سنکیانگ میں ’’ری ایجوکیشن کیمپس‘‘ مغربی پروپیگنڈا ہیں چینی وزارتِ خارجہ
مغربی میڈیا سنکیانگ میں سرکاری پیشہ ورانہ تعلیمی و تربیتی مراکز کو منفی رنگ میں پیش کر رہا ہے
چینی وزارتِ خارجہ نے سنکیانگ میں ''ری ایجوکیشن کیمپس'' کو مغربی پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سنکیانگ میں ایسے کسی مرکز کا کوئی وجود نہیں۔
21 دسمبر کو چینی وزارت خارجہ نے سنکیانگ اویغور خود اختیارعلاقے کے بارے میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں سنکیانگ کی مقامی حکومتوں کے اہلکاروں اور عوام نے سنکیانگ کی حقیقی صورتحال پر روشنی ڈالی اور اس حوالے سے پھیلائی گئی افواہوں اور الزامات کو بے نقاب کیا۔
نام نہاد ''ری ایجوکیشن کیمپس'' کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے سنکیانگ حکومت کے دفترِ اشاعت کے ترجمان علی جان عنایتی نے کہا کہ سنکیانگ میں نام نہاد ''ری ایجوکیشن کیمپس'' موجود ہی نہیں، جو تعلیمی و تربیتی مراکز قائَم کیے گئے ہیں وہ ہرگز ''ری ایجوکیشن کیمپ'' نہیں۔
یہ خبریں بھی پڑھیے:
سنکیانگ میں تمام قانونی تقاضوں کے تحت قائم کردہ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے مراکز دراصل معاشرے میں سے انتہا پسند نظریات کے خاتمے کےلیے قائم اسکول ہیں جو امریکا کے ''معاشرتی اصلاحی مراکز،'' برطانیہ کے ''ڈی ڈی پی پروجیکٹ'' اور فرانس کے ''انسدادِ انتہا پسندی مراکز'' کی مانند ہیں۔ یہ سب ادارے بھی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خاتمے کےلیے سرگرم ہیں جو دہشت گردی کے خاتمے کےلیے اقوام متحدہ کی عالمی حکمت عملی کے اصولوں اور اصل مقاصد کے عین مطابق ہیں۔
ووبلی احسان سنکیانگ کی ایک جامع مسجد سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وبا کے باوجود مقامی لوگ تمام تر حفاظتی تدابیر کا خیال رکھتے ہوئے عبادت کےلیے مساجد میں آتے ہیں۔ سنکیانگ میں مسلمانوں کی معمول کی مذہبی سرگرمیاں بشمول نماز، روزہ اور اسلامی تہوار منانا، ان کی خواہش کے مطابق معمول کے مطابق سر انجام دی جاتی ہیں اور قانون کے ذریعے ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی فرد ان سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرتا۔
''کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ سنکیانگ کی مساجد میں مسلمانوں کی نگرانی اور مسلمانوں کو سزا دینے کےلیے کیمرے لگائے گئے ہیں۔ یہ صریحاً بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن دعوی ہے۔ مساجد میں کیمروں کی تنصیب ہماری حفاظت کےلیے اور تشدد یا دہشت گردی کی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کےلیے ہے؛ ہم ان کی تنصیب سے بالکل متفق ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس قسم کی افواہوں کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اختلافات اور بد گمانیاں پیدا کرنا ہے تاکہ سنکیانگ میں قائم مذہبی ہم آہنگی اور ہماری پر سکون زندگیوں کو نقصان پہنچے،'' انہوں نے کہا۔
21 دسمبر کو چینی وزارت خارجہ نے سنکیانگ اویغور خود اختیارعلاقے کے بارے میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں سنکیانگ کی مقامی حکومتوں کے اہلکاروں اور عوام نے سنکیانگ کی حقیقی صورتحال پر روشنی ڈالی اور اس حوالے سے پھیلائی گئی افواہوں اور الزامات کو بے نقاب کیا۔
نام نہاد ''ری ایجوکیشن کیمپس'' کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے سنکیانگ حکومت کے دفترِ اشاعت کے ترجمان علی جان عنایتی نے کہا کہ سنکیانگ میں نام نہاد ''ری ایجوکیشن کیمپس'' موجود ہی نہیں، جو تعلیمی و تربیتی مراکز قائَم کیے گئے ہیں وہ ہرگز ''ری ایجوکیشن کیمپ'' نہیں۔
یہ خبریں بھی پڑھیے:
- سنکیانگ میں روزگار کے تحفظ کے حوالے سے وائٹ پیپر کا اجرا
- ''سنکیانگ کے شہریوں کو مذہبی عقائد کی آزادی حاصل ہے،'' سنکیانگ خود اختیار حکومت
- تائیوان، تبت، سنکیانگ پر چین کی حمایت کرتے ہیں، صدر عارف علوی
سنکیانگ میں تمام قانونی تقاضوں کے تحت قائم کردہ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے مراکز دراصل معاشرے میں سے انتہا پسند نظریات کے خاتمے کےلیے قائم اسکول ہیں جو امریکا کے ''معاشرتی اصلاحی مراکز،'' برطانیہ کے ''ڈی ڈی پی پروجیکٹ'' اور فرانس کے ''انسدادِ انتہا پسندی مراکز'' کی مانند ہیں۔ یہ سب ادارے بھی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خاتمے کےلیے سرگرم ہیں جو دہشت گردی کے خاتمے کےلیے اقوام متحدہ کی عالمی حکمت عملی کے اصولوں اور اصل مقاصد کے عین مطابق ہیں۔
ووبلی احسان سنکیانگ کی ایک جامع مسجد سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وبا کے باوجود مقامی لوگ تمام تر حفاظتی تدابیر کا خیال رکھتے ہوئے عبادت کےلیے مساجد میں آتے ہیں۔ سنکیانگ میں مسلمانوں کی معمول کی مذہبی سرگرمیاں بشمول نماز، روزہ اور اسلامی تہوار منانا، ان کی خواہش کے مطابق معمول کے مطابق سر انجام دی جاتی ہیں اور قانون کے ذریعے ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی فرد ان سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرتا۔
''کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ سنکیانگ کی مساجد میں مسلمانوں کی نگرانی اور مسلمانوں کو سزا دینے کےلیے کیمرے لگائے گئے ہیں۔ یہ صریحاً بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن دعوی ہے۔ مساجد میں کیمروں کی تنصیب ہماری حفاظت کےلیے اور تشدد یا دہشت گردی کی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کےلیے ہے؛ ہم ان کی تنصیب سے بالکل متفق ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس قسم کی افواہوں کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اختلافات اور بد گمانیاں پیدا کرنا ہے تاکہ سنکیانگ میں قائم مذہبی ہم آہنگی اور ہماری پر سکون زندگیوں کو نقصان پہنچے،'' انہوں نے کہا۔