پاکستانی عوام اور جبر مسلسل

عام آدمی کل بھی مشقتوں کا بوجھ اٹھائے زندگی گزار رہا تھا اور آج بھی کسی مسیحا کا منتظر ہے

اس ملک کے غریب عوام کی قسمت میں صرف نعرے لکھ دیے گئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''چلو چلو لاہور چلو''۔ ''چلو چلو لاڑکانہ چلو''۔ ''چلو چلو پشاور چلو''۔ ''ملتان چلو''۔ ''فیصل آباد چلو''۔ ''لیاقت باغ چلو''۔ ''قاسم باغ چلو''۔ ''مینار پاکستان چلو''۔ یہ اور اس جیسے ملتے جلتے نہ جانے کتنے ہی نعرے ہیں جو اس ملک کے غریب عوام کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں اور ان کو سنتے سنتے ہماری کئی نسلیں منوں مٹی تلے جا سوئیں، اور اب ہم ان ہی نعروں کی گونج میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور نہ جانے کب تک ہماری آئندہ آنے والے نسلیں ان ہی کھوکھلے نعروں کے دھوکے میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتی رہیں گی۔

بظاہر دیکھنے میں ان نعروں میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، کیونکہ یہ نعرے ہمارے وہ لیڈر لگواتے ہیں جن کے پیٹ میں ہماری خدمت کے مروڑ اٹھتے ہیں اور ہمارے دکھ درد اور پریشانیوں کی بدولت ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ عوام کو ان کے خوابوں کی تعبیر پانے کے راستے دکھانے کےلیے چلو چلو کراتے ہیں اور عوام ہر بار اسی آس پر کہ شاید اس بار کا چلنا ان کے نصیب بدل دے اور ان کھوٹے سکوں میں سے کوئی کھرا سکہ نکل آئے، ہر بار ان کے چکر میں آجاتے ہیں۔ اور جب اس کھیل کے میدان میں سیاسی چالوں کی اٹھی ہوئی گرد بیٹھتی ہے تو ان کے رہنما اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں اور عوام اسی گرد دھول میں اٹے چہرے لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو اپنے چہرے تو پانی سے دھو لیتے ہیں، مگر اپنے نصیبوں پر پڑی مٹی جھاڑنے کےلیے وہ پھر ایک نئے مسیحا کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک کے حالات و واقعات کا اگر غیر جانبداری سے مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو کیا ہم عوام اسی صورتحال کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں ہیں؟ 1947 سے 1956 تک ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ پہلا آئین جو 1956 میں بنا اس کو 1962 میں چلتا کرکے دوسرا آئین بنایا گیا اور پھر 1973 میں اسے فارغ کرکے تیسرا متفقہ آئین بنایا گیا، جو کئی ترامیم کے ساتھ ابھی ملک میں نافذ ہے۔ ملک میں صدارتی نظام کا بھی تجربہ کیا گیا اور جمہوریت کا بھی۔ اس کے علاوہ ملک میں مارشل لاء کے طویل چسکے بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ہر سول اور فوجی نظام اور ہر حکمران کا نعرہ ملک و عوام کی بہتری، کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ، چوروں اور مجرموں کا کڑا احتساب اور غداروں سے ملک کو نجات دلانا ہی رہا ہے۔ مگر عملی طور پر کیا ہوتا رہا اور اب بھی کیا ہورہا ہے کہ اپوزیشن سے حکومت میں آتے ہی ہر کسی نے اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ جن چوروں اور مجرموں کے خلاف ساری مہم چلتی رہی بعد میں ان کو اپنے ساتھ شامل کرکے اپنے ساتھ نہ ملنے والوں کے خلاف احتساب کا شکنجہ کسنے کا کام شروع کردیا گیا۔ حکومت میں آتے ہی ہر وہ کام کیا گیا جسے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حرام، کرپشن اور غداری سے تعبیر کیا جاتا رہا اور جن کاموں کی مخالفت کی وجہ سے ساری تحریک چلتی رہی حکومت میں آتے ہی ان سارے کاموں کو ماتھے کا جھومر بنا لیا گیا۔ یہ ساراسلسلہ ہر حکومت میں چلتا رہا اور آج تک چل رہا ہے، جس کے خاتمے کی ابھی کوئی صورت مستقبل قریب تو کیا بعید تک بھی دکھائی نہیں دے رہی۔

