استعفوں کا منظر نامہ
سوال یہ ہے کہ کیا مقتدر حلقے اور عمران خان استعفوں پر کسی ایک پالیسی پر متفق ہیں کہ نہیں۔
کیا پی ڈی ایم استعفے دے گی؟ میری نزدیک یہ سوال غیر اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان استعفیٰ قبول کر لیں گے؟ یہ سوال نہیں کہ کیا پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں استعفوں پر متفق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مقتدر حلقے اور عمران خان استعفوں پر کسی ایک پالیسی پر متفق ہیں کہ نہیں۔
اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ مقتدر حلقے ملک کو کسی بڑے سیاسی بحران سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ وزیراعظم عمران خان اس بحران کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ مخالف سیاسی جماعتوں کو طاقت سے کچلنا چاہتا ہیں جب کہ مقتدر حلقے جانتے ہیںکہ ماضی میں ایسی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں بلکہ اس کے خطرنک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ دو دن سے عمران خان اپوزیشن کو ڈائیلاگ کا پیغام دے رہے ہیں لیکن یہ پیغام کم اور طعنہ زنی زیادہ لگتی ہے۔ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ ڈائیلاگ کی بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی حزب اقتدار نے ہی مفلوج کررکھا ہے۔
اگر وزیر اعظم پارلیمنٹ کو فعال کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس ضمن میں بھی سنجیدگی دکھانا ہو گی۔ اگر ایک لمحہ کے لیے یہ مان لیا جائے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ کرنے میں سنجیدہ ہیں، تو انھیں سازگار ماحول بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنا چاہییں جن سے اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ ممکن ہو سکے۔
ویسے تو مجھے زیادہ سوجھ بوجھ نہیں ہے اور مجھے کوئی عملی سیاست کا تجربہ بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے پاکستان کی سیاست کو قریب سے دیکھا ضرور ہے۔ آج بھی اگر وزیراعظم صاحب اس بحران سے بچنا چاہیں تو اس کے ایک نہیں کئی راستے موجود ہیں۔ اگر خان صاحب آج بھی اپوزیشن کو ختم کرنے کا خیال ذہن سے نکال دیں اور یہ مان لیں کہ اپوزیشن ایک زندہ حقیقت ہے۔
اس کے پاس بھی عوام کا مینڈیٹ ہے تو نہ صرف سیاست اور پارلیمنٹ میں ماحول سازگار ہو سکتا ہے بلکہ جمہوریت کو درپیش خطرات بھی ٹل سکتے ہیں۔ اور یہی ملک کے لیے بہتر ہے۔ جیو اور جینے دو میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سوچ سب کو تباہ کر دے گی۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ مائنس کرنے کا کھیل ختم کرنا ہو گا اور عوام کے فیصلے کا احترام کرنا ہوگا۔
اگر آج قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے جائیں تو سیاست اور پارلیمان میں ماحول تبدیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سارا ماحول بدل جائے گا لیکن پھر بھی برف پگھلنے کا عمل شروع ہو گا۔
اس کو ان کی کمزوری نہیں بلکہ ڈائیلاگ شروع کرنے کی طرف پہلا قدم سمجھا جائے گا۔ پارلیمنٹ کو فعال کرنے کی راہ سمجھا جائے گا۔ ماضی میں قائد حزب اختلاف کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے ہیں، وہ اسمبلی میں آئے ہیں۔ ا س وقت تو ایسا لگ رہا ہے کہ غصے اور انتقامی رویے کی وجہ سے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو قائد حزب اختلاف کو قید رکھنے کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس کا احساس اور ادراک نہیںکر رہا ہے۔
بہر حال دو سوال سیاسی میدان میں چل رہے ہیں۔ پہلا کیا استعفے آئیں گے اور دوسرا یہ کہ کیا استعفیٰ منظور ہوںگے؟ شاید حکومت ابھی تک اس خیال میں ہے کہ استعفے نہیں آئیں گے۔ اس لیے یہ بیان دیے جارہے ہیں کہ اگر آئے تو ہم منظور کر لیں گے۔ ابھی تک حکومت کو یہ خیال ہے کہ ماضی کی طرح آخری لمحے پر پیپلزپارٹی ان کے ساتھ آ جائے گی۔ لیکن کہیں نہ کہیں وزیراعظم صاحب کو یہ سوچنا ہو گا کہ اگر پیپلز پارٹی نے سیاسی قلابازی نہ کھائی تو ان کے پاس کیا متبادل ہے؟ کہیں تب وہ خود کو ایک بند گلی میں تو نہیںپہنچا چکے ہوںگے؟ اس حکومت نے دو سال میں پیپلزپارٹی کو کئی بار استعمال کیا ہے۔ کیا اس بار بھی ایسا ہوجائے گا؟
