’’مقابلہ حسن‘‘ پاکستان نے جیت لیا
اردو میں ایک کہاوت ہے کہ گھر کا جوگی چوکڑہ اور باہر کا جوگی سدھ۔
یہی تو۔ یہی تو ہے کہ ہماری سمجھ دانی جو کچھ زیادہ اعلیٰ درجے کی نہیں ہے، جب کوئی ایسی تیسی بات آتی ہے تو دلدل میں پھنسی ہوئی گاڑی کی طرح اس کے صرف ٹائر گھومتے ہیں، کیچڑ اڑاتی ہے لیکن آگے بڑھ کر نہیں دیتی حالانکہ آپ کو پتہ ہے کہ دانشوروں کی نقل کر کر کے اچھی خاصی حماقتیں سیکھ چکے ہیں جس طرح وہ احمقوں سے دانش سیکھتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی ایسی بات آجاتی ہے کہ ہمارا ناطقہ سربگریباں اور خامہ انگشت بدندان ہو جاتا ہے۔
اب یہ دیکھیے۔خیبر پختونخوا میں کسی بڑے ہائی فائی دانشور نے لکھا ہے ، یقیناً کہا بھی ہوگا کہ ''پاکستانی روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی ہے۔''اس پر ہم تو کیا ہماری جیب میں پڑا ہوا روپیہ بھی بھوں بھوں کرکے رونے لگا۔ کہ ہم کو ابھی تک یہ خبر ہی نہیں کہ دنیا میں ہمارا مقام کیا ہیَ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
اردو میں ایک کہاوت ہے کہ گھر کا جوگی چوکڑہ اور باہر کا جوگی سدھ۔ ہم بھی اپنے روپیہ یا ایشیا کی دوسری ''بڑی کرنسی''کے بارے میں کتنے برے برے خیالات رکھتے تھے اور اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ ہمیشہ ڈالر، پونڈ، یورو، ریال اور درہم دینار کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ یہ تو اب پتہ چلا کہ خواہ مخواہ رانی کو نوکرانی سمجھ بیٹھے تھے۔ جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی اور جسے سمجھے بدصورت وہ خوبصورت نکلی۔
دانا دانشور نے لفظ ''خوبصورت'' استعمال کیا ہے۔ ایشیا کی دوسری خوبصورت کرنسی۔ انھوں نے یہ کشٹ نہیں اٹھایا کہ پہلی خوبصورت ترین کا نام بھی بتا دیتے۔ صرف ''مقابلہ حسن'' کی ''رنراپ'' یا نمبر دو کا مقام پاکستانی کرنسی کو دیا ہے اور یہ خیال بھی نہیں رکھاہے، آج کل نمبر دو، اور دو نمبر کے معنی کیا ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دکاندار دوست نے جو ''زیارت راستہ'' میں منیاری کا سامان بیچتا ہے۔
''زیارت راستہ'' پبی میں ایک مزار شیخ بابا کی طرف جانے والا راستہ تھا لیکن آج پبی کا مین بازار بلکہ بڑی حد تک ملک گیر سطح کا بازار بن چکا ہے اور تقریباً ساری دکانیں خواتین کے استعمال کی اشیا سے بھری ہوئی۔ جن میں مرد بھی شامل ہیں اور فیشن انڈسٹری بھی۔ پہلے یہاں ''اصلی'' اور ''دونمبر'' کی اصطلاح رائج تھی لیکن آج کل دکاندار خواتین سے کہتے ہیں،'' یہ لو بہن اصلی دونمبر کا مال ہے''۔ خیر۔ یہ تو بات دوسری طرف پھیل گئی، بات ہم کرنسی کی کر رہے تھے، مجبوری ہے ایسی کونسی بات ہے جو کرنسی سے شروع نہیں ہوتی یا کرنسی پر ختم نہیں ہوتی یا کرنسی کے ساتھ چلتی نہیںہے۔
یہ شہرت بھی لے لو یہ عزت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے نور ایمانی
مگر مجھ کو دے دو وہ کاغذ کی کرنسی وہ جیون کا پانی
مطلب یہ کہ دنیا میں کرنسی ہی ایک حقیقت ہے باقی سب تو:
محض خواب ہے خیال ہے اور مایا جال ہے
اس لیے تو بزرگوں نے فرمایا ہے کہ
زبان یار من کرنسی ومن کرنسی نہ مے دارم
ایمان یار من کرسی ومن کرسی نہ مے دارم