اس گورکھ دھندے کی چکی میں پس وہ رہا ہے جس کا کوئی قصور نہیں، جس کو نہ ایم این اے بننے کی خواہش ہے، نہ ایم پی اے کی۔ اور نہ اسے پروٹوکول سے کوئی لینا دینا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ جی ڈی پی کسے کہتے ہیں اور معیشت کے کتنے حرف تہجی ہیں۔ اسے سرکلرڈیٹ کی الف ب تک نہیں معلوم۔ نہ ہی اس کے دل میں بڑے محلوں کے خواب آتے ہیں اور نہ ہی اسے اسپتال یا جیل میں وی آئی پی کلاس لینے کے درد اٹھتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ ایف اے ٹی ایف (فیٹف) کس بلا کا نام ہے۔ اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے ملک کا آئین اسے کیا کیا حقوق دیتا ہے اور کسی ایک سرپھرے کو معلوم ہو بھی جائے وہ یہ حقوق لے گا کس سے؟ اس نظام سے جس کی ہم اوپر بات کرچکے ہیں؟ ہم بات کررہے ہیں اس ملک کے ایک عام آدمی کی جو پہلے دن سے اس چکی میں پس رہا ہے اور اس گلے سڑے اور عام آدمی کے حقوق سلب کرنے والے نظام میں ووٹ کی شکل میں اس کو جاری و ساری رکھنے کےلیے ایندھن کو طور پر استعمال ہورہا ہے۔

1985 کے بعد 2018 کے انتخابات تک کے عرصے میں دو تین جماعتیں ہی باریاں بدل کر حکومتیں کرتی رہیں اور ایک دوسرے کے خلاف جو گل پاشیاں کرتی رہیں، وہ سب آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ کون کون سے الزامات ہیں جو انہوں نے ایک دوسرے پر نہیں لگائے؟ کون سے القابات ہیں جن سے انہوں نے ایک دوسرے کو نہیں نوازا؟ ایک دوسرے پر کیا کیا کیسز بنائے اور اس سب کے باوجود جب بھی ان کے اپنے مفادات کی باری آئی تو یہ شیر و شکر ہوگئے، سب گلے شکوے دور ہوگئے اور جمہوریت پسند اور محب وطن رہنما کی شکل میں ابھر کر پھر سامنے آگئے۔ آج کل پھر ان پارٹیوں کے درمیان پیار و محبت کی پینگیں خوب بڑھ رہی ہیں اور یہ ساری جدوجہد اس عوام کی وجہ سے کر رہی ہیں، جس کی موجودہ حالت کے یہ سب اور موجودہ حکمران ذمے دار ہیں۔

2018 میں طویل عرصے بعد ایک نئی جماعت کو ایک لمبی جدوجہد اور تگ و دو کے بعد اقتدار ملا تو اس ملک کے ایک عام آدمی کو یہ امید جاگی کہ شاید اس کی قسمت کے اندھیرے اب زیادہ دیر قائم نہیں رہیں گے اور وہ بھی سر اٹھا کر جیے گا اور اسے اپنی بنیادی ضروریات کےلیے عزت نفس کی قربانی نہیں دینی پڑے گی، بنیادی ضروریات زندگی اسے پہلے سے آسانی سے دستیاب ہوں گی۔ وہ جس بھی حکومتی دفتر میں جائے گا اسے اس ملک کا معزز شہری سمجھا جائے گا اور اس کا جائز کام بغیر سفارش یا پیسوں کے ہوجائے گا۔ وہ اپنے بچوں کو آسانی سے اسکول بھیج سکے گا اور بیماری کی صورت میں بھی اسے کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں اگر کم نہیں ہوں گی تو کم از کم شتر بے مہار کی طرح بڑھیں گی تو نہیں اور مستحکم تو رہیں گی۔ اور پھر پچھلے ادوار میں جو اسکینڈل بنتے رہے ان سے تو عوام کی کم از کم جان چھوٹ جائے گی اور اس دور حکومت میں تو عوام کے خون کی ارزانی نہیں ہوگی۔


