پنجاب اور کے پی کے کا سفر
لاہور سے پشاور تک خیبر میل کا سفر رات ہی کا چلا آرہا ہے اور خیبر میل کا لیٹ آنا بھی معمول بنا ہوا ہے۔۔۔
صحافتی اور عام معلومات اور مشاہدے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر دیگر علاقوں میں جانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ وہاں جاکر حالات دیکھے بغیر حقائق آشکار نہیں ہوتے۔ راقم نے یوں تو ملک کے چاروں صوبوں کا سفر کر رکھا ہے، پہلے حکومتیں صحافیوں کو بین الصوبائی دورے کرایا کرتی تھیں اب یہ سلسلہ برائے نام رہ گیا ہے۔ راقم نے 1981 میں بطور صدر شکارپور پریس کلب صحافیوں کے اپنے وسائل سے شکارپور کے 8 صحافیوں کے ہمراہ بذریعہ سڑک پنجاب، آزاد کشمیر اور پشاور کا دورہ کیا تھا اور بعد میں اندرون سندھ اور بلوچستان کے صحافیوں کو بھی دورے کروائے تھے۔ حکومت کے آسروں پر بڑے شہروں کے صحافیوں کو ہی اندرون ملک کے دورے نصیب ہوتے ہیں مگر چھوٹے شہروں کے صحافیوں کو حکومت نہیں پوچھتی۔ راقم نے اپنے وسائل سے صحافیوں کو بین الصوبائی دورے کرانے کا جو آغاز کیا تھا اس کے بعد دیگر شہروں کے صحافیوں نے یہ سلسلہ شروع کیا۔
راقم کو 1986 میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت میں بطور صدر شکارپور پریس کلب و دیگر صحافیوں کے ہمراہ سرکاری طور پر بلوچستان کے چند شہروں کے دورے کا موقع ملا تھا جس میں سندھ کے مختلف اضلاع کے صحافی شامل تھے۔ اس دورے میں بھی بلدیہ اعلیٰ کوئٹہ کے دفتر اور پی ٹی وی کوئٹہ کے دورے کو بھی راقم نے شامل کرایا تھا اور سرکاری طور پر زیادہ زور صوبائی وزرا کی طرف سے دی گئی دعوتوں پر تھا۔ کوئٹہ سے باہر لے جاکر زیر تعمیر کیڈٹ کالج بھی دکھایا گیا تھا۔ صحافیوں کے سرکاری دورے محدود اور مخصوص ہوتے ہیں اور پروگراموں سے باہر جانے کا موقع نہیں ہوتا، اس لیے صحافیوں کے اپنے وسائل سے کیے جانے والے دورے زیادہ موثر اور آزادانہ ہوتے ہیں، صرف خود ابتدا کرنا ہوتی ہے سہولتیں اور راستے خودبخود حاصل ہوجاتے ہیں۔
راقم کو گزشتہ ماہ ٹرین سے لاہور پہنچنے پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ریلوے کچھ بہتر ہوا ہے۔ ٹرینوں میں صفائی اور روشنی کا نظام درست کردیا گیا ہے۔ راستے میں انجن خراب ہونے کی شکایات رفع ہوئی ہیں مگر ٹرین لیٹ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
لاہور پریس کلب کے کینٹین کے نرخ بھی مناسب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے آنے کے بعد پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت کھو رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا میں اخبارات اور جرائد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اچھے نام کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
