نظریات کی جنگ
ہجرت کا اصلی اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو خود اس بھٹی سے گذرتے ہیں۔۔۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک مختلف تناظر میں بڑی باریکی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں آج دو مختلف فطرت رکھنے والی نسلیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔یہ دونوں نسلیں اپنے اپنے بزرگوں کی نمائندہ نسلیں ہیں یہ دونوں نسلیں ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی الٹ اور ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ یہ صرف دو نسلوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ دومختلف سوچ اور فکر کا ٹکراؤ ہے دو الگ الگ نظریات کی جنگ ہے یہ جنگ آپ کو گلی کوچوں ، بازاروں ، سڑکوں ، دفاتر،اقتدار کے ایوانوں میں جا بجا دیکھنے کو ملے گی ۔ایک نسل وہ ہے جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اپنا بھر پورکردار ادا کیا جو زبان کے پکے ، با کردار،ایماندار، وفادار،وطن سے محبت کرنے والے تھے اور موقع پرست ہرگز نہ تھے جو ہیرا پھیری فراڈ ، دھوکا دہی سے ناواقف تھے اور دوسری نسل کا تعلق ان سے ہے جنھوں نے انگریزوں کی خدمات سر انجام دیں۔
اپنے ہم وطن اور ہم مذہب بھائیوں کی مخبریاں کیں جس کے صلے میں انہیں سر ، نواب ،چوہدری اور سردار کے خطاب عطا کیے گئے اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا گیا ان کا تحریک پاکستان میں کوئی بھی کردار نہ تھا اور ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی برائے نام تھی جب ان حضرات پر واضح ہوگیا کہ نئی ریاست معرض وجود میں آنے والی ہے تو وہ مسلم لیگ کی طرف لپکے وہ صرف اپنا اثر و رسوخ محفوظ کرنا چاہتے تھے ان میں کوئی نظریاتی جوش و خروش نہیں تھا اور وہ قدامت پرست اور عام طور پر غیر سیاسی تھے ۔یہ تمام حضرات بغیر کوئی جانی ومالی قربانی دیے ہوائی جہازوں اور شپ کے ذریعے اپنے پالتو طوطوں،چڑیاؤں اور بلیوں کے ہمراہ بحفاظت نئے وطن میں آدھمکے ۔ ان کے لیے ہی قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ، برصغیر کے وہ علاقے جو باہم مل کر پاکستان کہلائے وہاں زیادہ تر کاروبار غیر مسلموں کی ملکیت تھے جن کی اکثریت بھارت کی طرف ہجرت کر گئی ۔
مغربی پاکستان میں مجموعی طور پر80 فیصد صنعتی یونٹوں کے مالک غیر مسلم تھے پاکستان کے پہلے شہر کراچی میں 80 فیصد زمینی جائیداد اور غیرملکی تجارت کے زیادہ ترحصے پر غیر مسلموں کو کنٹرول حاصل تھا۔ صرف لاہورکی 215 فیکٹریوں میں سے 167 کے مالک غیر مسلم تھے مشرقی پاکستان کے 95 فیصد لوگ اور مغربی پاکستان کے 85 فیصد لوگ دیہات میں رہتے تھے۔ 1947 میں مشرقی حصے کے غریب کسانوں کا استحصال ہندو زمیندار ، بنیے اور ساہوکار کر تے تھے اور مغربی حصے کے غریب کسان اپنے ہم مذہب جاگیرداروں کے استحصال کا شکار ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنی برتری جتا کر جن گروہوں نے زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کر نے کی کوشش کی ان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اور پنجاب میں بسنے والے پیش پیش تھے ۔
جب کہ بنگالی ، سندھی ، پٹھان اور بلوچ ان سے پیچھے رہ گئے تھے ، ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں میں جہاں نچلے اور متوسط طبقے کی اکثریت تھی وہاں بڑے بڑے جاگیردار ، زمیندار، نواب بھی تھے اس کے علاوہ سرکاری ملازمین جو پاکستان منتقل ہوئے تھے ان میں اعلیٰ افسران سے لے کر نچلے اہل کاروں میں مہاجرین کی اکثریت تھی ان میں سے بیشتر احساس برتری کا شکارتھے اور خود کو دنیا کی اعلیٰ ترین تہذیب کا نمائندہ قرار دیتے تھے اور پاکستان کے مقامی لوگوں کو گنوار، ڈھگے جیسے القاب سے نواز کر ان سے حقارت کا اظہار کرتے تھے۔ جب کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے عام مہاجرین کے بارے میں قدرت اللہ شہاب ''شہاب نامہ'' میں لکھتے ہیں ستمبر1947 میں جب کراچی پہنچا تو چاروں طرف سے لٹے پٹے ، کٹے پھٹے ، مہاجرین کا ایک سیلاب عظیم پاکستان میں امڈا چلا آرہا تھا ان میں ہی کہیں میرا ایک نہایت قریبی عزیز اپنی بیوی اور بچوں سمیت بھی شامل تھا وہ کئی ماہ پہلے مشرقی پنجاب کے گاؤں چمکور صاحب سے کسی قافلے میں روانہ ہوا تھا اور ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ پاکستان تک زندہ سلامت پہنچا بھی ہے یا نہیں اور اگر پہنچا ہے تو کہاں پر ہے اس عزیز کی تلاش میں ایک ایک کرکے میں نے تقریباً تمام مہاجر کیمپوں کا بڑا تفصیلی جائزہ لیا۔
ہجرت کا اصلی اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو خود اس بھٹی سے گذرتے ہیں گھروں میں بیٹھ کر یا دفتروں کی چار دیواری میں اعداد و شمار کے گوشوارے بنا کر یا جلسوں اور جلوسوں میں دھواں دھار تقریریں سن کر ہجرت کا صحیح مفہوم سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی مہاجرخانوں میں سسکتے ہوئے تڑپتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے اور اپنوں اور پرایوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے مہاجرین کی داستان پوری طرح سنائی دیتی ہے ۔ اپنی اسی تلاش کے دوران ظلم، بربریت اور مصا ئب کی چادر میں لپٹے ہوئے لاکھوں مہاجرین میری نظروں کے سامنے گذرے ان میں ہزاروں کی تعداد میں بچے بھی تھے اور جوان اور بوڑھی عورتیں بھی درجنوں نے تڑپ تڑپ کر رو رو کر بین کرتے کرتے مجھے اپنی بپتا بھری جیون کہانیاں سنائیں۔''
دوسری طرف نئے ملک میں مو قع پرست اور مفاد پرست جھوٹ ، فریب ، فراڈ ، حرص جلعسازی کی دھما چوکڑی مچا رہے ہیں ۔ گھی کی فیکٹریوں کے پرمٹ ، پاور لوم کے پرمٹ ، آرٹ سلک یارن امپورٹ لائسنس حاصل کرکے بلیک مارکیٹ میں بیچ بیچ کر لاکھو ں روپے کمائے جارہے تھے۔ آزادی کے وقت جو ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے تھے وہ پنجاب اور سندھ میں بہت سی فیکٹریاں ، سینما گھر اور صنعتیں چھوڑ گئے تھے انھیں جھوٹے کلیموں کے ذریعے اپنے اپنے نام کروانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی، حد تو یہ تھی کہ ایک صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا کہ وہ جو جائیداد بھارت چھوڑ آئے ہیں ان میں دلی کا لال قلعہ بھی شامل ہے ۔انہیں اس کی قیمت اور تاریخی عظمت کے مطابق معاوضہ دیاجائے ان کا دعو یٰ تھا کہ ان کا شجرہ نسب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ براہ راست ملتا ہے، جتنا بڑا آدمی ہوتا تھا اتنا ہی بڑا کلیم ہوتا تھا اور اس کی تہہ میں اتنا ہی بڑا جھوٹ اور فریب کارفرما تھا ۔کچھ لوگ بہ نفس نفیس بھارت چلے جاتے تھے اور وہاں پر متروکہ املاک کے کسٹو ڈین کے دفتر سے اپنی مرضی کے کاغذات اور سرٹیفیکٹ بنوا لاتے تھے۔ بھارتی کسٹوڈین کے دفتر میں بھی جعلسازی کی فیکٹری کھلی ہوئی تھی، رشوت کے ریٹ مقرر تھے اور منہ مانگی رشو ت دے کر ہرقسم کی ملکیت کی تصدیق کرائی جاسکتی تھی ۔ آج صوبہ پنجاب ، سندھ ، پختونخوا ہ ،بلوچستان میں جدوجہد پاکستان میں حصہ لینے والوں اور جانی ومالی قربانیاں دینے والوں کی اولاد کی کسما پرسی ، بے اختیاری ، غربت ، افلاس آپ گلی کوچوں ،بازاروں ، محلوں میں جابجا دیکھ سکتے ہیں اور دوسری جانب جھوٹے کلیموں ، فریب ، فراڈ ، جعلسازی ، دھوکہ دہی کے ذریعے راتوں رات امیر و کبیر بننے والوں کی اولاد کی عیاشیاں ، اختیار ، طاقت ، دولت ،شان و شوکت ،ٹھاٹھ، باٹھ ، محلات ، فیکٹریاں ، بڑی بڑی کاریں آپ کو ہروقت دیکھنے کو نصیب ہوتی رہتی ہیں جو ہمارے ملک کی اشرافیہ کہلا تی ہے ۔
یعنی جنھوں نے قربانی دی ان کے اور ان کے اولاد کے نصیب میں ٹھوکریں ، گالیاں ، بے کسی ، ذلت و خواری ، غربت ، افلاس لکھ دی گئی اور جنھوں نے کچھ نہیں کیا بس صرف موقع پرستی ، فراڈ ، دھوکہ ، جعلسازی میں نمبر ون رہے آج پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں انہیں ہر عیش و آرام مفت میں نصیب ہوگیا ، اختیار ، اقتدار ، انصاف ، طاقت ان کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے ۔ ان تمام افراد کی ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری نکل آئی ۔ اسی لیے آج انھوں نے ملک کی ہر چیز کو لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے ۔ اور ملک کے اصل مالک ٹھوکریں کھاتے اور دربدر پھرر ہے ہیں اور لٹیرے راج کر رہے ہیں ۔ اسی لیے ملک کے اصل مالک عوام تمام ملکی معاملات سے لا تعلق ہو چکے ہیں ۔ اسی لیے معاشرے میں بے چینی ، انتشار ، آپ کو جابجا دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ لوگوں کی بے حسی کے پیچھے یہ ہی ناانصافی چھپی ہوئی ہے۔ ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی انتہا پسندی کے پیچھے یہ ہی بنیادی وجہ ہے۔ظاہر ہے جو درخت جھوٹ ،فراڈ ، جعلسازی سے لگے گا اس کا پھل میٹھا کیسے ہوسکتا ہے ظاہر ہے پھل زہریلا ہوگا ۔ اسی لیے ہمارے عوام سے الگ تھلگ خود سر اشرافیہ زہریلی ہے اس سے ملک اور ملک کی بھلائی کی امید بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں اسی کی وجہ سے ہم آج تک قوم نہ بن سکے ۔جب قوم تھے تو ملک نہ تھا آج ملک ہے تو قوم نہیں ۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ملک کے اصل مالک خو شحال ، طاقتور ، بااختیار اور مالک ہوں گے ،کب آخر کب۔!
اپنے ہم وطن اور ہم مذہب بھائیوں کی مخبریاں کیں جس کے صلے میں انہیں سر ، نواب ،چوہدری اور سردار کے خطاب عطا کیے گئے اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا گیا ان کا تحریک پاکستان میں کوئی بھی کردار نہ تھا اور ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی برائے نام تھی جب ان حضرات پر واضح ہوگیا کہ نئی ریاست معرض وجود میں آنے والی ہے تو وہ مسلم لیگ کی طرف لپکے وہ صرف اپنا اثر و رسوخ محفوظ کرنا چاہتے تھے ان میں کوئی نظریاتی جوش و خروش نہیں تھا اور وہ قدامت پرست اور عام طور پر غیر سیاسی تھے ۔یہ تمام حضرات بغیر کوئی جانی ومالی قربانی دیے ہوائی جہازوں اور شپ کے ذریعے اپنے پالتو طوطوں،چڑیاؤں اور بلیوں کے ہمراہ بحفاظت نئے وطن میں آدھمکے ۔ ان کے لیے ہی قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ، برصغیر کے وہ علاقے جو باہم مل کر پاکستان کہلائے وہاں زیادہ تر کاروبار غیر مسلموں کی ملکیت تھے جن کی اکثریت بھارت کی طرف ہجرت کر گئی ۔
