قدیم اک نعرۂ مستانہ

ہوش و خرد، جان و مال و منال اور عہدہ و منصب کی خیر چاہتے ہو تو اس ’’قدیم‘‘ سے پرے رہنا

نفیس، مرقع اور مضبوط جلد اور اس پر ایک چمچماتا ہوا گردپوش، بس ایسی ہی تو ہوتی ہے ناں کتاب۔ (فوٹو: فائل)

یہ شاہوں کے ساتھ فقیروں کا ناتا پرانا ہے، جی بہت پرانا۔ لیکن یہ وہ شاہ نہیں جو خلق خدا پر بزور مسلط ہوجائیں اور انہیں اپنا غلام بنالیں۔ نہیں، نہیں وہ نہیں! بالکل بھی نہیں کہ ان کے سامنے تو فقیر ہمیشہ سربلند کیے خلق خدا کو ان کے وحشی چنگل سے نجات دلانے کےلیے برسرپیکار رہے ہیں۔ فقیر تو اصل شاہوں کی بات کررہا ہے، جن کا اوڑھنا بچھونا فقر رہا ہے۔ جی! ایسے شاہ، جن کے سامنے قلوب زیر ہوجاتے ہیں۔

اور سنیے! آپ فقیر کو سمجھتے کیا ہیں؟ ہر در پر سجدہ ریز تو بھکاری ہوتا ہے، فقیر تو بس ایک ہی باب طلب تک رہتا ہے جی! تو یہ شاہوں کے ساتھ فقیروں کا ناتا پرانا ہے۔ کیا ہم اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ریشم کے ساتھ ٹاٹ کا پیوند کہ شاہ ریشم اور فقیر پیوند، اور پیوند بھی کوئی ایسا ویسا نہیں جی! بس شاہ کے روبرو فقیر پیوندِ زمیں ہے۔ نہ جانے کیا بکے جارہا ہے فقیر تو سنیے!

بس یہ کہہ رہا ہے کہ وہ سید ہے اور شاہ بھی، جسے سب سید کامی شاہ کہتے ہیں۔ وہ کامران ہے تو بس اور مجھ جیسے فقیر کو وہ یار بیلی کہتا ہے۔ فقیر اب اتنا بھی کملا نہیں کہ اس سے دوستی کا دعویٰ کرے۔ تو بس وہ جو کہتا ہے فقیر اسے حکم سمجھتے ہوئے بجا لانے کی اپنی سی سعی کرتا ہے۔ اب جو فقیر کہے گا اس کا ذمے دار سید کامی شاہ ہوگا، فقیر نہیں کہ وہ تو بے علم و بے ہنر ہے۔ وہ کامی ہے اور شاہ بھی اور فقیر عامی ہے اور خاطی بھی، کمّی بھی ہے اور کمین بھی۔ یہ دوسری بات کہ وہ اعلیٰ ظرف و نسب مجھ ایسے بے علم و عمل، گم راہ ملنگ کو بابا جی پکارتا ہے اور زیادہ جوش میں ہو تو اس کا نعرہ بلند ہوتا ہے: "بابا جی کی جے ہو..."

اسے بھی قرب قیامت کی اک نشانی ہی سمجھیے کہ فقیر جیسا عامی بھی اب سید کامی شاہ پر کچھ کہنے لگا ہے تو چلیے اب حکم سید کامی شاہ تو بس فقیر سرِ تسلیمِ راہ۔

اس دور پرفتن میں جب سب کچھ جی! جذبات و احساسات، رشتے ناتے اور تعلقات سب کچھ جدیدیت کا لباس مکر اوڑھ چکا ہے اور سکہ رائج الوقت ہے، ایسے میں وہ عجب انسان ''قدیم'' کا ورد ہی نہیں کرتا بلکہ قدیم کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہے۔ دنیائے مکر و فریب میں کوئی قدیم سے جڑا ہوا ہو تو اسے لوگ، نادان لوگ قنوطی سمجھ بیٹھتے ہیں، لیکن صاحبو! ایسا ہے نہیں کہ جو اپنی بنیاد پر کھڑا ہو تب ہی وہ قدیم کا وظیفہ جپتا ہے۔



