سارے رنگ
’سن ڈے ایکسپریس‘ کے آنے والے ’سال نامے‘ کے لیے ہم جنوری اور فروری 2020ء میں بیتنے والے کچھ اہم واقعات چُن رہے تھے۔
لاہور:
'بے دھیانی' میں بھی دھیان تمھارا رہتا ہے!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
'سن ڈے ایکسپریس' کے آنے والے 'سال نامے' کے لیے ہم جنوری اور فروری 2020ء میں بیتنے والے کچھ اہم واقعات چُن رہے تھے، غلطی یہ ہوئی کہ روزنامہ 'ایکسپریس' کی ویب سائٹ کھولی، تو سہواً ہم جنوری 2020ء کے بہ جائے جنوری 2019ء کے واقعات جمع کرنے لگے۔۔۔ جلد ہی ہمیں غلطی کا احساس ہوا، اور ہم نے فوراً رجوع کرلیا، لیکن اس میں ہمیں ایک 'عجیب وغریب' قسم کی خبر بھی مل گئی۔
جو اتفاق سے تھی بھی ایک غلطی کے حوالے سے۔۔۔ لیکن اس کی نوعیت کچھ زیادہ ہی سنگین تھی، تین جنوری 2019ء کو شایع ہونے والی اس خبر میں لکھا تھا کہ شکر گڑھ (پنجاب) کے علاقے 'اخلاص پور' میں ایک بیوپاری طارق نے بے دھیانی میں چار لاکھ 20 ہزار روپے کی رقم چارے کی مشین میں ڈال دی۔۔۔! چارہ کاٹنے والی مشین کی زَد میں آکر بھاری مالیت کے ان نوٹوں کی چھیتڑے اڑ گئے۔
خبر کے مطابق یہ سنگین سہو ہونے کا سبب یہ تھا کہ طارق نے نقدی کا تھیلا چارے کے قریب ہی رکھا تھا، اس لیے جب چارہ کترنے کو تھیلا اٹھایا تو یہ چارے کے بہ جائے ''بے چارہ'' روپوں کا تھیلا ہاتھ میں آگیا، جس پر طارق نے غور ہی نہیں کیا اور اس کے نتیجے میں وہ تقریباً سوا چار لاکھ روپے سے ہاتھ دو بیٹھے۔۔۔ دراصل وہ یہ رقم مویشیوں کی خریداری کے لیے گھر سے لائے تھے۔۔۔
اب تو دو سال ہونے کو آئے ہیں، جانے اس بیوپاری کے ساتھ آگے کیا بیتی ہوگی۔۔۔ لیکن ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ بعض اوقات ایسی معمولی سی غلطیاں کس قدر 'گھاتک' سزا کا موجب بن جاتی ہیں۔۔۔ ہمیں تو اپنے عوام کی حالت ان کترے ہوئے نوٹوں کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے۔۔۔ اور کبھی عوام بھی تو ایسا سہو اور بھول کر بیٹھتے ہیں کہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے جیسی صورت حال ہو جاتی ہے، بالخصوص عام انتخابات میں ''بے دھیانی'' میں کسی غلط انتخابی نشان پر مہر لگانے کے بعد صورت حال کچھ ایسی ہی ہونے لگتی ہے۔۔۔ تو کبھی ہمارے سربراہ اور ہمارے سیاسی راہ بر ایسی 'بے دھیانی' کر بیٹھتے ہیں کہ جس کا خمیازہ پھر شہریوں اور ان کے چاہنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔ اسی طرح کبھی کوئی پیشوا اپنے پیروکاروں کو اپنی ایسی ہی کسی 'بے دھیانی' کے نتیجے میں لے ڈوبتا ہے، ہمارے مختلف ادارے بھی 'بے دھیانی' میں ایسا کچھ کر گزرتے ہیں۔۔۔ کہ بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ 'کسی کی جان گئی اور آپ کی ادا ٹھیری۔۔۔!'
