شادیاں اور سیاسی جلسے
جو لوگ اپنی بے ایمانی اور کرپشن کی جائیداد باہر لے جاتے ہیں وہ ہماری طرح بے وقوف لوگ نہیں ہوتے۔۔۔
عقل کی بات یہ ہے کہ ہمارے جیسے بے بس اور بے چارے لوگوں کو اب ملک کی فکر چھوڑ دینی چاہیے۔ اب تو ہر وقت پُر امید اور خدا و رسولؐ پر بھروسہ کرنے والے صوفی بھی گھبرا کر کہتے ہیں کہ اللہ اس ملک کو بچائے گا۔ دوسرے الفاظ میں اللہ کی مخلوق جس کے سپرد یہ نیا ملک کیا گیا تھا اب اتنی دولت مند اور رج گئی ہے کہ اس کی آنکھوں پر تہہ در تہہ چربی چڑھ گئی ہے اگر وہ کسی کو مجبوری کے عالم میں اپنی دولت کا ذکر بھی کرتی ہے تو بے حد احتیاط اور کنجوسی کے ساتھ اور ادھر ادھر سے دیکھ بھال کر اپنی کم از کم دولت کا پتہ دیتی ہے مگر اس کے باوجود اس بیان میں سچ کم اور جھوٹ زیادہ ہوتا ہے، ان کی دولت عوام کو پریشان کر دیتی ہے کہ ان کو اس قدر لوٹا گیا ہے کہ ان سے لوٹی ہوئی دولت ملک اور ملک سے باہر کی دنیا میں بکھری ہوئی ہے اور اس کے قصے دنیا بھر کے اخباروں میں چھپتے ہیں تو اس عنوان کے ساتھ کہ آپ مانیں یا نہ مانیں مشرقی غریب دنیا کے ایک ملک میں چند لوگوں کے پاس کس قدر دولت ہے اور ان کی جائیدادیں دنیا کے ہر بڑے شہر کی قیمتی جگہوں پر موجود ہیں۔
میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ لوگ ان غیر ملکی لوگوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے اس کا آسان جواب تھا کہ ہم کیوں کریں، ہمارا کیا لے جا رہے ہیں کہ ان کا احتساب کریں۔ ہمارے کسی شہر میں وہ بھاری قیمت دے کر جو جائیداد خریدتے ہیں وہ اسی ملک میں ہی رہتی ہے اسے اٹھا کر ساتھ تو نہیں لے جاتے اور جو قیمت ادا کرتے ہیں، وہ بھی یہیں ہمارے پاس رہتی ہے یعنی ہمارے کسی شہری کے پاس۔ دنیا میں کوئی چیز بکتی ہے تو خریدار اسے ساتھ لے جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ہماری چیز بک کر بھی ہمارے پاس رہتی ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ ہم کسی کو بھاری معاوضے پر اپنی جائیداد کو کرائے پر دے دیتے ہیں اور اس کے جعلی قسم کے مالکانہ حقوق بھی اس طرح دیتے ہیں کہ اصل ملکیت ہماری ہی رہتی ہے۔
جو لوگ اپنی بے ایمانی اور کرپشن کی جائیداد باہر لے جاتے ہیں وہ ہماری طرح بے وقوف لوگ نہیں ہوتے وہ دراصل اپنی دولت کو اس طرح محفوظ کر لیتے ہیں لیکن مزے میں تو ہم ہیں کہ نہ دولت ہے نہ اس کی حفاظت کی کوئی فکر ہے بلکہ دل کو بہلانے کو یوں نہ سمجھ لیں کہ جو دولت ہم سے لوٹی گئی ہے اور جس کا ہمیں پتہ ہے ہم جب چاہیں گے برآمد کر کے اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ بس اس کے لیے کسی ایسے وقت کا انتظار کرنا ہے جب حکومت اس کے حقداروں کو ملے گی۔ یہ انتظار صبر کا تقاضا کرتا ہے جب تک قائد کے یہ کھوٹے سکے بازار میں چلتے رہیں گے ادھر ان سے سیاسی کاروبار کرتے رہیں گے تب تک ہم صرف اپنے اس قائد کو یاد کرتے رہیں گے جس نے ان کھوٹے سکوں کی نشاندہی کی اور دوسرے کسی قائد نے ان کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
