بیروزگاری کا بڑھتا ہوا رجحان
سرکاری اداروں سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستانی معیشت کی موجودہ گمبھیر صورتحال نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ خستہ حال معیشت نے عوام کو بہت بری طرح متاثرکیا ہے پھر ملک میں بے قابو مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے عوام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مہنگائی کم کرنے اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا الٹ ہی ہو رہا ہے۔
سرکاری اداروں سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے اسٹیل مل سے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے، ملک کے ایک اور بڑے ادارے پی آئی اے سے بھی ساڑھے تین ہزار ملازمین کو ریٹائرکرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
پرائیویٹ فرموں سے بھی ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے ایسی صورت حال میں ان کے خاندانوں کا کیا بنے گا؟ اسٹیل مل کے ملازمین نے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج جاری کر رکھا ہے، گزشتہ دنوں انھوں نے نیشنل ہائی وے پر شدید احتجاج کیا اور اسے گھنٹوں بلاک رکھا جس سے گاڑیوں کی آمد ورفت رکی رہی پھر انھوں نے ریلوے لائن پر دھرنا دیا وہ ریلوے لائن پر لیٹ بھی گئے اور موت کو اپنی بے روزگاری پر ترجیح دینے لگے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اسٹیل مل ملازمین کو فارغ کرنے کی کابینہ نے بھی منظوری دے دی ہے البتہ انھیں گولڈن شیک ہینڈکے طور پر مناسب رقم دے کر فارغ کیا جائے گا یہ خبر تو اچھی ہے مگر اس سے ملازمین مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اپنی نوکریوں کو بحال کرانے کے مطالبے پر قائم ہیں۔ دیگر اداروں کے جن ملازمین کو فارغ کیا گیا ہے وہ بھی محو احتجاج ہیں مگر لگتا ہے یہ سب آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہی کیا جا رہا ہے تاکہ حکومتی اخراجات کو کم کیا جاسکے لیکن ایسے اقدامات سے عوام پر سنگین نتائج ظاہر ہوں گے۔
اندرون ملک تو بے روزگاری کے بڑھنے کا رجحان چل ہی رہا ہے ادھر خلیجی ممالک میں بھی پاکستانیوں کی نوکریوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے ممکنہ طور پر پاکستانیوں کے لیے وزٹ اور ورک ویزے بند ہونے سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا، اگرکورونا کی وجہ سے پاکستانیوں کے ویزے بند کر دیے گئے تو پھر بھارتیوں کوکیوں ویزے جاری کیے جا رہے ہیں؟ وہاں تو پاکستان سے کئی گنا کورونا پھیلا ہوا ہے اورکروڑوں لوگ اس سے متاثر ہیں ہلاکتیں مسلسل بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔
پاکستانی حکومت ویزوں کو جاری کرانے کے لیے ضرور کوششیں کر رہی ہے مگر ابھی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یو اے ای کے وزیر خارجہ سے نائیجیریا میں او آئی سی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کرکے ویزوں کے سلسلے میں بات کی ہے ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے بھی یو اے ای کے حکام سے بات کی ہے مگر معاملات واضح نہیںہیں اب انھوں نے وزیر اعظم عمران خان سے کہا ہے کہ وہ خود اس سلسلے میں یو اے ای کے ولی عہد سے بات کریں۔ اس وقت دراصل وہاں نریندر مودی کا جادو چل رہا ہے۔
ورک ویزے کی پابندی سے تین ہزار سے زائد پاکستانی ورکرز جو اپنے ورک ویزے کا انتظار کر رہے تھے اب ناامیدی کا شکار ہوگئے ہیں جب کہ پاکستانی ورکرزکے بجائے بھارتیوں کو بلاتعامل ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ خدشات ابھی تک موجود ہیں، اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔ اس سنگین صورت حال کو سدھارنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو ان ممالک کے خیر سگالی دورے کرنا بہت ضروری ہے تاکہ معاملات میں بہتری لائی جا سکے۔
