قبل از وقت سینیٹ انتخابات کے اعلان پر پی ڈیم ایم کشمکش میں مبتلا
سینیٹ انتخابات کے قبل از وقت انعقاد سے جنوری ہی سے سینیٹ انتخابات کے مراحل شروع ہوجائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے سینیٹ کے انتخابات مارچ کے بجائے فروری میں کرانے کا پتا پھینکتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف تحریک کا رخ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
جو تحریک وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے لیے جاری تھی، اس کی ساری توانائیاں اس وقت اس بات پر لگ رہی ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات بروقت یعنی مارچ کے پہلے ہفتے میں ہوں تاکہ پی ڈی ایم اپنے پلان کے مطابق حکومت مخالف تحریک کو آگے بڑھا سکے۔
تاہم اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتی تجویز کے مطابق سینیٹ کے انتخابات مارچ کے بجائے فروری کے وسط میں کرانے کا اعلان کردیتا ہے تو اس صورت میں پی ڈی ایم کی حکومت مخالف جاری تحریک بھی مشکلات کا شکار ہوجائے گی کیونکہ پی ڈی ایم نے اپنی تحریک میں جن مراحل کا اعلان کررکھا ہے، اس کے مطابق لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کا مرحلہ جنوری کے اواخر یا فروری کے اوائل میں آنا ہے، تاہم سینیٹ انتخابات کے قبل از وقت انعقاد سے جنوری ہی سے سینیٹ انتخابات کے مراحل شروع ہوجائیں گے۔
یقینی طور پر اس صورت میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کویہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر میدان سے باہر ہو رہی ہیں یا پھر میدان میں رہتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں کیوں کہ اگر اس موقع پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں الیکشن چھوڑ کر استعفوں کی راہ لیتی ہیں تو اس صورت میں پی ٹی آئی کو ایوان بالا میں دوتہائی اکثریت مل جائے گی، جس کا بڑا واضح مطلب آئندہ تین سالوں تک پی ٹی آئی کا راج ہوگا، جسے شاید ہی مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں، اس لیے یہ دونوں بڑی جماعتیں استعفوں کے معاملے پر کسی بھی قسم کی جلدبازی سے کام نہیں لیں گی بلکہ سوچ سجھ کے ساتھ ہی معاملات کو آگے بڑھائیں گی۔
پی ڈی ایم صرف اس حوالے سے ہی کمزوری کا شکار نہیں بلکہ ساتھ ہی دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کا بھی اعلان کردیا ہے، جو پی ڈی ایم کے لیے الگ امتحان ہے کہ آیا وہ ان خالی نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی یا پھر استعفوں کی راہ لیتے ہوئے میدان سے باہر ہو رہی ہے؟
اگر پی ڈی ایم استعفوں کا اعلان کرتے ہوئے میدان سے باہر ہوتی ہے تو موجودہ حالات میں سب کچھ پی ٹی آئی کو ملتا ہے جبکہ دوسری جانب اگر پی ڈی ایم میدان میں رہتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں بھی حصہ لیتی ہے اور ساتھ ہی ضمنی انتخابات میں بھی تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا رخ تبدیل ہوجائے گا کیونکہ بات یہیں پر نہیں رکے گی بلکہ اس سے آگے تک جائے گی، اس لے کہ شنید ہے کہ حکومت مارچ،اپریل میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر بھی غور کررہی ہے اور اگر حکومتی صفوں میں اس بات پر اتفاق ہو جاتا ہے تو اس صورت میں پی ڈی ایم پھر ایک نئے امتحان کا شکار ہوگی کیونکہ ایک طرف پی ڈی ایم استعفے اور اسمبلیوں سے باہر کی راہ لینے کی تیاریاں کر رہی ہے اور دوسری جانب حکومت اسے انتخابات،انتخابات کھیلنے پر مجبور کررہی ہے، جس وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور خصوصی طور پر دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہونگی، جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کی پالیسیوں میں تغیرات دکھائی دیں گے۔
ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے پشاور کا ایک روزہ دورہ کیا، جس دوران انہوں نے پشاور میں بیٹھ کر اپنی حکومت اور پارٹی پالیسی کا ببانگ دہل اعلان بھی کیا اور اس کا اعادہ بھی کیا جس کے بعد اس پالیسی میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے ،انہوں نے جہاں پشاور میں بڑے منصوبوں کا آغاز و افتتاح کیا وہیں انہوں نے صوبائی کابینہ کے ساتھ بھی نشست کی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ کابینہ ارکان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے انھیں مستقبل کے لیے پالیسی دینا چاہتے تھے، جو انہوں نے دی اور صرف یہی نہیں بلکہ اس ملاقات میں صوبہ میں حکومت واپوزیشن کے معاملات بھی زیر بحث آئے اور وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انھیں یہی پالیسی دی گئی ہے کہ ان حالات میں جبکہ پی ڈی ایم ،پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنے پر زور لگا رہی ہے ،انہی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی کے لیے کوئی نرم گوشہ کیسے رکھا جاسکتاہے؟ ان کے ساتھ وہی پالیسی اپنانی ہوگی کہ جو وہ اپنائے ہوئے ہیں۔
