ایک ہَوں مُسلم حَرم کی پاسبانی کے لیے ۔۔۔۔
اﷲ تعالی ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق کرامت فرمائے۔
اتحاد و اتفاقِ اُمّت کے سلسلے میں قرآن حکیم فرقان حمید میں ہمیں یوں آفاقی اور دائمی راہ نمائی ملتی ہے۔
مفہوم: ''اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پُھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حالِ زار پر خُدا کے احسان کو تو یاد کرو جب تم آپس میں (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو خُدا نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کردی تو تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم گویا سلگتی ہوئی آگ کی بھٹّی (دوزخ) کے لب پر کھڑے تھے اور گِرنے ہی والے تھے کہ خُدا نے تم کو اس سے بچا لیا، تو خُدا اپنے احکام یوں واضح کرکے بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔''
رسالت مآب، نبی کریم، شفیع المذنبین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نورانی کلام کی خوش بُو ملاحظہ فرمائیے:
مفہوم''جو اِس عالَم میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے اُمور کی فکر اور اس کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِسی طرح جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو تو جو بھی اُس کی آواز پر لبّیک نہ کہے، وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔'' (بحارالانوار)
خاتونِ جنت، سیّدۃ النساء العالمین حضرتِ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا یوں راہ نمائی فرماتی ہیں: ''لوگوں کے درمیان میرے پدرِ گرامی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہدایت کے لیے کھڑے ہوئے اور اُن کو گم راہی سے نجات دی اور اندھے پن سے روشنی کی طرف راہ نمائی کی، مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی، صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔''
امیر المومنین، امام المتّقین حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ نہج البلاغہ کے ایک خطبے کے ایک حصّے میں ہمیں یہ دائمی درس دے رہے ہیں: (دعوتِ اتّحاد و اتّفاق) ''تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اور خبردار! تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہوجانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اﷲ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔ ان کی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شُتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہَوں کہ ان کا توڑنا تو جرم ہے، لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔''
کلماتِ قصار میں بھی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کیا خوب راہ نمائی فراہم کرتے ہیں: ''لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول رکھو کہ مرجاؤ تو لوگ گِریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔''
علّامہ محمّداقبالؒ کی سیاسی بصیرت کو سلام، جنھوں نے کیا خوب کہا ہے:
ایک ہَوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
اب ہم اتحادِ اُمّت کے پانچ اہم ترین اسباب پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
(1) سب سے پہلے تعلیم و تربیت ہے۔ عصری علوم کے ساتھ تمام تعلیمی اداروں اور مدارس وغیرہ میں دینی علوم کی جدید تعلیمی و تدریسی خدمات اشد ضروری ہیں۔ اِس ضمن میں دیگر مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، ریسرچ اسکالرز اور دیگر ذمّے داروں کی تحریروں سے آشنائی ازبس ضروری ہے۔
ہم سب حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کے مقام کو جانتے ہیں اور انہیں باب العلم ماننے والے ہیں، ہم صرف مُشکلات ہی کی نشان دہی نہیں کرتے بل کہ اُن کا حل بھی بتاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے مدرسوں میں برادرانِ اہلِ سُنّت کے علمائے کرام پڑھانے آئیں اور ان کے مدرسوں میں ہمارے علمائے کرام پڑھانے جائیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے۔ اِس روِش کو اگر خلوصِ دل سے اپنایا جائے اور یہ خلوص دو طرفہ ہو تو اتحادِ اُمّت کا ایک بہترین وسیلہ اور سبب ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنّی اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
(2) تحمل و برداشت اور رواداری۔ دوسرے نمبر یہ اَخلاقی صفات آتی ہیں۔ ہم سب کے لیے بہترین نمونۂ عمل حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ''اگر مجھے فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا، تو میں اہلِ انجیل کے معاملات کا انجیل سے، اہلِ زبور کے معاملات کا زبور سے اور اہلِ تورات کے معاملات کا تورات سے فیصلہ کرتا۔''