مین انتخابات سے پہلے کی کہانی نہیں لکھنا چاہتا۔ حالانکہ وہ بھی بہت اہم ہے کہ کس طرح پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو گرانے کے لیے عمران خان کا ساتھ دیا۔ جب اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھانے کی بات کی جا رہی تھی تو صرف پیپلز پارٹی تھی جس نے اعلان کیا کہ وہ اسمبلیوں میں جائے گی۔ آپ سوچیں، اگر اڑھائی سال بعد استعفوں کا اعلان سیاسی بحران کو جنم دے سکتا ہے تو اگر اپوزیشن متحدہ طور پر حلف ہی نہ اٹھاتی تو عمران خان کی اننگز شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ چلیں اس کو بھی اس تناظر میں لے لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں حکومت بنانی تھی، اس لیے حلف اٹھانا اس کی مجبوری تھی۔
لیکن بعد میں جب متحدہ اپوزیشن نے اسپیکر اور وزیر اعظم کا انتخاب مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ن لیگ نے اسپیکر کے لیے خورشید شاہ کو ووٹ بھی دیے لیکن آخری لمحے پر پیپلزپارٹی نے عمران خان کو ایک بڑی جیت دینے کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ جس کا فائدہ عمران خان کو ہوا۔ صدر پاکستان کے انتخاب میں بھی اعتزاز احسن کو یک طرفہ امیدوار نامزد کر کے عمران خان کے امیدوار عارف علوی کے لیے راستہ صاف کیا گیا۔
اسی طرح متعدد مواقعے پر پیپلزپارٹی نے الگ لائن لے کر موجودہ سیٹ اپ کی مدد کی۔ پیپلز پارٹی کی اسی پالیسی کی وجہ سے ن لیگ بھی مفاہمت کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوئی لیکن جواب میں پیپلزپارٹی کو رسوائی کے سوا کیا ملا۔ آصف زرداری کو بیماری میں جیل جانا پڑا۔ ان کی بہن کو گرفتار کیا گیا۔ سندھ سے متعدد گرفتاریاں ہوئیں۔
لگتاہے کہ اب پیپلزپارٹی فیصلہ کر چکی ہے کہ اس نے اپوزیشن کے ساتھ چلنا ہے۔ لہٰذا حزب اقتدار کو جو بھی حکمت عملی بنانی ہے، وہ یہ سوچ کر بنانی چاہیے کہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں آئے گی۔ اب تقسیم کرو اور جیتوں سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر اپوزیشن نے استعفے دے دیے تو عمران خان کے لیے وزیر اعظم رہنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اپوزیشن اور حکومت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔ ایک پہیہ پنکچر ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکے گی۔ عمران خان ایک پہیہ پر گاڑی نہیں چلا سکتے۔ لیکن ابھی وہ ایسا سوچ رہے ہیں کہ وہ اکیلے ہی گاڑی چلا سکتے ہیں۔
حکومت نے پہلے اڑھائی سال ضایع کیے ہیں۔ اگر سیاسی بحران میں مزید ایک سال نکل گیا تو تحریک انصاف کے پاس اگلے انتخاب میں عوام کے پاس جانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔ حکومت کے سامنے ابھی معاشی مشکلات موجود ہیں۔ ابھی بہت سے غیر مقبول فیصلے کرنے ہیں۔ لیکن اگر ان کے ساتھ اپوزیشن کا تعاون نہیں ہو گا تو وہ یہ فیصلے نہیں کر سکیں گے۔ وہ دوبارہ آئی ایم ایف کا پروگرام شروع نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ سیاسی بحران ان کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا اس میں کچھ فائدہ نکل آئے گا تو یہ غلط ہے۔
حکومت کو اب یہ ماننا ہو گا کہ استعفے آ ر ہے ہیں۔ لانگ مارچ بھی ہو گا۔ وہ ایک بحران میں ہوگی ۔ اس لیے حکومت کو ابھی سے اپنی سیاسی تنہائی دور کرنے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی تنازعات ختم کرنے اور دوست بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ابھی تو حکومتی اتحاد بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
ایسے میں وزیراعظم صاحب اس بات کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے کہ حکومتی اتحاد سے ایک بھی جماعت نکل جائے۔ اور کچھ نہیں تو وہ اپنے اتحاد کو مضبوط کرنے پر ہی کام شروع کر دیں۔ ابھی ق لیگ، جی ڈے اے ، ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ ضرور ہیں لیکن اپنے تحفظات کے ساتھ۔ کب تک ان کو نظرانداز کرکے ساتھ رکھیں گے۔ اپوزیشن کے باہر نکلنے کے ساتھ ان کی مجبوریوں کی زنجیریں بھی کمزور ہو جائیں گی۔ شاید عمران خان صاحب کے مشیران انھیں سچ نہیں بتا رہے۔
اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ مقتدر حلقے ملک کو کسی بڑے سیاسی بحران سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ وزیراعظم عمران خان اس بحران کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ مخالف سیاسی جماعتوں کو طاقت سے کچلنا چاہتا ہیں جب کہ مقتدر حلقے جانتے ہیںکہ ماضی میں ایسی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں بلکہ اس کے خطرنک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ دو دن سے عمران خان اپوزیشن کو ڈائیلاگ کا پیغام دے رہے ہیں لیکن یہ پیغام کم اور طعنہ زنی زیادہ لگتی ہے۔ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ ڈائیلاگ کی بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی حزب اقتدار نے ہی مفلوج کررکھا ہے۔
اگر وزیر اعظم پارلیمنٹ کو فعال کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس ضمن میں بھی سنجیدگی دکھانا ہو گی۔ اگر ایک لمحہ کے لیے یہ مان لیا جائے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ کرنے میں سنجیدہ ہیں، تو انھیں سازگار ماحول بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنا چاہییں جن سے اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ ممکن ہو سکے۔
ویسے تو مجھے زیادہ سوجھ بوجھ نہیں ہے اور مجھے کوئی عملی سیاست کا تجربہ بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے پاکستان کی سیاست کو قریب سے دیکھا ضرور ہے۔ آج بھی اگر وزیراعظم صاحب اس بحران سے بچنا چاہیں تو اس کے ایک نہیں کئی راستے موجود ہیں۔ اگر خان صاحب آج بھی اپوزیشن کو ختم کرنے کا خیال ذہن سے نکال دیں اور یہ مان لیں کہ اپوزیشن ایک زندہ حقیقت ہے۔
اس کے پاس بھی عوام کا مینڈیٹ ہے تو نہ صرف سیاست اور پارلیمنٹ میں ماحول سازگار ہو سکتا ہے بلکہ جمہوریت کو درپیش خطرات بھی ٹل سکتے ہیں۔ اور یہی ملک کے لیے بہتر ہے۔ جیو اور جینے دو میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سوچ سب کو تباہ کر دے گی۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ مائنس کرنے کا کھیل ختم کرنا ہو گا اور عوام کے فیصلے کا احترام کرنا ہوگا۔
اگر آج قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے جائیں تو سیاست اور پارلیمان میں ماحول تبدیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سارا ماحول بدل جائے گا لیکن پھر بھی برف پگھلنے کا عمل شروع ہو گا۔
اس کو ان کی کمزوری نہیں بلکہ ڈائیلاگ شروع کرنے کی طرف پہلا قدم سمجھا جائے گا۔ پارلیمنٹ کو فعال کرنے کی راہ سمجھا جائے گا۔ ماضی میں قائد حزب اختلاف کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے ہیں، وہ اسمبلی میں آئے ہیں۔ ا س وقت تو ایسا لگ رہا ہے کہ غصے اور انتقامی رویے کی وجہ سے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو قائد حزب اختلاف کو قید رکھنے کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس کا احساس اور ادراک نہیںکر رہا ہے۔
بہر حال دو سوال سیاسی میدان میں چل رہے ہیں۔ پہلا کیا استعفے آئیں گے اور دوسرا یہ کہ کیا استعفیٰ منظور ہوںگے؟ شاید حکومت ابھی تک اس خیال میں ہے کہ استعفے نہیں آئیں گے۔ اس لیے یہ بیان دیے جارہے ہیں کہ اگر آئے تو ہم منظور کر لیں گے۔ ابھی تک حکومت کو یہ خیال ہے کہ ماضی کی طرح آخری لمحے پر پیپلزپارٹی ان کے ساتھ آ جائے گی۔ لیکن کہیں نہ کہیں وزیراعظم صاحب کو یہ سوچنا ہو گا کہ اگر پیپلز پارٹی نے سیاسی قلابازی نہ کھائی تو ان کے پاس کیا متبادل ہے؟ کہیں تب وہ خود کو ایک بند گلی میں تو نہیںپہنچا چکے ہوںگے؟ اس حکومت نے دو سال میں پیپلزپارٹی کو کئی بار استعمال کیا ہے۔ کیا اس بار بھی ایسا ہوجائے گا؟
