دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
ڈاکیے کا انتظارتوشایدآج کی نسل کیلئے کوئی معنی نہ رکھتے ہوں کیونکہ انکی جگہ جدید اور تیز رفتار چیزوں نے لے لی ہے
پتہ نہیں کیسے کچھ چیزوں کے ساتھ ایک خوامخواہ کا رومانس وابستہ ہو جاتا ہے کہ جب بھی آپ ان کے روبرو ہوں یا ان کو یاد کریں تو دل ایک انوکھی مسرت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ بارش، ریل کا سفر اور ڈاکیے کا انتظار بھی کم و بیش ایسی ہی کیفیات ہیں جن میں سے دو یعنی ریل کے سفر اور ڈاکیے (پوسٹ مین) کا انتظار تو شاید آج کی نسل کے لیے کوئی معنی نہ رکھتے ہوں کہ اب ان کی جگہ کچھ اور جدید تر اور زیادہ تیز رفتار چیزوں نے لے لی ہے مگر وہ لوگ جو گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی یا اس سے بھی پہلے پیدا ہوئے تھے بالعموم آج بھی ان کے جادو میں مبتلا ہیں۔ رہی بارش کی بات تو اس کی بوقلمونی سدا بہار ہے اور شاید اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک انسان مکمل طور پر روبوٹ کی صورت اختیار نہیں کر جاتا۔
اس سے پہلے کہ یہ ساون کی جھڑی تھم جائے
جتنے اقرار کے الفاظ ہیں، کہہ دو مجھ سے
بھیگتے پیڑ ہیں، میں ہوں، تم ہو!
اس برستے ہوئے بادل کی طرح
لفظ اگر مُڑ کے نہ آئے بھی تو کیا!
بھیگتے پیڑ، کسے جا کے گواہی دیں گے!!
لیکن اس وقت مجھے بات کرنی ہے محکمہ ڈاک اور اس کے حوالے سے اس یاد گاری ٹکٹ کی جو پروین شاکر کی انیسویں برسی کے موقع پر جاری کیا گیا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں ادیبوں، شاعروں اور دیگر فنون لطیفہ کے نمائندہ لوگوں کو ہدیۂ تعظیم پیش کرنے کے لیے مختلف طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک ان کی تصویر کے حامل ڈاک کے یادگاری ٹکٹ بھی ہیں لیکن بوجوہ ہمارے معاشروں میں سپاس گزاری کا یہ رجحان کم کم بھی ہے اور عدم تسلسل کا شکار بھی۔ چند برس قبل مجھے جاپان جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے کرنسی نوٹوں پر مختلف لوگوں کی تصویریں نظر آئیں جن کا تعلق عام روش سے ہٹ کر شاہی خاندان یا سیاسی لیڈروں سے نہیں تھا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ لوگ ان نوٹوں پر زیادہ تر اپنے ان مشاہیر کی تصاویر شایع کرتے ہیں جن کا تعلق سماجی یا تہذیبی شعبوں سے رہا ہوں۔ مثلاً دس ہزار ین والے نوٹ پر ایک ایسی جاپانی شاعرہ کی تصویر تھی جو زمانے کے اعتبار سے تقریباً ہمارے مرزا غالب کی ہم عصر تھی لیکن اس فہرست میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا دور حیات ماضی قریب سے تعلق رکھتا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کے محکمہ ڈاک کی طرف سے آزادی کے بعد سے جو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں سے بیشتر اپنی خوبصورتی کے حوالے سے ایک مخصوص انفرادیت کے حامل ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ شروع کے تقریباً 40 برسوں میں شاید ہی ان پر تحریک آزادی کے رہنماؤں، حاکمان وقت یا تاریخی واقعات اور مناظر کے علاوہ کسی کو جگہ دی گئی ہو۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اس طرف سنجیدگی سے توجہ دی گئی ہے اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے اہم خواتین و حضرات کے ناموں پر ان کی تصویروں سے مزین خصوصی یادگاری ٹکٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ پروین شاکر کے نام پر جاری ہونے والا ٹکٹ بھی اسی خوبصورت سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
چند ماہ قبل مجھے اس محکمے کے ایک ادب دوست افسر شعیب جعفری نے بتایا کہ ان کا محکمہ پروین شاکر کی آئندہ برسی (26 دسمبر 2013ء) کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کر رہا ہے جس کی دفتری کارروائی کے ضمن میں انھیں مجھ سے کچھ صلاح مشورہ کرنا ہے کہ افسران بالا اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کے باعث دستاویزی ثبوتوں اور مفصل Citation کے ذریعے انھیں اس بات پر قائل کرنا ضروری ہوتا ہے کہ متعلقہ فن کار واقعی اس عزت اور مرتبے کا حق دار ہے۔
