دیامر بھاشا ڈیم رائلٹی کیلیے پختونخوا اور گلگت بلتستان میں تنازع

وفاقی حکومت کا غیر جانبدار کمیشن کی تشکیل اورمتنازع اراضی پر رینجرز تعینات کرنیکا فیصلہ

22ہزار افراد بے گھر کرکے رائلٹی دوسروں کو دینا ناانصافی ہے، احتجاج کرینگے، صوبائی وزیر ۔فوٹو:فائل

وفاقی حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کی متنازع اراضی پر کسی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کیلیے سیکیورٹی فورسز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم کی8کلومیٹر اراضی کی ملکیت پر دیامر اور کوہستان کے لوگوں کا تنازع ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کو وفاقی وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کے ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزارت داخلہ کو ایک مراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں دونوں گروپوں کے مابین کسی بھی تصادم کو روکنے کیلیے سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کی درخواست کی گئی ہے۔ دونوں گروپوں کے مابین کشیدگی رواں ماہ اس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب کوہستان کے لوگوں نے قراقرم ہائی وے کو کئی دن بند رکھااور دیامر بھاشا ڈیم کی مجوزہ اراضی کی جانب مارچ کی دھمکی دی تھی۔ وفاقی وزارت پانی و بجلی کے ذرائع نے بتایا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی پر پختونخوا اور گلگت بلتستان حکومتوں کے مابین اختلافات میگا ڈیم کی جلد تعمیرمیں رکاوٹ ہیں، واپڈا حکام کا کہنا ہے کہ دونوں حکومتوں کے مابین تنازعات طے کیے بغیر میگا ڈیم کے تعمیراتی کام کا باقاعدہ آغاز حکومت کیلیے مسئلہ بن گیا ہے۔ وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کچھ دن ہوئے ایک اجلاس منعقد کرچکی ہے۔

جس میںوزیر امورکشمیر و گلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید، وفاقی سیکریٹری امور کشمیر و گلگت بلتستان، پختونخوا اور گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹریز نے شرکت کی تھی، وزارتی کمیٹی کے اجلاس میں متنازع اراضی پر وفاقی سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی اور تنازعات نمٹانے کیلیے غیر جانبدار کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تنازعات نے اس وقت سر اٹھایا جب حکومت کی طرف ڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کی اطلاع پرکوہستان کے لوگوں نے چلاس شہر کے قریب بساری چیک پوسٹ کے اطراف کی اپ اسٹریم اراضی پر ملکیت کا دعویٰ کردیا، اسی اثنا میںضلع دیامر کے لوگوں نے ہربن تک ڈائون اسٹریم کے علاقے کی ملکیت کا دعویٰ کردیا۔ دلچسپ بات یہ کہ متنازع اراضی کا ریونیو ڈپارٹمنٹ میں کسی کی باقاعدہ ملکیت کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔




تاریخ تو یہ ہے کہ اس متنازع اراضی کا کنٹرول گلگت بلتستان انتظامیہ کے پاس رہا ہے اور کئی دہائیوں سے بساری چیک پوسٹ پر گلگت بلستان کی فورسز تعینات ہیں۔ وزارتی کمیٹی کے اجلاس میں طے کیاجاچکاہے کہ متنازع اراضی پر مجوزہ کمیشن کے فیصلے تک بساری اور ہربن چیک پوسٹ پر رینجرزتعینات رکھی جائے۔ 8 کلومیٹر اراضی وہی جگہ ہے جہاں دیامر بھاشا ڈیم کا بجلی گھر تعمیر ہونا ہے اور آئین کے تحت بجلی گھر کی رائلٹی پر اسی صوبے کا حق ہوتا ہے جہاں یہ تعمیر ہو۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت دونوں صوبوں کے مابین اراضی کا تنازع نمٹانے کیلیے غیرجانبدار کمیشن بنائے گی، دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیح ہے، تعمیر میں حائل رکاوٹوں کو جلد دور کردیا جائے گا۔ ضلع دیامر سے منتخب ہونے والے گلگت بلتستان کے وزیر ورکس بشیر احمد خان نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر کیلیے30دیہات خالی کرائے جائیں گے اور 22ہزار افراد کو یہاں سے بے گھر کیا جائے گا اس صورت میںرائلٹی دوسرے ضلع کو دینا ناانصافی ہے۔

انھوں نے خبر دار کیا کہ جانبدارانہ فیصلے پردیامر کے عوام سخت ردعمل ظاہر کریں گے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے جو علاقہ کئی دہائیوں سے ضلع دیامر کی انتظامیہ کے کنٹرول میں رہا ہو اور وہ ضلع کوہستان کا حصہ ہو۔ دوسری جانب ضلع کوہستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ متنازع اراضی کوہستان کا حصہ ہے اوربجلی گھر کی رائلٹی پر ان کا حق ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم دریائے سندھ پرتربیلا ڈیم کی300کلو میٹر اپ اسٹریم اور 40کلومیٹرڈائون اسٹریم چلاس پر تعمیر کیا جارہا ہے، ڈیم میں پانی کی گنجائش80لاکھ ایکڑفٹ ہو گی، ڈیم سے 4500میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔
Load Next Story