جرائم کا خاتمہ مگر کیسے ۔۔۔
’’اﷲ تعالیٰ سے ڈرو، جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔‘‘
NEW DELHI:
حضرات صحابہ کرامؓ اور حضرات تابعینؒ کی یہ عادت رہی ہے کہ جب ایک دوسرے سے رخصت ہوتے تھے تو کہتے کہ کچھ نصیحت کیجیے۔ چھوٹے اپنے بڑوں سے نصیحت کی فرمائش کرتے تھے اور بڑے اپنے چھوٹوں سے نصیحت طلب کرتے تھے۔ عام طور سے سلف کی یہ نصیحت ہوتی تھی کہ میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہی سلف کا عام جواب ہوتا تھا۔
تقویٰ کیا ہے؟ اسے کیسے اختیار کیا جائے؟
اﷲ تعالیٰ کے قرآن پاک میں ارشاد کا مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔'' (سورہ آلعمران)
تقویٰ کے ایک معنی ڈرنے اور خوف کے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور خوف و خشیت اختیار کرو، کسی حالت میں بے فکر ہوکر مت بیٹھو، خواہ دولت مند ہو یا مفلس ہو، ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ کا ڈر انسان کو رہنا چاہیے۔
اگر غور کیا جائے تو جتنے جرائم اور گناہ ہیں وہ اﷲ کے ڈر سے ہی ختم ہوتے اور ہوسکتے ہیں۔ جب تک دل میں ڈر اور خوف خداوندی نہیں ہوگا انسان جرائم سے باز نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں فسق و فجور، مار دھاڑ، بدنیّتی اور فسادات عام ہوتے جارہے ہیں، جس کی زندہ مثال آج کل معاشرت میں درندگی کے ہونے والے واقعات ہیں۔ کس طرح معصوم بچے، بچیوں اور خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ارتکاب جرائم کی وجہ یہ نہیں کہ اِس دور میں حفاظتی اداروں کی کمی ہے بل کہ دلوں میں اﷲ کا ڈر و خوف باقی نہیں رہا، اگر خوف خدا دلوں میں ہو تو انسان کو جرائم کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔ چاہیے تنہائی میں ہو یا مجمع میں وہ ہر جگہ اور ہر حال میں گنا ہ اور جرم سے بچے گا۔
اسلام نے آخرت کا جو عقیدہ پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو ہر وقت یہ تصور رہے کہ مجھے اﷲ کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنا پڑے گی اور ہر انسان سے اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ زندگی کس طرح گزاری؟ اس کا جواب دینا پڑے گا۔ یہ عقیدہ ایسا ہے کہ جس سے انسان ہر جرم اور گناہ سے بچ سکتا ہے اور اسی عقیدے کی وجہ سے دنیا میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ''جو ڈرتا ہے وہ اندھیرے (رات) میں اُٹھتا ہے، جو اندھیرے میں اُٹھتا ہے وہ منزل پالیتا ہے۔ سنو! اﷲ کا سودا مہنگا ہے۔ سنو! اﷲ تعالیٰ کا سودا جنّت ہے۔'' (ترمذی)
یعنی جس کے دل میں اﷲ کا خوف و ڈر اور آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ رات کے اندھیرے میں اُٹھتا ہے، اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ دنیا کی معمولی لذّتوں یا چھوٹی ادنی ضرورتوں کی خاطر گناہوں کا مرتکب ہوجانا بہت نقصان کی بات ہے۔ عام طور پر انسان لذّت یا ضرورت کی خاطر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضرت احنف بن قیس تابعیؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت عمرؓ کی محفل میں بیٹھے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے پوچھا: بتاؤ! جاہل کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت! جو بندہ اپنی دنیا بنانے کے خاطر اپنی آخرت کو تباہ کر بیٹھے، اسے جاہل کہتے ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اجہل (سب سے بڑا جاہل) کون ہے؟ انہوں نے کہا: جی ضرور بتائیے۔ آپؓ نے فرمایا: جو انسان دوسروں کے خاطر اپنی آخرت تباہ کر بیٹھے اسے اجہل کہتے ہیں۔
دو بنیادی باتیں ہیںِ، ایک دل میں اﷲ کا ڈر، دوسرا آخرت کے عقیدے کی مضبوطی کہ جو کچھ میں دنیا میں کر رہا ہوں قیامت کے روز مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جب ایک انسان کے دل میں ہو تو وہ خیانت و جرائم کی جرأت و ہمت نہیں کرسکتا۔