اس دانا دانشور نے یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ یہ ''مقابلہ حسن'' کہاں منعقد ہوا تھا اور اس میں اور کون کون سی کرنسیوں نے حصہ لیا تھا شاید یہ مقابلہ حسن ان کے اپنے دماغ میں ہوا تھا اور اس میں صرف پاکستانی کرنسی نے حصہ لیا تھا۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا خبر خوش خبری کی تھی اس لیے ہم نے چاہا کہ ''روپیہ'' یا مسمی پاکستانی کرنسی کو مبارک باد دیں۔ اپنی جیبیں ٹٹولیں تو ان میں روپیہ نہیں تھا۔ پھر یہاں وہاں دکانداروں کے ہاں ڈھونڈا تو وہاں بھی نہ تھا۔ سوچا کہیں مانگنے والوں کے ہاں ضرور ہو گا لیکن یہاں بھی بچارا روپیہ تشریف نہیں رکھتا تھا، اب ہم نوٹوں سے تو یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اپنے والدین کو مبارک باد دو۔ کسی اور کے ذریعے مبارک باد کوئی اچھی بات تو نہیں۔ اور اگر وہ پلٹ کر جواب دے دیتے کہ کون؟ تو پھر؟
مبارک کے بعد دوسرا مسئلہ تحقیق کا تھا جو ہمارا اپنا سبجیکٹ ہے۔ دانا دانشور نے تو زیادہ خوشی کے مارے یا جلدی میں اس نمبرون کا نام نہیں بتایا جس کا رنراپ ہمارا روپیہ ہے لیکن ہم تو تحقیق کر سکتے تھے۔ ہماری تحقیق میں پہلی بار ہو رہا تھا کہ ہمارا علم تحقیق بھی ہماری سمجھ دانی کی طرح گئیر بدلتا رہا۔ ایکسیلرٹر دباتا رہا لیکن گاڑی کے پہیے صرف گھومتے رہے۔ کیونکہ ایک طرف دانا داشور صاحب کہہ چکے ہیں کہ ہماری کرنسی عرف روپیہ اگر ورلڈ فیمس نہیں تو ایشیا فیمس ہو گیا جب کہ ہمیں ایسی کرنسی پورے ایشیا میں نہیں مل رہی تھی جیسے ہم قطار میں روپیہ کے پیچھے کھڑا کر سکیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیشی ''ٹکہ'' اب ٹکہ ٹکاٹک نہیں بلکہ ہمارا روپیہ اس کو ٹکاٹک اور کٹاکٹ کر رہا تھا۔
افغانی کرنسی جب ہمارے ہاں مہاجروں کے ساتھ آئی تو اس کا وہی حال ہو گیا تھا۔ کہ پہلے جیب میں پیسہ لے کر جاتے تھے اور''بوریوں'' میں سودا لاتے تھے۔ اب بوریوں میں کرنسی بھرکر جاتے ہیں اور جیبوں یا پڑیوں میں سودا لاتے ہیں۔ ایک دن ہماری ایک افغانی مہاجر کے ساتھ اس بات پر خاصی لڑائی ہو گئی۔ ہم نے ان سے کہا،'' کم بختو اپنے سارے امراض لا کر ہمارے متھے مار دیے ہیں، اپنی افغانی کی طرح ہمارا روپیہ بھی گرا گئے ہو جو ایک زمانے میں کلدار اور کلہ دار ہوا کرتا تھا۔ لیکن افغانی ہمارے ساتھ زبردست ہاتھ کر گئے۔
ہمارے روپیہ کو افغانی کر گئے اور اپنی افغانی کو کلدار سے بھی زیادہ کلہ دار کر گئے۔ وہ کلدار جو کبھی افغانی کو جھک کر دیکھتا تھا ، آج کل افغانی اسے جھک کر دیکھتی ہے اور روپیہ افغانی کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی پگڑی بلکہ قُلہ گر جاتا ہے۔ اسی طرح مشرقی پڑوس کا روپیہ ہمارے روپے کا ہم نام تو ہے لیکن ہم دام، ہم کام اور ہم مقام نہیں ہے۔ اب رہ گئیں عربوں اور مشرق بعید کی کرنسیاں تو یہاں بھی معاملہ دکھانے کا نہیں چھپانے کا ہے اور حضرت دانشور کہہ رہے ہیں کہ۔ ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ لیکن اسے نہ روپے سے غرض تھی نہ اس کا عالم نزع سے تعلق تھا، اس نے تو موجودہ حکومت کا قصیدہ پڑھنا تھا، وہ پڑھ لیا، اب روپیہ بھاڑ میں جاتا ہے تو جائے۔