انہی سطور میں اس سے قبل بھی کہاگیاتھا کہ خیبرپختونخوا حکومت اپنے طور پر بھی یہ پالیسی وضع کرچکی ہے کہ صوبہ میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جیسے کو تیسا والی پالیسی اپنانی ہوگی، اپوزیشن جماعتیں چونکہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں کھڑی پورا زور لگا رہی ہیں تو انھیں اسی قسم کی پالیسی اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا چاہیے اور یہی فارمولا صوبائی حکومت کی سطح پر بنایاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کے حصول سمیت دیگر مطالبات کے سلسلے میں احتجاج کے بعد جو کمیٹی بنائی گئی وہ بھی اسی ٹریک پر چل رہی ہے، جو اپوزیشن کے ساتھ دوبارہ نشست کرے گی تو خیبرپختونخوا کے ساتھ سندھ میں پی ٹی آئی ارکان کو فنڈز کی فراہمی کا معاملہ بھی ان کے سامنے رکھے گی، جس کے ساتھ ہی ان کے حلقوں کو ملنے والے فنڈز کی تفصیلات بھی ان کو پیش کئے جائیں گی، جو اگر ان کے توسط سے نہیں بھی لگ رہے تو ان ہی کے حلقوں سے کامیاب اراکین قومی اسمبلی کے ذریعے تو خرچ ہو ہی رہے ہیں، جس کا فائدہ بہرکیف ان کے حلقوں اور عوام کو ہی ہوگا۔
تاہم اگر اپوزیشن ارکان کی یہ خواہش ہو کہ وہ ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے ذریعے اپنے حلقوں میں سیاسی فائدہ لیں تو اس کے لیے انھیں حکومت مخالفت میں بھی کمی لانی ہوگی اور ساتھ ہی پی ڈی ایم کی جاری حکومت مخالف تحریک کو بھی اپنے اوپر حاوی ہونے سے روکنا ہوگا۔ انہی حالات میں محمودخان حکومت نے دو خواتین اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے، لکی مروت سے عائشہ بانو اور صوابی سے تعلق رکھنے والی عائشہ نعیم کو پارلیمای سیکرٹریز مقرر کیاگیا ہے ،مذکورہ دونوں خواتین موجودہ حکومتی ٹیم میں شامل ہونے والی پہلی دو خواتین ہیں۔گوکہ کہا تو یہ گیا تھا کہ صوبائی کابینہ میں بھی ایک یا دو خواتین ارکان کو شامل کیاجائے گا تاہم اس پر اتفاق نہیں ہوپایا، یہی وجہ ہے کہ دونوں خواتین ارکان کو پارلیمانی سیکرٹریز کے طور پر حکومتی ٹیم کا حصہ بنایاگیا ہے۔
جو تحریک وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے لیے جاری تھی، اس کی ساری توانائیاں اس وقت اس بات پر لگ رہی ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات بروقت یعنی مارچ کے پہلے ہفتے میں ہوں تاکہ پی ڈی ایم اپنے پلان کے مطابق حکومت مخالف تحریک کو آگے بڑھا سکے۔
تاہم اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتی تجویز کے مطابق سینیٹ کے انتخابات مارچ کے بجائے فروری کے وسط میں کرانے کا اعلان کردیتا ہے تو اس صورت میں پی ڈی ایم کی حکومت مخالف جاری تحریک بھی مشکلات کا شکار ہوجائے گی کیونکہ پی ڈی ایم نے اپنی تحریک میں جن مراحل کا اعلان کررکھا ہے، اس کے مطابق لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کا مرحلہ جنوری کے اواخر یا فروری کے اوائل میں آنا ہے، تاہم سینیٹ انتخابات کے قبل از وقت انعقاد سے جنوری ہی سے سینیٹ انتخابات کے مراحل شروع ہوجائیں گے۔
یقینی طور پر اس صورت میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کویہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر میدان سے باہر ہو رہی ہیں یا پھر میدان میں رہتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں کیوں کہ اگر اس موقع پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں الیکشن چھوڑ کر استعفوں کی راہ لیتی ہیں تو اس صورت میں پی ٹی آئی کو ایوان بالا میں دوتہائی اکثریت مل جائے گی، جس کا بڑا واضح مطلب آئندہ تین سالوں تک پی ٹی آئی کا راج ہوگا، جسے شاید ہی مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں، اس لیے یہ دونوں بڑی جماعتیں استعفوں کے معاملے پر کسی بھی قسم کی جلدبازی سے کام نہیں لیں گی بلکہ سوچ سجھ کے ساتھ ہی معاملات کو آگے بڑھائیں گی۔
پی ڈی ایم صرف اس حوالے سے ہی کمزوری کا شکار نہیں بلکہ ساتھ ہی دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کا بھی اعلان کردیا ہے، جو پی ڈی ایم کے لیے الگ امتحان ہے کہ آیا وہ ان خالی نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی یا پھر استعفوں کی راہ لیتے ہوئے میدان سے باہر ہو رہی ہے؟