ملک میں ملازمین کو جو بڑی تعداد میں فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس سے ملک میں غربت کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسٹیل مل اور پی آئی اے سے ملازمین کی بڑی تعداد میں فارغ کیے جانے کے فیصلے پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے سخت تنقیدکی ہے۔ بلاول بھٹو نے حکومت کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کوکہا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ان حکومتی فیصلوں کو عوام دشمن قرار دیا ہے ساتھ پی آئی اے کے ہیڈ آفس کوکراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے پر بھی تنقید کی ہے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی اسٹیل مل اور پی آئی اے کے ملازمین کو فارغ کرنے کو ملک میں بحران پیدا کرنے کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ کیا بہتر ہوتا کہ حکومت اسٹیل مل کی کارکردگی بڑھانے پر توجہ دیتی اور پی آئی اے کو ایک موثر ادارہ بنانے کے لیے اقدامات کرتی۔ ملازمین کو فارغ کرکے اس نے خود اپنے انتخابی منشور کی خلاف ورزی کی ہے۔
تاہم لگتا ہے حکومت خود بھی ملازمین کو فارغ کرنے کی پالیسی سے ناخوش ہے دراصل اسے مجبوراً یہ اقدامات اٹھانے پڑے ہیں۔ اس نے ملک میں بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی لاہور کے قریب نیا شہر آباد کرنے کا پلان بنایا ہے یہ منصوبہ اگر شروع ہو گیا تو یقینا ہزاروں نوکریاں نکلیں گی۔ حکومت نے کراچی کے ساحل کے قریب بنڈل آئی لینڈ کو بھی آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے وہ یقیناً ملک میں خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ بنڈل آئی لینڈ کی تعمیر کے بعد وہاں روزگار اور ملازمتوں کے وافر مواقع میسر آسکیں گے۔ گوادر بندرگاہ کے مکمل ہونے کے بعد بھی وہاں ہزاروں نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بدقسمتی سے اس وقت کئی بینکوں سے بھی ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ساتھ ہی ان کی پنشن اور دیگر فوائد میں بھی ڈنڈی ماری جا رہی ہے۔
سرکاری اداروں سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے اسٹیل مل سے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے، ملک کے ایک اور بڑے ادارے پی آئی اے سے بھی ساڑھے تین ہزار ملازمین کو ریٹائرکرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
پرائیویٹ فرموں سے بھی ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے ایسی صورت حال میں ان کے خاندانوں کا کیا بنے گا؟ اسٹیل مل کے ملازمین نے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج جاری کر رکھا ہے، گزشتہ دنوں انھوں نے نیشنل ہائی وے پر شدید احتجاج کیا اور اسے گھنٹوں بلاک رکھا جس سے گاڑیوں کی آمد ورفت رکی رہی پھر انھوں نے ریلوے لائن پر دھرنا دیا وہ ریلوے لائن پر لیٹ بھی گئے اور موت کو اپنی بے روزگاری پر ترجیح دینے لگے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اسٹیل مل ملازمین کو فارغ کرنے کی کابینہ نے بھی منظوری دے دی ہے البتہ انھیں گولڈن شیک ہینڈکے طور پر مناسب رقم دے کر فارغ کیا جائے گا یہ خبر تو اچھی ہے مگر اس سے ملازمین مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اپنی نوکریوں کو بحال کرانے کے مطالبے پر قائم ہیں۔ دیگر اداروں کے جن ملازمین کو فارغ کیا گیا ہے وہ بھی محو احتجاج ہیں مگر لگتا ہے یہ سب آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہی کیا جا رہا ہے تاکہ حکومتی اخراجات کو کم کیا جاسکے لیکن ایسے اقدامات سے عوام پر سنگین نتائج ظاہر ہوں گے۔
