بچوں کی حفاظت مگر عورتوں کا استحصال
یہ عورتیں جو ہمارے بچوں کو زندگی دینے کے لیے صبح صبح دستک دیتی ہیں ان کی اپنی زندگی کی سحرکب طلوع ہوگی؟
کچھ روز قبل صبح کے وقت ہونے والی دستک پرگھرکا دروازہ کھولا تو سامنے دو پولیو ورکرکھڑی تھیں۔ تسلسل سے گھروں کا دورہ کرنے والی یہ پولیو ورکر عموماً بچے کے اسکول اورگھر واپسی کے اوقات سے باخبر ہوتی ہیں۔
اسی لیے میں نے انھیں بے وقت دروازے پرکھڑا دیکھ کرآنے کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک نے قدرے جھجکتے ہوئے ہلکی سی آواز میں مجھ سے کہا،''سنیں ہمیں معلوم ہے آپ کا بچہ اس وقت اسکول میں ہے لیکن پلیزآپ ہمیں واش روم جانے کی اجازت دے دیں۔ '' یہ کہتے ہوئے اس کی نظروں میں صرف التجا ہی نہیں بلکہ بے حد شرمندگی بھی تھی۔
میں نے لمحے بھر کو اس کی بے بس صورت دیکھی اور گھر میں داخلے کا راستہ چھوڑ دیا۔ اس واقعے کے بعد پہلی بارمیری نظر پولیو ورکرز سے وابستہ بے شمار مسائل کی طرف اٹھی اور میں ان کی کھوج میں لگ گئی۔ اس کھوج نے مجھے کئی پولیو ورکرز سے بھی ملوایا، جن کی زبانی اتنے واقعات کانوں سے گزرے کہ انھیں ایک تحریر میں سمودینا بھی شاید ممکن نہیں۔پاکستان میں پولیو ورکرزکی تعداد سیکڑوں اور ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں تک جاپہنچی ہے۔ گھر گھر جانے اور ماؤں سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اس کام پر عموماً لڑکیوں اور خواتین کو ہی مامورکیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے طبقے میں، پولیو ویکسین کی طرف سے موجود تحفظات اور خدشات کا نشانہ اکثر یہی پولیو ورکرز بنتی ہیں۔ ان کے لیے دروازے نہ کھولنا، بے عزتی کرنا، نشانہ تضحیک بنانا اور اکثر اوقات ان کو زندگی سے ہی محروم کردینے کا چلن ہمارے معاشرے میں عام ہے۔دوسری طرف پندرہ ہزارکی فکس تنخواہ پر کام کرنیوالی یہ پولیو ورکر جن کا کام ہمارے بچوں کو زندگی دینا ہے، ان کی اپنی زندگی سڑک پر چلتے پھرتے گزرتی ہے ان کے مسائل کو عام نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ صبح آٹھ بجے دفتر نام کے ایک ٹوٹے پھوٹے کمرے میں قدم رکھ کر اپنی حاضری لگوائیں اور وہاں موجود سپروائزر سے اپنا ورکنگ ایریا معلوم کرکے پیدل ہی اس سمت روانہ ہو جائیں۔ ورکنگ ایریا میں سارا دن یہ خواتین لوگوں کے ناگوار رویوں کو جھیلتی ہیں۔ صبح صبح میٹھی نیند سے بیدارکرنے پر لوگوں کی ناگوار باتیں سنتی ہیں۔ بچوں کے اسکول واپسی کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے سڑکوں اور دروازوں پر بیٹھ کرگزار دیتی ہیں، جہاں لوگوں کی نظروں کا انھیں سامنا رہتا ہے، لیکن انھیں ان رویوں سے زیادہ فکر اس بے عزتی کی ہوتی ہے جو مطلوبہ ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں سپروائزر کے ہاتھوں تمام ساتھیوں کی موجودگی میں ہوتی ہے، جس کا اثرکئی دنوں تک شرمندگی اور بے چینی کی لہریں سینے میں موجزن رکھتا ہے ۔
