انصاف کب ہوگا
کامران فیصل کی وفات کو گیارہ ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، تاحال ان کی موت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔۔۔
کامران فیصل کی وفات کو گیارہ ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، تاحال ان کی موت ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور آج تک ان حقائق سے پردہ نہیں اٹھ سکا کہ آخر ان کی موت خودکشی تھی یا ان کو چند بڑے لوگوں نے اپنی پیسے کی ہوس کو چھپانے کے لیے موت کے گھاٹ اتروا دیا۔
کامران فیصل کی موت نے ہر اس پاکستانی کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے جو اس ملک میں انصاف اور کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس موت نے ہم سب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ہمیشہ اس ملک میں حق کے لیے کھڑے ہونیوالے کا یہی انجام ہوتا رہے گا۔ آخر کتنے اور لوگ اپنے فرض کی خاطر یونہی قربانیاں دیتے رہیں گے اور ان کا خون رائیگاں جاتا رہے گا۔ کامران فیصل جن کا تعلق نیب کے ادارے سے تھا اور رینٹل پاور کے ہائی پروفائل کیس پہ کام کر رہے تھے، انھوں نے اچانک خودکشی کی تھی یا ان کو قتل کیا گیا تھا، اس حوالے سے ابھی تک جو حقائق سامنے آئے ہیں، ان سے تصویر کچھ کچھ تو واضح ہو رہی ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب سچائی عیاں ہو کر رہے گی۔ ان کی موت کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں یا اس کو خودکشی کا رنگ دینے والے اصل میں کیا مقصد حاصل کر نا چاہتے تھے؟
اس حوالے سے ابھی تک جو واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں وہ ہمیں چیخ چیخ کے اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ کامران فیصل کو اس کی فرض شناسی اور ایمانداری کی سزا دی گئی۔ اس کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر کرپشن مافیا نے ہر اس ایماندار افسر کو یہ پیغام دیا ہے کہ حق اور سچائی کے لیے جو بھی آواز اٹھائے گا اس کا انجام یہی ہوگا۔ سابق حکومت نے یہ ثابت کر کے چھوڑا کہ اس ملک میں جو جتنا بڑا کرپٹ ہے اس کے لیے اتنے ہی بڑے عہدے ہیں اور جو جتنا ایماندار ہے اس کے لیے اتنی ہی کڑی سزا ہے۔
اس کو حسن اتفاق کہیے یا پھر مجرم کی عیاری کہ 15 جنوری کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا آرڈر آتا ہے۔ 16 کو چیئرمین نیب کی صدر زرداری سے ملاقات ہوتی ہے اور 17 کو رینٹل پاور کے اہم تفتیشی افسر کا قتل ہوجاتا ہے اور ہفتہ گزر جانے کے بعد تک ایف آئی آر نہیں کٹتی۔ اور پھر وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات اور یہ سب اتفاقات ان حقائق کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ کامران فیصل کو اس تمام کرپٹ مافیا نے مل کے مروایا جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جو اس ملک کے تمام وسائل اور کاروبار پہ اپنا حق سمجھتا ہے، جن کے سامنے ہر پاکستانی بکاؤ مال کی طرح ہے کہ جب چاہیں، جس کو چاہیں اپنے مفادات کی خاطر خرید لیں اور جو بکنے کو تیار نہ ہو اس کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹا دیں۔
سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کے حوالے سے جو رپورٹ مرتب کی گئی تھی اس کا 80 فیصد کام کامران نے ہی کیا تھا۔ کامران فیصل نے اپنی رپورٹ میں ترکی کی کار کے پاور کمپنی کے ذمے 125 ملین ڈالر بقایا جات بنائے تھے، جب کہ یہ کمپنی صرف 25، 30 ملین ڈالر میں بات ختم کرنا چاہتی تھی۔ اس کمپنی نے ایک بحری جہاز میں اپنا پاور پلانٹ لگا رکھا تھا۔ اس جہاز نے پاکستان سے بغیر اطلاع بھاگنے کی کو شش بھی کی تھی لیکن سپریم کورٹ کی بروقت مداخلت سے یہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔
کامران فیصل کے قتل کی وجہ آہستہ آہستہ مختلف پیش آنے والے واقعات کی کڑیاں ملانے سے واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت کے نیب کے سربراہ نے رینٹل پاور کیس کی تحقیقات یہ کہہ کر روک دیں تھیں کہ پہلے کامران فیصل کی موت کے بارے میں تحقیقات مکمل کی جائیں۔ انھیں پتا تھا کہ نہ ہی قتل کی تحقیقات پوری ہوں گی اور نہ ہی رینٹل کیس کی تفتیش آگے بڑھے گی اور پھر فصیح بخاری کا ایک اور بیان کہ کامران فیصل کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے، ان کی موت خودکشی ہے اور اس حوالے سے اس وقت ان کی جھنجھلاہٹ اور میڈیا کے اوپر برسنا ایک عام آدمی کی سمجھ سے باہر تھا لیکن اس کیس کے تناظر میں اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ دس ماہ قبل ایک نجی ٹی وی نے اس حوالے سے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ کامران کے اپنے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ میسجز ملے جن کے مطابق نیب کے اعلیٰ افسر ملک کوثر نے کامران فیصل کو پرانی تاریخ کا جعلی بیان حلفی دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اپنے تبادلے کی درخواست میں چیف جسٹس کی طرف سے ناجائز دباؤ ڈالنے کا بھی کہے۔ ملک کوثر جس کی ڈور ملک ریاض کے ہاتھ میں ہے، کامران فیصل کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔
سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کے حوالے سے جن وزراء نے درخواست دے رکھی تھی ان میں سے ایک وفاقی وزیر فیصل صالح حیات تھے اور دوسرے ایم این اے خوا جہ آصف تھے، جن کو اس وقت اپنی در خواست واپس لینے کے عوض 50، 60 کروڑ کی رشوت کا لالچ دیا گیا تھا لیکن انھوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا تھا۔ تو اس نوجوان افسر پہ اس حوالے سے کتنا شدید دباؤ ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، جس نے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر لکھ رکھا تھا 'رشوت ضمیر کی موت ہے'۔ فیصل صالح حیات کا کہنا ہے کہ میری کامران فیصل سے دو بار بات ہوئی، وہ بہت دلیر اور مضبوط ا عصاب والا دکھا ئی دیتا تھا، جب اس کی خودکشی کی خبر آئی تو کافی دیر اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ کامران نے خودکشی کی ہے کیونکہ خودکشی تو کمزور لوگ کرتے ہیں، اب جو میڈیا میں چیزیں آ چکی ہیں مجھے یقین ہوتا جارہا ہے کہ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش ہے اور اس کو راستے سے ہٹایا گیا ہے۔ کامران کے والد کا کہنا ہے کہ '' غسل کے وقت اس کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے اور نیٹ پہ اس کی تصویر دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا کہ اس نے کپڑے بدلے ہوئے ہیں، جوگر پہنے ہوئے ہیں، لٹکا ہوا ہے اور اس کے پاؤں ٹیبل پر ہیں۔ ڈرامہ تو اچھا تھا مگر فیل ہوگیا۔'' نیب کے افسران نے اپنے طور پر جو حقائق نامہ تیار کیا اس میں بھی کامران کی موت کو قتل قرار دیا گیا جو انھوں نے سپریم کورٹ میں پیش کی۔
سپریم کورٹ میں کامران فیصل قتل کے حوالے سے دس ماہ بعد دوبارہ کیس کا آغاز ہو چکا ہے۔ آیندہ آنے والے وقت میں یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں سب لوگوں کو جو اس ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں کامران فیصل کے لیے ضرور آواز اٹھانی ہوگی، اگر ہمارا آزاد میڈیا، عدلیہ اور تمام محکمے ذمے داری سے اپنا کام انجام دیں تو مجرموں کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ کرے کہ یہ کیس اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے، اصل حقائق منظر عام پر آئیں اور جو بھی مجرم ہوں انھیں کڑی سزا ملے تاکہ آیندہ اپنی فرض شناسی پہ کسی بھی ایماندار افسر کو میڈل ملنے کے بجائے موت کا تحفہ نہ ملے۔