ہونے کو تو اور بھی بہت سی بے دھیانیاں ہوتی ہیں، لیکن سچی بات ہے کہ ہمارے اندر انھیں نوک قلم پر لانے کا جگرا نہیں ہے۔۔۔ شاعر کے بقول 'بے دھیانی میں بھی دھیان تمھارا رہتا ہے!' بس ہمارا ماجرا بھی کچھ ایسا ہی ہے، لیکن یہاں سخن وَر موصوف نے کسی خوب رُو، ماہ رُخ اور پری وش کے خیال میں یہ مصرع نذر کیا ہوگا، لیکن سرِ دست ہماری بے دھیانی مین ''دھیان'' رکھنے کا ماجرا اس سے کچھ سوا ہے۔۔۔ اس لیے اسے جانے ہی دیجیے۔
۔۔۔
آزاد تنہائی کا جشن
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
شب بھر مقدس پانی میرے خیمے پر برستا رہا ہے اور بجلی کے کوندے جامنی آسمان کو نقرئی گوٹ لگاتے رہے ہیں۔
کسی پہاڑی چشمے سے بہہ کر آتی برفیلے پانی کی نالی جس کے کناروں پر جنگلی سونف اُگی ہے۔
میں شب بھر تنہائی کے 'کینوس' پر یک رنگی تصویریں بناتی رہی اور صبح ہونے پر میں نے دیکھا کہ ان کے کنارے گہرے ہو رہے تھے، جیسے سوکھ جانے پر حنا کا رنگ گھنا ہو جاتا ہے۔۔۔
یا محبت کے لمحات کی جنوں خیزی کے وہ گواہ جو صبح اٹھنے پر بے حد واضح ہوتے ہیں۔ میں نے آزاد پانی کی وحشت سے منہ دھویا اور پھر سر اٹھا کر اس بلندی کو دیکھا، جہاں پہنچنے کے لیے مجھے لہو میں کچھ بارود بھرنا ہو گا۔
نیم راہ کہسار اور ایک سمادھی!
معلوم نہیں کسی کی۔۔۔ شاید کسی صوفی ، قاتل یا پھر عاشق کی؟
میری پنڈلیوں میں تھکن کے سنپولیے کسمساتے ہیں اور سانس میں پن چکی کُوکتی ہے۔ بالوں کی جڑوں سے پسینا بہہ رہا ہے، جس میں دو دن پہلے کے بسائے عطر کی باسی مہک بے آواز نوحے کی مانند پھوٹتی ہے۔ کاندھوں پر باندھے بوجھ کی رسیاں گوشت کا ذائقہ چکھنا چاہتی ہیں۔ سبز ٹھنڈی چھایا کہتی ہے آئو یہ مرنے کے لیے بہترین مقام ہے۔
مگر۔۔۔! میں مرنے سے پہلے اپنی آزاد تنہائی کا جشن منانا چاہتی ہوں۔
اور جشن منانے کے لیے چوٹی پر پہنچنا لازم ہے!
۔۔۔
کراچی کی دیوارں پر اشتہار لگے کہاسکندر مرزا کو 'بادشاہ' بنایا جائے!
مولوی محمد سعید
مشرقی بازو کے سیاست داں یہ چاہنے لگے تھے کہ مغرب کو ایک وحدت میں سمونے کے بہ جائے کیوں نہ پورا ملک وحدانی طرزحکومت کے تحت کر دیا جائے۔ الطاف نے ''تصورِعظیم'' کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ جو طائفہ اب تک وفاقی طرز کا داعی تھا، وہ مغرب کو وحدت میں ڈھلتے دیکھ کے اس سے بدکنے لگا حتیٰ کہ ون یونٹ کے موید جناب حسین سہروردی بھی اس کے مخالف ہوگئے۔ چوہدری محمد علی بہرکیف ایک دستور بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ چوہدری صاحب کا یہ کارنامہ واقعی قابل داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم 10 برس سے نکلی ہوئی تھی، وہ ان کے عہد میں دست یاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ 1956ء کا دستور ایک کشتی میں سجا کے اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔
انھوں نے دستخط تو اس پر کر دیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن ان کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے ہیں، تو کراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہر کی دیواریں پُکار اٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔ یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروں کی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاج داروں سے جو جگہ بچ گئی، وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کر لی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ''ظل اللہ'' کی منتظر ہے۔
(خود نوشت آہنگ بازگشت، سے لیا گیا)
۔۔۔
'ڈارک روم' میں 'دھلنے' والی تصاویر کا لطف اب کہاں!
