آپ کے لیے کیا اہم ہے
زندگی میں ہم اس لیے بھی جلد تھک جاتے ہیں کہ ہم اپنی ترجیحات میں سے ہر ایک کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہوتے ہیں۔
زندگی از خود ایک بہت بڑا معمہ ہے اور اس معمے کے اندرون کئی معمے ہیں جو کہ ہمیں عمر بھر، زندگی کی آخری سانس تک خود میں الجھائے رکھتے ہیں۔ ان معموں کے مختلف درجات ( levels) ہیں جیسے کہ کسی بھی ڈیجیٹل کھیل میں ہوتے ہیں۔
کبھی ہمیں کچھ الجھن ہوتی ہے اور کبھی کچھ۔ جس دن سے ہمیں اپنے معاملات کی خود سے سمجھ آنے لگتی ہے، ہم ا س وقت سے لے کر خاتمے تک، عمر کے ہر دور میں ایک نئے لیول میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لیول حل ہوتا ہے تو اگلا نیا لیول سامنے آ جاتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی زندگی سب سے مشکل لگتی ہے، کیونکہ ہم ان لوگوں کی زندگیوں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں جن کی زندگیاں ہم سے آسان ہیں۔ اگر ہم انھیں دیکھیں جو ہم سے نچلی سطح پر ہیں تو ہمیں اپنی مشکلات، مشکلات ہی نہ لگیں۔ اوپر دیکھ کر چلنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھاتا ہے، ا س لیے چلتے وقت نیچے دیکھنا اہم ہوتا ہے، یہی پہلا اصول ہے زندگی کے سفر کا۔
اپنا موازنہ بات بے بات دوسروں سے کرنے والا کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ آپ کو وہی ملتا ہے جو آپ کے نصیب میں ازل سے لکھا ہے، نہ کم نہ زیادہ، نہ وقت سے پہلے نہ بعد میں۔ نہ آپ کے نصیب کا کسی اور کو ملے گا اور نہ آپ کو کسی اور کے حصے کا۔ جو کچھ آپ کے لیے ہے وہ آپ ہی کا ہے خواہ وہ دو پہاڑوں کے بیچ میں ہی کیوں نہ دبا ہوا ہو، جب اس کا وقت ہو گا تو وہ خود آپ تک پہنچ جائے گا، چاہے اس کے لیے دست قدرت ان پہاڑوں کو چاک کر دے۔ جو کچھ آپ کے لیے نہیں ہے، وہ خواہ آپ کے دو ہونٹوں کے بیچ میں ہی کیوں نہ ہو، وہ آپ کو نہیں ملے گا۔
اسے کوئی بھی طاقت آپ کے منہ سے نکال لے گی، بے شک وہ کھانسی کا چھوٹا سا حملہ ہو۔ ہر کسی کو جو کچھ کرنا ہے وہ اپنے نصیب کو پانے کے لیے محنت اور جدوجہد کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے نصیب کے لکھے کو جدوجہد اور دعا، دونوں سے منسلک کر دیا ہے۔ بے محنت آپ کو کچھ ملنے والا نہیں اور دعا سے آپ کو وہ بھی مل جاتا ہے جو شاید پہلے آپ کے نصیب میں نہ لکھا گیا ہو۔ اس کے لیے دعا میں خلوص لازم ہے اور جو کچھ آپ مانگ رہے ہیں، وہ کسی سے چھین کر لینا نہ ہو۔ یہ زندگی کا دوسرا اہم اصول ہے۔
تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ اپنے آپ کو جانیں، اپنے خالق کو پہچانیں اور اپنی تخلیق کے مقصد کو پائیں اور اسے پورا کریں۔ رب کائنات نے حقیر ترین ذرے کو بھی بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا شخص تعلق اور رابطوں کی ایک زنجیر کی ایک کڑی ہے، وہ انسانوں، جگہوں اور واقعات کی زنجیر ہے۔ ہر انسان کا اس دنیا میں آنے کا ایک مقصد ہے اور اگر کوئی شخص ایک چارپائی پر بیٹھ یا لیٹ کر بھی اپنی عمرگزار دے اور کچھ کیے بنا دنیا سے چلا جائے، تو بھی اس کا ایک impact ( تاثر) رہ جاتا ہے۔ ہر شخصیت کا اپنا ایک رنگ اور ڈھنگ ہے۔