چند دن قبل ان کا فون آیا کہ وہ ہفت خواں سر ہو گیا ہے اور اب اس کے رسمی افتتاح کے لیے 26 دسمبر کو پنجاب کلچرل کمپلیکس میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ میرا 25 دسمبر کو اسلام آباد میں نواب کیفی کے پہلے شعری مجموعے ''یہ معجزہ ہے'' اور فارم ایوو کی ڈاکٹر حضرات سے ملاقات کی ایک تقریب میں شریک ہونا پہلے سے طے تھا۔ سو میں 26 کو چل کر تقریب میں اس وقت تک پہنچا جب اس کی کارروائی شروع ہو چکی تھی اسٹیج پر محکمہ ڈاک کی ڈی جی محترمہ روبینہ طیب (جو پروین شاکر کی Batch mate بھی تھیں اور جن سے سول سروس اکیڈمی کے 1982ء کے مشاعرہ کے بعد آج ملاقات ہو رہی تھی) پروین شاکر میموریل ٹرسٹ کی چیئرپرسن محترمہ پروین قادر آغا (جنھوں نے پروین کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی ایک بڑی بہن کی طرح اس کی خبر گیری کی) محترمہ عرفانہ عزیز (جو طالب علمی کے دور میں پروین کے کالج میں پروفیسر تھیں اور اس کی شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی رہیں اور خود بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں) معروف نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر جو بلا شبہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور پروفیسر عسکری حسن تشریف فرما تھے۔
پروین کے ایک اور Batch mate دسویں کامن کے محمود جاوید نے سول سروس اکیڈمی میں گزرے ہوئے دنوں کی یاد کو بہت دلچسپ اور خوبصورت انداز میں تازہ کیا۔ پروین کی عزیز ترین سہیلی اور کولیگ طلعت الطاف خان کی کمی برُی طرح محسوس ہوئی کہ لاہور میں پروین ہمیشہ ان ہی کے ہاں قیام کرتی تھی (معلوم ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کی گریجویشن تقریب میں شرکت کے لیے کینیڈا گئی ہوئی ہیں) ان کے بعد مجھے اور یونس جاوید کو دعوت خطاب دی گئی اور پھر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات کو باری باری سننے کا موقع ملا تمام مقررین نے پروین کی یادوں کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ ڈاک کی اس کاوش کو بھی سراہا کہ دیر سے ہی سہی لیکن اب ہم بھی ایک مہذب اور متمدن قوم کی طرح اپنے مشاہیر کو خراج تحسین پیش کرنے کے طریقے سیکھ بھی رہے ہیں اور ان پر عمل بھی کر رہے ہیں۔
آخر میں یادگاری ٹکٹ کی نقاب کشائی کی گئی۔ تقریب کے منتظم شعیب جعفری نے ادب کے علاوہ ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے والے نمائندہ احباب کو بھی دعوت دی تھی جو ایک احسن قدم تھا۔ اب جہاں تک محکمہ ڈاک اور اس کے مستقبل کا تعلق ہے اس میں شک نہیں کہ اب اس کے کرنیوالے کام دیگر بہت سے شعبوں اور جدید ٹیکنالوجی کے دائرے میں آ گئے ہیں اور یوں ڈاکیے اور ڈاک بابو اور ان کے آنے جانے سے وابستہ مختلف تصورات نہ صرف دھندلے پڑتے جا رہے ہیں بلکہ ان کا رومانس ہی بوجوہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کوریئر سروس، منی آرڈر کی ترسیل کے جدید ذرائع SMS اور e.mails نے شہروں ہی نہیں بلکہ دیہات میں بھی پیغام رسانی کے حوالے سے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اردو اسکرپٹ کی طرح محکمہ ڈاک کا روایتی کردار بھی شدید خطرات سے دوچار ہے اور عین ممکن ہے آئندہ چند برسوں میں اس کی موجودہ شکل ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ جائے مگر مشاہیر کے حوالے سے یاد گاری ٹکٹوں کے اجراء کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اسے ایک روایت کی شکل میں زندہ' موجود اور جاری رہنا چاہیے کہ اس سے کسی معاشرے کی اندرونی قوت اور تہذیبی رچاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔ ''نامہ بر'' کے حوالے سے اردو شاعری میں اگرچہ بے شمار بے مثال اشعار مل جائیں گے مگر پتہ نہیں کیوں اس موقعے پر مجھے پھر سے مرزا غالب ہی یاد آ رہے ہیں۔ ان کا کیا انوکھا اور پہلو دار شعر ہے کہ
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے!