لاہور سے پشاور تک خیبر میل کا سفر رات ہی کا چلا آرہا ہے اور خیبر میل کا لیٹ آنا بھی معمول بنا ہوا ہے۔ پشاور میں اب تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی ترقی تو نظر نہیں آئی اور جی ٹی روڈ پر سروس روڈ زیر آب اور خراب ہی ملے۔ پشاور میں راقم کو بتایا گیا کہ جی ٹی روڈ پر گزشتہ حکومت میں ایک کلومیٹر طویل اوور ہیڈ برج کی تعمیر کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی اور یہ کام ایک یوٹرن سے لیا جاسکتا تھا اور پشاور ٹرمینل سے موٹروے جانے والی گاڑیاں اوور ہیڈ کی تعمیر کے بغیر یوٹرن لے سکتی تھیں مگر اے این پی کی حکومت نہ جانے کس کو اس اوور ہیڈ کو بناکر فائدہ پہنچانا چاہتی تھی۔ پشاور شہر کی اندرونی گلیوں کی حالت بلدیہ کی توجہ کی منتظر ہے اور ضلعی حکومتوں کے دور میں پشاور جیسا تھا اب وہ نہیں رہا۔ پشاور کے میلاد ہاؤس میں ایک مذہبی شخصیت سید عنایت شاہ سے ملاقات ہوئی جنھوں نے تین منزلہ میلاد ہاؤس بنواکر اسے نعت و میلاد کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اور وہاں ایک نعت کالج بھی قائم کر رکھا ہے۔
شاہ صاحب سے ملنے ان کے مرید بڑی تعداد میں میلاد ہاؤس آتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی وہاں آچکے ہیں۔ سید عنایت شاہ نے بتایا کہ وہ کراچی میں بھی میلاد ہاؤس قائم کرنا چاہتے ہیں اور قدرت نے ان سے جو دینی کام لیا ہے اس کے متعلق انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ پشاور سے راقم بذریعہ سڑک پہلے ہری پور پھر ایبٹ آباد جیسے خوبصورت اور مشہور شہر پہنچا جو فوجی چھاؤنی بھی ہے مگر پشاور واپس آتے ہوئے واپسی کا راستہ ڈرائیور بھول گیا اور کسی اور سمت کافی دور نکل گیا کیونکہ ایبٹ آباد کی اہم شاہراہوں پر مختلف شہروں کو مڑنے والے بورڈ آویزاں نہیں تھے جس کی وجہ سے باہر آنے والوں کو رہنمائی نہیں ملتی اور انھیں لوگوں سے پوچھ کر اپنی منزل کے راستے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ پشاور جی ٹی روڈ کے نہ صرف ہوٹلوں کے کرائے مناسب ہیں بلکہ کھانے کے ہوٹلوں پر چائے پراٹھا کراچی سے بھی سستا ہے۔
پشاور سے واپسی کے سفر میں راولپنڈی میں سی این جی بند ہونے کی وجہ سے ٹیکسی ڈرائیوروں کے منہ مانگے کرائے ادا کرنا پڑے۔ راولپنڈی میں بھی ٹریفک جام کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے ناکوں کا بھی سامنا رہا مگر صحافی دوست طاہر شاہ کے پریس کارڈ کی وجہ سے پریشانی سے محفوظ رہے۔ ریٹائرڈ ڈی ایس پی راجہ نذیر سے شکار پور کے بعد 25 سال بعد ملاقات بڑی مفید رہی۔ اچھا ہوا وہ کراچی کے بجائے راولپنڈی منتقل ہوگئے اور پرسکون زندگی گزارنے پر مطمئن ہیں۔
راولپنڈی سے گوجرانوالہ آکر چیمبرز آف کامرس کی نوجوان قیادت سے ملاقات میں تجارتی معاملات پر آگہی ہوئی جس کے بعد فیصل آباد آکر مشہور گھنٹہ گھر پر رات کو تجاوزات ویسی ہی دیکھی جیسی کراچی لاہور میں ہوتی ہے۔ بڑھتی آبادی، بے ہنگم ٹریفک اور تجاوزات نے یہاں بھی مسائل میں اضافہ کر رکھا ہے۔ فیصل آباد پریس کلب کی وسیع بلڈنگ کی زبوں حالی اور ویران پڑے بڑے بڑے کمرے صحافیوں کے باہمی اختلافات اور پریس کلب کے عہدیداروں کی کارکردگی کا ثبوت فراہم کر رہے تھے، توجہ دے کر پریس کلب کی بڑی عمارت کو تعمیری مقاصد کے لیے بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اپنی آخری منزل ملتان میں بھی صحافیوں سے ملاقات ہوئی اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ملتان میں ہونے والی ترقی بھی دیکھی جس میں ملتان بھی اب پلوں کا شہر بن گیا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے فنڈ ملتان میں بے دریغ خرچ کرکے بھی سابق وزیراعظم ملتان کے عوام کے دل نہ جیت سکے اور ان کے خاندان کو شکست بھی ملتان ہی میں ملنا تھی۔ اپنے اس دورے میں لاہور کی شاہراہوں پر خوبصورت پھولوں کی جو بہار اور خوبصورتی دیکھی وہ قابل تعریف تھی اور دکھ اس بات کا رہا کہ یہ پھولوں کی بہار کراچی کا مقدر کب بنے گی؟
راقم کو 1986 میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت میں بطور صدر شکارپور پریس کلب و دیگر صحافیوں کے ہمراہ سرکاری طور پر بلوچستان کے چند شہروں کے دورے کا موقع ملا تھا جس میں سندھ کے مختلف اضلاع کے صحافی شامل تھے۔ اس دورے میں بھی بلدیہ اعلیٰ کوئٹہ کے دفتر اور پی ٹی وی کوئٹہ کے دورے کو بھی راقم نے شامل کرایا تھا اور سرکاری طور پر زیادہ زور صوبائی وزرا کی طرف سے دی گئی دعوتوں پر تھا۔ کوئٹہ سے باہر لے جاکر زیر تعمیر کیڈٹ کالج بھی دکھایا گیا تھا۔ صحافیوں کے سرکاری دورے محدود اور مخصوص ہوتے ہیں اور پروگراموں سے باہر جانے کا موقع نہیں ہوتا، اس لیے صحافیوں کے اپنے وسائل سے کیے جانے والے دورے زیادہ موثر اور آزادانہ ہوتے ہیں، صرف خود ابتدا کرنا ہوتی ہے سہولتیں اور راستے خودبخود حاصل ہوجاتے ہیں۔
راقم کو گزشتہ ماہ ٹرین سے لاہور پہنچنے پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ریلوے کچھ بہتر ہوا ہے۔ ٹرینوں میں صفائی اور روشنی کا نظام درست کردیا گیا ہے۔ راستے میں انجن خراب ہونے کی شکایات رفع ہوئی ہیں مگر ٹرین لیٹ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
لاہور پریس کلب کے کینٹین کے نرخ بھی مناسب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے آنے کے بعد پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت کھو رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا میں اخبارات اور جرائد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اچھے نام کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
لاہور سے پشاور تک خیبر میل کا سفر رات ہی کا چلا آرہا ہے اور خیبر میل کا لیٹ آنا بھی معمول بنا ہوا ہے۔ پشاور میں اب تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی ترقی تو نظر نہیں آئی اور جی ٹی روڈ پر سروس روڈ زیر آب اور خراب ہی ملے۔ پشاور میں راقم کو بتایا گیا کہ جی ٹی روڈ پر گزشتہ حکومت میں ایک کلومیٹر طویل اوور ہیڈ برج کی تعمیر کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی اور یہ کام ایک یوٹرن سے لیا جاسکتا تھا اور پشاور ٹرمینل سے موٹروے جانے والی گاڑیاں اوور ہیڈ کی تعمیر کے بغیر یوٹرن لے سکتی تھیں مگر اے این پی کی حکومت نہ جانے کس کو اس اوور ہیڈ کو بناکر فائدہ پہنچانا چاہتی تھی۔ پشاور شہر کی اندرونی گلیوں کی حالت بلدیہ کی توجہ کی منتظر ہے اور ضلعی حکومتوں کے دور میں پشاور جیسا تھا اب وہ نہیں رہا۔ پشاور کے میلاد ہاؤس میں ایک مذہبی شخصیت سید عنایت شاہ سے ملاقات ہوئی جنھوں نے تین منزلہ میلاد ہاؤس بنواکر اسے نعت و میلاد کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اور وہاں ایک نعت کالج بھی قائم کر رکھا ہے۔