مغربی پاکستان میں مجموعی طور پر80 فیصد صنعتی یونٹوں کے مالک غیر مسلم تھے پاکستان کے پہلے شہر کراچی میں 80 فیصد زمینی جائیداد اور غیرملکی تجارت کے زیادہ ترحصے پر غیر مسلموں کو کنٹرول حاصل تھا۔ صرف لاہورکی 215 فیکٹریوں میں سے 167 کے مالک غیر مسلم تھے مشرقی پاکستان کے 95 فیصد لوگ اور مغربی پاکستان کے 85 فیصد لوگ دیہات میں رہتے تھے۔ 1947 میں مشرقی حصے کے غریب کسانوں کا استحصال ہندو زمیندار ، بنیے اور ساہوکار کر تے تھے اور مغربی حصے کے غریب کسان اپنے ہم مذہب جاگیرداروں کے استحصال کا شکار ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنی برتری جتا کر جن گروہوں نے زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کر نے کی کوشش کی ان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اور پنجاب میں بسنے والے پیش پیش تھے ۔
جب کہ بنگالی ، سندھی ، پٹھان اور بلوچ ان سے پیچھے رہ گئے تھے ، ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں میں جہاں نچلے اور متوسط طبقے کی اکثریت تھی وہاں بڑے بڑے جاگیردار ، زمیندار، نواب بھی تھے اس کے علاوہ سرکاری ملازمین جو پاکستان منتقل ہوئے تھے ان میں اعلیٰ افسران سے لے کر نچلے اہل کاروں میں مہاجرین کی اکثریت تھی ان میں سے بیشتر احساس برتری کا شکارتھے اور خود کو دنیا کی اعلیٰ ترین تہذیب کا نمائندہ قرار دیتے تھے اور پاکستان کے مقامی لوگوں کو گنوار، ڈھگے جیسے القاب سے نواز کر ان سے حقارت کا اظہار کرتے تھے۔ جب کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے عام مہاجرین کے بارے میں قدرت اللہ شہاب ''شہاب نامہ'' میں لکھتے ہیں ستمبر1947 میں جب کراچی پہنچا تو چاروں طرف سے لٹے پٹے ، کٹے پھٹے ، مہاجرین کا ایک سیلاب عظیم پاکستان میں امڈا چلا آرہا تھا ان میں ہی کہیں میرا ایک نہایت قریبی عزیز اپنی بیوی اور بچوں سمیت بھی شامل تھا وہ کئی ماہ پہلے مشرقی پنجاب کے گاؤں چمکور صاحب سے کسی قافلے میں روانہ ہوا تھا اور ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ پاکستان تک زندہ سلامت پہنچا بھی ہے یا نہیں اور اگر پہنچا ہے تو کہاں پر ہے اس عزیز کی تلاش میں ایک ایک کرکے میں نے تقریباً تمام مہاجر کیمپوں کا بڑا تفصیلی جائزہ لیا۔
ہجرت کا اصلی اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو خود اس بھٹی سے گذرتے ہیں گھروں میں بیٹھ کر یا دفتروں کی چار دیواری میں اعداد و شمار کے گوشوارے بنا کر یا جلسوں اور جلوسوں میں دھواں دھار تقریریں سن کر ہجرت کا صحیح مفہوم سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی مہاجرخانوں میں سسکتے ہوئے تڑپتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے اور اپنوں اور پرایوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے مہاجرین کی داستان پوری طرح سنائی دیتی ہے ۔ اپنی اسی تلاش کے دوران ظلم، بربریت اور مصا ئب کی چادر میں لپٹے ہوئے لاکھوں مہاجرین میری نظروں کے سامنے گذرے ان میں ہزاروں کی تعداد میں بچے بھی تھے اور جوان اور بوڑھی عورتیں بھی درجنوں نے تڑپ تڑپ کر رو رو کر بین کرتے کرتے مجھے اپنی بپتا بھری جیون کہانیاں سنائیں۔''