محمد علم اللہ، نئی دلی
یادوں کا تعاقب کرنا تو شاید انسانی فطرت میں ہے۔۔۔ کچھ یادیں دلوں میں محفوظ ہوتی ہیں، تو کچھ کو تصویروں کا اَسیر کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے دوست سید کاشف نے افغانستان کے ایک صدی پرانے بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کیمرے کے بارے میں ایک چھوٹی سی دستاویزی فلم دکھائی، تو ذہن جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 'اِبلاغ عامہ' (ماس کمیونی کیشن) کی تعلیم کے دوران اپنی فوٹو گرافی کی مشق کی طرف چلا گیا۔ 'جامعہ' کے 'ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر' کی خوبی یہ ہے کہ وہاں اِبلاغ کے ہر ذریعے کا بنیاد سے تعارف کرایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں 'فوٹو گرافی' کی پڑھائی کا پہلا مرحلہ اوپٹیکل فلم پر جسے عرفِ عام میں 'رِیل' کہا جاتا ہے، بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی سے شروع ہوتا اور پھر تمام طلبا کو کیمرے دے کر 'فوٹو گرافی' کے لیے بھیج دیا جاتا اور پھر انھیں نگیٹیو بنانے سے لے کر تصویر 'دھونے' تک کا پورا کام خود ہی انجام دینا ہوتا۔ یہ عمل کس قدر دل چسپ ہوتا تھا، اس کا اندازہ کرنے کے لیے جامعہ سے ہی فارغ التحصیل میرے دوست مالک اشتر کی یادوں کے سلسلے میں یہ تبصرہ دیکھیے، لکھتے ہیں کہ ''وہ بڑے مزے کا دور تھا۔ اب وہ 'ڈارک روم' شاید نہ رہا ہو، لیکن اس میں کس قدر لطف آتا تھا۔ سب کو دو، دو رول فلم ملا کرتی تھی اور دن بھر بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کرنا پڑتی تھی۔ اس کے بعد 'ڈارک روم' کے گُھپ اندھیرے میں اس کو ڈیولپ کرنا، تصاویر کو دھونا، پھر ان کو کاٹنا۔ اس کے بعد ساتھیوں کو دکھانا اور ان کی تصاویر میں 'کیڑے نکالنا'۔ ہمارے غازی بھائی 'ڈارک روم' میں بہت اپنائیت سے پیش آتے۔ انہیں غصے میں تو آج تک شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ ان تصاویر کو اگلے دن ایف بی سر اور سہیل سر کی کلاس میں پیش کرنا ایسا تھا، جیسے عاصی روزِحشر اپنا نامۂ اعمال سنبھالے ہوئے ہوں۔''
مالک اشتر نے بہت خوب یا د کرایا، فوٹو گرافی پر ہونے والے تبصرے کبھی کبھی تو رلا دینے والے ہوتے۔ اساتذہ سخت تبصرے کیا کرتے، لیکن کلاس میں محنت سے پڑھاتے بھی تھے اور ایک ایک چیز کو باریکی سے بتاتے۔ ہیڈ اسپیس، سایہ، روشنی، کمپوزیشن، روشنی کو کیسے کاٹنا ہے، 'شٹر' کو کیسے کھول دینا ہے۔ کتنی دیر میں کتنا 'شٹر' کھولیں گے، تو کیسی تصویر بنے گی وغیرہ وغیرہ۔
کتنی ہی دیر تک فوٹو گرافی اور آرٹ پر بحثیں ہوتیں، کلاس میں ایسے لگتا تھا، جیسے ہر طالب علم، تھامس بگس، ولیم جانسن اور ولیم ہینڈرسن، سموئیل بورن، شیفرڈ، ہفمین، برک اور کیشے سے کم بڑا فوٹو گرافر نہیں ہے۔ فوٹو کھینچنے کے بعد اس کو ڈیولپ کرنے کی ہم سب کو ہی جلدی رہتی اور تصویر کھینچنے کے بعد اس کو ڈیولپ کرنے تک کا وقت بڑا ہی دل چسپ ہوتا۔
ڈاکٹر راجیو لوچن سر کی 'کمپوزیشن' کی کلاس، ایک انچ بھی فریم سے اِدھر اُدھر ہوئی اور 'صلواتیں' سننے کے لیے تیار رہیے۔ سب سے زیادہ ان کا زور فریمنگ پر ہوتا۔ کئی مرتبہ ہاتھ سے تصویر بنا کے لے جانا ہوتی۔۔۔ ہماری اپنی طرف سے پوری کوشش ہوتی کہ آج تو تعریف ہوجائے، لیکن کلاس میں جب ہمارے کام کا 'پوسٹ مارٹم' ہوتا، تو اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے۔۔۔