میں ان دنوں دوسروں کی شادیوں میں مصروف ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ ان پر کِس قدر خرچ کیا جاتا ہے لیکن ہم عام لوگوں کے لیے خوشی کے یہی چند موقع ہی ہیں جن میں ہم ہنس کھیل لیتے ہیں۔ کبھی گھر میں کسی فرد کا اضافہ کرتے ہیں تو کبھی کسی سے محروم ہو جاتے ہیں بہر حال دنیا بھر میں بڑی سے بڑی ترقی کے باوجود شادی اس آنے جانے کا نام ہے۔ زندگی بھر کے لیے کسی کے سپرد ہو جانا یا اسے اپنا لینا۔ ہمارے ہاں کئی سماجی خرابیوں کی طرح شادی بھی ایک خرابی بن گئی تھی۔ یہ تقریب عموماً رات کو ہوتی ہے اور پوری رات اس میں گزر جاتی ہے۔ باراتی بہت تنگ تھے لیکن ہمارے ایک حکمران کو نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے رات دس بجے ہر شادی کی ہر تقریب کا اختتام کر دیا۔
اب لاہور میں تو گھروں میں بھی دس بجے کے بعد اگر ہنگامہ ہو تو پولیس پہنچ جاتی ہے ورنہ ہوتا یوں تھا کہ شادی شروع ہی نصف رات کے وقت ہوتی تھی اور پھر سحری تک جاری رہتی تھی جو بہت ہی نا مناسب بات ہے، اب مزے ہیں ادھر دس بجے اور ادھر بتیاں بند ہونی شروع ہو گئیں اس طرح لوگ رفتہ رفتہ رات کی تقریبات مختصر کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اب تو سیاسی جلسے بھی رات کو جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں ورنہ وہ جلسہ کیا ہوا جو نصف رات سے پہلے ختم ہو جائے۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جو اپنے عہد کے سب سے بڑے مقرر تھے ان کے بعد ایسا کوئی نہیں آیا وہ نصف شب کو تیز ترین چائے پیتے تھے بدن اور زبان میں تازگی پیدا ہوتی تھی تو شاہ صاحب کی مترنم آواز کسی آیت یا شعر کی صورت میں بلند ہوتی تھی اور سوتے ہوئے سامعین کو جگا دیتی تھی اور پھر صبح کی اذان پر جلسہ ختم کر دیا جاتا۔ جالندھر کے ایک جلسے میں رات کو لوگ تھک کر جانے لگے تو شاہ صاحب نے ان کو بٹھانے کے لیے ہیر وارث شاہ گانی شروع کر دی۔ قدرت نے اپنے اس مقرر کو غضب کا گلا دیا تھا۔ بات شادیوں کے وقت پر پابندی سے شروع ہوئی لیکن پراگندہ ذہن اسے ہیر وارث شاہ تک لے گیا۔
اب سیاسی جلسے بھی زیادہ تر شادیوں کی طرح کسی ہال میں ہوتے ہیں جہاں لیڈر خطاب کرتا ہے اور اخبار والے اس خطاب کو چھاپ کر اسے سیاسی تقریر بنا دیتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو یہ ہال ہوتے ہی نہیں تھے لاہور میں باغ بیرون لاہور ہوتا تھا۔ لاہور کے کسی گیٹ کے باہر کے باغ کو بیرون موچی گیٹ وغیرہ کہا جاتا تھا۔ جہاں لاہوری دن پر تاش کھیلتے تھے اور رات کو بند گھروں کی گرمی سے بچ کر باغ میں جلسہ سنتے تھے اور تھک کر سو جاتے تھے تب تک رات بھی ٹھنڈی ہو جاتی تھی۔ لاہور میں زیادہ تر جلسے دلی دروازے اور موچی دروازے کے باہر کے باغوں میں ہوا کرتے تھے ایک مشہور جلسہ بیرون بھاٹی گیٹ میں ہوا جہاں عموماً جلسے نہیں ہوتے تھے۔ یہ جماعت اسلامی کا جلسہ تھا جس میں حکومت نے گولی چلائی، یہ دیکھ کر کسی نے سید مودودی سے کہا کہ آپ تقریر بند کر کے بیٹھ جائیں، اس پر انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔ یہ جلسہ ایک کارکن اللہ بخش کی شہادت پر ختم ہوا لیکن عام سیاسی جلسے کبھی کسی کے جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دینے سے ختم ہوتے یا کوئی کسی طرف سے بھینس ہانک کر جلسہ گاہ میں لے آتا۔ پھر وہی ذہنی پراگندگی کی بات اور اب اس پر ختم کہ رات پھر ایک ضروری شادی میں جانا ہے۔ جو حالات حاضرہ ہیں ان میں ذہن پراگندہ نہ ہو تو کیوں نہ ہو۔
میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ لوگ ان غیر ملکی لوگوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے اس کا آسان جواب تھا کہ ہم کیوں کریں، ہمارا کیا لے جا رہے ہیں کہ ان کا احتساب کریں۔ ہمارے کسی شہر میں وہ بھاری قیمت دے کر جو جائیداد خریدتے ہیں وہ اسی ملک میں ہی رہتی ہے اسے اٹھا کر ساتھ تو نہیں لے جاتے اور جو قیمت ادا کرتے ہیں، وہ بھی یہیں ہمارے پاس رہتی ہے یعنی ہمارے کسی شہری کے پاس۔ دنیا میں کوئی چیز بکتی ہے تو خریدار اسے ساتھ لے جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ہماری چیز بک کر بھی ہمارے پاس رہتی ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ ہم کسی کو بھاری معاوضے پر اپنی جائیداد کو کرائے پر دے دیتے ہیں اور اس کے جعلی قسم کے مالکانہ حقوق بھی اس طرح دیتے ہیں کہ اصل ملکیت ہماری ہی رہتی ہے۔
جو لوگ اپنی بے ایمانی اور کرپشن کی جائیداد باہر لے جاتے ہیں وہ ہماری طرح بے وقوف لوگ نہیں ہوتے وہ دراصل اپنی دولت کو اس طرح محفوظ کر لیتے ہیں لیکن مزے میں تو ہم ہیں کہ نہ دولت ہے نہ اس کی حفاظت کی کوئی فکر ہے بلکہ دل کو بہلانے کو یوں نہ سمجھ لیں کہ جو دولت ہم سے لوٹی گئی ہے اور جس کا ہمیں پتہ ہے ہم جب چاہیں گے برآمد کر کے اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ بس اس کے لیے کسی ایسے وقت کا انتظار کرنا ہے جب حکومت اس کے حقداروں کو ملے گی۔ یہ انتظار صبر کا تقاضا کرتا ہے جب تک قائد کے یہ کھوٹے سکے بازار میں چلتے رہیں گے ادھر ان سے سیاسی کاروبار کرتے رہیں گے تب تک ہم صرف اپنے اس قائد کو یاد کرتے رہیں گے جس نے ان کھوٹے سکوں کی نشاندہی کی اور دوسرے کسی قائد نے ان کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
میں ان دنوں دوسروں کی شادیوں میں مصروف ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ ان پر کِس قدر خرچ کیا جاتا ہے لیکن ہم عام لوگوں کے لیے خوشی کے یہی چند موقع ہی ہیں جن میں ہم ہنس کھیل لیتے ہیں۔ کبھی گھر میں کسی فرد کا اضافہ کرتے ہیں تو کبھی کسی سے محروم ہو جاتے ہیں بہر حال دنیا بھر میں بڑی سے بڑی ترقی کے باوجود شادی اس آنے جانے کا نام ہے۔ زندگی بھر کے لیے کسی کے سپرد ہو جانا یا اسے اپنا لینا۔ ہمارے ہاں کئی سماجی خرابیوں کی طرح شادی بھی ایک خرابی بن گئی تھی۔ یہ تقریب عموماً رات کو ہوتی ہے اور پوری رات اس میں گزر جاتی ہے۔ باراتی بہت تنگ تھے لیکن ہمارے ایک حکمران کو نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے رات دس بجے ہر شادی کی ہر تقریب کا اختتام کر دیا۔
