے سلنڈر شامل ہیں۔
آتش زدگی کے واقعات کو روکنے اور جانی وانسانی نقصانات سے بچنے کے لیے ملک بھر میں بلڈنگ کوڈز متعارف کرانے چاہیں، جس میں بلڈنگ کی نوعیت مثلاً سرکاری ونیم سرکاری، کمرشل، رہائشی وغیرہ کے مطابق فائرسیفٹی کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ایریا فی مربع فٹ،فلور،منزلوں کی تعداد اور لوگوں کی تعداد و آمدو رفت کے حوالے سے فائر سیفٹی کے انتظامات کیے جانے چاہیں۔
اس کے علاوہ واٹر ہائیڈرنٹس کی تنصیبات کو یقینی بنانا چاہیے آگ سے مزاحمت کرنے والے خصوصی دروازے، جو مارکیٹ میں آسانی سے دسیتاب ہیں، لگوانے چاہیں۔ تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں سیٹوں کی تعداد کے مطابق آگ بجھانے والے سلنڈر اور ہنگامی انخلا کے دروازے یقیناً موجود ہونے چاہیں۔ وہ بڑے آئل ٹرالر اور کنٹینر جو پٹرولیم مصنوعات کو لے کر سفر کرتے ہیں ان میں بھی آگ بجھانے والے سلنڈر اور ڈرائیور و ہیلپر کو ان کے استعمال کی تربیت ہونی چاہیے۔ کسی بڑے لیکیج کی صورت میں ٹرالر کو مین روڈ سے ہٹ کے سائیڈ پر کھڑا کیا جائے۔
حفاظتی کون کے ذریعے ایرے کو سیل کر دینا چاہیے۔پٹرولیم کی آگ کو کبھی پانی سے نہیں بجھانا چاہیے کیونکہ پانی بھاری اور پٹرولیم ہلکا ہوتا ہے اور اگر پانی ڈالا جائے توپانی نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پٹرول اوپر ہو جاتا ہے اور پانی کے اوپر آگ لگی رہتی ہے۔ اس صورتحال میں مقامی طور پر موجود مٹی یا ریت فوراً لیک ہونے والی جگہ پر ڈال دینا چاہیے۔
موجودہ جدت پسندی کے دور میں ہر گھر کے اندر آگ بجھانے والا چھوٹا ڈرائی کیمیکل پاؤڈر والا سلنڈر موجود ہونا چاہیے جو کہ ہر کلاس والی آگ کے لیے موثر ہوتا ہے۔ صنعتی اداروں، پبلک ڈیلنگ والے اداروں، تعلیمی اداروں، بینکس، لائبریری، ہسپتال، لیبارٹری، بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور، مارکیٹس، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، ہوائی اڈے، پریزیڈنٹ ہاؤس، وزیرِ اعظم ہاؤس، صوبائی و قومی اسنمبلیاں اور وہ تمام ادارے جہاں پراہم سرکاری دستاویزات و ریکارڈررکھا جاتاہے، گودام، ٹمبر مارکیٹ،فرنیچرو پالش مارکیٹ کی انتظامیہ و ذمہ دار افراد کے لیے کسی مستند ادارے سے تربیت اور فائر سیفٹی کی تنصیبات کو لازمی قرار دینا چاہیے اور ان جگہوں پر ایک فوکل پرسن نامزد کرنا چاہیے جو صرف اور صرف فائر سیفٹی کے معاملات کو دیکھے۔ ٹی ایم اے و دیگر اتھارٹیز کو بلڈنگ نقشہ بنانے یا پاس کرتے ہوئے اور این او سی(NOC) جاری کرتے ہوئے فائر سیفٹی کے عملی اقدامات کو لازمی جزو قرار دینا چاہیے۔
کرونا وبا ء کے پیش نظر ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھناچاہیے کہ سینیٹائزر بھی آگ پکڑنے والا مادہ ہے اس لیے سینیٹائزر کو ہیٹر، چولہے اور حرارت والی جگہ سے سے دور رکھیں ۔بچے اور بزرگ ہاتھوں پر سینیٹائزر لگا کر کبھی بھی آگ،ہیڑ،چولہے کے سامنے مت جاہیں اور خواتین کھانا پکاتے ہو خاص احتیاط کریں۔ مملکت خداداد میں نئی حکومت وجود میں آئی ہے، جس کا فرض ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی سطح پر فائر سیفٹی کے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے تحت ان قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے نئی قانون سازی کرے اور اس پر سو فیصد عمل درآمد کروائے۔