پروفیسر فرحت بصیر خان ہمارے ہاں فوٹو گرافی کے شعبے کے سربراہ تھے، وہ اکثر کہا کرتے تھے، ڈیجیٹل فوٹو گرافی کرنے والے کو فوٹو گرافی کی اصل روح کو سمجھنے کے لیے ایک بار اوپٹیکل فلم پر تصویر بنانے اور اس کو 'دھونے' کا تجربہ ضرور کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں پروفیسر خان یہ کہنا چاہتے تھے کہ ڈیجیٹل فوٹو گرافی ایسے ہی ہے جیسے آرڈر دے کر پلائو منگوا لینا۔ ظاہر ہے اس میں وہ لطف تو آنہیں سکتا جو یخنی بنانے، کیوڑا ڈالنے اور دَم دینے کے بعد 'قاب' میں نکالی گئی بریانی میں ہوگا۔
بلیک اینڈ وائٹ فوٹو کو ایک خاص ڈویلپر مشین کے ذریعے اسٹوڈیو کے 'ڈارک روم' میں بنایا جاتا۔ اس مشین میں نیگیٹو کو سیٹ کر کے 'لینس' پر اسے 'فوکس' کروا کر فوٹو پیپر میں پرنٹ کیا جاتا اور پھر فوٹو پیپر
کو کیمیکل میں بھگو کر فوٹو ڈویلپ کیا جاتا۔ ڈویلپڈ فوٹو کو گھنٹوں ڈارک روم میں سُکھایا جاتا اور سوکھنے کے بعد جو خوشی ملتی تھی وہ ڈیجیٹل فوٹو گرافی میں کہاں ممکن ہیں۔
'ڈویلپر' اور فکسر کی ملاوٹ، ان لارجر کا معائنہ، کونے کھدرے جہاں کہیں سے روشنی آرہی ہو سب کو بند کرنا۔ سرخ اور سبز سیف لائٹس جلا کر بار بار تصویر کو چیک کرنا ، تصاویر ڈویلپ کر کے پانی سے
دھونے کے بعد ہیٹر پر خشک کرنا، ان کے بارڈر قینچی سے کاٹنا، ان سب میں جو لطف آتا تھا، وہ تو بس ایک فسانے اور کہانی کی طرح ہے۔۔۔
جامعہ میں 'فوٹو گرافی' کی مشق کی یادیں کہاں کہاں تک نہیں چلیں۔ اکثر ہماری کلاس کو ایک بس میں بھر کر دلی کے مختلف حصوں میں لے جایا جاتا، جہاں ہم 'تصویر کشی' کی مشقیں کرتے۔ کھلکھلاتے بچے،
کُھلا ہوا نیلا گگن، چلتی ہوئی گاڑیاں، صبح کا سناٹا، اڑتے ہوئے پنچھی، بجلی کا کھمبا، اس پر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی فاختائیں، کہیں کونے میں کسی ڈالی پر اگا ہوا پھول، دریچے سے باہر کو نکلا ہوا پیپل، انگڑائیاں
لیتے اور سستاتے آوارہ کتے، پت جھڑ کے پیڑ اور ان سے جھڑتے ہوئے سوکھے پتے، مونگ پھلیاں کھاتی پُھدکتی ہوئی گلہریاں، ٹوٹے ہوئے برتن، شام کی رونق۔۔۔ الغرض جتنی تصویریں اتنی کہانیاں۔
سب سے دل چسپ دورہ 'قطب صاحب کی لاٹ' (قطب مینار) کا ہوتا، جس کے آس پاس کئی فوٹو جینک جگہیں موجود ہیں۔ پرانا قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، مہرولی میں بکھری تاریخی جھلکیاں، جمالی کمالی کا مقبرہ، بڑی
سی بائولی اور اس کے بغل میں واقع صدیوں پرانی ویران مسجد کی تصویریں اتارنا بڑا خواب ناک تجربہ ہوتا۔
ہمارے کم گو پروفیسر سہیل اکبر اپنا کیمرا سنبھالے مناظر کو قید کرنے میں طلبا سے زیادہ پرجوش نظر آتے۔
طلبا ان کے پیچھے پیچھے ہوتے اور وہ کمپوزیشن، آرٹ، فریم، 'شٹر اسپیڈ' اور لائٹ کی باریکیاں بتاتے جاتے۔ کئی مرتبہ 'اوبجیکٹ' بتا کر ہمیں اسے کھینچنے کے لیے بھی کہتے۔
کلاس کے کچھ 'جوڑے' جنھیں 'کیمپس' میں خلوت اور رازونیاز کے مواقع میسر نہ آپاتے تھے، وہ کسی پرانی قبر کے 'تعویذ' سے ٹیک لگائے نہ جانے کیا سرگوشیاں کرتے۔ کچھ کسی دیوار یا کسی پرانی قبر کی آڑ میں بوس و کنار بھی کرتے نظر آتے، کچھ شرارتی دوست، ایسے میں اکثر عمارتوں کی منظر کشی چھوڑ کر اس جوڑے کی تصویر کھیچنے کی کوشش کرنے لگتے۔
اب وقت کافی بدل چکا ہے۔ اس کے ساتھ 'تیکنیک' بدلی اور 'تیکنیک' کے ساتھ چیزیں بھی بدل گئیں۔ بلیک اینڈ وائٹ سے آج ہم تھری ڈی تک آچکے ہیں، لیکن یادوں کی پِٹاری سے جب بھی ایسا کچھ نکل کر آتا ہے، تو دل جھومنے لگتا ہے اور صرف ایک ہی بات کہتا ہے، کہ وہ بھی کیا دن تھے صاحب۔۔۔!