اِس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ اپنے اپنے مکتب ِفکر سے اگر فیصلہ کرانے والے میرے پاس رجوع کریں، تو میں اُنھی کے مکتب فکر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اپنے مکتب کے فیصلے کو کسی پر زبردستی نافذ نہیں کروں گا۔ اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحمل و برداشت اور رواداری ہر مکتب ِ فکر کے افراد کے لیے کس قدر ضروری اور لازمی ہے۔ انسانیت کا رشتہ ہونا چاہیے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کی تعلیمات کے مطابق دِین کا رشتہ سب سے حاکم رشتہ ہے۔ دِین بھی ہمیں انسانیت، محبت، خلوص اور باہمی احترام و رواداری ہی کا درس دیتا ہے۔
(3) اتحادِ اُمّت کا تیسرا اہم سبب مسلم حکم رانوں کی سیرت و کردار اور اُن کے رویّوں سے متعلق ہے۔ اگر ان کا قبلہ دُرست ہے، تو مسائل کم اور فضائل کا باب وَا ہوگا۔ مسلم اُمّہ کے تمام حکم رانوں کا اسلامی حقائق سے آشنا اور مخلص ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مثل مشہور ہے کہ عوام اپنے پیشواؤں کے دِین پر ہوتے ہیں۔ اگر حکم ران متّقی اور پرہیزگار ہَوں، تو لامحالہ عوام کے دلوں میں بھی خوفِ خدا رہے گا۔ اگر حکم ران رعایا سے محبت کرتے ہوں گے، اُن کے حقوق کے محافظ ہوں گے، تو رعایا بھی اپنے فرائض اور وظائف بہتر انداز میں انجام دے گی، اس لیے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔
( 4) اتحادِ اُمّت کے اسباب میں سے چوتھا اہم سبب معاشرے میں امت کے علمائے کرام سے متعلق ہے۔ صاحبانِ فکر، صاحبانِ دِقّت، صاحبانِ بصیرت، ایثار گر، فداکار، تحمل مزاج، مہربان، پُرمودّت، معاملہ فہم شخصیات، علماء و فضلا کی معاشرے میں حیثیت و اہمیت تب ہی تسلیم کی جاتی ہے، جب علم و تقویٰ میں اضافے کی وجہ سے اُن کی سیرت و کردار کے نقوش بہتر سے بہتر ہَوں۔
(5) اتحادِ اُمّت کا پانچواں اہم سبب معاشرے میں درحقیقت کردار حسینؓ کا فروغ ہے۔ سیّد الشّہداء حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے معاشرے کی بہتری اور نکھار، دِین کی سربلندی و حاکمیت کے لیے ایک باقاعدہ نظام دیا ہے۔ آپؓ کی سیرت و کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
آخر میں شیرِ خدا حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے اِس نورانی کلام پر ہم اپنی طالب علمانہ معروضات کا اختتام کریں گے۔ آپ کرم اﷲ وجہہ نے ہم سب کی یوں راہ نمائی فرمائی ہے: ''اسلام سے بلندتر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزّت کوئی نہیں ہے۔ پرہیز گاری سے بہتر کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کام یاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔''
اﷲ تعالی ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق کرامت فرمائے۔ آمین
مفہوم: ''اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پُھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حالِ زار پر خُدا کے احسان کو تو یاد کرو جب تم آپس میں (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو خُدا نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کردی تو تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم گویا سلگتی ہوئی آگ کی بھٹّی (دوزخ) کے لب پر کھڑے تھے اور گِرنے ہی والے تھے کہ خُدا نے تم کو اس سے بچا لیا، تو خُدا اپنے احکام یوں واضح کرکے بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔''
رسالت مآب، نبی کریم، شفیع المذنبین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نورانی کلام کی خوش بُو ملاحظہ فرمائیے:
مفہوم''جو اِس عالَم میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے اُمور کی فکر اور اس کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِسی طرح جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو تو جو بھی اُس کی آواز پر لبّیک نہ کہے، وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔'' (بحارالانوار)
خاتونِ جنت، سیّدۃ النساء العالمین حضرتِ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا یوں راہ نمائی فرماتی ہیں: ''لوگوں کے درمیان میرے پدرِ گرامی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہدایت کے لیے کھڑے ہوئے اور اُن کو گم راہی سے نجات دی اور اندھے پن سے روشنی کی طرف راہ نمائی کی، مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی، صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔''
امیر المومنین، امام المتّقین حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ نہج البلاغہ کے ایک خطبے کے ایک حصّے میں ہمیں یہ دائمی درس دے رہے ہیں: (دعوتِ اتّحاد و اتّفاق) ''تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اور خبردار! تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہوجانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اﷲ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔ ان کی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شُتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہَوں کہ ان کا توڑنا تو جرم ہے، لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔''