حضرت امام جعفر صادق ؓ کو بچپن میں کسی بزرگ نے بے قراری کے ساتھ روتے ہوئے دیکھ کر وجہ پوچھی تو آپؓ نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن جب بار بار پوچھا تو اس وقت آپؓ اور زیادہ رونے لگے اور فرمایا: میں اﷲتعالیٰ کے غضب کے خوف سے اور دوزخ کی آگ کے ڈر سے رو رہا ہوں۔ اس بزرگ نے عرض کیا: آپ ابھی چھوٹے اور معصوم ہیں آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس جملے پر آپ مزید آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں جب آگ سلگانا ہوتی ہے تو پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں سلگا کر اس کو تیز کرتے ہیں، جب وہ آگ پکڑ لیتی ہیں تو بڑی لکڑیاں ڈالی جاتی ہیں، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ روز قیامت چھوٹی لکڑیوں کے بدلے مجھ جیسے کم عمر پہلے دوزخ میں نہ جھونک دیے جائیں۔
یہ تھا ان بزرگان دین کا تقویٰ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے تقویٰ میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔
تقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ یہی سوال حضرت ابی کعبؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یارسول ﷺ! تقویٰ (اﷲتعالیٰ کا ڈر) کسے کہتے ہیں؟ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کیا تم کبھی کانٹوں والے جنگل سے گزرے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے پوچھا! کیسے گزرتے ہو؟ عرض کیا! جب کانٹا دیکھتا ہوں تو اپنے جسم اور کپڑوں کو بچا کر نکلتا ہوں تاکہ کپڑے نہ پھٹیں اور جسم زخمی نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہی تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر ہے۔ (تفسیر درمنشور)
اس سے معلوم یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر اِس کا نام ہے کہ اپنی دُنیاوی زندگی کا سفر اس طرح مکمل کیا جائے کہ ہر اُس فعل سے اپنے آپ کو بچایا جائے جس سے ایمان خراب ہوتا ہے۔
حضرت واقدیؒ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر یہ ہے کہ جس طرح تم مخلوق کے لیے اپنے ظاہر کو آراستہ کرتے ہو، اسی طرح تم خالق کے لیے اپنے باطن کو آراستہ کرو اور اﷲ تعالیٰ تمہیں وہ کام کرتا نہ دیکھے جس کا م سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے۔
اگر انسان کا دل خوف خدا اور تقویٰ سے خالی ہو تو پھر اس کا دل شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے، جس سے وہ آسانی کے ساتھ گناہ کرواتا ہے، شیطان، انسان کی نگاہوں میں گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے۔ یہ اس کا ایک بڑا وار ہے، وہ گناہ کے بارے میں دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ یہ معمولی گناہ تو اکثر کرتے ہی رہتے ہیں، یہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ شیطان انسان کی نگاہ میں ان گناہوں کو اس لیے چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے تاکہ وہ کرتا ہی رہے، اس لیے فاسق گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی تھی اور اس کو اُڑا دیا۔ جب کہ مومن بندہ گناہ کو ایسے سمجھتا ہے، جیسے سر پر کوئی پہاڑ رکھ دیا گیا ہو۔
صوفیائے کرامؒ فرماتے ہیں کہ کچھ کرنے کا نام تقویٰ نہیں، بل کہ کچھ نہ کرنے کو تقویٰ کہتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن سے اﷲ ناراض ہو ان کو نہ کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جرائم، فسادات، قتل و غارت گری کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخری کون سی ایسی دوا ہے جس کے ذریعے اس مہلک مرض سے نجات مل سکتی ہے تو جواب ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہ ہے تقویٰ یعنی خوف خُدا، اگر یہ ہمارے دلوں میں آجائے تو ان شاء اﷲ پورے ملک بل کہ پوری دنیا میں اَمن قائم ہوجائے گا۔