پولیو مہم کے تین دنوں میں یہ سارا دن فیلڈ میں کام اور شام ڈھلے تک کاغذوں کا منہ بھرنے میں جتی رہتی ہیں۔ ان تین دنوں کے علاوہ بھی ان کے لیے چھٹی کرنا یا جلدی گھر جانا قطعاً ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ فیلڈ کا کام اگرنہیں ہے، تو بھی لازم ہے کہ وہ دفتر میں ہی موجود رہیں۔اب آئیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیوکے قائم دفاترکی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔کہنے کو تو یہ دفتر ہیں لیکن اکثرکھلے میدانوں اور پارکوں میں ایک ٹیبل رکھ کر قائم کردیے جاتے ہیں۔ اس ٹیبل کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھنے کا حق صرف اور صرف سپروائزرکا ہے۔
یہ پولیو ورکر زمین پر بیٹھی یا منڈیروں پر ٹکی اپنی ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ یہاں ان کے لیے نہ تو پینے کا پانی ہوتا ہے نہ بنیادی ضروریات سے نمٹنے کے لیے واش روم نام کی کوئی جگہ۔ یہ بھوکی ہوں یا بیمار، ادارے کی طرف سے ان کو کوئی سہولت سرے سے دی ہی نہیں جاتی۔ ان پولیو ورکرزکی ایک بڑی تعداد کا تعلق سماج کے پسے اورکچلے ہوئے طبقے سے ہے۔
بے مہار معاشی مسائل اور خوداعتمادی کی کمی کے باعث یہ اپنے حق کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتیں۔ مزید افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عورتوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنیوالے بڑے بڑے اور نامی گرامی اداروں کو بھی گھرگھر گھومتی یہ فاقہ زدہ پولیو ورکر دکھائی نہیں دیتیں۔پولیوکے نام پر ایک بہت بڑا دھندا پاکستان میں چل رہا ہے۔ یونیسیف ہر سال کسی مقامی کمپنی کو پولیو مٹاؤ پروگرام کا ٹھیکا دے کر ساتھ پورے سال کا مطلوبہ ہدف بھی تھما دیتی ہیں۔
یہ مقامی کمپنی مقامی اسٹائل میں ہی انسانیت کا رج کے جو استحصال کرتی ہیں وہ ان لیڈی پولیو ورکرزکی پیلی آنکھوں میں جھانک کر بہ خوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈھائی سے تین لاکھ پولیو ورکر اس وقت پورے پاکستان میں کام کر رہے ہیں، جن میں ستر سے اسی فی صد تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔ کیا یہ بات مضحکہ خیز نہیں کہ یہ بین الاقوامی ادارے جو پاکستان میں عورتوں پر ہونیوالے مظالم کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، جب خود یہاں خدمت اور جذبے کا لیبل لگا کر آتے ہیں اس وقت عورتوں کے استحصال میں سب پر بازی لے جاتے ہیں۔
پولیو بچاؤ مہم میں پستی عورتیں اور لڑکیاں اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ اگر واقعی یہ ادارے انسانی حقوق کے علم بردار ہیں اور عورتوں کو باعزت طور پر معاشرتی اور معاشی دھارے میں لانے کے خواہش مند بھی ہیں، تو کیوں ٹھیکا دیتے وقت مقامی اداروں کو اس بات کا پابند نہیں کرتے کہ اس مہم کے دوران کسی قسم کا استحصال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ان کا مقصد بھی صرف فنڈ کے حصول اور کاغذوں کے پیٹ بھرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ موسمِ سرما پاکستان میں قدم رکھ چکا ہے۔ اب بھی ہم ان پولیو ورکرز کو صبح آٹھ سے شام پانچ تک کھلے میدانوں، پارکوں اور بس اسٹاپوں پر بیٹھا دیکھ کرگزر جائیں گے۔
