جناب چمچ الملک چمچ الزماں چمچ الحق سے انٹرویو
چینل ’’ہیاں سے ہواں‘‘ تک کے دیکھنے سننے والوں کو میری یعنی طرف سے پروگرام چونچ بہ چونچ کا نزول ہونے ہی والا ہے
چینل ''ہیاں سے ہواں'' تک کے دیکھنے سننے والوں کو میری یعنی قینچی زبان عرف اینکر کی طرف سے ڈھیروں ڈھیر تسلیمات، پروگرام چونچ بہ چونچ کا نزول ہونے ہی والا ہے۔ آج اس میں ہمارے ساتھ ملک کے ون اینڈ اونلی ماہر چمچیات جناب چمچ الملک چمچ الزمان چمچ الحق چمچ القمر قاشق خان کفگیر تشریف فرما ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ
سو پشت سے ہے پیشہ آبا چمچ گری
کچھ ''لیڈری'' ذریعہ عزت نہیں مجھے
اور باقی دو خدا ماروں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، ایک علامہ بریانی عرف برڈفلو ماہر پلاؤ جات، زردہ جات و حلویات اور دوسرے وہی ڈینگی مچھر چشم گل چشم جو آج کل قہر خداوندی کہلاتے ہیں، ان کی مہارت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ خود ان کو بھی اس کے صحیح رقبے کا پتہ نہیں ہے تو آغاز کرتے ہیں
اینکر: ہاں تو جناب قاشق خان کفگیر صاحب ۔۔۔ یہ بتایئے کہ آپ پیدائشی ہیں یا بعد میں آپ نے چمچہ گیری و کفگیری میں کمال حاصل کیا۔
کفگیر: دونوں باتیں ہیں، جب میں ابھی والدہ محترمہ کی کوکھ میں تھا تو نہ جانے کیسے میری والدہ کے ہاتھوں میں سوزش ہو گئی اور پورے سال بھر تک چمچے سے کھاتی پیتی رہیں۔
چشم: مطلب یہ کہ آپ مادر زاد چمچے ہیں۔
کفگیر: صرف مادر زاد ہی نہیں فادر زاد بھی ہوں۔
اینکر: وہ کیسے؟
کفگیر: وہ یوں کہ میرے والد بیلچے کے مزدور یعنی بیلدار تھے بیلچے سے کام کرتے تھے اور اگر آپ نے غور کیا ہو تو بیلچہ بھی دراصل بڑے سائز کا چمچہ ہی ہوتا ہے۔
علامہ: واہ کیا مثال دی ہے اور والدین کا اثر اولاد پر پڑنا لازمی ہے، یہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی جو سامنے بیٹھا ہے، اس کا باپ شکاری تھا اور ہمیشہ ایک آنکھ بند کر کے شکار کرتا تھا، اس لیے اس کی آنکھ ۔۔۔۔
چشم: آنکھ کے بارے میں کچھ مت کہنا ورنہ
علامہ: ورنہ کیا۔
چشم: ورنہ میں تمہارے چورن کے بارے میں منہ کھول دوں گا۔
علامہ: وہ تو اچھا ہے مشہور ہی ہو جائے گی۔
چشم: مشہوری نہیں بلکہ بدنامی کہو، وہ چیزیں بتا دوں گا جو تم اس میں ڈالتے ہو
اینکر: تم لوگوں نے پھر کمرشل شروع کر دیے
کفگیر: یہ کس چورن کا ذکر ہے
اینکر: چھوڑیئے یہ یونہی ہانک رہے ہیں
علامہ: ہانک نہیں رہے ہیں، ہمارا خاندانی چورن تو اب بہت دور دور تک مشہور ہو چکا ہے۔
چشم: میں بتادوں۔
علامہ: نہیں خدا کے لیے ۔۔۔ کمیشن دے دوں گا نا یار۔
چشم: پھر ٹھیک ہے۔
علامہ: یہ چورن جو ہے۔
اینکر: پھر چورن۔
کفگیر: بتانے دیجیے شاید کام کی چیز ہو میرے کلائنس بھی اکثر بدہضمی کا شکار رہتے ہیں۔
علامہ: یہ چورن خاص الخاص ان ہی لوگوں کے لیے ۔۔۔ اور اب تو میں نے اسے بہت ہی اپ گریڈ کر دیا ہے۔
