لاہور ہائی کورٹ کا پٹرولیم بحران رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم
عدالت نے وفاقی حکومت کی رپورٹ کے اجرا میں مزید مہلت کی درخواست مسترد کردی
لاہور ہائی کورٹ نے پٹرولیم بحران انکوائری کمیشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی رپورٹ کے اجرا میں مزید مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کمیشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ وزیراعظم کو موصول ہو چکی اور انہی کے حکم کے مطابق کل کابینہ میں پیش کی جائے گی۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ 2 دسمبر کو بھی آپ لوگوں نے کہا تھا کہ رپورٹ حکومت کو بھیج دی ہے، کیا حکومت ہر تاریخ پر یہی کھیلتی رہے گی کہ آئندہ تاریخ میں رپورٹ کابینہ میں رکھی جا رہی ہے؟، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب دل کرے گا تب رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، ساری کابینہ مل کر کہہ دے کہ اس رپورٹ نے پبلک نہیں ہونا تو پھر بھی رپورٹ پبلک ہوگی، 30 دن کیا آپ نے اس رپورٹ کو مائیکرو ویو میں رکھنا ہے؟، وفاقی حکومت نے 3 دسمبر کو میٹنگ میں رپورٹ پیش کرنا تھی، کیا یہ لکھ دوں کہ یہ حکومتی بدنیتی ہے؟، میں سمجھتا ہوں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے، کچھ افسران کی نااہلیاں سامنے آئی ہیں جن کو جتنا التواء رکھا جا سکتا ہے رکھ لیا جائے، رپورٹ میں جتنی غلطیاں، کوتاہیاں سامنے آئی ہیں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ رپورٹ پبلک ہو، میں اس رپورٹ کو پبلک کر رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: پٹرول بحران تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو موصول، کل جاری کی جائے گی
پٹرولیم کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے بتایا کہ وزارت انرجی اور آئل کمپنیز ایڈوائزی کونسل (او سی اے سی) کے پاس کے پاس مکمل ریکارڈ نہیں ہے، جب ڈی جی آئل سے 1971ء کے رولز کے تحت پوچھا کہ ریکارڈ دیں تو انہوں نے معاملہ اوگرا پر ڈال دیا، اوگرا اپنی ذمہ داری ڈی جی آئل پر اور ڈی جی آئل اپنی ذمہ داری اوگرا پر ڈالتے رہے، ہم نے عالمی منڈی میں پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی گرتی قیمتوں کے دوران یہاں درآمد پر پابندی تھی جس کے باعث 1 لاکھ 88 ہزار ٹن امپورٹ نہیں کیا گیا، کابینہ نے بھی ریشنلائزیشن کی منظوری نہ دی اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا کردار بھی اچھا نہیں رہا، ایندھن کی قیمتیں مقرر کرنے کا طریقہ کار انتہائی پرانا ہے، اسٹیک ہولڈرز کو پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ ماہ قیمتیں کم ہو جائیں گی۔
ابو بکر خدابخش نے اپنی انکوائری کے بارے میں بتایا کہ ہم نے 94 پمپ چیک کئے جنہوں نے کوٹہ حاصل کر رکھا تھا، انہیں ایک لاکھ لیٹر پٹرول کاغذوں میں وصول ہوا اور درحقیقت 40 ہزار لیٹر وصول ہوتا رہا، مارکیٹ شیئر کے حساب سے9 کمپنیوں نے 5 ارب روپے کمائے، کچھ کمپنیوں کا ایندھن کا جہاز آگیا تھا لیکن 10 دن انتظار میں رہے کہ حکومت قیمت بڑھائے اور پھر جہاز لنگر انداز کریں، ہمارے ملک میں 66 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ہیں جنہیں ہم سنبھال نہیں پا رہے، انڈیا اور بنگلا دیش نے اپنی آئل کمپنیوں کو کنٹرول کر رکھا ہے،ایک کمپنی جس کا ایک بھی پمپ نہیں اسکو ایک ہزار ٹن کا کوٹہ دیا گیا، ڈاکٹر شفیع آفریدی جسے ڈی جی آئل تعینات کیا گیا وہ ویٹرنری ڈاکٹر ہے، ایرانی پٹرول کا جہاز پکڑا گیا تو اسے ملی بھگت سے پاکستان میں بیچا جاتا رہا، عامر عباسی جو بائیکو ریفائنری کے مالک ہیں وہ نیب کو مطلوب ہیں، جو بندہ قانون کا بھگوڑا ہو اسکو لائسنس جاری نہیں ہو سکتا، ملزم پر 23 ارب کا الزام ہے اور نیب نے سندھ میں سوا ارب روپے میں پلی بارگین کرلی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کو پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک کرنے کیلیے 14 دسمبر تک مہلت