حیرت سے کررہا ہوں نیا فلسفہ کشید
واعظ میں تیری عقل سے، افکار سے پرے


ویسے تو کامی کو دیکھیں تو وہ سرتاپا جدت میں رنگا نظر آتا ہے، وہی جدید لباس، وہی جدید اسمارٹ دستی فون، لبوں میں دبا سگریٹ اور دہن سے اٹھتے وہی دھوئیں کے مرغولے۔ بس یہیں سے نادان دھوکا کھا جاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جدید نظر آتے ہوئے بھی قدیم سے جڑا ہوا ہے۔ تو صاحبو! بس یہی ہے وہ نکتہ جس پر سوچنا ہو تو کچھ پلے نہیں پڑتا۔


بدن کے پار بھی اک سلسلہ رواں ہے مرا
بدن کے دشت میں رہنے کی بھی اذیت ہے


بات بس اتنی سی ہے کہ سید کامی شاہ وہ کچھ جان چکا ہے جو مجھ ایسے بے علموں کے گماں میں بھی نہیں آسکتا۔ کیسے؟ ہاں یہ ہے اصل جسے کھوجنا اتنا آسان نہیں ہے۔ چلیے یہ سوال ہم کامی شاہ سے کیے لیتے ہیں۔

یہ سب زمین کے موسم، یہ آسمانِ قدیم
مری نگاہ میں رکھے ہیں سب زمانے قدیم
سمے کے ساتھ میں پھیلا ہوا ہوں تا با اَبد
مرے وجود سے قائم ہے یہ جہانِ قدیم
فلک نژاد ستاروں کے سلسلے سے پَرے
مرا چراغ بنایا ہے اس خدا نے قدیم


اب کچھ جان پائے اس راز کو؟ فقیر تو نہیں جان پایا جی۔

کامی تو کارِ سینہ خراشی پر فائز ہے اور بے شک فائز ہے اور یہ ہر کس و ناکس کا نصیب کہاں۔ میں فقیر اس سے دور دور ہی رہتا ہوں۔ اب یہ اس کا نسبی ظرف ہے کہ وہ خود چلا آتا ہے اور فقیر کو حیران کرتا رہتا ہے جی۔
دیکھیے مجھے اس وقت کون یاد آگیا ہے۔ میں ایک بار کہیں گیا کہ سنا تھا ایسا ہے وہاں کوئی کہ وہاں جو صاحب ہیں، لوگ ان کے پاس جاتے ہیں، لیکن ایک ایسا بھی ہے جو دور بیٹھا رہتا ہے اور کبھی حاضری نہیں دیتا۔ تو چلا گیا، دیکھا کہ سب صاحب کے پاس جارہے ہیں، ایک ہجوم ہے بس چلا جارہا ہے، دھکم پیل اور نہ جانے کیا کیا، ہر ایک، دوسرے پر سبقت لے جانے والا، ہر ایک کے سامنے بس یہ خدشہ کہ کہیں میں محروم نہ رہ جاﺅں۔
تو میں حاضر ہوا، ان کے پاس اور دریافت کیا: آپ تو اتنے قریب ہیں آپ نہیں جاتے صاحب کے پاس؟
تبسم کیا اور یکسر انکار۔
آخر ایسا کیوں؟
مسکرائے اور بس اتنا کہا: ''میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا، صاحب کی دوستی بھی بری اور دشمنی تو ہے ہی۔ جب غضب میں ہوں تو قریب والے سب سے پہلے شکار ہوتے ہیں۔ میں تو بس یہیں پڑا رہتا ہوں، جب لنگر بٹتا ہے تو مجھے یہیں مل جاتا ہے، بس امان میں ہوں۔''

جو کوہ طور پر موسیٰ سے ہم کلام رہی
ہے میرے ساتھ بھی کامی وہی مقدس آگ


جو انسان یہ کہے تو کون ہے جو اس کے قرب کی تمنا کرے بھلا؟

تو کامی شاہ نے مجھ روسیاہ، سے یہ قلب و سیاہ پوش و کرتوت کو سعادت بخشی اور قدیم کے چند اوراق میرے سامنے تلاوت کیے، تو میں برسا اور چھما چھم، بے گانۂ ہوش و خرد، اور تب میں جان پایا کہ سماعت میں انسان پل صراط پر سے گزرتا ہے، تو جو رقم کر رہا ہو، اس پر کیا بیتتی ہے۔

ہم اسے دعوت گریہ نہیں دینے والے
شغل ہے جس کو فقط درہم و دینار کے ساتھ


عجیب سی بات بتائی ایک عارف نے ایک دن، یا شاید مجھے ایسا لگا کہ یہ عجیب ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ نہ آئے یا وہ عام نہ ہو، تو ہمارا ظرف اسے قبول نہیں کرتا اور ہم اسے رد کرتے ہوئے کہنے لگتے ہیں کہ یہ عجیب ہے۔ لیکن جب وہ عجیب بات ہمیں سمجھ میں آجائے یا اس کا تجربہ ہوجائے تو ہم پکارنے لگتے ہیں کہ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ بس ایسا ہے۔ تو بتایا اس بینا نے جو کچھ ہمیں دکھائی دیتا ہے، وہ ایسا ہے نہیں جیسا کہ دکھائی دے، عجیب سا لگا ہمیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جو دکھائی دے رہا ہے، وہ ایسا ہے نہیں، جیسا کہ دکھائی دے رہا ہو۔ لیکن ایسا ہی ہے، اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔

کوئی نہیں ہے انت کہ بے انتہا ہوں میں
یعنی ترے خیال سے یکسر جدا ہوں میں
اچھا بھلے نہ بول برا ہی سمجھ مجھے
تو جانتا تو ہے تِرے دل کو لگا ہوں میں
ایسے ہی دیکھتا ہوں یہ دیگر عجائبات
جیسے ترے نشان کو پہچانتا ہوں میں
سب فلسفے وجود کے مٹی میں مل گئے
ایسی قدیم آگ سے اک دن ملا ہوں میں


یہ شاعری کیا ہوتی ہے اور اسے سنانے والا کون اور کیسا ہونا چاہیے؟ اصل سوال تو یہ ہے۔ ورنہ تو شاعری تو ہمارے آس پاس بہت سے کررہے ہیں لیکن کیا واقعی وہ شاعری ہے بھی؟ نہیں معلوم۔ ہاں ہمارے اردگرد مداریوں کا ایک انبوہِ کثیر ہے، جو خود کو شاعر کہتا ہے۔ لکھتا رہتا ہے اور اپنے کھیسے کو بھرتا رہتا ہے۔ سونے کے درہم و دینار متروک ہوئے تو کیا، ڈالر و پونڈ اور یورو و ریال تو ہیں ناں، وہ سب سے مستفید ہوتا ہے، اور اپنے نفس کا سامان کثیر جمع کرتا رہتا ہے۔ نام و نمود کا حریص، بندگانِ خدا کو نیچ سمجھنے والا، خلقِ خدا کو دھتکارنے والا، رب کے کنبے کے حقوق پامال کرنے والا، مراتب و مناصب کا طلب گار، طمع و لالچ کا شاہ کار، خود کو شاعر سمجھنے کے فریب میں مبتلا مداری، اور مداری بھی کیوں کہوں، کہ وہ مزدور اپنی چرب زبانی سے دھوپ میں کھڑے ہوکر کم از کم مایوس اور رنجیدہ خلقِ خدا کو ہنساتا تو ہے، اور یہ نام نہاد شاعر پناہ رب کی پناہ، کیا میں اسے راتب کہوں جس کی طلب میں یہ دیوانہ وار لپکتے ہیں۔ چلیے دعا کیجیے کہ فقیر سنبھلا رہے اور اپنی بک بک پر قابو رکھے۔

دیکھیے، اصل شاعر کےلیے شرط ہے بینائی کی، سماعت کی، حواس خمسہ کو بہ روئے کار لانے کی، سفر کی، مشقت اٹھانے کی، رت جگے کی، دل جلانے کی، کسی طعنے و تشنیع سے بے نیازی کی، خلقِ خدا کے دکھوں پر آزردہ ہونے کی، ان کی حالتِ زار پر رنجیدہ ہونے کی، اور صرف رنجیدہ ہونے کی نہیں، بلکہ ان کی حالت کو بدلنے کی سعی کرنے کی، مخلوقِ خدا کے اداس چہرے پر مسکراہٹ اور انہیں نوید سنانے والے کی، عاجزی کی، انکساری کی، بے ریائی کی، اخلاص کی، وفاداری کی، کھرے کھوٹے کی تمیز کی، صلہ، ستائش، نام و نمود جسے چھو بھی نہ سکیں، دنیا کی بے ثباتی کی، کون سی دنیا؟ ہاں وہ دنیا جسے غلیظ اور جس کے چاہنے والوں کو کتّا کہا گیا۔

ہاں، ہاں! شاعر تو وہ ہوتا ہے، جو سامعین سے بھی بے نیاز ہو، جو کہہ سکے، ہم نے تو دل جلا کر سرِعام رکھ دیا۔

دکھائی دیتی ہے پانی میں روشی مجھ کو
شگفت گل میں شرارہ دکھائی دیتا ہے


فقیر نے کوشش کی کہ آپ کے سامنے مداری اور شاعر کا فرق بیان کرسکے۔ آپ آزردہ ہوئے تو صاحبو عرض تو کیا ہے کہ فقیر کوئی دانش ور نہیں اک عامی ہے، تو بس آپ اس سے درگزر فرمائیں کہ نادان کو بولنے سے دانا روکتے نہیں بس اس کی بات پر دھیان نہیں دیتے۔ یہ صاحب لوگ اپنے چہیتوں کو وہ وہ راز بتاتے ہیں کہ بس ہم جیسوں کو تو بس اتنا بتایا کہ ایسا کرو تو بینا ہوجاﺅ گے۔ لیکن کیسے؟
یہ راز وہ اپنے لاڈلوں کو بتاتے ہیں جی، انہوں نے خاکِ مدینہ اور نجف سے اپنی بینائی کو آراستہ جو کیا ہوا ہے۔ یہ مدینہ اور نجف بھی ناں! شہرِ علم اور بابِ علم، تو بس وہ اپنے چہیتوں کو بھی یہ راز بتاتے ہیں۔

ہم فقط اس کو سنائیں گے مناجاتِ عزا
جو کبھی بیٹھ کے رویا ہو عزادار کے ساتھ


فقیر بینا کہہ رہا ہے، دکھائی دینا نہیں کہہ رہا۔ جی، جی بینائی اور دکھائی میں زمین و آسمان کا فرق ہے، کیسے؟

یہ ریگ زار کسی آنکھ پر کھلے جو کبھی
ہر ایک ذرہ ریگ آئینہ نظر آئے


جناب رسول کریمؐ نے اپنے رب سے کیا مانگا، دیکھیے یہی کہ اے پروردگارِ عالم مجھے حقیقت اشیا کا علم عنایت کیجیے، تو بس جو مانگا، عطا کیا گیا کہ...
کہ بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر۔

آپ نے یہ نہیں سنا جو ربِ کائنات نے کہا کہ ان کی آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں، لیکن پھر بھی سماعت سے محروم، اب آپ چلتے چلے جائیں۔ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا بینائی اور دکھائی کا فرق، تو میں بے بس و لاچار کیا کروں، بس معذرت۔

تماشا گاہ میں سب کچھ ہے دیکھنے کےلیے
سو دیکھیے جو بھی اچھا، برا نظر آئے
جو دیکھنے کو ہی راضی نہیں ہے خواب کوئی


بتائیے اسے کیسے بھلا نظر آئے


اب یہ آپ خود سوچیں، معلوم کریں یا پھر جو من چاہے کریں۔ تو میں کہہ رہا ہوں کہ اور جب کوئی بینا ہوجائے تو اس کے سامنے سے اشیا بے حجاب ہوجاتی ہیں اور ایسی دکھائی دیتی ہیں، جیسی وہ اپنے اصل میں ہیں۔

دکھائی دیتی ہے پانی میں آگ سی کوئی
اور آگ میں بھی کوئی رنگ سا نظر آئے


یہ کتاب، یہ عام سی کتاب ہے بس، پھر سن لیجیے میں کیا کہہ رہا ہوں۔ یہ عام سی کتاب ہے، اتنی عام کہ بس۔ لیکن آپ جانتے نہیں اور اتنی سادہ سی بات کہ عام ہی انتہائی خاص ہوتا ہے۔ دیکھیے اگر آپ کے سامنے سے کوئی شے گزرے تو آپ اسے دیکھ پائیں گے۔ لیکن اگر اس شے کی رفتار تیز، اور تیز، اور تیز ہو، اور مسلسل یہ رفتار بڑھتی ہی چلی جائے تو وہ شے آپ کے سامنے ہوتے ہوئے بھی آپ کی نظروں سے غیبت میں ہوجائے گی، اور آپ اسے کھوج نہیں سکیں گے۔ بس یہ بینا ہونے پر ہے اور اتنا بینا کہ دید بہ ذات خود بینا نہ رہے، یعنی مستعار کی بینائی نہیں، اور تو اور اپنے بھیتر کی بینائی سے بھی انکار کردے اور اس بینائی میں جذب ہوجائے جو اصل ہے بینائی کا، جو منبع ہے بینائی کا۔ لیکن ایسا ہے بہت کم ہاں انتہائی کم، اتنا کہ کہنے والا پکارتا ہے،
تونے دیکھا نہیں، دوبارہ دیکھ، تونے دیکھا نہیں، دوبارہ دیکھ۔