حضرات صحابہ کرامؓ اور حضرات تابعینؒ کی یہ عادت رہی ہے کہ جب ایک دوسرے سے رخصت ہوتے تھے تو کہتے کہ کچھ نصیحت کیجیے۔ چھوٹے اپنے بڑوں سے نصیحت کی فرمائش کرتے تھے اور بڑے اپنے چھوٹوں سے نصیحت طلب کرتے تھے۔ عام طور سے سلف کی یہ نصیحت ہوتی تھی کہ میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہی سلف کا عام جواب ہوتا تھا۔
تقویٰ کیا ہے؟ اسے کیسے اختیار کیا جائے؟
اﷲ تعالیٰ کے قرآن پاک میں ارشاد کا مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔'' (سورہ آلعمران)
تقویٰ کے ایک معنی ڈرنے اور خوف کے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور خوف و خشیت اختیار کرو، کسی حالت میں بے فکر ہوکر مت بیٹھو، خواہ دولت مند ہو یا مفلس ہو، ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ کا ڈر انسان کو رہنا چاہیے۔
اگر غور کیا جائے تو جتنے جرائم اور گناہ ہیں وہ اﷲ کے ڈر سے ہی ختم ہوتے اور ہوسکتے ہیں۔ جب تک دل میں ڈر اور خوف خداوندی نہیں ہوگا انسان جرائم سے باز نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں فسق و فجور، مار دھاڑ، بدنیّتی اور فسادات عام ہوتے جارہے ہیں، جس کی زندہ مثال آج کل معاشرت میں درندگی کے ہونے والے واقعات ہیں۔ کس طرح معصوم بچے، بچیوں اور خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ارتکاب جرائم کی وجہ یہ نہیں کہ اِس دور میں حفاظتی اداروں کی کمی ہے بل کہ دلوں میں اﷲ کا ڈر و خوف باقی نہیں رہا، اگر خوف خدا دلوں میں ہو تو انسان کو جرائم کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔ چاہیے تنہائی میں ہو یا مجمع میں وہ ہر جگہ اور ہر حال میں گنا ہ اور جرم سے بچے گا۔
اسلام نے آخرت کا جو عقیدہ پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو ہر وقت یہ تصور رہے کہ مجھے اﷲ کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنا پڑے گی اور ہر انسان سے اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ زندگی کس طرح گزاری؟ اس کا جواب دینا پڑے گا۔ یہ عقیدہ ایسا ہے کہ جس سے انسان ہر جرم اور گناہ سے بچ سکتا ہے اور اسی عقیدے کی وجہ سے دنیا میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ''جو ڈرتا ہے وہ اندھیرے (رات) میں اُٹھتا ہے، جو اندھیرے میں اُٹھتا ہے وہ منزل پالیتا ہے۔ سنو! اﷲ کا سودا مہنگا ہے۔ سنو! اﷲ تعالیٰ کا سودا جنّت ہے۔'' (ترمذی)
یعنی جس کے دل میں اﷲ کا خوف و ڈر اور آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ رات کے اندھیرے میں اُٹھتا ہے، اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ دنیا کی معمولی لذّتوں یا چھوٹی ادنی ضرورتوں کی خاطر گناہوں کا مرتکب ہوجانا بہت نقصان کی بات ہے۔ عام طور پر انسان لذّت یا ضرورت کی خاطر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضرت احنف بن قیس تابعیؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت عمرؓ کی محفل میں بیٹھے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے پوچھا: بتاؤ! جاہل کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت! جو بندہ اپنی دنیا بنانے کے خاطر اپنی آخرت کو تباہ کر بیٹھے، اسے جاہل کہتے ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اجہل (سب سے بڑا جاہل) کون ہے؟ انہوں نے کہا: جی ضرور بتائیے۔ آپؓ نے فرمایا: جو انسان دوسروں کے خاطر اپنی آخرت تباہ کر بیٹھے اسے اجہل کہتے ہیں۔
دو بنیادی باتیں ہیںِ، ایک دل میں اﷲ کا ڈر، دوسرا آخرت کے عقیدے کی مضبوطی کہ جو کچھ میں دنیا میں کر رہا ہوں قیامت کے روز مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جب ایک انسان کے دل میں ہو تو وہ خیانت و جرائم کی جرأت و ہمت نہیں کرسکتا۔
حضرت امام جعفر صادق ؓ کو بچپن میں کسی بزرگ نے بے قراری کے ساتھ روتے ہوئے دیکھ کر وجہ پوچھی تو آپؓ نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن جب بار بار پوچھا تو اس وقت آپؓ اور زیادہ رونے لگے اور فرمایا: میں اﷲتعالیٰ کے غضب کے خوف سے اور دوزخ کی آگ کے ڈر سے رو رہا ہوں۔ اس بزرگ نے عرض کیا: آپ ابھی چھوٹے اور معصوم ہیں آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس جملے پر آپ مزید آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں جب آگ سلگانا ہوتی ہے تو پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں سلگا کر اس کو تیز کرتے ہیں، جب وہ آگ پکڑ لیتی ہیں تو بڑی لکڑیاں ڈالی جاتی ہیں، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ روز قیامت چھوٹی لکڑیوں کے بدلے مجھ جیسے کم عمر پہلے دوزخ میں نہ جھونک دیے جائیں۔
یہ تھا ان بزرگان دین کا تقویٰ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے تقویٰ میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔
تقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ یہی سوال حضرت ابی کعبؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یارسول ﷺ! تقویٰ (اﷲتعالیٰ کا ڈر) کسے کہتے ہیں؟ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کیا تم کبھی کانٹوں والے جنگل سے گزرے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے پوچھا! کیسے گزرتے ہو؟ عرض کیا! جب کانٹا دیکھتا ہوں تو اپنے جسم اور کپڑوں کو بچا کر نکلتا ہوں تاکہ کپڑے نہ پھٹیں اور جسم زخمی نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہی تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر ہے۔ (تفسیر درمنشور)
اس سے معلوم یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر اِس کا نام ہے کہ اپنی دُنیاوی زندگی کا سفر اس طرح مکمل کیا جائے کہ ہر اُس فعل سے اپنے آپ کو بچایا جائے جس سے ایمان خراب ہوتا ہے۔
حضرت واقدیؒ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر یہ ہے کہ جس طرح تم مخلوق کے لیے اپنے ظاہر کو آراستہ کرتے ہو، اسی طرح تم خالق کے لیے اپنے باطن کو آراستہ کرو اور اﷲ تعالیٰ تمہیں وہ کام کرتا نہ دیکھے جس کا م سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے۔
اگر انسان کا دل خوف خدا اور تقویٰ سے خالی ہو تو پھر اس کا دل شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے، جس سے وہ آسانی کے ساتھ گناہ کرواتا ہے، شیطان، انسان کی نگاہوں میں گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے۔ یہ اس کا ایک بڑا وار ہے، وہ گناہ کے بارے میں دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ یہ معمولی گناہ تو اکثر کرتے ہی رہتے ہیں، یہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ شیطان انسان کی نگاہ میں ان گناہوں کو اس لیے چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے تاکہ وہ کرتا ہی رہے، اس لیے فاسق گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی تھی اور اس کو اُڑا دیا۔ جب کہ مومن بندہ گناہ کو ایسے سمجھتا ہے، جیسے سر پر کوئی پہاڑ رکھ دیا گیا ہو۔
صوفیائے کرامؒ فرماتے ہیں کہ کچھ کرنے کا نام تقویٰ نہیں، بل کہ کچھ نہ کرنے کو تقویٰ کہتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن سے اﷲ ناراض ہو ان کو نہ کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جرائم، فسادات، قتل و غارت گری کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخری کون سی ایسی دوا ہے جس کے ذریعے اس مہلک مرض سے نجات مل سکتی ہے تو جواب ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہ ہے تقویٰ یعنی خوف خُدا، اگر یہ ہمارے دلوں میں آجائے تو ان شاء اﷲ پورے ملک بل کہ پوری دنیا میں اَمن قائم ہوجائے گا۔