اس نے ایک اور بڑی خوشخبری یہ بھی سنائی کہ پی ٹی آئی حکومت کی کامیاب پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھ گئی ہے اور وہ دن دور نہیں جب دنیا بھر کے سرمایہ کار آپس میں دھینگا مشتی کر کے، سرمایہ کاری کے لیے۔ پہلے میں۔ پہلے میں کر رہے ہوں گے۔ دنیا بھر کی کرنسیاں آئیں گی اور پاکستانی روپیہ کے دست مبارک پر بیعت کریں گی۔ جب دانشور کہہ رہا ہے تو یہ بھی سچ ہی ہو گا۔
اب یہ دیکھیے۔خیبر پختونخوا میں کسی بڑے ہائی فائی دانشور نے لکھا ہے ، یقیناً کہا بھی ہوگا کہ ''پاکستانی روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی ہے۔''اس پر ہم تو کیا ہماری جیب میں پڑا ہوا روپیہ بھی بھوں بھوں کرکے رونے لگا۔ کہ ہم کو ابھی تک یہ خبر ہی نہیں کہ دنیا میں ہمارا مقام کیا ہیَ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
اردو میں ایک کہاوت ہے کہ گھر کا جوگی چوکڑہ اور باہر کا جوگی سدھ۔ ہم بھی اپنے روپیہ یا ایشیا کی دوسری ''بڑی کرنسی''کے بارے میں کتنے برے برے خیالات رکھتے تھے اور اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ ہمیشہ ڈالر، پونڈ، یورو، ریال اور درہم دینار کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ یہ تو اب پتہ چلا کہ خواہ مخواہ رانی کو نوکرانی سمجھ بیٹھے تھے۔ جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی اور جسے سمجھے بدصورت وہ خوبصورت نکلی۔
دانا دانشور نے لفظ ''خوبصورت'' استعمال کیا ہے۔ ایشیا کی دوسری خوبصورت کرنسی۔ انھوں نے یہ کشٹ نہیں اٹھایا کہ پہلی خوبصورت ترین کا نام بھی بتا دیتے۔ صرف ''مقابلہ حسن'' کی ''رنراپ'' یا نمبر دو کا مقام پاکستانی کرنسی کو دیا ہے اور یہ خیال بھی نہیں رکھاہے، آج کل نمبر دو، اور دو نمبر کے معنی کیا ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دکاندار دوست نے جو ''زیارت راستہ'' میں منیاری کا سامان بیچتا ہے۔
''زیارت راستہ'' پبی میں ایک مزار شیخ بابا کی طرف جانے والا راستہ تھا لیکن آج پبی کا مین بازار بلکہ بڑی حد تک ملک گیر سطح کا بازار بن چکا ہے اور تقریباً ساری دکانیں خواتین کے استعمال کی اشیا سے بھری ہوئی۔ جن میں مرد بھی شامل ہیں اور فیشن انڈسٹری بھی۔ پہلے یہاں ''اصلی'' اور ''دونمبر'' کی اصطلاح رائج تھی لیکن آج کل دکاندار خواتین سے کہتے ہیں،'' یہ لو بہن اصلی دونمبر کا مال ہے''۔ خیر۔ یہ تو بات دوسری طرف پھیل گئی، بات ہم کرنسی کی کر رہے تھے، مجبوری ہے ایسی کونسی بات ہے جو کرنسی سے شروع نہیں ہوتی یا کرنسی پر ختم نہیں ہوتی یا کرنسی کے ساتھ چلتی نہیںہے۔
یہ شہرت بھی لے لو یہ عزت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے نور ایمانی
مگر مجھ کو دے دو وہ کاغذ کی کرنسی وہ جیون کا پانی
مطلب یہ کہ دنیا میں کرنسی ہی ایک حقیقت ہے باقی سب تو:
محض خواب ہے خیال ہے اور مایا جال ہے
اس لیے تو بزرگوں نے فرمایا ہے کہ
زبان یار من کرنسی ومن کرنسی نہ مے دارم
ایمان یار من کرسی ومن کرسی نہ مے دارم
