گمراہی کا طوفان اور روشنی کے چراغ
علم اس دنیا سے بڑی تیزی سے مٹتا جا رہا ہے اور جہالت کے اندھیرے بڑھتے جارہے ہیں
لبنان کا ایک مالدار آدمی امیل مرشد البستانی تھا۔ اس نے اپنے لیے ایک خوبصورت علاقے میں، جو کہ بیروت کے ساحل پر تھا، اپنی آخری آرام گاہ تعمیر کرائی اور کہا کہ میرے مرنے پر مجھے یہاں دفن کیا جائے۔ 1963 میں اپنے ذاتی جہاز میں سفر کے دوران بیروت کے ساحل پر طوفان میں اس کا جہاز کریش ہوگیا اور وہ سمندر میں ڈوب گیا۔ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پر بھی جہاز کا ڈھانچہ تو مل گیا مگر اس کی لاش نہیں ملی کہ اسے اس کی خواہش کے مطابق وہاں دفن کیا جاسکے جہاں دفن ہونے کی وہ خواہش رکھتا تھا۔
برطانیہ کا ایک مالدار آدمی یہودی النسل تھا جو اتنا امیر تھا کہ حکومت کو بھی قرض دیتا تھا اور اس نے اپنے محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کےلیے بنایا ہوا تھا جو ہر وقت دولت سے بھرا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ غلطی سے بند ہوگیا جو کہ صرف باہر سے ہی کھل سکتا تھا۔ وہ کئی دنوں تک گھر سے باہر رہتا تھا اس لیے اس کے غائب ہونے کا کسی کو پتہ نہ چلا۔ وہ چیختا رہا مگر اتنے بڑے محل میں اس کی آواز کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ وہ دروازہ پیٹتا رہا لیکن کوئی اس کو کھولنے والا نہ آیا، مگر اس کے اپنے ہاتھ زخمی ہوگئے۔ اس نے اپنے خون سے دیوار پر لکھا کہ ''دنیا کا امیر ترین آدمی آج بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے''۔ وہ اپنے اسی دولت والے کمرے میں بھوک اور پیاس سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔
دنیاوی دولت دنیا میں رہ جانے والی ہے مگر دنیا میں ایک ایسی دولت بھی ہے جو ساتھ جانے والی ہے، اور وہ ہے علم کی دولت۔ علم کی دولت ایک ایسی شمع کی مانند ہے جو کئی دلوں کو منور کردیتی ہے اور اس کی روشنی مرنے کے بعد بھی آپ کی قبر کی تاریکی کو روشن کرتی رہتی ہے۔ موت برحق ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں۔ چاہے آپ جس مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، موت سے نہیں بچ سکتے، مگر مسئلہ موت کے بعد کا ہے کہ موت بعد کیا؟
2020 کا سال مسلمانوں کےلیے ایک غم کا سال تھا کہ اس سال برصغیر پاک و ہند میں کئی ایسے علم کے مینار بجھ گئے جن کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ علما کسی بھی معاشرے کا حسن اور وقار ہوتے ہیں۔ علما کا وجود معاشروں کےلیے اس اعتبار سے انتہائی ضروری ہے کہ عوام الناس ان سے شرعی، دینی، سماجی و دیگر معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں اور گمراہی کے طوفان میں بھی اپنے لیے صحیح راستے کا تعین کرلیتے ہیں۔
اس سال بہت سے جید علمائے کرام اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور اپنے ساتھ علم کا ایک بہت بڑا خزانہ بھی ساتھ لے گئے۔ علم کا اٹھ جانا اسی کو کہا گیا ہے۔ جیسے کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ علم چھینا نہیں جاتا بلکہ علما کے وفات پا جانے سے اس دنیا سے مٹ جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
''علم آدمیوں سے چھینا نہیں جاتا، لیکن علما کے مٹنے سے مٹ جاتا ہے، یہاں تک کہ جب عالم باقی نہیں رہتے تو لوگ جاہلوں کو سردار اور پیشوا بنا لیتے ہیں، جو علم کے بغیر فتویٰ دیتے ہیں، اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور مخلوق کو بھی گمراہ کر ڈالتے ہیں۔''(صحیح بخاری)