'بے دھیانی' میں بھی دھیان تمھارا رہتا ہے!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
'سن ڈے ایکسپریس' کے آنے والے 'سال نامے' کے لیے ہم جنوری اور فروری 2020ء میں بیتنے والے کچھ اہم واقعات چُن رہے تھے، غلطی یہ ہوئی کہ روزنامہ 'ایکسپریس' کی ویب سائٹ کھولی، تو سہواً ہم جنوری 2020ء کے بہ جائے جنوری 2019ء کے واقعات جمع کرنے لگے۔۔۔ جلد ہی ہمیں غلطی کا احساس ہوا، اور ہم نے فوراً رجوع کرلیا، لیکن اس میں ہمیں ایک 'عجیب وغریب' قسم کی خبر بھی مل گئی۔
جو اتفاق سے تھی بھی ایک غلطی کے حوالے سے۔۔۔ لیکن اس کی نوعیت کچھ زیادہ ہی سنگین تھی، تین جنوری 2019ء کو شایع ہونے والی اس خبر میں لکھا تھا کہ شکر گڑھ (پنجاب) کے علاقے 'اخلاص پور' میں ایک بیوپاری طارق نے بے دھیانی میں چار لاکھ 20 ہزار روپے کی رقم چارے کی مشین میں ڈال دی۔۔۔! چارہ کاٹنے والی مشین کی زَد میں آکر بھاری مالیت کے ان نوٹوں کی چھیتڑے اڑ گئے۔
خبر کے مطابق یہ سنگین سہو ہونے کا سبب یہ تھا کہ طارق نے نقدی کا تھیلا چارے کے قریب ہی رکھا تھا، اس لیے جب چارہ کترنے کو تھیلا اٹھایا تو یہ چارے کے بہ جائے ''بے چارہ'' روپوں کا تھیلا ہاتھ میں آگیا، جس پر طارق نے غور ہی نہیں کیا اور اس کے نتیجے میں وہ تقریباً سوا چار لاکھ روپے سے ہاتھ دو بیٹھے۔۔۔ دراصل وہ یہ رقم مویشیوں کی خریداری کے لیے گھر سے لائے تھے۔۔۔
اب تو دو سال ہونے کو آئے ہیں، جانے اس بیوپاری کے ساتھ آگے کیا بیتی ہوگی۔۔۔ لیکن ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ بعض اوقات ایسی معمولی سی غلطیاں کس قدر 'گھاتک' سزا کا موجب بن جاتی ہیں۔۔۔ ہمیں تو اپنے عوام کی حالت ان کترے ہوئے نوٹوں کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے۔۔۔ اور کبھی عوام بھی تو ایسا سہو اور بھول کر بیٹھتے ہیں کہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے جیسی صورت حال ہو جاتی ہے، بالخصوص عام انتخابات میں ''بے دھیانی'' میں کسی غلط انتخابی نشان پر مہر لگانے کے بعد صورت حال کچھ ایسی ہی ہونے لگتی ہے۔۔۔ تو کبھی ہمارے سربراہ اور ہمارے سیاسی راہ بر ایسی 'بے دھیانی' کر بیٹھتے ہیں کہ جس کا خمیازہ پھر شہریوں اور ان کے چاہنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔ اسی طرح کبھی کوئی پیشوا اپنے پیروکاروں کو اپنی ایسی ہی کسی 'بے دھیانی' کے نتیجے میں لے ڈوبتا ہے، ہمارے مختلف ادارے بھی 'بے دھیانی' میں ایسا کچھ کر گزرتے ہیں۔۔۔ کہ بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ 'کسی کی جان گئی اور آپ کی ادا ٹھیری۔۔۔!'