کامران فیصل کی موت نے ہر اس پاکستانی کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے جو اس ملک میں انصاف اور کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس موت نے ہم سب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ہمیشہ اس ملک میں حق کے لیے کھڑے ہونیوالے کا یہی انجام ہوتا رہے گا۔ آخر کتنے اور لوگ اپنے فرض کی خاطر یونہی قربانیاں دیتے رہیں گے اور ان کا خون رائیگاں جاتا رہے گا۔ کامران فیصل جن کا تعلق نیب کے ادارے سے تھا اور رینٹل پاور کے ہائی پروفائل کیس پہ کام کر رہے تھے، انھوں نے اچانک خودکشی کی تھی یا ان کو قتل کیا گیا تھا، اس حوالے سے ابھی تک جو حقائق سامنے آئے ہیں، ان سے تصویر کچھ کچھ تو واضح ہو رہی ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب سچائی عیاں ہو کر رہے گی۔ ان کی موت کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں یا اس کو خودکشی کا رنگ دینے والے اصل میں کیا مقصد حاصل کر نا چاہتے تھے؟
اس حوالے سے ابھی تک جو واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں وہ ہمیں چیخ چیخ کے اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ کامران فیصل کو اس کی فرض شناسی اور ایمانداری کی سزا دی گئی۔ اس کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر کرپشن مافیا نے ہر اس ایماندار افسر کو یہ پیغام دیا ہے کہ حق اور سچائی کے لیے جو بھی آواز اٹھائے گا اس کا انجام یہی ہوگا۔ سابق حکومت نے یہ ثابت کر کے چھوڑا کہ اس ملک میں جو جتنا بڑا کرپٹ ہے اس کے لیے اتنے ہی بڑے عہدے ہیں اور جو جتنا ایماندار ہے اس کے لیے اتنی ہی کڑی سزا ہے۔
اس کو حسن اتفاق کہیے یا پھر مجرم کی عیاری کہ 15 جنوری کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا آرڈر آتا ہے۔ 16 کو چیئرمین نیب کی صدر زرداری سے ملاقات ہوتی ہے اور 17 کو رینٹل پاور کے اہم تفتیشی افسر کا قتل ہوجاتا ہے اور ہفتہ گزر جانے کے بعد تک ایف آئی آر نہیں کٹتی۔ اور پھر وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات اور یہ سب اتفاقات ان حقائق کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ کامران فیصل کو اس تمام کرپٹ مافیا نے مل کے مروایا جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جو اس ملک کے تمام وسائل اور کاروبار پہ اپنا حق سمجھتا ہے، جن کے سامنے ہر پاکستانی بکاؤ مال کی طرح ہے کہ جب چاہیں، جس کو چاہیں اپنے مفادات کی خاطر خرید لیں اور جو بکنے کو تیار نہ ہو اس کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹا دیں۔
سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کے حوالے سے جو رپورٹ مرتب کی گئی تھی اس کا 80 فیصد کام کامران نے ہی کیا تھا۔ کامران فیصل نے اپنی رپورٹ میں ترکی کی کار کے پاور کمپنی کے ذمے 125 ملین ڈالر بقایا جات بنائے تھے، جب کہ یہ کمپنی صرف 25، 30 ملین ڈالر میں بات ختم کرنا چاہتی تھی۔ اس کمپنی نے ایک بحری جہاز میں اپنا پاور پلانٹ لگا رکھا تھا۔ اس جہاز نے پاکستان سے بغیر اطلاع بھاگنے کی کو شش بھی کی تھی لیکن سپریم کورٹ کی بروقت مداخلت سے یہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔
کامران فیصل کے قتل کی وجہ آہستہ آہستہ مختلف پیش آنے والے واقعات کی کڑیاں ملانے سے واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت کے نیب کے سربراہ نے رینٹل پاور کیس کی تحقیقات یہ کہہ کر روک دیں تھیں کہ پہلے کامران فیصل کی موت کے بارے میں تحقیقات مکمل کی جائیں۔ انھیں پتا تھا کہ نہ ہی قتل کی تحقیقات پوری ہوں گی اور نہ ہی رینٹل کیس کی تفتیش آگے بڑھے گی اور پھر فصیح بخاری کا ایک اور بیان کہ کامران فیصل کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے، ان کی موت خودکشی ہے اور اس حوالے سے اس وقت ان کی جھنجھلاہٹ اور میڈیا کے اوپر برسنا ایک عام آدمی کی سمجھ سے باہر تھا لیکن اس کیس کے تناظر میں اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ دس ماہ قبل ایک نجی ٹی وی نے اس حوالے سے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ کامران کے اپنے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ میسجز ملے جن کے مطابق نیب کے اعلیٰ افسر ملک کوثر نے کامران فیصل کو پرانی تاریخ کا جعلی بیان حلفی دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اپنے تبادلے کی درخواست میں چیف جسٹس کی طرف سے ناجائز دباؤ ڈالنے کا بھی کہے۔ ملک کوثر جس کی ڈور ملک ریاض کے ہاتھ میں ہے، کامران فیصل کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔
سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کے حوالے سے جن وزراء نے درخواست دے رکھی تھی ان میں سے ایک وفاقی وزیر فیصل صالح حیات تھے اور دوسرے ایم این اے خوا جہ آصف تھے، جن کو اس وقت اپنی در خواست واپس لینے کے عوض 50، 60 کروڑ کی رشوت کا لالچ دیا گیا تھا لیکن انھوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا تھا۔ تو اس نوجوان افسر پہ اس حوالے سے کتنا شدید دباؤ ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، جس نے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر لکھ رکھا تھا 'رشوت ضمیر کی موت ہے'۔ فیصل صالح حیات کا کہنا ہے کہ میری کامران فیصل سے دو بار بات ہوئی، وہ بہت دلیر اور مضبوط ا عصاب والا دکھا ئی دیتا تھا، جب اس کی خودکشی کی خبر آئی تو کافی دیر اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ کامران نے خودکشی کی ہے کیونکہ خودکشی تو کمزور لوگ کرتے ہیں، اب جو میڈیا میں چیزیں آ چکی ہیں مجھے یقین ہوتا جارہا ہے کہ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش ہے اور اس کو راستے سے ہٹایا گیا ہے۔ کامران کے والد کا کہنا ہے کہ '' غسل کے وقت اس کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے اور نیٹ پہ اس کی تصویر دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا کہ اس نے کپڑے بدلے ہوئے ہیں، جوگر پہنے ہوئے ہیں، لٹکا ہوا ہے اور اس کے پاؤں ٹیبل پر ہیں۔ ڈرامہ تو اچھا تھا مگر فیل ہوگیا۔'' نیب کے افسران نے اپنے طور پر جو حقائق نامہ تیار کیا اس میں بھی کامران کی موت کو قتل قرار دیا گیا جو انھوں نے سپریم کورٹ میں پیش کی۔
سپریم کورٹ میں کامران فیصل قتل کے حوالے سے دس ماہ بعد دوبارہ کیس کا آغاز ہو چکا ہے۔ آیندہ آنے والے وقت میں یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں سب لوگوں کو جو اس ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں کامران فیصل کے لیے ضرور آواز اٹھانی ہوگی، اگر ہمارا آزاد میڈیا، عدلیہ اور تمام محکمے ذمے داری سے اپنا کام انجام دیں تو مجرموں کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ کرے کہ یہ کیس اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے، اصل حقائق منظر عام پر آئیں اور جو بھی مجرم ہوں انھیں کڑی سزا ملے تاکہ آیندہ اپنی فرض شناسی پہ کسی بھی ایماندار افسر کو میڈل ملنے کے بجائے موت کا تحفہ نہ ملے۔