دوسری طرف نئے ملک میں مو قع پرست اور مفاد پرست جھوٹ ، فریب ، فراڈ ، حرص جلعسازی کی دھما چوکڑی مچا رہے ہیں ۔ گھی کی فیکٹریوں کے پرمٹ ، پاور لوم کے پرمٹ ، آرٹ سلک یارن امپورٹ لائسنس حاصل کرکے بلیک مارکیٹ میں بیچ بیچ کر لاکھو ں روپے کمائے جارہے تھے۔ آزادی کے وقت جو ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے تھے وہ پنجاب اور سندھ میں بہت سی فیکٹریاں ، سینما گھر اور صنعتیں چھوڑ گئے تھے انھیں جھوٹے کلیموں کے ذریعے اپنے اپنے نام کروانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی، حد تو یہ تھی کہ ایک صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا کہ وہ جو جائیداد بھارت چھوڑ آئے ہیں ان میں دلی کا لال قلعہ بھی شامل ہے ۔انہیں اس کی قیمت اور تاریخی عظمت کے مطابق معاوضہ دیاجائے ان کا دعو یٰ تھا کہ ان کا شجرہ نسب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ براہ راست ملتا ہے، جتنا بڑا آدمی ہوتا تھا اتنا ہی بڑا کلیم ہوتا تھا اور اس کی تہہ میں اتنا ہی بڑا جھوٹ اور فریب کارفرما تھا ۔کچھ لوگ بہ نفس نفیس بھارت چلے جاتے تھے اور وہاں پر متروکہ املاک کے کسٹو ڈین کے دفتر سے اپنی مرضی کے کاغذات اور سرٹیفیکٹ بنوا لاتے تھے۔ بھارتی کسٹوڈین کے دفتر میں بھی جعلسازی کی فیکٹری کھلی ہوئی تھی، رشوت کے ریٹ مقرر تھے اور منہ مانگی رشو ت دے کر ہرقسم کی ملکیت کی تصدیق کرائی جاسکتی تھی ۔ آج صوبہ پنجاب ، سندھ ، پختونخوا ہ ،بلوچستان میں جدوجہد پاکستان میں حصہ لینے والوں اور جانی ومالی قربانیاں دینے والوں کی اولاد کی کسما پرسی ، بے اختیاری ، غربت ، افلاس آپ گلی کوچوں ،بازاروں ، محلوں میں جابجا دیکھ سکتے ہیں اور دوسری جانب جھوٹے کلیموں ، فریب ، فراڈ ، جعلسازی ، دھوکہ دہی کے ذریعے راتوں رات امیر و کبیر بننے والوں کی اولاد کی عیاشیاں ، اختیار ، طاقت ، دولت ،شان و شوکت ،ٹھاٹھ، باٹھ ، محلات ، فیکٹریاں ، بڑی بڑی کاریں آپ کو ہروقت دیکھنے کو نصیب ہوتی رہتی ہیں جو ہمارے ملک کی اشرافیہ کہلا تی ہے ۔
یعنی جنھوں نے قربانی دی ان کے اور ان کے اولاد کے نصیب میں ٹھوکریں ، گالیاں ، بے کسی ، ذلت و خواری ، غربت ، افلاس لکھ دی گئی اور جنھوں نے کچھ نہیں کیا بس صرف موقع پرستی ، فراڈ ، دھوکہ ، جعلسازی میں نمبر ون رہے آج پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں انہیں ہر عیش و آرام مفت میں نصیب ہوگیا ، اختیار ، اقتدار ، انصاف ، طاقت ان کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے ۔ ان تمام افراد کی ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری نکل آئی ۔ اسی لیے آج انھوں نے ملک کی ہر چیز کو لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے ۔ اور ملک کے اصل مالک ٹھوکریں کھاتے اور دربدر پھرر ہے ہیں اور لٹیرے راج کر رہے ہیں ۔ اسی لیے ملک کے اصل مالک عوام تمام ملکی معاملات سے لا تعلق ہو چکے ہیں ۔ اسی لیے معاشرے میں بے چینی ، انتشار ، آپ کو جابجا دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ لوگوں کی بے حسی کے پیچھے یہ ہی ناانصافی چھپی ہوئی ہے۔ ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی انتہا پسندی کے پیچھے یہ ہی بنیادی وجہ ہے۔ظاہر ہے جو درخت جھوٹ ،فراڈ ، جعلسازی سے لگے گا اس کا پھل میٹھا کیسے ہوسکتا ہے ظاہر ہے پھل زہریلا ہوگا ۔ اسی لیے ہمارے عوام سے الگ تھلگ خود سر اشرافیہ زہریلی ہے اس سے ملک اور ملک کی بھلائی کی امید بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں اسی کی وجہ سے ہم آج تک قوم نہ بن سکے ۔جب قوم تھے تو ملک نہ تھا آج ملک ہے تو قوم نہیں ۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ملک کے اصل مالک خو شحال ، طاقتور ، بااختیار اور مالک ہوں گے ،کب آخر کب۔!