شاہ صاحب سے ملنے ان کے مرید بڑی تعداد میں میلاد ہاؤس آتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی وہاں آچکے ہیں۔ سید عنایت شاہ نے بتایا کہ وہ کراچی میں بھی میلاد ہاؤس قائم کرنا چاہتے ہیں اور قدرت نے ان سے جو دینی کام لیا ہے اس کے متعلق انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ پشاور سے راقم بذریعہ سڑک پہلے ہری پور پھر ایبٹ آباد جیسے خوبصورت اور مشہور شہر پہنچا جو فوجی چھاؤنی بھی ہے مگر پشاور واپس آتے ہوئے واپسی کا راستہ ڈرائیور بھول گیا اور کسی اور سمت کافی دور نکل گیا کیونکہ ایبٹ آباد کی اہم شاہراہوں پر مختلف شہروں کو مڑنے والے بورڈ آویزاں نہیں تھے جس کی وجہ سے باہر آنے والوں کو رہنمائی نہیں ملتی اور انھیں لوگوں سے پوچھ کر اپنی منزل کے راستے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ پشاور جی ٹی روڈ کے نہ صرف ہوٹلوں کے کرائے مناسب ہیں بلکہ کھانے کے ہوٹلوں پر چائے پراٹھا کراچی سے بھی سستا ہے۔
پشاور سے واپسی کے سفر میں راولپنڈی میں سی این جی بند ہونے کی وجہ سے ٹیکسی ڈرائیوروں کے منہ مانگے کرائے ادا کرنا پڑے۔ راولپنڈی میں بھی ٹریفک جام کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے ناکوں کا بھی سامنا رہا مگر صحافی دوست طاہر شاہ کے پریس کارڈ کی وجہ سے پریشانی سے محفوظ رہے۔ ریٹائرڈ ڈی ایس پی راجہ نذیر سے شکار پور کے بعد 25 سال بعد ملاقات بڑی مفید رہی۔ اچھا ہوا وہ کراچی کے بجائے راولپنڈی منتقل ہوگئے اور پرسکون زندگی گزارنے پر مطمئن ہیں۔
راولپنڈی سے گوجرانوالہ آکر چیمبرز آف کامرس کی نوجوان قیادت سے ملاقات میں تجارتی معاملات پر آگہی ہوئی جس کے بعد فیصل آباد آکر مشہور گھنٹہ گھر پر رات کو تجاوزات ویسی ہی دیکھی جیسی کراچی لاہور میں ہوتی ہے۔ بڑھتی آبادی، بے ہنگم ٹریفک اور تجاوزات نے یہاں بھی مسائل میں اضافہ کر رکھا ہے۔ فیصل آباد پریس کلب کی وسیع بلڈنگ کی زبوں حالی اور ویران پڑے بڑے بڑے کمرے صحافیوں کے باہمی اختلافات اور پریس کلب کے عہدیداروں کی کارکردگی کا ثبوت فراہم کر رہے تھے، توجہ دے کر پریس کلب کی بڑی عمارت کو تعمیری مقاصد کے لیے بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اپنی آخری منزل ملتان میں بھی صحافیوں سے ملاقات ہوئی اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ملتان میں ہونے والی ترقی بھی دیکھی جس میں ملتان بھی اب پلوں کا شہر بن گیا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے فنڈ ملتان میں بے دریغ خرچ کرکے بھی سابق وزیراعظم ملتان کے عوام کے دل نہ جیت سکے اور ان کے خاندان کو شکست بھی ملتان ہی میں ملنا تھی۔ اپنے اس دورے میں لاہور کی شاہراہوں پر خوبصورت پھولوں کی جو بہار اور خوبصورتی دیکھی وہ قابل تعریف تھی اور دکھ اس بات کا رہا کہ یہ پھولوں کی بہار کراچی کا مقدر کب بنے گی؟