اگر پی ڈی ایم استعفوں کا اعلان کرتے ہوئے میدان سے باہر ہوتی ہے تو موجودہ حالات میں سب کچھ پی ٹی آئی کو ملتا ہے جبکہ دوسری جانب اگر پی ڈی ایم میدان میں رہتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں بھی حصہ لیتی ہے اور ساتھ ہی ضمنی انتخابات میں بھی تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا رخ تبدیل ہوجائے گا کیونکہ بات یہیں پر نہیں رکے گی بلکہ اس سے آگے تک جائے گی، اس لے کہ شنید ہے کہ حکومت مارچ،اپریل میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر بھی غور کررہی ہے اور اگر حکومتی صفوں میں اس بات پر اتفاق ہو جاتا ہے تو اس صورت میں پی ڈی ایم پھر ایک نئے امتحان کا شکار ہوگی کیونکہ ایک طرف پی ڈی ایم استعفے اور اسمبلیوں سے باہر کی راہ لینے کی تیاریاں کر رہی ہے اور دوسری جانب حکومت اسے انتخابات،انتخابات کھیلنے پر مجبور کررہی ہے، جس وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور خصوصی طور پر دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہونگی، جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کی پالیسیوں میں تغیرات دکھائی دیں گے۔
ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے پشاور کا ایک روزہ دورہ کیا، جس دوران انہوں نے پشاور میں بیٹھ کر اپنی حکومت اور پارٹی پالیسی کا ببانگ دہل اعلان بھی کیا اور اس کا اعادہ بھی کیا جس کے بعد اس پالیسی میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے ،انہوں نے جہاں پشاور میں بڑے منصوبوں کا آغاز و افتتاح کیا وہیں انہوں نے صوبائی کابینہ کے ساتھ بھی نشست کی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ کابینہ ارکان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے انھیں مستقبل کے لیے پالیسی دینا چاہتے تھے، جو انہوں نے دی اور صرف یہی نہیں بلکہ اس ملاقات میں صوبہ میں حکومت واپوزیشن کے معاملات بھی زیر بحث آئے اور وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انھیں یہی پالیسی دی گئی ہے کہ ان حالات میں جبکہ پی ڈی ایم ،پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنے پر زور لگا رہی ہے ،انہی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی کے لیے کوئی نرم گوشہ کیسے رکھا جاسکتاہے؟ ان کے ساتھ وہی پالیسی اپنانی ہوگی کہ جو وہ اپنائے ہوئے ہیں۔
انہی سطور میں اس سے قبل بھی کہاگیاتھا کہ خیبرپختونخوا حکومت اپنے طور پر بھی یہ پالیسی وضع کرچکی ہے کہ صوبہ میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جیسے کو تیسا والی پالیسی اپنانی ہوگی، اپوزیشن جماعتیں چونکہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں کھڑی پورا زور لگا رہی ہیں تو انھیں اسی قسم کی پالیسی اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا چاہیے اور یہی فارمولا صوبائی حکومت کی سطح پر بنایاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کے حصول سمیت دیگر مطالبات کے سلسلے میں احتجاج کے بعد جو کمیٹی بنائی گئی وہ بھی اسی ٹریک پر چل رہی ہے، جو اپوزیشن کے ساتھ دوبارہ نشست کرے گی تو خیبرپختونخوا کے ساتھ سندھ میں پی ٹی آئی ارکان کو فنڈز کی فراہمی کا معاملہ بھی ان کے سامنے رکھے گی، جس کے ساتھ ہی ان کے حلقوں کو ملنے والے فنڈز کی تفصیلات بھی ان کو پیش کئے جائیں گی، جو اگر ان کے توسط سے نہیں بھی لگ رہے تو ان ہی کے حلقوں سے کامیاب اراکین قومی اسمبلی کے ذریعے تو خرچ ہو ہی رہے ہیں، جس کا فائدہ بہرکیف ان کے حلقوں اور عوام کو ہی ہوگا۔
تاہم اگر اپوزیشن ارکان کی یہ خواہش ہو کہ وہ ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے ذریعے اپنے حلقوں میں سیاسی فائدہ لیں تو اس کے لیے انھیں حکومت مخالفت میں بھی کمی لانی ہوگی اور ساتھ ہی پی ڈی ایم کی جاری حکومت مخالف تحریک کو بھی اپنے اوپر حاوی ہونے سے روکنا ہوگا۔ انہی حالات میں محمودخان حکومت نے دو خواتین اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے، لکی مروت سے عائشہ بانو اور صوابی سے تعلق رکھنے والی عائشہ نعیم کو پارلیمای سیکرٹریز مقرر کیاگیا ہے ،مذکورہ دونوں خواتین موجودہ حکومتی ٹیم میں شامل ہونے والی پہلی دو خواتین ہیں۔گوکہ کہا تو یہ گیا تھا کہ صوبائی کابینہ میں بھی ایک یا دو خواتین ارکان کو شامل کیاجائے گا تاہم اس پر اتفاق نہیں ہوپایا، یہی وجہ ہے کہ دونوں خواتین ارکان کو پارلیمانی سیکرٹریز کے طور پر حکومتی ٹیم کا حصہ بنایاگیا ہے۔