اب لاہور میں تو گھروں میں بھی دس بجے کے بعد اگر ہنگامہ ہو تو پولیس پہنچ جاتی ہے ورنہ ہوتا یوں تھا کہ شادی شروع ہی نصف رات کے وقت ہوتی تھی اور پھر سحری تک جاری رہتی تھی جو بہت ہی نا مناسب بات ہے، اب مزے ہیں ادھر دس بجے اور ادھر بتیاں بند ہونی شروع ہو گئیں اس طرح لوگ رفتہ رفتہ رات کی تقریبات مختصر کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اب تو سیاسی جلسے بھی رات کو جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں ورنہ وہ جلسہ کیا ہوا جو نصف رات سے پہلے ختم ہو جائے۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جو اپنے عہد کے سب سے بڑے مقرر تھے ان کے بعد ایسا کوئی نہیں آیا وہ نصف شب کو تیز ترین چائے پیتے تھے بدن اور زبان میں تازگی پیدا ہوتی تھی تو شاہ صاحب کی مترنم آواز کسی آیت یا شعر کی صورت میں بلند ہوتی تھی اور سوتے ہوئے سامعین کو جگا دیتی تھی اور پھر صبح کی اذان پر جلسہ ختم کر دیا جاتا۔ جالندھر کے ایک جلسے میں رات کو لوگ تھک کر جانے لگے تو شاہ صاحب نے ان کو بٹھانے کے لیے ہیر وارث شاہ گانی شروع کر دی۔ قدرت نے اپنے اس مقرر کو غضب کا گلا دیا تھا۔ بات شادیوں کے وقت پر پابندی سے شروع ہوئی لیکن پراگندہ ذہن اسے ہیر وارث شاہ تک لے گیا۔
اب سیاسی جلسے بھی زیادہ تر شادیوں کی طرح کسی ہال میں ہوتے ہیں جہاں لیڈر خطاب کرتا ہے اور اخبار والے اس خطاب کو چھاپ کر اسے سیاسی تقریر بنا دیتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو یہ ہال ہوتے ہی نہیں تھے لاہور میں باغ بیرون لاہور ہوتا تھا۔ لاہور کے کسی گیٹ کے باہر کے باغ کو بیرون موچی گیٹ وغیرہ کہا جاتا تھا۔ جہاں لاہوری دن پر تاش کھیلتے تھے اور رات کو بند گھروں کی گرمی سے بچ کر باغ میں جلسہ سنتے تھے اور تھک کر سو جاتے تھے تب تک رات بھی ٹھنڈی ہو جاتی تھی۔ لاہور میں زیادہ تر جلسے دلی دروازے اور موچی دروازے کے باہر کے باغوں میں ہوا کرتے تھے ایک مشہور جلسہ بیرون بھاٹی گیٹ میں ہوا جہاں عموماً جلسے نہیں ہوتے تھے۔ یہ جماعت اسلامی کا جلسہ تھا جس میں حکومت نے گولی چلائی، یہ دیکھ کر کسی نے سید مودودی سے کہا کہ آپ تقریر بند کر کے بیٹھ جائیں، اس پر انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔ یہ جلسہ ایک کارکن اللہ بخش کی شہادت پر ختم ہوا لیکن عام سیاسی جلسے کبھی کسی کے جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دینے سے ختم ہوتے یا کوئی کسی طرف سے بھینس ہانک کر جلسہ گاہ میں لے آتا۔ پھر وہی ذہنی پراگندگی کی بات اور اب اس پر ختم کہ رات پھر ایک ضروری شادی میں جانا ہے۔ جو حالات حاضرہ ہیں ان میں ذہن پراگندہ نہ ہو تو کیوں نہ ہو۔