انسانوں اور نباتات و حیوانات میں انفرادیت کی اس سے بہتر مثال کیا ہو گی کہ کوئی دو پتے ایک دوسرے سے مکمل میچ نہیں کرتے اور دنیا میں کوئی دو انسانوں کے فنگر پرنٹ میچ نہیں کرتے... تخلیق انسان سے لے کر آج تک۔ زندگی کا سب سے اہم اصول یہ کہ جب آپ باشعور ہو جائیں ( جو کہ عموما ہر شخص ہو ہی جاتا ہے) تو اپنی ترجیحات کو سیٹ کریں۔ خود سے سوال کریں کہ آپ کے لیے کیا اہم ہے، ہر انسان مختلف نوعیت کے واقعات کی زد میں ہوتا ہے اور یہی واقعات و حالات اس کی ترجیحات کو سیٹ کرتے ہیں۔
آج خود سے سوال کر کے لیٹیں اور نیند آنے تک اس جواب کو پائیں کہ آپ کی زندگی میں سب سے اہم کیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ کہیں گے کہ ان کی زندگیوں میں کئی چیزیں اہم ہیں، یہ سوال ایسا ہی ہے کہ آپ کسی سے پوچھیں کہ آپ کو اپنی کس اولاد سے سب سے زیادہ پیار ہے اور والدین اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب بھی ہوتا ہے اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس سوال کا جواب بھی وقت اور حالات کے باعث تبدیل ہوجاتا ہے۔
یہی معاملہ زندگی کی ترجیحات کا ہے، کبھی ہماری ترجیح رشتے ہوتے ہیں، کبھی صحت، کبھی ملازمت، کبھی دولت، کبھی سیاحت، کبھی عبادت، کبھی اولاد، کبھی والدین... غرض عمر کے مختلف ادوار میں ہماری ترجیحات بدلتی رہتی ہیں مگر ایک ترجیح دوسری ترجیح کو ختم نہیں کرتی مگر نئی ترجیح سے پرانی ترجیح کی اہمیت کم ہوتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی دو ترجیحات ہمیشہ ترازو کے دو پلڑوں میں برابر نہیں تل سکتیں۔ ماں باپ سے محبت ہماری اس وقت تک اولین ترجیح ہوتی ہے جب تک کہ ہماری زندگی میں نئے رشتے شامل نہیں ہوتے اور بالخصوص جب اپنی اولاد ہو جاتی ہے تو وہ اولین ترجیح بن جاتی ہے، اس کے آگے تو ہر چیز ماند پڑ جاتی ہے۔
دولت ہر انسان کی ترجیحات میں اوپر کے درجوں میں آتی ہے، اگر چہ دولت ہر خوشی نہیں خرید سکتی مگر اس کی طاقت کو ہم سب جانتے ہیں۔ دولت نہ ہونے سے تو کچھ بھی نہیں خریدا جا سکتا آپ بیمار ہیں تو ہر دولت ہیچ ہے، جو دولت ہمارے لیے زندگی، شفاء اور سانس تک نہ خرید سکے وہ کس کام کی؟
جب ایسی نوعیت آتی ہے تو صحت اولین ترجیح بن جاتی ہے۔ جس اولاد کی خاطر ہم ہر دوسرے رشتے کو نظر انداز کر کے اولاد کو اہم ترین سمجھتے ہیں، وہی اولاد اگر ہمارے بڑھاپے میں ہمیں چھوڑ جائے تو ہمارے لیے ان کی نسبت وہ رشتے اہم ہو جاتے ہیں جو کہ ہم نے اس اولاد کی خاطر نظر انداز کیے ہوتے ہیں۔ وہ دوستیاں جو اولاد کی پرورش کی خاطر سر پٹ بھاگتے ہوئے پس منظر میں چلی جاتی ہیں، عمر کی شام میں ہم واپس ان دوستیوں کی طرف لپکتے ہیں۔ اسی لیے اعتدال کامیابی کی کنجی ہے۔
ہر معاملے میں اعتدال اور توازن، یہ قدرت کا ایسا اصول ہے جو ہمیں کائنات کی ہر چیز میں ملتا ہے۔ ہر خواہش میں اعتدال رکھیں، ہر چیز کو اتنی اہمیت دیں جتنے کی وہ مستحق ہے، اس وقت چیزوں کی قدر کریں جب وہ آپ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہم سے چھن جائیں، ختم ہو جائیںیا ہمارے پاس نہ رہیں تو پھر فقط پچھتاوے رہ جاتے ہیں کہ ہم نے انھیں اس وقت اہمیت نہ دی جب تک وہ ہمارے پاس تھیں، ہماری پہنچ میں تھیں۔