ہونے کو تو اور بھی بہت سی بے دھیانیاں ہوتی ہیں، لیکن سچی بات ہے کہ ہمارے اندر انھیں نوک قلم پر لانے کا جگرا نہیں ہے۔۔۔ شاعر کے بقول 'بے دھیانی میں بھی دھیان تمھارا رہتا ہے!' بس ہمارا ماجرا بھی کچھ ایسا ہی ہے، لیکن یہاں سخن وَر موصوف نے کسی خوب رُو، ماہ رُخ اور پری وش کے خیال میں یہ مصرع نذر کیا ہوگا، لیکن سرِ دست ہماری بے دھیانی مین ''دھیان'' رکھنے کا ماجرا اس سے کچھ سوا ہے۔۔۔ اس لیے اسے جانے ہی دیجیے۔
۔۔۔
آزاد تنہائی کا جشن
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
شب بھر مقدس پانی میرے خیمے پر برستا رہا ہے اور بجلی کے کوندے جامنی آسمان کو نقرئی گوٹ لگاتے رہے ہیں۔
کسی پہاڑی چشمے سے بہہ کر آتی برفیلے پانی کی نالی جس کے کناروں پر جنگلی سونف اُگی ہے۔
میں شب بھر تنہائی کے 'کینوس' پر یک رنگی تصویریں بناتی رہی اور صبح ہونے پر میں نے دیکھا کہ ان کے کنارے گہرے ہو رہے تھے، جیسے سوکھ جانے پر حنا کا رنگ گھنا ہو جاتا ہے۔۔۔
یا محبت کے لمحات کی جنوں خیزی کے وہ گواہ جو صبح اٹھنے پر بے حد واضح ہوتے ہیں۔ میں نے آزاد پانی کی وحشت سے منہ دھویا اور پھر سر اٹھا کر اس بلندی کو دیکھا، جہاں پہنچنے کے لیے مجھے لہو میں کچھ بارود بھرنا ہو گا۔
نیم راہ کہسار اور ایک سمادھی!
معلوم نہیں کسی کی۔۔۔ شاید کسی صوفی ، قاتل یا پھر عاشق کی؟
میری پنڈلیوں میں تھکن کے سنپولیے کسمساتے ہیں اور سانس میں پن چکی کُوکتی ہے۔ بالوں کی جڑوں سے پسینا بہہ رہا ہے، جس میں دو دن پہلے کے بسائے عطر کی باسی مہک بے آواز نوحے کی مانند پھوٹتی ہے۔ کاندھوں پر باندھے بوجھ کی رسیاں گوشت کا ذائقہ چکھنا چاہتی ہیں۔ سبز ٹھنڈی چھایا کہتی ہے آئو یہ مرنے کے لیے بہترین مقام ہے۔
مگر۔۔۔! میں مرنے سے پہلے اپنی آزاد تنہائی کا جشن منانا چاہتی ہوں۔
اور جشن منانے کے لیے چوٹی پر پہنچنا لازم ہے!
۔۔۔
کراچی کی دیوارں پر اشتہار لگے کہاسکندر مرزا کو 'بادشاہ' بنایا جائے!
مولوی محمد سعید
مشرقی بازو کے سیاست داں یہ چاہنے لگے تھے کہ مغرب کو ایک وحدت میں سمونے کے بہ جائے کیوں نہ پورا ملک وحدانی طرزحکومت کے تحت کر دیا جائے۔ الطاف نے ''تصورِعظیم'' کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ جو طائفہ اب تک وفاقی طرز کا داعی تھا، وہ مغرب کو وحدت میں ڈھلتے دیکھ کے اس سے بدکنے لگا حتیٰ کہ ون یونٹ کے موید جناب حسین سہروردی بھی اس کے مخالف ہوگئے۔ چوہدری محمد علی بہرکیف ایک دستور بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ چوہدری صاحب کا یہ کارنامہ واقعی قابل داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم 10 برس سے نکلی ہوئی تھی، وہ ان کے عہد میں دست یاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ 1956ء کا دستور ایک کشتی میں سجا کے اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔
انھوں نے دستخط تو اس پر کر دیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن ان کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے ہیں، تو کراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہر کی دیواریں پُکار اٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔ یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروں کی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاج داروں سے جو جگہ بچ گئی، وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کر لی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ''ظل اللہ'' کی منتظر ہے۔
(خود نوشت آہنگ بازگشت، سے لیا گیا)
۔۔۔
'ڈارک روم' میں 'دھلنے' والی تصاویر کا لطف اب کہاں!