اس سے پہلے کہ یہ ساون کی جھڑی تھم جائے
جتنے اقرار کے الفاظ ہیں، کہہ دو مجھ سے
بھیگتے پیڑ ہیں، میں ہوں، تم ہو!
اس برستے ہوئے بادل کی طرح
لفظ اگر مُڑ کے نہ آئے بھی تو کیا!
بھیگتے پیڑ، کسے جا کے گواہی دیں گے!!
لیکن اس وقت مجھے بات کرنی ہے محکمہ ڈاک اور اس کے حوالے سے اس یاد گاری ٹکٹ کی جو پروین شاکر کی انیسویں برسی کے موقع پر جاری کیا گیا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں ادیبوں، شاعروں اور دیگر فنون لطیفہ کے نمائندہ لوگوں کو ہدیۂ تعظیم پیش کرنے کے لیے مختلف طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک ان کی تصویر کے حامل ڈاک کے یادگاری ٹکٹ بھی ہیں لیکن بوجوہ ہمارے معاشروں میں سپاس گزاری کا یہ رجحان کم کم بھی ہے اور عدم تسلسل کا شکار بھی۔ چند برس قبل مجھے جاپان جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے کرنسی نوٹوں پر مختلف لوگوں کی تصویریں نظر آئیں جن کا تعلق عام روش سے ہٹ کر شاہی خاندان یا سیاسی لیڈروں سے نہیں تھا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ لوگ ان نوٹوں پر زیادہ تر اپنے ان مشاہیر کی تصاویر شایع کرتے ہیں جن کا تعلق سماجی یا تہذیبی شعبوں سے رہا ہوں۔ مثلاً دس ہزار ین والے نوٹ پر ایک ایسی جاپانی شاعرہ کی تصویر تھی جو زمانے کے اعتبار سے تقریباً ہمارے مرزا غالب کی ہم عصر تھی لیکن اس فہرست میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا دور حیات ماضی قریب سے تعلق رکھتا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کے محکمہ ڈاک کی طرف سے آزادی کے بعد سے جو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں سے بیشتر اپنی خوبصورتی کے حوالے سے ایک مخصوص انفرادیت کے حامل ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ شروع کے تقریباً 40 برسوں میں شاید ہی ان پر تحریک آزادی کے رہنماؤں، حاکمان وقت یا تاریخی واقعات اور مناظر کے علاوہ کسی کو جگہ دی گئی ہو۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اس طرف سنجیدگی سے توجہ دی گئی ہے اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے اہم خواتین و حضرات کے ناموں پر ان کی تصویروں سے مزین خصوصی یادگاری ٹکٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ پروین شاکر کے نام پر جاری ہونے والا ٹکٹ بھی اسی خوبصورت سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
چند ماہ قبل مجھے اس محکمے کے ایک ادب دوست افسر شعیب جعفری نے بتایا کہ ان کا محکمہ پروین شاکر کی آئندہ برسی (26 دسمبر 2013ء) کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کر رہا ہے جس کی دفتری کارروائی کے ضمن میں انھیں مجھ سے کچھ صلاح مشورہ کرنا ہے کہ افسران بالا اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کے باعث دستاویزی ثبوتوں اور مفصل Citation کے ذریعے انھیں اس بات پر قائل کرنا ضروری ہوتا ہے کہ متعلقہ فن کار واقعی اس عزت اور مرتبے کا حق دار ہے۔