انسانی فطرت ہے کہ ہم اس چیز کو اہم نہیں گردانتے جو کہ ہمارے پاس ہے، جیسے ہمارا دل دن کے چوبیسوں گھنٹے ہمارے جسم کا نظام چلاتا ہے، کام کرتا ہے، انتھک اور بے محسوس کروائے۔ جس دن یہی دل اپنی دھڑکن کو محسوس کرواتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے۔ خاموشی سے اپنا کام کرنے والا جب وجود میں دھڑدھڑاتا ہے تو ہم اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے واقعی قادر مطلق کا اس بات پر شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے ہمیں کامل صحت عطا کی ہے اور ہمارے جسم کا نظام درجنوں سالوں تک بے نقص چلتا رہتا ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ میں ستر سال، ساٹھ سال یا حتی کہ پچاس سال کی عمر میں بھی آج تک کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا، یا مجھے کبھی بخار تک بھی نہیں ہوا۔ ایسا وہ عموما فخر سے کہتے ہیں لیکن ہم میں سے ایسا کہنے والے کتنے لوگ ہیں جو کہ ایسا اللہ تعالی کے تشکر کے اظہار کے لیے کرتے ہیں؟ ہم میں سے جو صاحب اولاد ہیں وہ کتنی دفعہ اللہ کی اس نعمت اور اس کے کرم کا شکر ادا کرتے ہیں۔
زندگی میں ہم اس لیے بھی جلد تھک جاتے ہیں کہ ہم اپنی ترجیحات میں سے ہر ایک کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہوتے ہیں، کس وقت کیا اہم ہے، کس وقت ہمیں کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور کس کی خاطر خود کو مشقت میں ڈالنا چاہیے... خود سے یہ سوال کریں، اس کے جواب کے مطابق خود کو، اپنے وقت کو اور اپنی محنت کو خانوں میں تقسیم کرلیں۔ اس آخری سوال کا جواب بالکل سادہ ہے، اگر آپ اسے سمجھیں تو، آپ کے لیے سب سے اہم ، آپ خود ہیں۔
کبھی ہمیں کچھ الجھن ہوتی ہے اور کبھی کچھ۔ جس دن سے ہمیں اپنے معاملات کی خود سے سمجھ آنے لگتی ہے، ہم ا س وقت سے لے کر خاتمے تک، عمر کے ہر دور میں ایک نئے لیول میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لیول حل ہوتا ہے تو اگلا نیا لیول سامنے آ جاتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی زندگی سب سے مشکل لگتی ہے، کیونکہ ہم ان لوگوں کی زندگیوں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں جن کی زندگیاں ہم سے آسان ہیں۔ اگر ہم انھیں دیکھیں جو ہم سے نچلی سطح پر ہیں تو ہمیں اپنی مشکلات، مشکلات ہی نہ لگیں۔ اوپر دیکھ کر چلنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھاتا ہے، ا س لیے چلتے وقت نیچے دیکھنا اہم ہوتا ہے، یہی پہلا اصول ہے زندگی کے سفر کا۔
اپنا موازنہ بات بے بات دوسروں سے کرنے والا کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ آپ کو وہی ملتا ہے جو آپ کے نصیب میں ازل سے لکھا ہے، نہ کم نہ زیادہ، نہ وقت سے پہلے نہ بعد میں۔ نہ آپ کے نصیب کا کسی اور کو ملے گا اور نہ آپ کو کسی اور کے حصے کا۔ جو کچھ آپ کے لیے ہے وہ آپ ہی کا ہے خواہ وہ دو پہاڑوں کے بیچ میں ہی کیوں نہ دبا ہوا ہو، جب اس کا وقت ہو گا تو وہ خود آپ تک پہنچ جائے گا، چاہے اس کے لیے دست قدرت ان پہاڑوں کو چاک کر دے۔ جو کچھ آپ کے لیے نہیں ہے، وہ خواہ آپ کے دو ہونٹوں کے بیچ میں ہی کیوں نہ ہو، وہ آپ کو نہیں ملے گا۔