ایک لمحے کو یہ خیال ہماری روح کو زخمی نہ کرے گا کہ ان قومی اور بین الاقوامی استحصالی اداروں نے محض پندرہ ہزار میں ان ورکرزکا کھانا پینا، بنیادی ضروریات کی تکمیل حتٰی کہ موسم کی سختی سے بچاؤ تک کا حق خرید لیا ہے۔ یہ عورتیں جو ہمارے بچوں کو زندگی دینے کے لیے صبح صبح دستک دیتی ہیں ان کی اپنی زندگی کی سحرکب طلوع ہوگی؟
اسی لیے میں نے انھیں بے وقت دروازے پرکھڑا دیکھ کرآنے کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک نے قدرے جھجکتے ہوئے ہلکی سی آواز میں مجھ سے کہا،''سنیں ہمیں معلوم ہے آپ کا بچہ اس وقت اسکول میں ہے لیکن پلیزآپ ہمیں واش روم جانے کی اجازت دے دیں۔ '' یہ کہتے ہوئے اس کی نظروں میں صرف التجا ہی نہیں بلکہ بے حد شرمندگی بھی تھی۔
میں نے لمحے بھر کو اس کی بے بس صورت دیکھی اور گھر میں داخلے کا راستہ چھوڑ دیا۔ اس واقعے کے بعد پہلی بارمیری نظر پولیو ورکرز سے وابستہ بے شمار مسائل کی طرف اٹھی اور میں ان کی کھوج میں لگ گئی۔ اس کھوج نے مجھے کئی پولیو ورکرز سے بھی ملوایا، جن کی زبانی اتنے واقعات کانوں سے گزرے کہ انھیں ایک تحریر میں سمودینا بھی شاید ممکن نہیں۔پاکستان میں پولیو ورکرزکی تعداد سیکڑوں اور ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں تک جاپہنچی ہے۔ گھر گھر جانے اور ماؤں سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اس کام پر عموماً لڑکیوں اور خواتین کو ہی مامورکیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے طبقے میں، پولیو ویکسین کی طرف سے موجود تحفظات اور خدشات کا نشانہ اکثر یہی پولیو ورکرز بنتی ہیں۔ ان کے لیے دروازے نہ کھولنا، بے عزتی کرنا، نشانہ تضحیک بنانا اور اکثر اوقات ان کو زندگی سے ہی محروم کردینے کا چلن ہمارے معاشرے میں عام ہے۔دوسری طرف پندرہ ہزارکی فکس تنخواہ پر کام کرنیوالی یہ پولیو ورکر جن کا کام ہمارے بچوں کو زندگی دینا ہے، ان کی اپنی زندگی سڑک پر چلتے پھرتے گزرتی ہے ان کے مسائل کو عام نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ صبح آٹھ بجے دفتر نام کے ایک ٹوٹے پھوٹے کمرے میں قدم رکھ کر اپنی حاضری لگوائیں اور وہاں موجود سپروائزر سے اپنا ورکنگ ایریا معلوم کرکے پیدل ہی اس سمت روانہ ہو جائیں۔ ورکنگ ایریا میں سارا دن یہ خواتین لوگوں کے ناگوار رویوں کو جھیلتی ہیں۔ صبح صبح میٹھی نیند سے بیدارکرنے پر لوگوں کی ناگوار باتیں سنتی ہیں۔ بچوں کے اسکول واپسی کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے سڑکوں اور دروازوں پر بیٹھ کرگزار دیتی ہیں، جہاں لوگوں کی نظروں کا انھیں سامنا رہتا ہے، لیکن انھیں ان رویوں سے زیادہ فکر اس بے عزتی کی ہوتی ہے جو مطلوبہ ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں سپروائزر کے ہاتھوں تمام ساتھیوں کی موجودگی میں ہوتی ہے، جس کا اثرکئی دنوں تک شرمندگی اور بے چینی کی لہریں سینے میں موجزن رکھتا ہے ۔
پولیو مہم کے تین دنوں میں یہ سارا دن فیلڈ میں کام اور شام ڈھلے تک کاغذوں کا منہ بھرنے میں جتی رہتی ہیں۔ ان تین دنوں کے علاوہ بھی ان کے لیے چھٹی کرنا یا جلدی گھر جانا قطعاً ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ فیلڈ کا کام اگرنہیں ہے، تو بھی لازم ہے کہ وہ دفتر میں ہی موجود رہیں۔اب آئیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیوکے قائم دفاترکی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔کہنے کو تو یہ دفتر ہیں لیکن اکثرکھلے میدانوں اور پارکوں میں ایک ٹیبل رکھ کر قائم کردیے جاتے ہیں۔ اس ٹیبل کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھنے کا حق صرف اور صرف سپروائزرکا ہے۔
