ادیبوں کی سماجی حیثیت کی بحالی

1908 میں’’عصمت‘‘ کے نام سے ایک ایسے جریدے کا آغاز ہواجس نے حقوق نسواں کے ترجمان اورنسائی حقوق کیلیے شعور کی بیداری کی

1908 میں ''عصمت'' کے نام سے ایک ایسے جریدے کا آغاز ہوا جس نے حقوق نسواں کے ترجمان اور نسائی حقوق کے لیے شعور کی بیداری کی ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اس جریدے کی ادارت کے فرائض سالہال تک مصور غم علامہ راشد الخیری انجام دیتے رہے۔ ماہنامہ عصمت نے برصغیر میں خواتین کے حقوق کی بیداری اور اس کے تحفظ کے لیے ایک بے مثال علمی اور ادبی تحریک کا آغاز کیا۔ اس کارِخیر میں بڑے بڑے ادیبوں نے اپنا قلمی حصّہ ڈالا اور حقوق نسواں کے اس عظیم الشان مشن میں شامل ہوکر تاریخ کا حصّہ بن گئے۔

ماہنامہ عصمت کی مسلسل اشاعت کو 105 برس کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ ایک صدی سے زیادہ کے عرصے میں تاریخ نے کیسی کیسی کروٹیں بدلیں۔ زمانے نے کیسے کیسے انقلاب دیکھے۔ برصغیر کی تقسیم اور دو نئی مملکتوں کا قیام ایک عظیم واقعہ تھا۔ گزشتہ سو برس پوری دنیا بالخصوص ہمارے خطے کے لیے بہت اہم گذرے ہیں۔ حوادث زمانہ کا شکار ہونے کے باوجود ''ماہنامہ عصمت'' کی مسلسل اشاعت کسی کارنامے سے کم نہیں جس کے لیے علامہ راشد الخیری، ان کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا رازق الخیری، ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ آمنہ نازلی، صاحبزادے طارق خیری، بیٹی صائمہ خیری اور پھر ان سب کے بعد اب ان کی بیٹی صفورا خیری اس ادبی کام کو پوری تندہی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں ماہنامہ ''عصمت'' کی موجودہ مدیر مصور غم علامہ راشد الخیری کی پوتی صفورا خیری نے اس تاریخی جریدے کی ایک سو پانچ سالہ سالگرہ کا پروگرام مرتب کیا تو اس میں صدر مملکت ممنون حسین کو بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی دعوت بھیج دی جسے انھوں نے شرفِ قبولیت بخشا۔ اس یاد گار تقریب کی صدرات انتظار حسین نے کی جب کہ اس موقعے پر اظہار خیال کرنے والوں میں محترمہ زاہدہ حنا، ڈاکٹر سیتہ پال آنند، محمد احمد سبزواری، محترمہ حسینہ معین، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگارشات ان کے صاحبزادے ڈاکٹر آصف فرخی نے پڑھیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے اس پروگرام میں شریک ہو کر وہاں پیش کی گئیں کئی تجاویز کی توثیق بھی کی اور اس کی ضرورت اور اہمیت کو مزید اُجاگر کیا۔ماہنامہ عصمت کی 105 ویں سالگرہ میں شرکت کر کے صدر مملکت ممنون حسین نے اہلِ علم و دانش کے ساتھ اپنے گہرے اور قلبی تعلق کا واضح اظہار کیا ہے اور آخر میں انھوں نے صدارتی فنڈ سے دس لاکھ روپے کی خطیر رقم جریدے کو پیش کی اور حقوق نسواں کے شعور کی بیداری کی گرانقدر اور عظیم الشان تحریک کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔

صدر مملکت ممنون حسین کا اہل علم کے ساتھ طرز عمل روز اوّل ہی سے بہت مشفقانہ ہے۔ اپنے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد جہاں انھوں نے مبارکباد کے لیے آنے والے معاشرے کے دوسرے طبقات کے افراد کو خوش آمدید کہا وہیں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی مختلف انجمنوں نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے فوری وقت عنایت فرماکر اہل علم حضرات کی سماجی اور معاشرتی اہمیت کا اعتراف کیا۔ انھوں نے ادب نوازی کے محض زبانی دعوے نہیں کیے بلکہ عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے اپنی ابتدائی ملاقاتوں میں ہی اپنے اس مشن کا برملا اظہار کردیا تھا کہ وہ اپنے دور صدارت میں تعلیم اور قومی ودیگر پاکستانی زبانوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی ریاستی سطح پر سرپرستی کا قومی فریضہ انجام دیں گے تاکہ ان کی سماجی اور معاشرتی حیثیت کو بڑھاوا مل سکے۔