اسے کوئی بھی طاقت آپ کے منہ سے نکال لے گی، بے شک وہ کھانسی کا چھوٹا سا حملہ ہو۔ ہر کسی کو جو کچھ کرنا ہے وہ اپنے نصیب کو پانے کے لیے محنت اور جدوجہد کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے نصیب کے لکھے کو جدوجہد اور دعا، دونوں سے منسلک کر دیا ہے۔ بے محنت آپ کو کچھ ملنے والا نہیں اور دعا سے آپ کو وہ بھی مل جاتا ہے جو شاید پہلے آپ کے نصیب میں نہ لکھا گیا ہو۔ اس کے لیے دعا میں خلوص لازم ہے اور جو کچھ آپ مانگ رہے ہیں، وہ کسی سے چھین کر لینا نہ ہو۔ یہ زندگی کا دوسرا اہم اصول ہے۔
تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ اپنے آپ کو جانیں، اپنے خالق کو پہچانیں اور اپنی تخلیق کے مقصد کو پائیں اور اسے پورا کریں۔ رب کائنات نے حقیر ترین ذرے کو بھی بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا شخص تعلق اور رابطوں کی ایک زنجیر کی ایک کڑی ہے، وہ انسانوں، جگہوں اور واقعات کی زنجیر ہے۔ ہر انسان کا اس دنیا میں آنے کا ایک مقصد ہے اور اگر کوئی شخص ایک چارپائی پر بیٹھ یا لیٹ کر بھی اپنی عمرگزار دے اور کچھ کیے بنا دنیا سے چلا جائے، تو بھی اس کا ایک impact ( تاثر) رہ جاتا ہے۔ ہر شخصیت کا اپنا ایک رنگ اور ڈھنگ ہے۔
انسانوں اور نباتات و حیوانات میں انفرادیت کی اس سے بہتر مثال کیا ہو گی کہ کوئی دو پتے ایک دوسرے سے مکمل میچ نہیں کرتے اور دنیا میں کوئی دو انسانوں کے فنگر پرنٹ میچ نہیں کرتے... تخلیق انسان سے لے کر آج تک۔ زندگی کا سب سے اہم اصول یہ کہ جب آپ باشعور ہو جائیں ( جو کہ عموما ہر شخص ہو ہی جاتا ہے) تو اپنی ترجیحات کو سیٹ کریں۔ خود سے سوال کریں کہ آپ کے لیے کیا اہم ہے، ہر انسان مختلف نوعیت کے واقعات کی زد میں ہوتا ہے اور یہی واقعات و حالات اس کی ترجیحات کو سیٹ کرتے ہیں۔
آج خود سے سوال کر کے لیٹیں اور نیند آنے تک اس جواب کو پائیں کہ آپ کی زندگی میں سب سے اہم کیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ کہیں گے کہ ان کی زندگیوں میں کئی چیزیں اہم ہیں، یہ سوال ایسا ہی ہے کہ آپ کسی سے پوچھیں کہ آپ کو اپنی کس اولاد سے سب سے زیادہ پیار ہے اور والدین اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب بھی ہوتا ہے اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس سوال کا جواب بھی وقت اور حالات کے باعث تبدیل ہوجاتا ہے۔
یہی معاملہ زندگی کی ترجیحات کا ہے، کبھی ہماری ترجیح رشتے ہوتے ہیں، کبھی صحت، کبھی ملازمت، کبھی دولت، کبھی سیاحت، کبھی عبادت، کبھی اولاد، کبھی والدین... غرض عمر کے مختلف ادوار میں ہماری ترجیحات بدلتی رہتی ہیں مگر ایک ترجیح دوسری ترجیح کو ختم نہیں کرتی مگر نئی ترجیح سے پرانی ترجیح کی اہمیت کم ہوتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی دو ترجیحات ہمیشہ ترازو کے دو پلڑوں میں برابر نہیں تل سکتیں۔ ماں باپ سے محبت ہماری اس وقت تک اولین ترجیح ہوتی ہے جب تک کہ ہماری زندگی میں نئے رشتے شامل نہیں ہوتے اور بالخصوص جب اپنی اولاد ہو جاتی ہے تو وہ اولین ترجیح بن جاتی ہے، اس کے آگے تو ہر چیز ماند پڑ جاتی ہے۔