محمد علم اللہ، نئی دلی
یادوں کا تعاقب کرنا تو شاید انسانی فطرت میں ہے۔۔۔ کچھ یادیں دلوں میں محفوظ ہوتی ہیں، تو کچھ کو تصویروں کا اَسیر کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے دوست سید کاشف نے افغانستان کے ایک صدی پرانے بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کیمرے کے بارے میں ایک چھوٹی سی دستاویزی فلم دکھائی، تو ذہن جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 'اِبلاغ عامہ' (ماس کمیونی کیشن) کی تعلیم کے دوران اپنی فوٹو گرافی کی مشق کی طرف چلا گیا۔ 'جامعہ' کے 'ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر' کی خوبی یہ ہے کہ وہاں اِبلاغ کے ہر ذریعے کا بنیاد سے تعارف کرایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں 'فوٹو گرافی' کی پڑھائی کا پہلا مرحلہ اوپٹیکل فلم پر جسے عرفِ عام میں 'رِیل' کہا جاتا ہے، بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی سے شروع ہوتا اور پھر تمام طلبا کو کیمرے دے کر 'فوٹو گرافی' کے لیے بھیج دیا جاتا اور پھر انھیں نگیٹیو بنانے سے لے کر تصویر 'دھونے' تک کا پورا کام خود ہی انجام دینا ہوتا۔ یہ عمل کس قدر دل چسپ ہوتا تھا، اس کا اندازہ کرنے کے لیے جامعہ سے ہی فارغ التحصیل میرے دوست مالک اشتر کی یادوں کے سلسلے میں یہ تبصرہ دیکھیے، لکھتے ہیں کہ ''وہ بڑے مزے کا دور تھا۔ اب وہ 'ڈارک روم' شاید نہ رہا ہو، لیکن اس میں کس قدر لطف آتا تھا۔ سب کو دو، دو رول فلم ملا کرتی تھی اور دن بھر بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کرنا پڑتی تھی۔ اس کے بعد 'ڈارک روم' کے گُھپ اندھیرے میں اس کو ڈیولپ کرنا، تصاویر کو دھونا، پھر ان کو کاٹنا۔ اس کے بعد ساتھیوں کو دکھانا اور ان کی تصاویر میں 'کیڑے نکالنا'۔ ہمارے غازی بھائی 'ڈارک روم' میں بہت اپنائیت سے پیش آتے۔ انہیں غصے میں تو آج تک شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ ان تصاویر کو اگلے دن ایف بی سر اور سہیل سر کی کلاس میں پیش کرنا ایسا تھا، جیسے عاصی روزِحشر اپنا نامۂ اعمال سنبھالے ہوئے ہوں۔''
مالک اشتر نے بہت خوب یا د کرایا، فوٹو گرافی پر ہونے والے تبصرے کبھی کبھی تو رلا دینے والے ہوتے۔ اساتذہ سخت تبصرے کیا کرتے، لیکن کلاس میں محنت سے پڑھاتے بھی تھے اور ایک ایک چیز کو باریکی سے بتاتے۔ ہیڈ اسپیس، سایہ، روشنی، کمپوزیشن، روشنی کو کیسے کاٹنا ہے، 'شٹر' کو کیسے کھول دینا ہے۔ کتنی دیر میں کتنا 'شٹر' کھولیں گے، تو کیسی تصویر بنے گی وغیرہ وغیرہ۔
کتنی ہی دیر تک فوٹو گرافی اور آرٹ پر بحثیں ہوتیں، کلاس میں ایسے لگتا تھا، جیسے ہر طالب علم، تھامس بگس، ولیم جانسن اور ولیم ہینڈرسن، سموئیل بورن، شیفرڈ، ہفمین، برک اور کیشے سے کم بڑا فوٹو گرافر نہیں ہے۔ فوٹو کھینچنے کے بعد اس کو ڈیولپ کرنے کی ہم سب کو ہی جلدی رہتی اور تصویر کھینچنے کے بعد اس کو ڈیولپ کرنے تک کا وقت بڑا ہی دل چسپ ہوتا۔
ڈاکٹر راجیو لوچن سر کی 'کمپوزیشن' کی کلاس، ایک انچ بھی فریم سے اِدھر اُدھر ہوئی اور 'صلواتیں' سننے کے لیے تیار رہیے۔ سب سے زیادہ ان کا زور فریمنگ پر ہوتا۔ کئی مرتبہ ہاتھ سے تصویر بنا کے لے جانا ہوتی۔۔۔ ہماری اپنی طرف سے پوری کوشش ہوتی کہ آج تو تعریف ہوجائے، لیکن کلاس میں جب ہمارے کام کا 'پوسٹ مارٹم' ہوتا، تو اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے۔۔۔