یہ دیکھنے میں تو عام سی ہی کتاب دکھائی دیتی ہے، جو لوازمات کتاب کےلیے ضروری ہیں، ہاں کاغذ اور ایسا کہ اس پر کچھ تحریر ہو، نفیس، مرقع اور مضبوط جلد اور اس پر ایک چمچماتا ہوا گردپوش، بس ایسی ہی تو ہوتی ہے ناں کتاب تو، ہم تو ایسی ہی دیکھی ہے، لیکن، لیکن، یہ کوئی شاعری ہے کیا؟

یار جانی بڑا تماشا ہے
یہ جو تیرا مرا تماشا ہے
رازِ عشاق جاننے والے
یہ کوئی دوسرا تماشا ہے
تیسری سمت سے کھلی تصویر
چار جانب نِرا تماشا ہے
آپ تو آدمی سے واقف ہیں
کچھ تو کہیے یہ کیا تماشا ہے


پتا نہیں، میں قطعاً نہیں جانتا۔ میں تو آپ سب کا سجن بیلی ہونے کے ناتے بس التماس کرتا ہوں کہ خبردار، صد ہزار بار خبردار یہ شاعری نہیں، طلسم ہے، اور وہ بھی ہوش ربا۔ یہ تو ایک عشوہ ہے اور توبہ اس کی طرازیاں، پل میں تولہ اور پل میں ماشہ۔ نہیں، نہیں، میں پھر گم راہ ہوا، پل میں ذرّہ اور پھر کائنات۔ ابھی تو سفر شروع ہوا تھا کہ نڈھال، اور پھر اچانک ہی چابک پڑتے ہی طبیعت بحال، ابھی تو ظلمات اور اتنی گہری کہ کچھ بھی سجھائی نہ دے اور پھر اچانک ہی نور کی آمد کے ساتھ اندھیرا پسپا اور سب کچھ روشن و عیاں، ابھی تو تحت الثریٰ میں تھے کہ اعلیٰ علِین پر فروکش ہوگئے، ابھی تو ایسے تھے کہ فرشتے تسلیم بجا لائیں اور پھر ایسے کہ شیطان رجیم پناہ مانگنے لگے، ابھی تو مایوس تھے کہ اچانک ہی امید کے مجسم ہوگئے۔ ابھی تو ایسا تھا کہ عبادت گاہ میں راز و نیاز اور پھر اچانک ہی طوائف کے کوٹھے پر دراز ایک دریچہ کعبے میں کھلا، تو دوسرا بت کدے میں۔ یہ کوئی شاعری ہے کیا؟

دل ہے نمازی اور یہ دل ہی امام ہے
یہ بارگاہِ عشق علیہ السلام ہے
تونے ہمارے دل کو جلایا، دھواں کیا
تجھ ایسے عاشقوں کو ہمارا سلام ہے


کامی ہمیں تو دشت کے دن سے پتہ چلا
مشکل میں پڑگئی ہے سہولت پسند شام
سورج کی خودکشی میں برابر کی ہے شریک
جنگل کا سبز رنگ بدلتی ہوئی یہ آگ


ہوش و خرد، جان و مال و منال اور عہدہ و منصب کی خیر چاہتے ہو تو اس ''قدیم'' سے پرے رہنا۔ خبردار اسے چھوا بھی تو میں پھر کہے دیتا ہوں، تنبیہہ کرتا ہوں، ہاتھ جوڑتا ہوں، پاﺅں پڑتا ہوں، منت کرتا ہوں، اگر آپ نے اسے چھوا بھی تو نتائج کے ذمے دار آپ خود ہوں گے۔