دولت ہر انسان کی ترجیحات میں اوپر کے درجوں میں آتی ہے، اگر چہ دولت ہر خوشی نہیں خرید سکتی مگر اس کی طاقت کو ہم سب جانتے ہیں۔ دولت نہ ہونے سے تو کچھ بھی نہیں خریدا جا سکتا آپ بیمار ہیں تو ہر دولت ہیچ ہے، جو دولت ہمارے لیے زندگی، شفاء اور سانس تک نہ خرید سکے وہ کس کام کی؟
جب ایسی نوعیت آتی ہے تو صحت اولین ترجیح بن جاتی ہے۔ جس اولاد کی خاطر ہم ہر دوسرے رشتے کو نظر انداز کر کے اولاد کو اہم ترین سمجھتے ہیں، وہی اولاد اگر ہمارے بڑھاپے میں ہمیں چھوڑ جائے تو ہمارے لیے ان کی نسبت وہ رشتے اہم ہو جاتے ہیں جو کہ ہم نے اس اولاد کی خاطر نظر انداز کیے ہوتے ہیں۔ وہ دوستیاں جو اولاد کی پرورش کی خاطر سر پٹ بھاگتے ہوئے پس منظر میں چلی جاتی ہیں، عمر کی شام میں ہم واپس ان دوستیوں کی طرف لپکتے ہیں۔ اسی لیے اعتدال کامیابی کی کنجی ہے۔
ہر معاملے میں اعتدال اور توازن، یہ قدرت کا ایسا اصول ہے جو ہمیں کائنات کی ہر چیز میں ملتا ہے۔ ہر خواہش میں اعتدال رکھیں، ہر چیز کو اتنی اہمیت دیں جتنے کی وہ مستحق ہے، اس وقت چیزوں کی قدر کریں جب وہ آپ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہم سے چھن جائیں، ختم ہو جائیںیا ہمارے پاس نہ رہیں تو پھر فقط پچھتاوے رہ جاتے ہیں کہ ہم نے انھیں اس وقت اہمیت نہ دی جب تک وہ ہمارے پاس تھیں، ہماری پہنچ میں تھیں۔
انسانی فطرت ہے کہ ہم اس چیز کو اہم نہیں گردانتے جو کہ ہمارے پاس ہے، جیسے ہمارا دل دن کے چوبیسوں گھنٹے ہمارے جسم کا نظام چلاتا ہے، کام کرتا ہے، انتھک اور بے محسوس کروائے۔ جس دن یہی دل اپنی دھڑکن کو محسوس کرواتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے۔ خاموشی سے اپنا کام کرنے والا جب وجود میں دھڑدھڑاتا ہے تو ہم اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے واقعی قادر مطلق کا اس بات پر شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے ہمیں کامل صحت عطا کی ہے اور ہمارے جسم کا نظام درجنوں سالوں تک بے نقص چلتا رہتا ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ میں ستر سال، ساٹھ سال یا حتی کہ پچاس سال کی عمر میں بھی آج تک کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا، یا مجھے کبھی بخار تک بھی نہیں ہوا۔ ایسا وہ عموما فخر سے کہتے ہیں لیکن ہم میں سے ایسا کہنے والے کتنے لوگ ہیں جو کہ ایسا اللہ تعالی کے تشکر کے اظہار کے لیے کرتے ہیں؟ ہم میں سے جو صاحب اولاد ہیں وہ کتنی دفعہ اللہ کی اس نعمت اور اس کے کرم کا شکر ادا کرتے ہیں۔
زندگی میں ہم اس لیے بھی جلد تھک جاتے ہیں کہ ہم اپنی ترجیحات میں سے ہر ایک کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہوتے ہیں، کس وقت کیا اہم ہے، کس وقت ہمیں کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور کس کی خاطر خود کو مشقت میں ڈالنا چاہیے... خود سے یہ سوال کریں، اس کے جواب کے مطابق خود کو، اپنے وقت کو اور اپنی محنت کو خانوں میں تقسیم کرلیں۔ اس آخری سوال کا جواب بالکل سادہ ہے، اگر آپ اسے سمجھیں تو، آپ کے لیے سب سے اہم ، آپ خود ہیں۔