اندرون ملک تو بے روزگاری کے بڑھنے کا رجحان چل ہی رہا ہے ادھر خلیجی ممالک میں بھی پاکستانیوں کی نوکریوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے ممکنہ طور پر پاکستانیوں کے لیے وزٹ اور ورک ویزے بند ہونے سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا، اگرکورونا کی وجہ سے پاکستانیوں کے ویزے بند کر دیے گئے تو پھر بھارتیوں کوکیوں ویزے جاری کیے جا رہے ہیں؟ وہاں تو پاکستان سے کئی گنا کورونا پھیلا ہوا ہے اورکروڑوں لوگ اس سے متاثر ہیں ہلاکتیں مسلسل بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔
پاکستانی حکومت ویزوں کو جاری کرانے کے لیے ضرور کوششیں کر رہی ہے مگر ابھی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یو اے ای کے وزیر خارجہ سے نائیجیریا میں او آئی سی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کرکے ویزوں کے سلسلے میں بات کی ہے ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے بھی یو اے ای کے حکام سے بات کی ہے مگر معاملات واضح نہیںہیں اب انھوں نے وزیر اعظم عمران خان سے کہا ہے کہ وہ خود اس سلسلے میں یو اے ای کے ولی عہد سے بات کریں۔ اس وقت دراصل وہاں نریندر مودی کا جادو چل رہا ہے۔
ورک ویزے کی پابندی سے تین ہزار سے زائد پاکستانی ورکرز جو اپنے ورک ویزے کا انتظار کر رہے تھے اب ناامیدی کا شکار ہوگئے ہیں جب کہ پاکستانی ورکرزکے بجائے بھارتیوں کو بلاتعامل ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ خدشات ابھی تک موجود ہیں، اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔ اس سنگین صورت حال کو سدھارنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو ان ممالک کے خیر سگالی دورے کرنا بہت ضروری ہے تاکہ معاملات میں بہتری لائی جا سکے۔
ملک میں ملازمین کو جو بڑی تعداد میں فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس سے ملک میں غربت کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسٹیل مل اور پی آئی اے سے ملازمین کی بڑی تعداد میں فارغ کیے جانے کے فیصلے پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے سخت تنقیدکی ہے۔ بلاول بھٹو نے حکومت کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کوکہا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ان حکومتی فیصلوں کو عوام دشمن قرار دیا ہے ساتھ پی آئی اے کے ہیڈ آفس کوکراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے پر بھی تنقید کی ہے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی اسٹیل مل اور پی آئی اے کے ملازمین کو فارغ کرنے کو ملک میں بحران پیدا کرنے کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ کیا بہتر ہوتا کہ حکومت اسٹیل مل کی کارکردگی بڑھانے پر توجہ دیتی اور پی آئی اے کو ایک موثر ادارہ بنانے کے لیے اقدامات کرتی۔ ملازمین کو فارغ کرکے اس نے خود اپنے انتخابی منشور کی خلاف ورزی کی ہے۔
تاہم لگتا ہے حکومت خود بھی ملازمین کو فارغ کرنے کی پالیسی سے ناخوش ہے دراصل اسے مجبوراً یہ اقدامات اٹھانے پڑے ہیں۔ اس نے ملک میں بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی لاہور کے قریب نیا شہر آباد کرنے کا پلان بنایا ہے یہ منصوبہ اگر شروع ہو گیا تو یقینا ہزاروں نوکریاں نکلیں گی۔ حکومت نے کراچی کے ساحل کے قریب بنڈل آئی لینڈ کو بھی آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے وہ یقیناً ملک میں خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ بنڈل آئی لینڈ کی تعمیر کے بعد وہاں روزگار اور ملازمتوں کے وافر مواقع میسر آسکیں گے۔ گوادر بندرگاہ کے مکمل ہونے کے بعد بھی وہاں ہزاروں نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بدقسمتی سے اس وقت کئی بینکوں سے بھی ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ساتھ ہی ان کی پنشن اور دیگر فوائد میں بھی ڈنڈی ماری جا رہی ہے۔