چند دن قبل ان کا فون آیا کہ وہ ہفت خواں سر ہو گیا ہے اور اب اس کے رسمی افتتاح کے لیے 26 دسمبر کو پنجاب کلچرل کمپلیکس میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ میرا 25 دسمبر کو اسلام آباد میں نواب کیفی کے پہلے شعری مجموعے ''یہ معجزہ ہے'' اور فارم ایوو کی ڈاکٹر حضرات سے ملاقات کی ایک تقریب میں شریک ہونا پہلے سے طے تھا۔ سو میں 26 کو چل کر تقریب میں اس وقت تک پہنچا جب اس کی کارروائی شروع ہو چکی تھی اسٹیج پر محکمہ ڈاک کی ڈی جی محترمہ روبینہ طیب (جو پروین شاکر کی Batch mate بھی تھیں اور جن سے سول سروس اکیڈمی کے 1982ء کے مشاعرہ کے بعد آج ملاقات ہو رہی تھی) پروین شاکر میموریل ٹرسٹ کی چیئرپرسن محترمہ پروین قادر آغا (جنھوں نے پروین کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی ایک بڑی بہن کی طرح اس کی خبر گیری کی) محترمہ عرفانہ عزیز (جو طالب علمی کے دور میں پروین کے کالج میں پروفیسر تھیں اور اس کی شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی رہیں اور خود بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں) معروف نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر جو بلا شبہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور پروفیسر عسکری حسن تشریف فرما تھے۔
پروین کے ایک اور Batch mate دسویں کامن کے محمود جاوید نے سول سروس اکیڈمی میں گزرے ہوئے دنوں کی یاد کو بہت دلچسپ اور خوبصورت انداز میں تازہ کیا۔ پروین کی عزیز ترین سہیلی اور کولیگ طلعت الطاف خان کی کمی برُی طرح محسوس ہوئی کہ لاہور میں پروین ہمیشہ ان ہی کے ہاں قیام کرتی تھی (معلوم ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کی گریجویشن تقریب میں شرکت کے لیے کینیڈا گئی ہوئی ہیں) ان کے بعد مجھے اور یونس جاوید کو دعوت خطاب دی گئی اور پھر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات کو باری باری سننے کا موقع ملا تمام مقررین نے پروین کی یادوں کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ ڈاک کی اس کاوش کو بھی سراہا کہ دیر سے ہی سہی لیکن اب ہم بھی ایک مہذب اور متمدن قوم کی طرح اپنے مشاہیر کو خراج تحسین پیش کرنے کے طریقے سیکھ بھی رہے ہیں اور ان پر عمل بھی کر رہے ہیں۔
آخر میں یادگاری ٹکٹ کی نقاب کشائی کی گئی۔ تقریب کے منتظم شعیب جعفری نے ادب کے علاوہ ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے والے نمائندہ احباب کو بھی دعوت دی تھی جو ایک احسن قدم تھا۔ اب جہاں تک محکمہ ڈاک اور اس کے مستقبل کا تعلق ہے اس میں شک نہیں کہ اب اس کے کرنیوالے کام دیگر بہت سے شعبوں اور جدید ٹیکنالوجی کے دائرے میں آ گئے ہیں اور یوں ڈاکیے اور ڈاک بابو اور ان کے آنے جانے سے وابستہ مختلف تصورات نہ صرف دھندلے پڑتے جا رہے ہیں بلکہ ان کا رومانس ہی بوجوہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کوریئر سروس، منی آرڈر کی ترسیل کے جدید ذرائع SMS اور e.mails نے شہروں ہی نہیں بلکہ دیہات میں بھی پیغام رسانی کے حوالے سے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اردو اسکرپٹ کی طرح محکمہ ڈاک کا روایتی کردار بھی شدید خطرات سے دوچار ہے اور عین ممکن ہے آئندہ چند برسوں میں اس کی موجودہ شکل ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ جائے مگر مشاہیر کے حوالے سے یاد گاری ٹکٹوں کے اجراء کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اسے ایک روایت کی شکل میں زندہ' موجود اور جاری رہنا چاہیے کہ اس سے کسی معاشرے کی اندرونی قوت اور تہذیبی رچاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔ ''نامہ بر'' کے حوالے سے اردو شاعری میں اگرچہ بے شمار بے مثال اشعار مل جائیں گے مگر پتہ نہیں کیوں اس موقعے پر مجھے پھر سے مرزا غالب ہی یاد آ رہے ہیں۔ ان کا کیا انوکھا اور پہلو دار شعر ہے کہ
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے!