اردو کا ارتقائی سفر اور مستحسن قدم
مختلف ادوارمیں اردو کے نام ہی نہیں بدلے بلکہ ناموں کی اس تبدیلی کے ساتھ تہذیب اورلسانی خصوصیت بھی شامل نظرآتی ہے
ہماری قومی زبان اردوکی اہمیت مسلم ہے اور یہ دنیا کی زبانوں میں چوتھے نمبر پر آتی ہے،اور ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے اردو نے ارتقا کی بہت سی منزلیں طے کی ہیں اسی بنا پر اس کے مختلف نام بھی پڑتے رہے، ویسے لفظ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ''لشکر'' کے ہیں۔ بقول حافظ محمود خان شیرانی یہ لفظ ترکی زبان میں مختلف شکلوں میں مستعمل ہے کبھی اسے اوردا اورکبھی اوردہ یا اردہ ، مزید یہ کہ یہ لفظ مختلف المعانی بھی ہے۔ عام طور پر لشکر، حرم، محل، محل سرا پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ لفظ ہندی کی طرح لفظ ''اردو'' کا استعمال سب سے پہلے ''تزک بابری'' میں شہنشاہ بابر نے کیا، شاہ جہاں بھی پہلے پہل ملکی زبان کے لیے لفظ اردو کو ہی استعمال میں لایا اور یہ بات اس وقت کی ہے جب اس نے آگرہ کی جگہ دہلی کو اپنا پایہ تخت بنایا، اس حوالے سے میر امن دہلوی فرماتے ہیں ''تب بادشاہ نے خوش ہوکر جشن منایا اور شہر کو اپنا دارالخلافہ، تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا اور وہاں کے بازار کو ''اردوئے معلیٰ'' کا خطاب دیا گیا۔
ریختن، فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بنانا، ایجاد واختراع کرنا، موزوں کرنا، نئے سانچے میں ڈھالنا وغیرہ، لیکن ادبیات ہندوستان میں اسے بالکل نئے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ہندی راگوں اور فارسی کے تعلق سے ہندوستانی موسیقی میں جو نئی چیز وجود میں آئی اسے ریختہ کا نام دیا گیا اس طرح مختلف بولیوں اور زبان کے ملاپ پر بطوراستعارہ اردو کو بھی ریختہ کہا جانے لگا، مولانا محمد حسین آزاد کی رائے کے مطابق، مختلف زبانوں نے اسے پختہ کیا جیسے دیوار کو اینٹ، مٹی، چونا، سفیدی وغیرہ پختہ کرے یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی چیز، پریشان چیز چونکہ اس میں الفاظ پریشان جمع ہیں، اس لیے اسے ریختہ کہا گیا ہے اردو زبان کے لیے لفظ ریختہ پہلی بار عہد اکبر میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعد میں یہ لفظ نثر کے لیے بلکہ شاعری کے لیے مخصوص ہوگیا ایسی شاعری جس میں ایک یا (نصف) مصرعہ فارسی اور ہندی میں ہوتا تھا، امیر خسرو کی غزل اس سلسلے میں کافی مقبول ہوئی۔ مثال کے طور پر غزل کا یہ شعر:
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سنا وے پیارے پی کو ہماری بتیاں
مختلف ادوار میں اردو کے نام ہی نہیں بدلے بلکہ ناموں کی اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی تہذیب اور لسانی خصوصیت بھی شامل نظر آتی ہے۔ حافظ محمود شیرانی اور دوسرے ماہر لسانیات اس بات کا بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قدیم اردو کو ہندوستان کی نسبت سے ہندی یا ہندوی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ یہ موقف محققین لسانیات کے حوالے سے قرین قیاس ہے کہ قدیم اردو و ہندی کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مسلمان شمال مغرب سے فاتح ہوکر برصغیر میں داخل ہوئے اور قریب قریب موجودہ مغربی پاکستان کے علاقوں میں ان کی حکومت مستحکم ہوگئی اور جس وقت پنجاب میں اردو زبان کی ابتدا ہوئی اس دور میں پنجاب اور دہلی کے گرد و نواح کی بولیوں میں تدریجی فرق نمایاں تھا، اور یہ تدریجی فرق اب بھی دریائے سندھ سے جمنا تک مختلف دو آبوں اور ضلعوں کی بولیوں میں محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ ایک جگہ یا علاقے کے لوگ دوسرے ضلع کے لوگوں سے ناآشنا ہوں، ماہرین لسانیات نے پنجاب سے بہار تک جس صوتی تبدیلیوں کی نشاندہی کی ہے۔
ان کے مطابق زبان میں علاقائی رنگ میں وحدت لسانی کا ایک رنگ ہمیشہ جھلکتا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے خیال کے تحت مسلمان فاتحین کا سندھ پر حملہ اور ان کی کچھ عرصے تک کی حکومت اور لوگوں سے اختلاط کے نتیجے میں جو زبان وجود میں آئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ مسعود سعد سلمان کے ہندوی (قدیم اردو) دیوان کا تذکرہ محمد عوفی نے کیا ہے اور امیر خسروؒ نے اس کی تائید کی ہے یہ بات بھی تحقیق شدہ ہے کہ اس نئی زبان کی نشوونما اور ارتقائی سفر کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس حقیقت میں بھی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ پونے دو سو سال کا عرصہ زبان کے پختہ ہونے کے لیے کچھ ناکافی ہے۔ لیکن اس عرصے میں ایک نئی زبان کے خد و خال واضح ہوکر سامنے ضرور آگئے۔ چنانچہ اردو زبان مسلمان فاتحین کی آمد کے ساتھ مقامی بولیوں کے اختلاط سے وجود میں آگئی اور اس زبان سے تحریر و تقریر میں بخوبی کام لیا جانے لگا۔
حافظ محمود خان شیرانی کی تحقیق کے مطابق اردو زبان کی ابتدا پنجاب میں ہوئی جب محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے۔ اردو کی دوسری منزل دہلی اور اس کے نواحی علاقے ٹھہرے۔ دہلی کو لسانیات کے ماہرین مختلف بولیوں کا مقام اتصال بھی کہتے ہیں اردو مسلمانوں کے زیر سایہ دہلی اور دہلی کی نواحی بولیوں کے ماحول میں ارتقا کے دوسرے مرحلے سے گزر رہی تھی کہ ایک صدی بعد علاؤ الدین خلجی کے ساتھ مسلم فاتحین جنوبی ہند کی طرف بڑھے اور ان کے ہمراہ اس مخلوط زبان نے دکن یعنی اپنی تیسری منزل کی جانب قدم بڑھا دیے اس کے بعد کچھ سیاسی واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے کہ دکن کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ سلطان علاؤ الدین خلجی کے سپہ سالار ملک کافور کی فاتحانہ یلغار کے بعد سلطان محمد تغلق نے 1325 میں دہلی کی بجائے دولت آباد (دیوگری) کو دارالخلافہ بنایا اور دہلی کی تقریباً ساری آبادی حکماً نئے دارالحکومت روانہ ہوئی اس طرح اردو بولنے والے دکن میں بس گئے اور اردو بولنے والوں کا ماحول وجود میں آگیا۔
اردو کی چوتھی منزل سترہویں صدی عیسوی کے اواخر میں اس وقت شروع ہوتی ہے جب اورنگ زیب عالمگیر نے دکن کی عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کو ختم کرکے دہلی اور اورنگ آباد سے رابطہ پیدا کیا، اس طرح تقریباً ساڑھے تین سو سال کے بعد دکنی اردو اور شمالی ہند کی اردو کا ملاپ ہوا، اسی زمانے میں ہریانے کی وہ ادبی تحریک شروع ہوئی اور فارسی کی بجائے درسی کتب ''ہریانی'' میں لکھی جانے لگیں اور ان کتابوں کو پروفیسر شیرانی نے قدیم ادب اردو میں شمار کیا ہے۔ ان ہی دنوں میں عبدالواسع ہانسوی نے عوام و خواص کی سہولت کی خاطر اردو کی پہلی لغت ''غرائب اللغات'' کے نام سے لکھی اس میں ہریانوی لہجہ نمایاں تھا لیکن بعد میں سراج الدین علی خان آرزو نے اسے ''نوادرالالفاظ'' کے نام سے مرتب کیا اور اس میں شہری لہجے کو اہمیت دی گئی۔ اردو کی چوتھی منزل کا یہ ارتقائی عروج تھا، جہاں سے جدید اردو کی تحریک شروع ہوتی ہے۔ اصلاح زبان کی یہ تحریک امام بخش ناسخ کے ہاتھوں ترقی کی سیڑھی پر پہنچتی ہے اس طرح اٹھارہویں صدی کے اختتام تک اردو ایک شستہ زبان بن جاتی ہے۔