کفگیر: چورن کے بھی گریڈ ہوتے ہیں۔
علامہ: جی ہاں میرے والد کے زمانے میں یہ چورن لکڑ ہضم پتھر ہضم کہلاتا تھا، پھر انھوں نے اس میں اضافے کیے تو خیرات ہضم، چہلم ہضم اور بھرتی ہضم ہو گیا۔
کفگیر: اچھا پھر۔
علامہ: پھر میں نے اس میں کچھ اور نسخے ڈالے تو سیمنٹ ہضم، سریا ہضم ہو گیا اس کے بد شائقین کے اصرار پر اسے سڑک ہضم بلڈنگ ہضم اور پل ہضم کر دیا۔
کفگیر: یہ تو بڑے کام کی چیز ہے۔
علامہ: ابھی کہاں جناب میں نے اس میں چند اور اضافے کیے تو یہ فنڈز ہضم بجٹ ہضم بھی ہو گیا۔
کفگیر: میرا خیال ہے کہ تھوڑا سا اضافہ اس میں اور کر لیجیے۔
علامہ: ہاں ہاں بتائیں۔
کفگیر: اسے قرضہ ہضم اور سود ہضم بھی کر دیجیے کیوں کہ اونچے درجے کے مریض یعنی وزیر وغیرہ کو ان کی بڑی ضرورت رہتی ہے خود میرے ممدوح وزیر صاحب کو بھی اس کی ضرورت ہے۔
اینکر: میرا خیال ہے کہ پروگرام کو ختم ہی کر دیں تو اچھا ہے بات چمچوں کی ہو رہی تھی اور پہنچ گئی چورن تک
علامہ: چورن بھی تو چمچے سے کھایا جاتا ہے۔
کفگیر: دیکھا چمچوں کی کتنی اہمیت ہے، چمچے کے بغیر اس دنیا کا کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا، یوں سمجھ لیجیے کہ چمچہ ہی دراصل حکیم ارشمیدس کا لیور ہے۔
علامہ: یہ ارشمیدس کوئی حکیم تھا کیا
کفگیر: بہت بڑا حکیم تھا اس نے کہا تھا کہ اگر مجھے ایک بڑا سا چمچہ دیا جائے تو میں اس پوری دنیا کو بھی ہلا سکتا ہوں۔
اینکر: اس نے لیور کہا تھا جناب
کفگیر: ایک ہی بات ہے چمچہ بھی تو لیور کے اصول پر کام کرتا ہے دستے پر زور لگایا جاتا تو بھر جاتا ہے پھر لیور کے اصول پر اسے اٹھا کر منہ تک لے جایا جاتا ہے۔
اینکر: مگر لیور چمچہ نہیں ہوتا۔
کفگیر: لیکن چمچہ تو لیور ہوتا ہے نا ۔۔۔ میں سمجھاتا ہوں دنیا میں انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے وہ اسی چمچے سے کھاتا ہے اگر چمچہ ہانڈی دیگ یا پتیلے میں نہ ہلے تو پکوان جل جائے گا
اینکر: ہاں
کفگیر: پھر اگر چمچے سے نکال کر پلیٹ میں نہ ڈالا جائے تو دیگ یا دیگچی سے کیسے نکالا جائے گا
علامہ: یہ بات تو آپ نے ایک سو پانچ فیصد درست کہی، میں نے بچشم خود دیکھا ہے جب ہم جمعہ جمعرات یا چہلم برسی پر جاتے ہیں تو چمچہ یا کفگیر ہی ہماری مددگار ہوتا ہے۔
چشم: مگر پھر کھاتے تو ہاتھ سے ہیں نا۔
اینکر: ہاں ہر کوئی چمچے سے تو نہیں کھاتا۔
کفگیر: یہی تو تمہاری بھول ہے اپنا ہاتھ ذرا پھیلائیں، پھیلائیں ، پھیلائیں۔
اینکر: یہ لیجیے۔
کفگیر: دیکھیں یہ ہتھیلی بالکل چمچے کی طرح ہے یا نہیں۔
اینکر: ہاں ہے تو۔
کفگیر: اور یہ ہاتھ چمچے کا دستہ ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ آپ ہاتھ کو قدرتی چمچہ کہہ سکتے ہیں
علامہ: بالکل صحیح فرمایا۔
کفگیر: ضروری تو نہیں کہ چمچہ صرف اسٹیل یا لوہے یا پیتل کا بنا ہوا ہو گوشت پوست کا چمچہ بھی کام تو وہی کرتا ہے۔