مین انتخابات سے پہلے کی کہانی نہیں لکھنا چاہتا۔ حالانکہ وہ بھی بہت اہم ہے کہ کس طرح پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو گرانے کے لیے عمران خان کا ساتھ دیا۔ جب اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھانے کی بات کی جا رہی تھی تو صرف پیپلز پارٹی تھی جس نے اعلان کیا کہ وہ اسمبلیوں میں جائے گی۔ آپ سوچیں، اگر اڑھائی سال بعد استعفوں کا اعلان سیاسی بحران کو جنم دے سکتا ہے تو اگر اپوزیشن متحدہ طور پر حلف ہی نہ اٹھاتی تو عمران خان کی اننگز شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ چلیں اس کو بھی اس تناظر میں لے لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں حکومت بنانی تھی، اس لیے حلف اٹھانا اس کی مجبوری تھی۔
لیکن بعد میں جب متحدہ اپوزیشن نے اسپیکر اور وزیر اعظم کا انتخاب مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ن لیگ نے اسپیکر کے لیے خورشید شاہ کو ووٹ بھی دیے لیکن آخری لمحے پر پیپلزپارٹی نے عمران خان کو ایک بڑی جیت دینے کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ جس کا فائدہ عمران خان کو ہوا۔ صدر پاکستان کے انتخاب میں بھی اعتزاز احسن کو یک طرفہ امیدوار نامزد کر کے عمران خان کے امیدوار عارف علوی کے لیے راستہ صاف کیا گیا۔
اسی طرح متعدد مواقعے پر پیپلزپارٹی نے الگ لائن لے کر موجودہ سیٹ اپ کی مدد کی۔ پیپلز پارٹی کی اسی پالیسی کی وجہ سے ن لیگ بھی مفاہمت کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوئی لیکن جواب میں پیپلزپارٹی کو رسوائی کے سوا کیا ملا۔ آصف زرداری کو بیماری میں جیل جانا پڑا۔ ان کی بہن کو گرفتار کیا گیا۔ سندھ سے متعدد گرفتاریاں ہوئیں۔
لگتاہے کہ اب پیپلزپارٹی فیصلہ کر چکی ہے کہ اس نے اپوزیشن کے ساتھ چلنا ہے۔ لہٰذا حزب اقتدار کو جو بھی حکمت عملی بنانی ہے، وہ یہ سوچ کر بنانی چاہیے کہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں آئے گی۔ اب تقسیم کرو اور جیتوں سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر اپوزیشن نے استعفے دے دیے تو عمران خان کے لیے وزیر اعظم رہنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اپوزیشن اور حکومت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔ ایک پہیہ پنکچر ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکے گی۔ عمران خان ایک پہیہ پر گاڑی نہیں چلا سکتے۔ لیکن ابھی وہ ایسا سوچ رہے ہیں کہ وہ اکیلے ہی گاڑی چلا سکتے ہیں۔
حکومت نے پہلے اڑھائی سال ضایع کیے ہیں۔ اگر سیاسی بحران میں مزید ایک سال نکل گیا تو تحریک انصاف کے پاس اگلے انتخاب میں عوام کے پاس جانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔ حکومت کے سامنے ابھی معاشی مشکلات موجود ہیں۔ ابھی بہت سے غیر مقبول فیصلے کرنے ہیں۔ لیکن اگر ان کے ساتھ اپوزیشن کا تعاون نہیں ہو گا تو وہ یہ فیصلے نہیں کر سکیں گے۔ وہ دوبارہ آئی ایم ایف کا پروگرام شروع نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ سیاسی بحران ان کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا اس میں کچھ فائدہ نکل آئے گا تو یہ غلط ہے۔
حکومت کو اب یہ ماننا ہو گا کہ استعفے آ ر ہے ہیں۔ لانگ مارچ بھی ہو گا۔ وہ ایک بحران میں ہوگی ۔ اس لیے حکومت کو ابھی سے اپنی سیاسی تنہائی دور کرنے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی تنازعات ختم کرنے اور دوست بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ابھی تو حکومتی اتحاد بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
ایسے میں وزیراعظم صاحب اس بات کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے کہ حکومتی اتحاد سے ایک بھی جماعت نکل جائے۔ اور کچھ نہیں تو وہ اپنے اتحاد کو مضبوط کرنے پر ہی کام شروع کر دیں۔ ابھی ق لیگ، جی ڈے اے ، ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ ضرور ہیں لیکن اپنے تحفظات کے ساتھ۔ کب تک ان کو نظرانداز کرکے ساتھ رکھیں گے۔ اپوزیشن کے باہر نکلنے کے ساتھ ان کی مجبوریوں کی زنجیریں بھی کمزور ہو جائیں گی۔ شاید عمران خان صاحب کے مشیران انھیں سچ نہیں بتا رہے۔