عوام کی اس نئی حکومت سے یہ معصومانہ خواہشات اور توقعات کچھ غلط بھی نہ تھیں، کیونکہ اس کا حکمران وہ شخص تھا اور ہے جس نے تقریباً 22 سال اس نظام کے خلاف جدوجہد کی، جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی۔ اور اپنی سیاسی جدوجہد کے آخری پانچ سال خاص کر وہ عوام کی امنگوں کا محافظ بن کر پرانے نظام سے جان چھڑانے اور ایک تبدیلی کا نعرہ لگاتا رہا۔ بظاہر اس کی باتوں اور انداز سے ایسا ہی لگتا تھا کہ وہ دل سے بول رہا ہے، اسے لوگوں کے دکھ نظر آرہے ہیں اور اگر اقتدار میں آگیا تو چوروں، لٹیروں، کرپٹ مافیاز اور غداروں کو نہیں چھوڑے گا۔ عام آدمی کو ایک نئی زندگی جینے کو ملے گی اور ملک خوشحال ہوگا۔

آج اسی شخص کی حکومت کو اس ملک میں ڈھائی سال ہونے کو ہیں کہ جس پر عام آدمی نے تکیہ کیا تھا اور ہر عام آدمی آج بہتر جانتا ہے کہ اسے اپنے کتنے خوابوں کی تعبیر ملی اور اس کی کتنی خواہشیں عملی جامہ پہن کر اس کے سامنے کھڑی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عام آدمی آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں پہلے دن کھڑا تھا۔ اس حکومت کے ہر آنے والے دن نے اسے دن میں تارے دکھائے ہیں۔ اس حکومت اور اس کے حکمران نے اب تک ہر وہ کام کیا ہے جس کے یہ مخالف تھے۔ وہی پرانی روشی پھر لوٹ آئی ہیں۔ وہ سارے اسکینڈل جو پچھلی حکومتوں کا حصہ تھے، وہ اس حکومت میں زیادہ شدت سے سامنے آئے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہ رہا جو مہنگائی کی چکی میں پستے رہے۔

حکومتی اعداد و شمار سب اچھا ہے کی خبریں دیتے رہے، جبکہ عملی طور پر مارکیٹ کچھ اور نقشہ پیش کررہی ہوتی ہے۔ عام آدمی کی عزت نفس جہاں پہلے تھی، وہیں کی وہیں ہے۔ کسی سرکاری دفتر میں اس کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ اس ساری مشقت کے بعد میں اگر کسی غریب آدمی کی کچھ ہمت بچتی ہے تو وہ کسر کبھی ڈینگی پوری کردیتا ہے تو کبھی کورونا صاحب آجاتے ہیں، جن کا آسان ہدف بھی ہمیشہ ایک عام غریب آدمی ہی بنتا ہے۔ وبا کے دنوں میں اسپتال میں علاج اور بیڈ لینے کےلیے ایک عام آدمی کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ وہی جانتا ہے جس پر یہ صورتحال بیت چکی ہو۔

آج کل پی ڈی ایم ملک و عوام کے مفادات کے تحفظ کی چھتری اٹھائے کورونا کے تیزی سے پھیلتے ہوئے ماحول میں عوام کو پورے ملک میں یکجا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کا جو رزلٹ نکلے گا وہ بعد میں پتہ چلے گا لیکن اپوزیشن کو اپنے جلسوں کےلیے عام آدمی کی شکل میں ایندھن تو دستیاب ہوجائے گا۔ جن لوگوں نے یہی دعوے کرکے پہلے کوئی تیر نہیں مارا وہ اب عوام کےلیے کیا کرلیں گے؟ لیکن دوسری طرف حکومت بھی اپنی بچگانہ حرکتوں سے اور اپنے کیے ہوئے وعدوں پر عمل نہ کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کیونکہ ان کو ڈھائی سال بعد بھی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ملک چلانا کیسے ہے؟ عام آدمی کل بھی مشقتوں کا بوجھ اٹھائے زندگی گزار رہا تھا اور آج بھی کسی مسیحا کا منتظر ہے، جس کا اندر اور باہر ایک جیسا ہو اور جو حقیقی معنوں میں اس ملک اور عوام کی حالت بدل کر رکھ دے۔ ابھی تک تو ایک عام آدمی یہی سوچ رہا ہے کہ

زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story