علامہ: دلیل میں دیتا ہوں یہ جناب چمچ الملک چمچ الزماں چمچ الحق چمچ القمر قاشق خان کفگیر جسے کفگیر الملت کا خطاب بھی حاصل ہے ۔۔۔ گوشت پوست ہی کے تو بنے ہوئے ہیں
کفگیر: واہ ۔۔۔ واہ
اینکر: آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو پشت سے ہے پیشہ آبا چمچ گری
کچھ ''لیڈری'' ذریعہ عزت نہیں مجھے
اور باقی دو خدا ماروں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، ایک علامہ بریانی عرف برڈفلو ماہر پلاؤ جات، زردہ جات و حلویات اور دوسرے وہی ڈینگی مچھر چشم گل چشم جو آج کل قہر خداوندی کہلاتے ہیں، ان کی مہارت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ خود ان کو بھی اس کے صحیح رقبے کا پتہ نہیں ہے تو آغاز کرتے ہیں
اینکر: ہاں تو جناب قاشق خان کفگیر صاحب ۔۔۔ یہ بتایئے کہ آپ پیدائشی ہیں یا بعد میں آپ نے چمچہ گیری و کفگیری میں کمال حاصل کیا۔
کفگیر: دونوں باتیں ہیں، جب میں ابھی والدہ محترمہ کی کوکھ میں تھا تو نہ جانے کیسے میری والدہ کے ہاتھوں میں سوزش ہو گئی اور پورے سال بھر تک چمچے سے کھاتی پیتی رہیں۔
چشم: مطلب یہ کہ آپ مادر زاد چمچے ہیں۔
کفگیر: صرف مادر زاد ہی نہیں فادر زاد بھی ہوں۔
اینکر: وہ کیسے؟
کفگیر: وہ یوں کہ میرے والد بیلچے کے مزدور یعنی بیلدار تھے بیلچے سے کام کرتے تھے اور اگر آپ نے غور کیا ہو تو بیلچہ بھی دراصل بڑے سائز کا چمچہ ہی ہوتا ہے۔
علامہ: واہ کیا مثال دی ہے اور والدین کا اثر اولاد پر پڑنا لازمی ہے، یہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی جو سامنے بیٹھا ہے، اس کا باپ شکاری تھا اور ہمیشہ ایک آنکھ بند کر کے شکار کرتا تھا، اس لیے اس کی آنکھ ۔۔۔۔
چشم: آنکھ کے بارے میں کچھ مت کہنا ورنہ
علامہ: ورنہ کیا۔
چشم: ورنہ میں تمہارے چورن کے بارے میں منہ کھول دوں گا۔
علامہ: وہ تو اچھا ہے مشہور ہی ہو جائے گی۔
چشم: مشہوری نہیں بلکہ بدنامی کہو، وہ چیزیں بتا دوں گا جو تم اس میں ڈالتے ہو
اینکر: تم لوگوں نے پھر کمرشل شروع کر دیے
کفگیر: یہ کس چورن کا ذکر ہے
اینکر: چھوڑیئے یہ یونہی ہانک رہے ہیں
علامہ: ہانک نہیں رہے ہیں، ہمارا خاندانی چورن تو اب بہت دور دور تک مشہور ہو چکا ہے۔
چشم: میں بتادوں۔
علامہ: نہیں خدا کے لیے ۔۔۔ کمیشن دے دوں گا نا یار۔
چشم: پھر ٹھیک ہے۔
علامہ: یہ چورن جو ہے۔
اینکر: پھر چورن۔
کفگیر: بتانے دیجیے شاید کام کی چیز ہو میرے کلائنس بھی اکثر بدہضمی کا شکار رہتے ہیں۔
علامہ: یہ چورن خاص الخاص ان ہی لوگوں کے لیے ۔۔۔ اور اب تو میں نے اسے بہت ہی اپ گریڈ کر دیا ہے۔
کفگیر: چورن کے بھی گریڈ ہوتے ہیں۔
علامہ: جی ہاں میرے والد کے زمانے میں یہ چورن لکڑ ہضم پتھر ہضم کہلاتا تھا، پھر انھوں نے اس میں اضافے کیے تو خیرات ہضم، چہلم ہضم اور بھرتی ہضم ہو گیا۔
کفگیر: اچھا پھر۔