محلوں میں رہنے والی اور درویشوں کی خانقاہوں میں بسنے والی زبان اردو کو حکمرانوں، علما، صوفیا اور بزرگان دین نے اپنے دل میں بسایا اور دور دراز کے علاقوں اور خطوں تک پہنچایا یہ زبان سالکوں کی بھی ہے غربا و فقرا کی بھی اور بادشاہوں کی بھی ہے۔ اردو زبان کا پہلا دیوان شاعر بادشاہ محمد قلی شاہ تھا۔ یہ امرا و رؤسا کی زبان ہے اس زبان نے مختلف ادوار دیکھے ہیں محلاتی سازشیں اور جنگوں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ یہ زبان صدیوں سے عالموں، سیاستدانوں اور طبیبوں کے دل و دماغ میں بسیرا کیے ہوئے ہے۔ ان ہی صوفیا کرام کی صحبتوں اور محبتوں نے اسے اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا ہے، لیکن افسوس کہ آج اسی زبان کے اس کے اپنے لوگ ہی دشمن بن گئے ہیں جب کہ اس ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے قومی زبان کا درجہ عطا فرمایا تھا۔
اردو وہ زبان ہے جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ رچ بس گئے ہیں بے شمار زبانوں کے الفاظ محاورے، ضرب المثال اس میں شامل ہیں پھر اردو اور دوسری زبانوں سے نفرت کیوں؟ زبانیں تو آپس میں محبت و اخلاق کو جنم دیتی ہیں فاصلوں کو مٹاتی ہیں۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ انگریزی بولنے والے اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول جانے والے لوگ ''اردو'' اور علاقائی زبانوں کو اتنی حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں۔ تدریسی اداروں میں تو انگریزی کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ وہ اس زبان کا سہارا لے کر بڑی بڑی فیسیں وصول کرتے ہیں اور نادان لوگ انگریزی کے پیچھے اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے کہ اللہ نہ کرے وہ جنون میں مبتلا ہوگئے ہوں اور انگریزی نہیں سیکھنے پر دین و دنیا کی ترقی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ انگلش، فارسی، عربی اور غیرملکی زبانیں ضرور سیکھنی چاہئیں کہ علم میں اضافہ ہو لیکن محض تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر اردو سے نفرت نہ کریں کہ یہ ہماری قومی زبان تو ہے ہی، یہ زبان ہمیں وراثت میں ملی ہے اور سب کی زبان ہے پورے پاکستان کی زبان ہے میٹھی اور شیریں زبان۔ اس زبان میں تہذیب و ثقافت، علم و ہنر کے خزانے پوشیدہ ہیں جب ہی تو ہمارا ''ایکسپریس اخبار'' اور دوسرے ادارے اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار منعقد کروا رہے ہیں اور یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ اردو پاکستان کے چاروں صوبوں کی بحیثیت زبان نمایندگی کرتی ہے۔ یقینا یہ بات وسیع النظری کو تقویت پہنچاتی ہے۔
ریختن، فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بنانا، ایجاد واختراع کرنا، موزوں کرنا، نئے سانچے میں ڈھالنا وغیرہ، لیکن ادبیات ہندوستان میں اسے بالکل نئے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ہندی راگوں اور فارسی کے تعلق سے ہندوستانی موسیقی میں جو نئی چیز وجود میں آئی اسے ریختہ کا نام دیا گیا اس طرح مختلف بولیوں اور زبان کے ملاپ پر بطوراستعارہ اردو کو بھی ریختہ کہا جانے لگا، مولانا محمد حسین آزاد کی رائے کے مطابق، مختلف زبانوں نے اسے پختہ کیا جیسے دیوار کو اینٹ، مٹی، چونا، سفیدی وغیرہ پختہ کرے یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی چیز، پریشان چیز چونکہ اس میں الفاظ پریشان جمع ہیں، اس لیے اسے ریختہ کہا گیا ہے اردو زبان کے لیے لفظ ریختہ پہلی بار عہد اکبر میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعد میں یہ لفظ نثر کے لیے بلکہ شاعری کے لیے مخصوص ہوگیا ایسی شاعری جس میں ایک یا (نصف) مصرعہ فارسی اور ہندی میں ہوتا تھا، امیر خسرو کی غزل اس سلسلے میں کافی مقبول ہوئی۔ مثال کے طور پر غزل کا یہ شعر:
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سنا وے پیارے پی کو ہماری بتیاں
مختلف ادوار میں اردو کے نام ہی نہیں بدلے بلکہ ناموں کی اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی تہذیب اور لسانی خصوصیت بھی شامل نظر آتی ہے۔ حافظ محمود شیرانی اور دوسرے ماہر لسانیات اس بات کا بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قدیم اردو کو ہندوستان کی نسبت سے ہندی یا ہندوی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ یہ موقف محققین لسانیات کے حوالے سے قرین قیاس ہے کہ قدیم اردو و ہندی کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مسلمان شمال مغرب سے فاتح ہوکر برصغیر میں داخل ہوئے اور قریب قریب موجودہ مغربی پاکستان کے علاقوں میں ان کی حکومت مستحکم ہوگئی اور جس وقت پنجاب میں اردو زبان کی ابتدا ہوئی اس دور میں پنجاب اور دہلی کے گرد و نواح کی بولیوں میں تدریجی فرق نمایاں تھا، اور یہ تدریجی فرق اب بھی دریائے سندھ سے جمنا تک مختلف دو آبوں اور ضلعوں کی بولیوں میں محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ ایک جگہ یا علاقے کے لوگ دوسرے ضلع کے لوگوں سے ناآشنا ہوں، ماہرین لسانیات نے پنجاب سے بہار تک جس صوتی تبدیلیوں کی نشاندہی کی ہے۔
ان کے مطابق زبان میں علاقائی رنگ میں وحدت لسانی کا ایک رنگ ہمیشہ جھلکتا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے خیال کے تحت مسلمان فاتحین کا سندھ پر حملہ اور ان کی کچھ عرصے تک کی حکومت اور لوگوں سے اختلاط کے نتیجے میں جو زبان وجود میں آئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ مسعود سعد سلمان کے ہندوی (قدیم اردو) دیوان کا تذکرہ محمد عوفی نے کیا ہے اور امیر خسروؒ نے اس کی تائید کی ہے یہ بات بھی تحقیق شدہ ہے کہ اس نئی زبان کی نشوونما اور ارتقائی سفر کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس حقیقت میں بھی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ پونے دو سو سال کا عرصہ زبان کے پختہ ہونے کے لیے کچھ ناکافی ہے۔ لیکن اس عرصے میں ایک نئی زبان کے خد و خال واضح ہوکر سامنے ضرور آگئے۔ چنانچہ اردو زبان مسلمان فاتحین کی آمد کے ساتھ مقامی بولیوں کے اختلاط سے وجود میں آگئی اور اس زبان سے تحریر و تقریر میں بخوبی کام لیا جانے لگا۔
حافظ محمود خان شیرانی کی تحقیق کے مطابق اردو زبان کی ابتدا پنجاب میں ہوئی جب محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے۔ اردو کی دوسری منزل دہلی اور اس کے نواحی علاقے ٹھہرے۔ دہلی کو لسانیات کے ماہرین مختلف بولیوں کا مقام اتصال بھی کہتے ہیں اردو مسلمانوں کے زیر سایہ دہلی اور دہلی کی نواحی بولیوں کے ماحول میں ارتقا کے دوسرے مرحلے سے گزر رہی تھی کہ ایک صدی بعد علاؤ الدین خلجی کے ساتھ مسلم فاتحین جنوبی ہند کی طرف بڑھے اور ان کے ہمراہ اس مخلوط زبان نے دکن یعنی اپنی تیسری منزل کی جانب قدم بڑھا دیے اس کے بعد کچھ سیاسی واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے کہ دکن کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ سلطان علاؤ الدین خلجی کے سپہ سالار ملک کافور کی فاتحانہ یلغار کے بعد سلطان محمد تغلق نے 1325 میں دہلی کی بجائے دولت آباد (دیوگری) کو دارالخلافہ بنایا اور دہلی کی تقریباً ساری آبادی حکماً نئے دارالحکومت روانہ ہوئی اس طرح اردو بولنے والے دکن میں بس گئے اور اردو بولنے والوں کا ماحول وجود میں آگیا۔
