بلاول بھٹو زرداری کے دو ٹوک سیاسی نظریات

بلاول نے خطاب میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا، بڑی جماعت کے قائد کوایسےالفاظ استعمال کرنے سے گریزکرنا چاہیے

بلاول نے خطاب میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا، بڑی جماعت کے قائد کوایسےالفاظ استعمال کرنے سے گریزکرنا چاہیے. فوٹو:پی پی آئی

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی چھٹی برسی کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نواز شریف' عمران خان، طالبان اور اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی ہے جب کہ جمہوریت کے ساتھ اپنی اور پیپلز پارٹی کی کمٹمنٹ کا اعادہ کیا اور انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے خیالات اور نظریات واضح اور غیرمبہم ہیں۔ طالبان کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے جو لائن اختیار کی ہے وہ پاکستان میں مستقبل کی سیاست کے رخ کا بھی تعین کرتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ فروری 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو پھر دھاندلی کا آپشن اختیار کیا گیا، بلاول کا کہنا تھا کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف متحدہ تھی۔

اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے، آصف زرداری کو ایوان صدر کا قیدی بنا دیا گیا تھا، لیکن آصف زرداری نے وہ کر دکھایا جو اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں ناممکن تھا، پیپلز پارٹی کو پنجاب کی سرحد پر روک لیا گیا، ہمیں معلوم ہے جمہوریت کو کیسے خطرات ہیں، اگر پاکستان کی حفاظت کرنا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے تو میں نے یہ پیالہ اٹھا لیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کس طرح کر سکتے ہیں جو عوام کا خون بہاتے ہیں، پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ انھوں نے ہماری عظیم لیڈر بینظیر بھٹو کو قتل کیا اور وہ ا ب بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ ملک میں جو دہشت گردی ہورہی ہے ، وہ ڈرون حملوں کا رد عمل نہیں ہے۔

انھوں نے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو بزدل خان کے لقب سے پکارتے ہوئے کہا کہ وہ حکیم اللہ محسود کی موت کے غم میں نیٹو سپلائی بند کرا رہے ہیں۔ ہم میاں صاحب اور خان صاحب کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو دہشت گردوں کا یار ہے وہ غدار ہے، غدار ہے۔دہشت گرد جنگلی جانور ہیں جو انسانوں کے خون کے پیاسے ہیں، مگر ہم اور ہماری پارٹی اس دھرتی کو دہشت گردوں سے نجات دلائیں گے، شیر اور تیر اکٹھے ہو کر جانوروں کا شکار کریں گے تو درندوں سے نجات دلا سکتے ہیں، پنجاب میں درندوں کو جگہ نہ دی گئی تو دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا کا نعرہ میں بھی لگاؤں گا۔


بلاول بھٹو زرداری پاکستانی سیاست میں واضح اور دو ٹوک نظریات کے حوالے سے داخل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ انھوں نے دہشت گردی اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو کچھ کہا' اسے مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک میں قائم ہونے والی کسی بھی سیاسی حکومت کو مستحکم نہیں ہونے دیا اور اس کے ڈھکے چھپے تعاون سے انتہاپسندانہ نظریات پروان چڑھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ہی مذہب کے نام پر مسلح جتھے قائم ہوئے جس کے باعث اس خطے کی تہذیب و ثقافت کے بخیے ادھیڑدیے گئے ' قوم فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہوئی۔ ملک کے بعض خصوں میں لسانی و نسلی تعصب کو ہوا دینے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار کہیں نہ کہیں نظرآتا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ سیاستدانوں نے بھی اپنی بساط کے مطابق ان برائیوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔اگر اس ملک کی سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوتی تو آج پاکستان جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوتا۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کے قائد کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن سے ان کی پارٹی کے لیے پنجاب میں مشکلات پیدا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفادات اور ترجیحات ہوتی ہیں جو صوبائیت' مذہب' لسانیت' نسلی تعصبات سے ماورا ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موقع کی مناسبت سے صوبائیت' مذہب' لسانیت یا نسل کا ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی صدر غلام اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر ان کی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی تھی حالانکہ میاں نواز شریف پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا تعلق کسی ایک صوبے سے نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے اور اس میں ملک کی ساری قومیتوں اور ثقافتی اکایوں کے افراد شامل ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس حوالے سے اپنے نظریات واضح کرنے چاہئیں۔

اسی طرح عمران خان کو بزدل خان کا لقب دینا بھی سیاسی اعتبار سے بہتر نہیں ہے۔ سیاسی قائدین کسی کا نام بگاڑے بغیر بھی اپنی بات عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کے سیاسی نظریات اور حکمت عملی کی بات ہے اس پر تنقید ہو سکتی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اپنی سیاسی حکمت عملی اور نظریات کے حوالے سے آزاد ہے، انھیں اپنی بات عوام تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی اگر سمجھتی ہے کہ ان کے نظریات اور حکمت عملی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے تو اسے بھی اپنی بات کہنے کی پوری آزادی ہے اور آخری فیصلہ عوام نے عام انتخابات میں کرنا ہے۔ عوام نے اب تک انتہاپسندی کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس کی مثال ہیں کہ عوام نے ان ہی پارٹیوں کو اقتدار میں لانے کے لیے ووٹ دیا ہے۔بہرحال یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے قائد کے نظریات میں ابہام نہیں ہے۔
Load Next Story