علامہ: پھر میں نے اس میں کچھ اور نسخے ڈالے تو سیمنٹ ہضم، سریا ہضم ہو گیا اس کے بد شائقین کے اصرار پر اسے سڑک ہضم بلڈنگ ہضم اور پل ہضم کر دیا۔
کفگیر: یہ تو بڑے کام کی چیز ہے۔
علامہ: ابھی کہاں جناب میں نے اس میں چند اور اضافے کیے تو یہ فنڈز ہضم بجٹ ہضم بھی ہو گیا۔
کفگیر: میرا خیال ہے کہ تھوڑا سا اضافہ اس میں اور کر لیجیے۔
علامہ: ہاں ہاں بتائیں۔
کفگیر: اسے قرضہ ہضم اور سود ہضم بھی کر دیجیے کیوں کہ اونچے درجے کے مریض یعنی وزیر وغیرہ کو ان کی بڑی ضرورت رہتی ہے خود میرے ممدوح وزیر صاحب کو بھی اس کی ضرورت ہے۔
اینکر: میرا خیال ہے کہ پروگرام کو ختم ہی کر دیں تو اچھا ہے بات چمچوں کی ہو رہی تھی اور پہنچ گئی چورن تک
علامہ: چورن بھی تو چمچے سے کھایا جاتا ہے۔
کفگیر: دیکھا چمچوں کی کتنی اہمیت ہے، چمچے کے بغیر اس دنیا کا کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا، یوں سمجھ لیجیے کہ چمچہ ہی دراصل حکیم ارشمیدس کا لیور ہے۔
علامہ: یہ ارشمیدس کوئی حکیم تھا کیا
کفگیر: بہت بڑا حکیم تھا اس نے کہا تھا کہ اگر مجھے ایک بڑا سا چمچہ دیا جائے تو میں اس پوری دنیا کو بھی ہلا سکتا ہوں۔
اینکر: اس نے لیور کہا تھا جناب
کفگیر: ایک ہی بات ہے چمچہ بھی تو لیور کے اصول پر کام کرتا ہے دستے پر زور لگایا جاتا تو بھر جاتا ہے پھر لیور کے اصول پر اسے اٹھا کر منہ تک لے جایا جاتا ہے۔
اینکر: مگر لیور چمچہ نہیں ہوتا۔
کفگیر: لیکن چمچہ تو لیور ہوتا ہے نا ۔۔۔ میں سمجھاتا ہوں دنیا میں انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے وہ اسی چمچے سے کھاتا ہے اگر چمچہ ہانڈی دیگ یا پتیلے میں نہ ہلے تو پکوان جل جائے گا
اینکر: ہاں
کفگیر: پھر اگر چمچے سے نکال کر پلیٹ میں نہ ڈالا جائے تو دیگ یا دیگچی سے کیسے نکالا جائے گا
علامہ: یہ بات تو آپ نے ایک سو پانچ فیصد درست کہی، میں نے بچشم خود دیکھا ہے جب ہم جمعہ جمعرات یا چہلم برسی پر جاتے ہیں تو چمچہ یا کفگیر ہی ہماری مددگار ہوتا ہے۔
چشم: مگر پھر کھاتے تو ہاتھ سے ہیں نا۔
اینکر: ہاں ہر کوئی چمچے سے تو نہیں کھاتا۔
کفگیر: یہی تو تمہاری بھول ہے اپنا ہاتھ ذرا پھیلائیں، پھیلائیں ، پھیلائیں۔
اینکر: یہ لیجیے۔
کفگیر: دیکھیں یہ ہتھیلی بالکل چمچے کی طرح ہے یا نہیں۔
اینکر: ہاں ہے تو۔
کفگیر: اور یہ ہاتھ چمچے کا دستہ ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ آپ ہاتھ کو قدرتی چمچہ کہہ سکتے ہیں
علامہ: بالکل صحیح فرمایا۔
کفگیر: ضروری تو نہیں کہ چمچہ صرف اسٹیل یا لوہے یا پیتل کا بنا ہوا ہو گوشت پوست کا چمچہ بھی کام تو وہی کرتا ہے۔
علامہ: دلیل میں دیتا ہوں یہ جناب چمچ الملک چمچ الزماں چمچ الحق چمچ القمر قاشق خان کفگیر جسے کفگیر الملت کا خطاب بھی حاصل ہے ۔۔۔ گوشت پوست ہی کے تو بنے ہوئے ہیں
کفگیر: واہ ۔۔۔ واہ
اینکر: آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