اردو کی چوتھی منزل سترہویں صدی عیسوی کے اواخر میں اس وقت شروع ہوتی ہے جب اورنگ زیب عالمگیر نے دکن کی عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کو ختم کرکے دہلی اور اورنگ آباد سے رابطہ پیدا کیا، اس طرح تقریباً ساڑھے تین سو سال کے بعد دکنی اردو اور شمالی ہند کی اردو کا ملاپ ہوا، اسی زمانے میں ہریانے کی وہ ادبی تحریک شروع ہوئی اور فارسی کی بجائے درسی کتب ''ہریانی'' میں لکھی جانے لگیں اور ان کتابوں کو پروفیسر شیرانی نے قدیم ادب اردو میں شمار کیا ہے۔ ان ہی دنوں میں عبدالواسع ہانسوی نے عوام و خواص کی سہولت کی خاطر اردو کی پہلی لغت ''غرائب اللغات'' کے نام سے لکھی اس میں ہریانوی لہجہ نمایاں تھا لیکن بعد میں سراج الدین علی خان آرزو نے اسے ''نوادرالالفاظ'' کے نام سے مرتب کیا اور اس میں شہری لہجے کو اہمیت دی گئی۔ اردو کی چوتھی منزل کا یہ ارتقائی عروج تھا، جہاں سے جدید اردو کی تحریک شروع ہوتی ہے۔ اصلاح زبان کی یہ تحریک امام بخش ناسخ کے ہاتھوں ترقی کی سیڑھی پر پہنچتی ہے اس طرح اٹھارہویں صدی کے اختتام تک اردو ایک شستہ زبان بن جاتی ہے۔
محلوں میں رہنے والی اور درویشوں کی خانقاہوں میں بسنے والی زبان اردو کو حکمرانوں، علما، صوفیا اور بزرگان دین نے اپنے دل میں بسایا اور دور دراز کے علاقوں اور خطوں تک پہنچایا یہ زبان سالکوں کی بھی ہے غربا و فقرا کی بھی اور بادشاہوں کی بھی ہے۔ اردو زبان کا پہلا دیوان شاعر بادشاہ محمد قلی شاہ تھا۔ یہ امرا و رؤسا کی زبان ہے اس زبان نے مختلف ادوار دیکھے ہیں محلاتی سازشیں اور جنگوں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ یہ زبان صدیوں سے عالموں، سیاستدانوں اور طبیبوں کے دل و دماغ میں بسیرا کیے ہوئے ہے۔ ان ہی صوفیا کرام کی صحبتوں اور محبتوں نے اسے اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا ہے، لیکن افسوس کہ آج اسی زبان کے اس کے اپنے لوگ ہی دشمن بن گئے ہیں جب کہ اس ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے قومی زبان کا درجہ عطا فرمایا تھا۔
اردو وہ زبان ہے جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ رچ بس گئے ہیں بے شمار زبانوں کے الفاظ محاورے، ضرب المثال اس میں شامل ہیں پھر اردو اور دوسری زبانوں سے نفرت کیوں؟ زبانیں تو آپس میں محبت و اخلاق کو جنم دیتی ہیں فاصلوں کو مٹاتی ہیں۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ انگریزی بولنے والے اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول جانے والے لوگ ''اردو'' اور علاقائی زبانوں کو اتنی حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں۔ تدریسی اداروں میں تو انگریزی کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ وہ اس زبان کا سہارا لے کر بڑی بڑی فیسیں وصول کرتے ہیں اور نادان لوگ انگریزی کے پیچھے اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے کہ اللہ نہ کرے وہ جنون میں مبتلا ہوگئے ہوں اور انگریزی نہیں سیکھنے پر دین و دنیا کی ترقی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ انگلش، فارسی، عربی اور غیرملکی زبانیں ضرور سیکھنی چاہئیں کہ علم میں اضافہ ہو لیکن محض تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر اردو سے نفرت نہ کریں کہ یہ ہماری قومی زبان تو ہے ہی، یہ زبان ہمیں وراثت میں ملی ہے اور سب کی زبان ہے پورے پاکستان کی زبان ہے میٹھی اور شیریں زبان۔ اس زبان میں تہذیب و ثقافت، علم و ہنر کے خزانے پوشیدہ ہیں جب ہی تو ہمارا ''ایکسپریس اخبار'' اور دوسرے ادارے اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار منعقد کروا رہے ہیں اور یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ اردو پاکستان کے چاروں صوبوں کی بحیثیت زبان نمایندگی کرتی ہے۔ یقینا یہ بات وسیع النظری کو تقویت پہنچاتی ہے۔