پروفیسر فرحت بصیر خان ہمارے ہاں فوٹو گرافی کے شعبے کے سربراہ تھے، وہ اکثر کہا کرتے تھے، ڈیجیٹل فوٹو گرافی کرنے والے کو فوٹو گرافی کی اصل روح کو سمجھنے کے لیے ایک بار اوپٹیکل فلم پر تصویر بنانے اور اس کو 'دھونے' کا تجربہ ضرور کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں پروفیسر خان یہ کہنا چاہتے تھے کہ ڈیجیٹل فوٹو گرافی ایسے ہی ہے جیسے آرڈر دے کر پلائو منگوا لینا۔ ظاہر ہے اس میں وہ لطف تو آنہیں سکتا جو یخنی بنانے، کیوڑا ڈالنے اور دَم دینے کے بعد 'قاب' میں نکالی گئی بریانی میں ہوگا۔
بلیک اینڈ وائٹ فوٹو کو ایک خاص ڈویلپر مشین کے ذریعے اسٹوڈیو کے 'ڈارک روم' میں بنایا جاتا۔ اس مشین میں نیگیٹو کو سیٹ کر کے 'لینس' پر اسے 'فوکس' کروا کر فوٹو پیپر میں پرنٹ کیا جاتا اور پھر فوٹو پیپر
کو کیمیکل میں بھگو کر فوٹو ڈویلپ کیا جاتا۔ ڈویلپڈ فوٹو کو گھنٹوں ڈارک روم میں سُکھایا جاتا اور سوکھنے کے بعد جو خوشی ملتی تھی وہ ڈیجیٹل فوٹو گرافی میں کہاں ممکن ہیں۔
'ڈویلپر' اور فکسر کی ملاوٹ، ان لارجر کا معائنہ، کونے کھدرے جہاں کہیں سے روشنی آرہی ہو سب کو بند کرنا۔ سرخ اور سبز سیف لائٹس جلا کر بار بار تصویر کو چیک کرنا ، تصاویر ڈویلپ کر کے پانی سے
دھونے کے بعد ہیٹر پر خشک کرنا، ان کے بارڈر قینچی سے کاٹنا، ان سب میں جو لطف آتا تھا، وہ تو بس ایک فسانے اور کہانی کی طرح ہے۔۔۔
جامعہ میں 'فوٹو گرافی' کی مشق کی یادیں کہاں کہاں تک نہیں چلیں۔ اکثر ہماری کلاس کو ایک بس میں بھر کر دلی کے مختلف حصوں میں لے جایا جاتا، جہاں ہم 'تصویر کشی' کی مشقیں کرتے۔ کھلکھلاتے بچے،
کُھلا ہوا نیلا گگن، چلتی ہوئی گاڑیاں، صبح کا سناٹا، اڑتے ہوئے پنچھی، بجلی کا کھمبا، اس پر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی فاختائیں، کہیں کونے میں کسی ڈالی پر اگا ہوا پھول، دریچے سے باہر کو نکلا ہوا پیپل، انگڑائیاں
لیتے اور سستاتے آوارہ کتے، پت جھڑ کے پیڑ اور ان سے جھڑتے ہوئے سوکھے پتے، مونگ پھلیاں کھاتی پُھدکتی ہوئی گلہریاں، ٹوٹے ہوئے برتن، شام کی رونق۔۔۔ الغرض جتنی تصویریں اتنی کہانیاں۔
سب سے دل چسپ دورہ 'قطب صاحب کی لاٹ' (قطب مینار) کا ہوتا، جس کے آس پاس کئی فوٹو جینک جگہیں موجود ہیں۔ پرانا قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، مہرولی میں بکھری تاریخی جھلکیاں، جمالی کمالی کا مقبرہ، بڑی
سی بائولی اور اس کے بغل میں واقع صدیوں پرانی ویران مسجد کی تصویریں اتارنا بڑا خواب ناک تجربہ ہوتا۔
ہمارے کم گو پروفیسر سہیل اکبر اپنا کیمرا سنبھالے مناظر کو قید کرنے میں طلبا سے زیادہ پرجوش نظر آتے۔
طلبا ان کے پیچھے پیچھے ہوتے اور وہ کمپوزیشن، آرٹ، فریم، 'شٹر اسپیڈ' اور لائٹ کی باریکیاں بتاتے جاتے۔ کئی مرتبہ 'اوبجیکٹ' بتا کر ہمیں اسے کھینچنے کے لیے بھی کہتے۔
کلاس کے کچھ 'جوڑے' جنھیں 'کیمپس' میں خلوت اور رازونیاز کے مواقع میسر نہ آپاتے تھے، وہ کسی پرانی قبر کے 'تعویذ' سے ٹیک لگائے نہ جانے کیا سرگوشیاں کرتے۔ کچھ کسی دیوار یا کسی پرانی قبر کی آڑ میں بوس و کنار بھی کرتے نظر آتے، کچھ شرارتی دوست، ایسے میں اکثر عمارتوں کی منظر کشی چھوڑ کر اس جوڑے کی تصویر کھیچنے کی کوشش کرنے لگتے۔
اب وقت کافی بدل چکا ہے۔ اس کے ساتھ 'تیکنیک' بدلی اور 'تیکنیک' کے ساتھ چیزیں بھی بدل گئیں۔ بلیک اینڈ وائٹ سے آج ہم تھری ڈی تک آچکے ہیں، لیکن یادوں کی پِٹاری سے جب بھی ایسا کچھ نکل کر آتا ہے، تو دل جھومنے لگتا ہے اور صرف ایک ہی بات کہتا ہے، کہ وہ بھی کیا دن تھے صاحب۔۔۔!