کلماتِ قصار میں بھی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کیا خوب راہ نمائی فراہم کرتے ہیں: ''لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول رکھو کہ مرجاؤ تو لوگ گِریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔''
علّامہ محمّداقبالؒ کی سیاسی بصیرت کو سلام، جنھوں نے کیا خوب کہا ہے:
ایک ہَوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
اب ہم اتحادِ اُمّت کے پانچ اہم ترین اسباب پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
(1) سب سے پہلے تعلیم و تربیت ہے۔ عصری علوم کے ساتھ تمام تعلیمی اداروں اور مدارس وغیرہ میں دینی علوم کی جدید تعلیمی و تدریسی خدمات اشد ضروری ہیں۔ اِس ضمن میں دیگر مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، ریسرچ اسکالرز اور دیگر ذمّے داروں کی تحریروں سے آشنائی ازبس ضروری ہے۔
ہم سب حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کے مقام کو جانتے ہیں اور انہیں باب العلم ماننے والے ہیں، ہم صرف مُشکلات ہی کی نشان دہی نہیں کرتے بل کہ اُن کا حل بھی بتاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے مدرسوں میں برادرانِ اہلِ سُنّت کے علمائے کرام پڑھانے آئیں اور ان کے مدرسوں میں ہمارے علمائے کرام پڑھانے جائیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے۔ اِس روِش کو اگر خلوصِ دل سے اپنایا جائے اور یہ خلوص دو طرفہ ہو تو اتحادِ اُمّت کا ایک بہترین وسیلہ اور سبب ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنّی اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
(2) تحمل و برداشت اور رواداری۔ دوسرے نمبر یہ اَخلاقی صفات آتی ہیں۔ ہم سب کے لیے بہترین نمونۂ عمل حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ''اگر مجھے فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا، تو میں اہلِ انجیل کے معاملات کا انجیل سے، اہلِ زبور کے معاملات کا زبور سے اور اہلِ تورات کے معاملات کا تورات سے فیصلہ کرتا۔''
اِس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ اپنے اپنے مکتب ِفکر سے اگر فیصلہ کرانے والے میرے پاس رجوع کریں، تو میں اُنھی کے مکتب فکر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اپنے مکتب کے فیصلے کو کسی پر زبردستی نافذ نہیں کروں گا۔ اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحمل و برداشت اور رواداری ہر مکتب ِ فکر کے افراد کے لیے کس قدر ضروری اور لازمی ہے۔ انسانیت کا رشتہ ہونا چاہیے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کی تعلیمات کے مطابق دِین کا رشتہ سب سے حاکم رشتہ ہے۔ دِین بھی ہمیں انسانیت، محبت، خلوص اور باہمی احترام و رواداری ہی کا درس دیتا ہے۔
(3) اتحادِ اُمّت کا تیسرا اہم سبب مسلم حکم رانوں کی سیرت و کردار اور اُن کے رویّوں سے متعلق ہے۔ اگر ان کا قبلہ دُرست ہے، تو مسائل کم اور فضائل کا باب وَا ہوگا۔ مسلم اُمّہ کے تمام حکم رانوں کا اسلامی حقائق سے آشنا اور مخلص ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مثل مشہور ہے کہ عوام اپنے پیشواؤں کے دِین پر ہوتے ہیں۔ اگر حکم ران متّقی اور پرہیزگار ہَوں، تو لامحالہ عوام کے دلوں میں بھی خوفِ خدا رہے گا۔ اگر حکم ران رعایا سے محبت کرتے ہوں گے، اُن کے حقوق کے محافظ ہوں گے، تو رعایا بھی اپنے فرائض اور وظائف بہتر انداز میں انجام دے گی، اس لیے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔
( 4) اتحادِ اُمّت کے اسباب میں سے چوتھا اہم سبب معاشرے میں امت کے علمائے کرام سے متعلق ہے۔ صاحبانِ فکر، صاحبانِ دِقّت، صاحبانِ بصیرت، ایثار گر، فداکار، تحمل مزاج، مہربان، پُرمودّت، معاملہ فہم شخصیات، علماء و فضلا کی معاشرے میں حیثیت و اہمیت تب ہی تسلیم کی جاتی ہے، جب علم و تقویٰ میں اضافے کی وجہ سے اُن کی سیرت و کردار کے نقوش بہتر سے بہتر ہَوں۔
(5) اتحادِ اُمّت کا پانچواں اہم سبب معاشرے میں درحقیقت کردار حسینؓ کا فروغ ہے۔ سیّد الشّہداء حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے معاشرے کی بہتری اور نکھار، دِین کی سربلندی و حاکمیت کے لیے ایک باقاعدہ نظام دیا ہے۔ آپؓ کی سیرت و کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
آخر میں شیرِ خدا حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے اِس نورانی کلام پر ہم اپنی طالب علمانہ معروضات کا اختتام کریں گے۔ آپ کرم اﷲ وجہہ نے ہم سب کی یوں راہ نمائی فرمائی ہے: ''اسلام سے بلندتر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزّت کوئی نہیں ہے۔ پرہیز گاری سے بہتر کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کام یاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔''
اﷲ تعالی ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق کرامت فرمائے۔ آمین