نکلے گی مجھ کو پھونک کے، بھاگے گی ایک دن
اندر لہو کے خوب مچلتی ہوئی یہ آگ


یہ کامی شاہ جیسے دیکھنے میں ہزار سیدھے دکھائی دیں، پر ہوتے نہیں ہیں۔ یہ ہر رنگ میں جلتے ہیں سحر ہونے تک، اور خود ہی نہیں اپنے چاہنے والوں کو بھی جلا کر بھسم کردیتے ہیں۔ انسان کسی جوگا نہیں رہتا کہ نم آنکھوں، دریدہ دامن، ایک آنکھ مسکراتی اور دوسری اشک بہاتی ہے۔ کیا اب میں آپ کو شاہد و مشہود کا بھی بتاﺅں؟ اور مجھے کیا معلوم یہ کیا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ لکھنا، بتانا فقیر کا منصب ہرگز ہرگز نہیں ہے، نہ ہی مجھ میں اتنی سکت ہے، نہ ہی حوصلہ و جسارت۔ ابتدا میں آپ کو بتایا تھا ناں کہ حکم حاکم کو تو اپنے پاﺅں کی بوسیدہ جوتی تلے بہ فضلِ خدا روندا جاسکتا ہے اور روندنے کی سعادت بھی ملی، لیکن، لیکن حکمِ کامی شاہ کو کیسے ٹالا جائے کہ ارشاد ہوا، مومن کی فراست سے ڈر کہ وہ خدا کے نور سے بینا ہے۔

باہر نکل کے خانۂ گنبد نما سے دیکھ
سایہ ہے اس مکان کا دیوار سے پرے


تین تکونیں، تین تماشے، بیچ میں چار تماشائی
تھا وہ کوئی کھیل ہی جس کو دل نے عبث آزار کیا
کون زمانی، کون مکانی، کون ہے کامی لافانی
کون تھا جس نے گھڑی بنائی وقت مرا دشوار کیا


یہ کوئی شاعری ہے کیا؟ نسیمِ سحری بھی، بادِ سموم بھی، دھوپ بھی، سایہ بھی، آندھی بھی، طوفان بھی، خزاں بھی، بہار بھی، تشنگی بھی، آسودگی بھی، صحرا بھی، سراب بھی، نخلستان بھی، عریاں بھی، باحجاب بھی، حاضر بھی، غائب بھی، ماضی بھی، حال بھی، گزرا ہوا پل بھی، آنے والا لمحہ بھی، مسئلہ بھی، حل بھی، حبس بھی، لو بھی، برسات بھی، سکوت بھی، کلام بھی، ماتم کرتی رقص کناں بھی۔ کیا کیا بتاﺅں؟ کیسے بتاﺅں؟ اتنی سکت کہاں سے لاﺅں؟ یہ کوئی شاعری ہے کیا؟

آہ و فغاں کے ساتھ سینہ کوبی کرتی ہوئی، اور کھلکھلاتی، قہقہہ برساتی اور پھر رلاتی ہوئی اور ایسی کہ نیناں برسیں، رم جھم رم جھم۔

یہ ہے بھیدوں بھری جادوئی شاعری
آدمی کےلیے عشق کی شاعری
وہ جو پہلی سماعت پہ کھلتی نہیں
مجھ پہ کھلنے لگی ہے وہی شاعری
وحدتِ ہجر میں مجھ پہ نازل ہوئی
مجھ کو حیران کرتی ہوئی شاعری
لال ہوتا ہوا باغِ شعلہ نما
اور بڑھتی ہوئی شعلگی شاعری
میں زمیں کےلیے نغمۂ احمریں
وہ خداوند کی کاسنی شاعری


یہ کوئی شاعری ہے کیا؟ اسے کہتے ہیں کیا شاعری؟ ابھی تو اتنی ٹھنڈ کہ خود کو نکتۂ انجماد پر پائیں اور پھر ایسی تپش کہ مست الست، کپڑے اتار، ننگ دھڑنگ، نعرۂ ہاﺅ، ہُو...

خوب جھگڑا کریں، خوب گِریہ کریں
آؤ مل جل کے پھر اِک تماشا کریں
دل نہیں لگ رہا ہے کہیں بھی مرا
اس اذیت میں تھوڑا اضافہ کریں
ٹوٹنا دل کا کوئی نئی بات ہے
بات بھی ہو کوئی جس کا چرچا کریں
وہ جو سب کچھ تھا اب وہ نہیں ہے کہیں
اب کسی اور کی کیا تمنا کریں
اب جو کم پڑگیا ہے سبھی کچھ یہاں
کس سے کہیے کہ صاحب مداوا کریں
یہ جو سینے میں جلتی ہوئی آگ ہے
آئنہ ہے میاں، اِس کو دیکھا کریں
کوئی اس باغ میں کاسنی بھید ہے
کس سے کہیے بھلا، کس سے پوچھا کریں


بس کیجیے، جائیے اپنا کام کیجیے، میں کمّی کمین رخصت ہوا اور آپ کون ہوتے ہیں، مجھے روکنے والے۔


میں بارگاہ ہوس سے فرار کیسے ہوا
کبھی سناؤں گا تم کو یہ داستانِ قدیم


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story