شعر و ادب، تہذیب و ثقافت، تحقیق و تنقید، فن و حرفت اور فلسفے کے علاوہ فنون لطیفہ کی تمام اصناف کو قیام پاکستان کے بعد ہی نظر انداز کیا گیا۔ حکومتی سرپرستی سے محروم بلکہ نظر انداز کیے جانے کے نتیجہ میں یہ تمام شعبے رفتہ رفتہ اپنی سماجی و معاشرتی حیثیت کھوتے گئے۔ ریاست پر جن بالا دست طبقات نے اپنی گرفت کو مضبوط کیا ان ہی طبقات نے اپنے مخصوص نظریات اور مقاصد کو پروان چڑھانے والے اپنے پسندیدہ ادب کو مذہبی اور قومی نظریات کے محافظ کا درجہ دیا اور صرف منظور نظر ادیبوں کی ریاستی سرپرستی کی جب کہ غیر جمہوری ادوار میں تخلیق کیے جانے والے مزاحمتی ادب کو شجر ممنوعہ سمجھا گیا۔ اس پورے عرصے میں مزاحمتی ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو ملک کا غدار اور دشمنوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ انھیںایسی سخت ترین اور عبرتناک سزاؤں سے دوچار کیا گیا کہ وہ دوسروں کے لیے نشان عبرت بن گئے۔

حقیقی ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں پر حیات کو اس قدر تنگ کیا گیا کہ آج جس کے تصّور سے بھی خوف آتا ہے۔ ایسے خوف زدہ اور سہمے ہوئے ماحول میں حقیقی تخلیق کارکی سوچ و فکر بری طرح متاثر ہوئی۔ ان حالات میں سچے تخلیق کار گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ آزادانہ سوچ و فکر کے دریچوں پر قفل لگائے گئے اور ان کے راستے مکمل مسدود کردیے گئے۔ اس صورتحال کے باوجود ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہر قلم کار گوشہ نشینی اختیار کرنے یا پھر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہو بلکہ جرأت اظہار کے سلیقہ سے سر شار چند ادیبوں نے انجام کی پرواہ کیے بغیر علم بغاوت کو بلند رکھا جب کہ چاپلوس رویہ کی بناء پر انسان دوست، ادیب معاشرے میں بے وقعت اور اپنی اہمیت و افادیت سے محروم ہوتے گئے۔گویا کسی بھی معاشرے کو فکری جلا بخشنے اور اسے ارتقاء کی منازل طے کروانے والوں کو ہمارے یہاں ناکارہ بنا دیا گیا۔ جس کا حتمی نتیجہ معاشرتی، سماجی اور اخلاقی تنزلی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔

اس طرز عمل کی وجہ سے معاشرے میں تحمل، برداشت اور رواداری کی روایات کمزور ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ اب ان قدروں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوچکا ہے۔ محبت اور درگزر کی جگہ آج پورے معاشرے کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس خوفناک صورتحال نے ہمارے پورے سماجی و معاشرتی ڈھانچے کو اس کی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے اہل قلم حضرات پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے قلم سے ایسا ادب تخلیق کریں کہ جس کے نتیجے میں دہشت گردی اور ہر قسم کی انتہا پسندی کو شکست دے کر رواداری پر مشتمل معاشرہ قائم کرنے کی مستحکم بنیادیں فراہم ہوسکیں۔ معاشرتی و سماجی ارتقاء کے لیے ادیب اور دانشوروں کی فکری اور نظریاتی رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی ہے۔ اہل علم حضرات نے ہمیشہ معاشرے میں رواج پاجانے والی سماجی و معاشی نا انصافیوں کی بھر پور مخالفت کی اور معاشرے میں کسی بھی بناء پر سماجی نا ہمواری کے خلاف احتجاج کیا خواہ وہ نا انصافی طبقات کی بناء پر کی گئی ہو یا صنف، مذہب، لسان یا عقیدہ کی بنیاد پر کی گئی ہو۔ روشن خیال ادیبوں نے ہر الزام کا سامنا کیا لیکن جبر کی قوتوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔

صدر مملکت ممنون حسین نے ادیبوں اور شاعروں کی سماجی و معاشرتی حیثیت کی بحالی کے جس عظیم مشن کا بیڑا اٹھایا ہے وہ ہر لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس مشن میں ان کی کامیابی محض ادیبوں اور شاعروں کی سماجی حیثیت کی نئی شناخت تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے بہت ہی دور رس اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہونگے۔ ماہنامہ ''عصمت'' کی 105 ویں سالگرہ کے موقعے پر امید کی جو شمع روشن ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کی تابناکی اور توانائی میں اضافہ کرے۔
Load Next Story