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کہ اس کا مطلب ہے ایک بندہ جس پر 23 ارب روپے کا الزام ہے اسے سوا ارب میں دھو کر صاف ستھرا کر دیا، چیئرمین اس طرح کی پریس کانفرنسز کرتے ہیں کہ اتنے پیسے ریکور کر لئے، حکومت کے 4 دن پہلے ریٹ بڑھانے کی وجہ سے 7 کمپنیوں نے 2 ارب روپے کما لیے۔
ابوبکر خدا بخش نے کہا کہ بارڈر پر بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہوتی ہے، 20 فیصد اسمگلنگ کا پٹرول پکڑا جاتا ہے باقی نہیں پکڑا جاتا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ جو کوئٹہ تعینات ہوتے ہیں وہ ایک سال بعد ارب پتی بن کر آتے ہیں۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ اوگرا کو تحلیل کیا جائے، نئے پٹرولیم رولز بنائے جائیں اور اسٹاک کا معاملہ اس کے تحت رکھا جائے، پٹرول کی قیمتیں 15 دن کی بجائے 30 دن میں بڑھائی یا کم کی جائیں، بحران کے ذمہ داروں کیخلاف نیب کا کیس بنایا جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ عہدوں پر نہیں رہے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، 4 دن پہلے قیمت بڑھانے سے ریاست کو نقصان ہوا ہے وہ کس سے ریکور کیا جائے، حکومت پاکستان یقینی بنائے کہ بغیر رکاوٹ عوام کو ایندھن دستیاب ہو، رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں کہ مافیا سپلائی میں رکاوٹ پیدا نہ کر سکے، ڈپٹی کمشنرز اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔
لاہور ہائی کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی رپورٹ کے اجرا میں مزید مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کمیشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ وزیراعظم کو موصول ہو چکی اور انہی کے حکم کے مطابق کل کابینہ میں پیش کی جائے گی۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ 2 دسمبر کو بھی آپ لوگوں نے کہا تھا کہ رپورٹ حکومت کو بھیج دی ہے، کیا حکومت ہر تاریخ پر یہی کھیلتی رہے گی کہ آئندہ تاریخ میں رپورٹ کابینہ میں رکھی جا رہی ہے؟، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب دل کرے گا تب رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، ساری کابینہ مل کر کہہ دے کہ اس رپورٹ نے پبلک نہیں ہونا تو پھر بھی رپورٹ پبلک ہوگی، 30 دن کیا آپ نے اس رپورٹ کو مائیکرو ویو میں رکھنا ہے؟، وفاقی حکومت نے 3 دسمبر کو میٹنگ میں رپورٹ پیش کرنا تھی، کیا یہ لکھ دوں کہ یہ حکومتی بدنیتی ہے؟، میں سمجھتا ہوں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے، کچھ افسران کی نااہلیاں سامنے آئی ہیں جن کو جتنا التواء رکھا جا سکتا ہے رکھ لیا جائے، رپورٹ میں جتنی غلطیاں، کوتاہیاں سامنے آئی ہیں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ رپورٹ پبلک ہو، میں اس رپورٹ کو پبلک کر رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: پٹرول بحران تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو موصول، کل جاری کی جائے گی