یہ سال اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم نے زندگی کے اس سال، جو گزر گیا، کیا پایا اور کیا کھو دیا۔ ہم نے جھوٹ، بھوک، مہنگائی، کرب، افراتفری، نفرت، بدتہذیبی، زنا، بچوں سے زیادتی، مردہ دل اور بے چین روح جیسی چیزوں کو اس سال بہت زیادہ پھلتے پھولتے پایا اور سچائی، محبت، اخلاص، بھائی چارہ، ہمدردی، نیکی اور کئی علم کے میناروں کو مٹتے ہوئے پایا۔ اس سال مولانا عبدالحمید ہزاروی، پروفیسر ثناء اللہ خاں، مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی، مولانا یحییٰ رسول نگری، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم، مولانا عزیزالرحمٰن ہزاروی، مولانا سید عبدالعزیز شاہ، مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری، علامہ ارشد حسن ثاقب، مولانا عبدالہادی، مولانا عبیدالرحمن ضیاء، ڈاکٹر عبدالمقیم، مولانا عبدالرؤف، خواجہ عزیز احمد بہلوی، مولانا قاری تصور الحق مدنی، علامہ خادم حسین رضوی، علامہ غلام محمد سیالوی اور کئی ایسے علم کے مینار بجھ گئے جن سے کئی چراغوں نے روشنی حاصل کی تھی۔ ان علما کی موت امت کےلیے لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عالم مرتے چلے جائیں گے اور ان کے ساتھ حق کے نشان بھی مٹتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ جب جاہل زیادہ ہوجائیں گے اور اہل علم فنا ہوچکیں گے تو لوگ جہل پر عمل اور باطل پر یقین کرنے لگیں گے، اس طرح گمراہی مکمل ہوجائے گی۔
علم اس دنیا سے بڑی تیزی سے مٹتا جا رہا ہے اور جہالت کے اندھیرے بڑھتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان جہالت کے اندھیروں سے بچائے اور ہمیں علما کی وفات سے ملنے والے اسباق کو اپنے دل میں جگہ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے سروں پر ان علمائے حق کا سایہ قائم رکھے جو ہم جیسے عام آدمی تک ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ وعلیہ وسلم کی میراث پہنچاتے رہیں اور گمراہی کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ روشن رکھیں۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برطانیہ کا ایک مالدار آدمی یہودی النسل تھا جو اتنا امیر تھا کہ حکومت کو بھی قرض دیتا تھا اور اس نے اپنے محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کےلیے بنایا ہوا تھا جو ہر وقت دولت سے بھرا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ غلطی سے بند ہوگیا جو کہ صرف باہر سے ہی کھل سکتا تھا۔ وہ کئی دنوں تک گھر سے باہر رہتا تھا اس لیے اس کے غائب ہونے کا کسی کو پتہ نہ چلا۔ وہ چیختا رہا مگر اتنے بڑے محل میں اس کی آواز کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ وہ دروازہ پیٹتا رہا لیکن کوئی اس کو کھولنے والا نہ آیا، مگر اس کے اپنے ہاتھ زخمی ہوگئے۔ اس نے اپنے خون سے دیوار پر لکھا کہ ''دنیا کا امیر ترین آدمی آج بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے''۔ وہ اپنے اسی دولت والے کمرے میں بھوک اور پیاس سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔
دنیاوی دولت دنیا میں رہ جانے والی ہے مگر دنیا میں ایک ایسی دولت بھی ہے جو ساتھ جانے والی ہے، اور وہ ہے علم کی دولت۔ علم کی دولت ایک ایسی شمع کی مانند ہے جو کئی دلوں کو منور کردیتی ہے اور اس کی روشنی مرنے کے بعد بھی آپ کی قبر کی تاریکی کو روشن کرتی رہتی ہے۔ موت برحق ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں۔ چاہے آپ جس مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، موت سے نہیں بچ سکتے، مگر مسئلہ موت کے بعد کا ہے کہ موت بعد کیا؟
