برفانی ریچھ انسانوں کو ای میل بھیجنے لگے
قطبین کے برفانی ریچھ خاص ٹیگ سے ہر 24 گھنٹے بعد اپنی خیریت کی خبر سائنسدانوں کو دیتے رہتے ہیں۔
جی ہاں! اب سائنس کی بدولت خود برفانی ریچھ بھی اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ انسانوں کو اپنی خیریت کا پیغام اور ای میل بھیج سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ریچھوں کو غنودگی میں لاکر ان پر ضروری سامان لگانا ہوگا۔
ناروے پولرانسٹی ٹیوٹ کے سائنسداں جون آرس کو آرکٹک خطے میں رہنے والی مادہ برفانی ریچھوں کا پیغام ہرماہ موصول ہتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایس ایم ایس اور کچھ ای میل جیسے سادہ نوٹس کی صورت میں ملتے ہیں۔ سلاعلاقہ ناروے کے پاس ہی واقع ہے۔ جہاں سوالبارڈ نامی علاقے میں 300 برفانی ریچھ موجود ہیں جبکہ پوری دنیا میں صرف 26000 برفانی ریچھ ہی باقی بچے ہیں۔
ہرسال سائنسداں 70 برفانی ریچھوں پر سیٹلائٹ کالر لگاتے ہیں جن میں سے ہر ٹرانسمیٹر24 گھنٹے میں ایک مرتبہ سیٹلائٹ کال دیں گے جس میں ان نقل و حرکت اور دیگر معلومات ہوتی ہیں۔ اس کی ساری تفصیل براہِ راست جون کے ای میل اکاؤنٹ تک آتی ہے۔ ان جانوروں کی نقل و حرکت کی معلومات ماہرین کے لیے بہت ضروری ہیں کیونکہ اس سے ہم جانوروں پر آب وہوا کی تبدیلی کے اثرات جان سکتے ہیں۔ پھر ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ آخر اس بدلتے ہوئے ماحول میں جانور خود کو کس طرح ڈھال رہے ہیں۔
اس خطے میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور پولر بھالوؤں کی بڑی تعداد شدید متاثر ہورہی ہے۔ یہ سیدھے سادھے جاندار بہت تیزی سے دیگر علاقوں کی جانب منتقل ہورہے ہیں۔ ٹریکنگ کالر لگانے سے قبل تمام بھالوؤں کا وزن کیا گیا اور مختلف جسمانی مائعات کے نمونے لیے گئے تاکہ ان کی صحت اور فضا میں موجود آلودگیوں کا جائزہ بھی لیا جاسکے۔ اس برقی کالر کی بدولت یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ریچھنی غار میں جارہی ہے یا نہیں کیونکہ اکثر اوقات اس صورت میں وہ بچے کو جنم دیتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ قطبین پر پائے جانے والے ریچھ بدلتے ہوئے ماحول کے تحت خود کو ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ناروے پولرانسٹی ٹیوٹ کے سائنسداں جون آرس کو آرکٹک خطے میں رہنے والی مادہ برفانی ریچھوں کا پیغام ہرماہ موصول ہتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایس ایم ایس اور کچھ ای میل جیسے سادہ نوٹس کی صورت میں ملتے ہیں۔ سلاعلاقہ ناروے کے پاس ہی واقع ہے۔ جہاں سوالبارڈ نامی علاقے میں 300 برفانی ریچھ موجود ہیں جبکہ پوری دنیا میں صرف 26000 برفانی ریچھ ہی باقی بچے ہیں۔
ہرسال سائنسداں 70 برفانی ریچھوں پر سیٹلائٹ کالر لگاتے ہیں جن میں سے ہر ٹرانسمیٹر24 گھنٹے میں ایک مرتبہ سیٹلائٹ کال دیں گے جس میں ان نقل و حرکت اور دیگر معلومات ہوتی ہیں۔ اس کی ساری تفصیل براہِ راست جون کے ای میل اکاؤنٹ تک آتی ہے۔ ان جانوروں کی نقل و حرکت کی معلومات ماہرین کے لیے بہت ضروری ہیں کیونکہ اس سے ہم جانوروں پر آب وہوا کی تبدیلی کے اثرات جان سکتے ہیں۔ پھر ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ آخر اس بدلتے ہوئے ماحول میں جانور خود کو کس طرح ڈھال رہے ہیں۔
اس خطے میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور پولر بھالوؤں کی بڑی تعداد شدید متاثر ہورہی ہے۔ یہ سیدھے سادھے جاندار بہت تیزی سے دیگر علاقوں کی جانب منتقل ہورہے ہیں۔ ٹریکنگ کالر لگانے سے قبل تمام بھالوؤں کا وزن کیا گیا اور مختلف جسمانی مائعات کے نمونے لیے گئے تاکہ ان کی صحت اور فضا میں موجود آلودگیوں کا جائزہ بھی لیا جاسکے۔ اس برقی کالر کی بدولت یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ریچھنی غار میں جارہی ہے یا نہیں کیونکہ اکثر اوقات اس صورت میں وہ بچے کو جنم دیتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ قطبین پر پائے جانے والے ریچھ بدلتے ہوئے ماحول کے تحت خود کو ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