پٹرولیم کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے بتایا کہ وزارت انرجی اور آئل کمپنیز ایڈوائزی کونسل (او سی اے سی) کے پاس کے پاس مکمل ریکارڈ نہیں ہے، جب ڈی جی آئل سے 1971ء کے رولز کے تحت پوچھا کہ ریکارڈ دیں تو انہوں نے معاملہ اوگرا پر ڈال دیا، اوگرا اپنی ذمہ داری ڈی جی آئل پر اور ڈی جی آئل اپنی ذمہ داری اوگرا پر ڈالتے رہے، ہم نے عالمی منڈی میں پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی گرتی قیمتوں کے دوران یہاں درآمد پر پابندی تھی جس کے باعث 1 لاکھ 88 ہزار ٹن امپورٹ نہیں کیا گیا، کابینہ نے بھی ریشنلائزیشن کی منظوری نہ دی اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا کردار بھی اچھا نہیں رہا، ایندھن کی قیمتیں مقرر کرنے کا طریقہ کار انتہائی پرانا ہے، اسٹیک ہولڈرز کو پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ ماہ قیمتیں کم ہو جائیں گی۔
ابو بکر خدابخش نے اپنی انکوائری کے بارے میں بتایا کہ ہم نے 94 پمپ چیک کئے جنہوں نے کوٹہ حاصل کر رکھا تھا، انہیں ایک لاکھ لیٹر پٹرول کاغذوں میں وصول ہوا اور درحقیقت 40 ہزار لیٹر وصول ہوتا رہا، مارکیٹ شیئر کے حساب سے9 کمپنیوں نے 5 ارب روپے کمائے، کچھ کمپنیوں کا ایندھن کا جہاز آگیا تھا لیکن 10 دن انتظار میں رہے کہ حکومت قیمت بڑھائے اور پھر جہاز لنگر انداز کریں، ہمارے ملک میں 66 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ہیں جنہیں ہم سنبھال نہیں پا رہے، انڈیا اور بنگلا دیش نے اپنی آئل کمپنیوں کو کنٹرول کر رکھا ہے،ایک کمپنی جس کا ایک بھی پمپ نہیں اسکو ایک ہزار ٹن کا کوٹہ دیا گیا، ڈاکٹر شفیع آفریدی جسے ڈی جی آئل تعینات کیا گیا وہ ویٹرنری ڈاکٹر ہے، ایرانی پٹرول کا جہاز پکڑا گیا تو اسے ملی بھگت سے پاکستان میں بیچا جاتا رہا، عامر عباسی جو بائیکو ریفائنری کے مالک ہیں وہ نیب کو مطلوب ہیں، جو بندہ قانون کا بھگوڑا ہو اسکو لائسنس جاری نہیں ہو سکتا، ملزم پر 23 ارب کا الزام ہے اور نیب نے سندھ میں سوا ارب روپے میں پلی بارگین کرلی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کو پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک کرنے کیلیے 14 دسمبر تک مہلت
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کہ اس کا مطلب ہے ایک بندہ جس پر 23 ارب روپے کا الزام ہے اسے سوا ارب میں دھو کر صاف ستھرا کر دیا، چیئرمین اس طرح کی پریس کانفرنسز کرتے ہیں کہ اتنے پیسے ریکور کر لئے، حکومت کے 4 دن پہلے ریٹ بڑھانے کی وجہ سے 7 کمپنیوں نے 2 ارب روپے کما لیے۔
ابوبکر خدا بخش نے کہا کہ بارڈر پر بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہوتی ہے، 20 فیصد اسمگلنگ کا پٹرول پکڑا جاتا ہے باقی نہیں پکڑا جاتا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ جو کوئٹہ تعینات ہوتے ہیں وہ ایک سال بعد ارب پتی بن کر آتے ہیں۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ اوگرا کو تحلیل کیا جائے، نئے پٹرولیم رولز بنائے جائیں اور اسٹاک کا معاملہ اس کے تحت رکھا جائے، پٹرول کی قیمتیں 15 دن کی بجائے 30 دن میں بڑھائی یا کم کی جائیں، بحران کے ذمہ داروں کیخلاف نیب کا کیس بنایا جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ عہدوں پر نہیں رہے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، 4 دن پہلے قیمت بڑھانے سے ریاست کو نقصان ہوا ہے وہ کس سے ریکور کیا جائے، حکومت پاکستان یقینی بنائے کہ بغیر رکاوٹ عوام کو ایندھن دستیاب ہو، رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں کہ مافیا سپلائی میں رکاوٹ پیدا نہ کر سکے، ڈپٹی کمشنرز اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