2020 کا سال مسلمانوں کےلیے ایک غم کا سال تھا کہ اس سال برصغیر پاک و ہند میں کئی ایسے علم کے مینار بجھ گئے جن کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ علما کسی بھی معاشرے کا حسن اور وقار ہوتے ہیں۔ علما کا وجود معاشروں کےلیے اس اعتبار سے انتہائی ضروری ہے کہ عوام الناس ان سے شرعی، دینی، سماجی و دیگر معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں اور گمراہی کے طوفان میں بھی اپنے لیے صحیح راستے کا تعین کرلیتے ہیں۔
اس سال بہت سے جید علمائے کرام اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور اپنے ساتھ علم کا ایک بہت بڑا خزانہ بھی ساتھ لے گئے۔ علم کا اٹھ جانا اسی کو کہا گیا ہے۔ جیسے کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ علم چھینا نہیں جاتا بلکہ علما کے وفات پا جانے سے اس دنیا سے مٹ جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
''علم آدمیوں سے چھینا نہیں جاتا، لیکن علما کے مٹنے سے مٹ جاتا ہے، یہاں تک کہ جب عالم باقی نہیں رہتے تو لوگ جاہلوں کو سردار اور پیشوا بنا لیتے ہیں، جو علم کے بغیر فتویٰ دیتے ہیں، اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور مخلوق کو بھی گمراہ کر ڈالتے ہیں۔''(صحیح بخاری)
یہ سال اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم نے زندگی کے اس سال، جو گزر گیا، کیا پایا اور کیا کھو دیا۔ ہم نے جھوٹ، بھوک، مہنگائی، کرب، افراتفری، نفرت، بدتہذیبی، زنا، بچوں سے زیادتی، مردہ دل اور بے چین روح جیسی چیزوں کو اس سال بہت زیادہ پھلتے پھولتے پایا اور سچائی، محبت، اخلاص، بھائی چارہ، ہمدردی، نیکی اور کئی علم کے میناروں کو مٹتے ہوئے پایا۔ اس سال مولانا عبدالحمید ہزاروی، پروفیسر ثناء اللہ خاں، مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی، مولانا یحییٰ رسول نگری، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم، مولانا عزیزالرحمٰن ہزاروی، مولانا سید عبدالعزیز شاہ، مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری، علامہ ارشد حسن ثاقب، مولانا عبدالہادی، مولانا عبیدالرحمن ضیاء، ڈاکٹر عبدالمقیم، مولانا عبدالرؤف، خواجہ عزیز احمد بہلوی، مولانا قاری تصور الحق مدنی، علامہ خادم حسین رضوی، علامہ غلام محمد سیالوی اور کئی ایسے علم کے مینار بجھ گئے جن سے کئی چراغوں نے روشنی حاصل کی تھی۔ ان علما کی موت امت کےلیے لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عالم مرتے چلے جائیں گے اور ان کے ساتھ حق کے نشان بھی مٹتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ جب جاہل زیادہ ہوجائیں گے اور اہل علم فنا ہوچکیں گے تو لوگ جہل پر عمل اور باطل پر یقین کرنے لگیں گے، اس طرح گمراہی مکمل ہوجائے گی۔
علم اس دنیا سے بڑی تیزی سے مٹتا جا رہا ہے اور جہالت کے اندھیرے بڑھتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان جہالت کے اندھیروں سے بچائے اور ہمیں علما کی وفات سے ملنے والے اسباق کو اپنے دل میں جگہ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے سروں پر ان علمائے حق کا سایہ قائم رکھے جو ہم جیسے عام آدمی تک ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ وعلیہ وسلم کی میراث پہنچاتے رہیں اور گمراہی کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ روشن رکھیں۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