یہ پولیو ورکر زمین پر بیٹھی یا منڈیروں پر ٹکی اپنی ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ یہاں ان کے لیے نہ تو پینے کا پانی ہوتا ہے نہ بنیادی ضروریات سے نمٹنے کے لیے واش روم نام کی کوئی جگہ۔ یہ بھوکی ہوں یا بیمار، ادارے کی طرف سے ان کو کوئی سہولت سرے سے دی ہی نہیں جاتی۔ ان پولیو ورکرزکی ایک بڑی تعداد کا تعلق سماج کے پسے اورکچلے ہوئے طبقے سے ہے۔
بے مہار معاشی مسائل اور خوداعتمادی کی کمی کے باعث یہ اپنے حق کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتیں۔ مزید افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عورتوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنیوالے بڑے بڑے اور نامی گرامی اداروں کو بھی گھرگھر گھومتی یہ فاقہ زدہ پولیو ورکر دکھائی نہیں دیتیں۔پولیوکے نام پر ایک بہت بڑا دھندا پاکستان میں چل رہا ہے۔ یونیسیف ہر سال کسی مقامی کمپنی کو پولیو مٹاؤ پروگرام کا ٹھیکا دے کر ساتھ پورے سال کا مطلوبہ ہدف بھی تھما دیتی ہیں۔
یہ مقامی کمپنی مقامی اسٹائل میں ہی انسانیت کا رج کے جو استحصال کرتی ہیں وہ ان لیڈی پولیو ورکرزکی پیلی آنکھوں میں جھانک کر بہ خوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈھائی سے تین لاکھ پولیو ورکر اس وقت پورے پاکستان میں کام کر رہے ہیں، جن میں ستر سے اسی فی صد تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔ کیا یہ بات مضحکہ خیز نہیں کہ یہ بین الاقوامی ادارے جو پاکستان میں عورتوں پر ہونیوالے مظالم کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، جب خود یہاں خدمت اور جذبے کا لیبل لگا کر آتے ہیں اس وقت عورتوں کے استحصال میں سب پر بازی لے جاتے ہیں۔
پولیو بچاؤ مہم میں پستی عورتیں اور لڑکیاں اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ اگر واقعی یہ ادارے انسانی حقوق کے علم بردار ہیں اور عورتوں کو باعزت طور پر معاشرتی اور معاشی دھارے میں لانے کے خواہش مند بھی ہیں، تو کیوں ٹھیکا دیتے وقت مقامی اداروں کو اس بات کا پابند نہیں کرتے کہ اس مہم کے دوران کسی قسم کا استحصال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ان کا مقصد بھی صرف فنڈ کے حصول اور کاغذوں کے پیٹ بھرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ موسمِ سرما پاکستان میں قدم رکھ چکا ہے۔ اب بھی ہم ان پولیو ورکرز کو صبح آٹھ سے شام پانچ تک کھلے میدانوں، پارکوں اور بس اسٹاپوں پر بیٹھا دیکھ کرگزر جائیں گے۔
ایک لمحے کو یہ خیال ہماری روح کو زخمی نہ کرے گا کہ ان قومی اور بین الاقوامی استحصالی اداروں نے محض پندرہ ہزار میں ان ورکرزکا کھانا پینا، بنیادی ضروریات کی تکمیل حتٰی کہ موسم کی سختی سے بچاؤ تک کا حق خرید لیا ہے۔ یہ عورتیں جو ہمارے بچوں کو زندگی دینے کے لیے صبح صبح دستک دیتی ہیں ان کی اپنی زندگی کی سحرکب طلوع ہوگی؟