اس دانا دانشور نے یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ یہ ''مقابلہ حسن'' کہاں منعقد ہوا تھا اور اس میں اور کون کون سی کرنسیوں نے حصہ لیا تھا شاید یہ مقابلہ حسن ان کے اپنے دماغ میں ہوا تھا اور اس میں صرف پاکستانی کرنسی نے حصہ لیا تھا۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا خبر خوش خبری کی تھی اس لیے ہم نے چاہا کہ ''روپیہ'' یا مسمی پاکستانی کرنسی کو مبارک باد دیں۔ اپنی جیبیں ٹٹولیں تو ان میں روپیہ نہیں تھا۔ پھر یہاں وہاں دکانداروں کے ہاں ڈھونڈا تو وہاں بھی نہ تھا۔ سوچا کہیں مانگنے والوں کے ہاں ضرور ہو گا لیکن یہاں بھی بچارا روپیہ تشریف نہیں رکھتا تھا، اب ہم نوٹوں سے تو یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اپنے والدین کو مبارک باد دو۔ کسی اور کے ذریعے مبارک باد کوئی اچھی بات تو نہیں۔ اور اگر وہ پلٹ کر جواب دے دیتے کہ کون؟ تو پھر؟
مبارک کے بعد دوسرا مسئلہ تحقیق کا تھا جو ہمارا اپنا سبجیکٹ ہے۔ دانا دانشور نے تو زیادہ خوشی کے مارے یا جلدی میں اس نمبرون کا نام نہیں بتایا جس کا رنراپ ہمارا روپیہ ہے لیکن ہم تو تحقیق کر سکتے تھے۔ ہماری تحقیق میں پہلی بار ہو رہا تھا کہ ہمارا علم تحقیق بھی ہماری سمجھ دانی کی طرح گئیر بدلتا رہا۔ ایکسیلرٹر دباتا رہا لیکن گاڑی کے پہیے صرف گھومتے رہے۔ کیونکہ ایک طرف دانا داشور صاحب کہہ چکے ہیں کہ ہماری کرنسی عرف روپیہ اگر ورلڈ فیمس نہیں تو ایشیا فیمس ہو گیا جب کہ ہمیں ایسی کرنسی پورے ایشیا میں نہیں مل رہی تھی جیسے ہم قطار میں روپیہ کے پیچھے کھڑا کر سکیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیشی ''ٹکہ'' اب ٹکہ ٹکاٹک نہیں بلکہ ہمارا روپیہ اس کو ٹکاٹک اور کٹاکٹ کر رہا تھا۔
افغانی کرنسی جب ہمارے ہاں مہاجروں کے ساتھ آئی تو اس کا وہی حال ہو گیا تھا۔ کہ پہلے جیب میں پیسہ لے کر جاتے تھے اور''بوریوں'' میں سودا لاتے تھے۔ اب بوریوں میں کرنسی بھرکر جاتے ہیں اور جیبوں یا پڑیوں میں سودا لاتے ہیں۔ ایک دن ہماری ایک افغانی مہاجر کے ساتھ اس بات پر خاصی لڑائی ہو گئی۔ ہم نے ان سے کہا،'' کم بختو اپنے سارے امراض لا کر ہمارے متھے مار دیے ہیں، اپنی افغانی کی طرح ہمارا روپیہ بھی گرا گئے ہو جو ایک زمانے میں کلدار اور کلہ دار ہوا کرتا تھا۔ لیکن افغانی ہمارے ساتھ زبردست ہاتھ کر گئے۔
ہمارے روپیہ کو افغانی کر گئے اور اپنی افغانی کو کلدار سے بھی زیادہ کلہ دار کر گئے۔ وہ کلدار جو کبھی افغانی کو جھک کر دیکھتا تھا ، آج کل افغانی اسے جھک کر دیکھتی ہے اور روپیہ افغانی کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی پگڑی بلکہ قُلہ گر جاتا ہے۔ اسی طرح مشرقی پڑوس کا روپیہ ہمارے روپے کا ہم نام تو ہے لیکن ہم دام، ہم کام اور ہم مقام نہیں ہے۔ اب رہ گئیں عربوں اور مشرق بعید کی کرنسیاں تو یہاں بھی معاملہ دکھانے کا نہیں چھپانے کا ہے اور حضرت دانشور کہہ رہے ہیں کہ۔ ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ لیکن اسے نہ روپے سے غرض تھی نہ اس کا عالم نزع سے تعلق تھا، اس نے تو موجودہ حکومت کا قصیدہ پڑھنا تھا، وہ پڑھ لیا، اب روپیہ بھاڑ میں جاتا ہے تو جائے۔
اس نے ایک اور بڑی خوشخبری یہ بھی سنائی کہ پی ٹی آئی حکومت کی کامیاب پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھ گئی ہے اور وہ دن دور نہیں جب دنیا بھر کے سرمایہ کار آپس میں دھینگا مشتی کر کے، سرمایہ کاری کے لیے۔ پہلے میں۔ پہلے میں کر رہے ہوں گے۔ دنیا بھر کی کرنسیاں آئیں گی اور پاکستانی روپیہ کے دست مبارک پر بیعت کریں گی۔ جب دانشور کہہ رہا ہے تو یہ بھی سچ ہی ہو گا۔