بلڈنگ و ٹرانسپورٹ کوڈز متعارف کرانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں احمدپور شرقیہ بہاولپورمیں جون 2017 میں ہونے والے آئل ٹینکر کے حادثے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزات صحت پورے پاکستان میں ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال کی سطح پر 10 بیڈپر مشتمل پر جدید برن یونٹ بنائے تا کہ آتش زدگی کے شکار متاثرین کا بروقت علاج ممکن ہو۔
اس وقت پاکستان میں سکن بینک کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وفاقی سطح پر ایک سکن بینک قائم ہونا چاہیے، اس ضمن میں آرگن ڈونیشن کے قانون کو موثر بنایا جائے اور لوگوں کوموت کے بعد دیگر اعضاء سمیت جلدکوبھی عطیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ایک انسانی جلد کا عطیہ سکن بینک میں کئی سالوں تک محفوظ رکھا جا سکتاہے اور سکن بینک کے قیام سے لوگوں کی قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو سکے گا۔ اگرچہ کہ پاکستان میں فائر بریگیڈ کا محکمہ عرصہ دراز سے ہر تحصیل کی سطح پر کام کر رہا ہے جس کا یونیورسل نمبر 16 ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ہمیشہ سے محرومی کا شکار رہا ہے۔کسی بھی حکومت نے اس کی سرپرستی نہیں کی اور نہ ہی اس طرف توجہ دی ہے ۔محکمے کے پاس جدید گاڑیوں، جدید آلات، سازو سامان،جدید تربیت یافتہ عملے سمیت ایک منظم و مربوط نظام کا فقدان ہے۔ اس سروس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ حفیظ سینٹر لاہور میں ہونے والے آتش زدگی کی واقعہ نے بلندوبانگ دعوے کرنے والے تمام متعلقہ محکمہ جات کی قلعی کھول دی ہے۔ اور دس گھنٹوں سے زائد دورانیہ کی اس آگ نے ان کی ناقص کارکردگی وحکمت عملی کو عیاںکیا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے ریسکیو اداروں کے پاس عالمی معیار کے سازوسامان، آلات، آگ پر قابو پانے کے لیے فائر فائٹنگ سوٹ، جوتے، دستانے، عینکیں، ہیلمٹ، سانس لینے والے سلنڈر وغیرہ تک دستیاب نہیں ہیں اور اگر ہیں تو زیادہ درجہ حرارت اوربہت بڑی و طویل دورانیہ کی آگ کے لیے موزوں نہیں ہیں، جس سے عوام کے ساتھ ساتھ خود ریسکیو اہلکاروں کی زندگی بھی شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اداروں کے پاس جدید آلات و سازوسامان کی عدم دستیابی ان اداروں کی کارکردگی پربہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ان اداروں کو چاہیے کہ اپنے سٹاف اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کریں،اس طرح ان کی استعداد کار اور کارکردگی میں بہتری آئے گی۔
آگ ایک بہت بڑی آفت ہے جو کہ جانی ومالی نقصان کے لیے ایک مستقل خطرہ کے طور پر موجودہے اگر ہم ہر سطح پر لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کریں،حفاظتی انتظامات اور مندرجہ بالا دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ محفوظ رویوں کو پروان چڑھائیں تو ہم اس آفت پر قابو پاسکتے ہیں۔