قائداعظم ہم اور قائد کی نافرمانی
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قائداعظم کو نوٹ اور مزار تک ہی محدود کرکے یاد رکھا ہوا ہے
آج 25 دسمبر ہے۔ ہر گزرتے برس کی طرح آج بھی ملک بھر میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھرپور جوش و جذبے سے منایا جائے گا۔ مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب ہوگی۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر سرکاری حکام کی طرف سے پیغامات جاری کیے جائیں گے، جس میں اس عزم کو دہرایا جائے گا کہ قائد کے فرمودات پر عمل کرکے ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں۔
آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اس لیے نوجوان نسل دن بھر آپس میں قائداعظم کی سالگرہ مبارک کے پیغامات کا تبادلہ کرے گی۔ اور پھر ہمیں قائد اسی وقت یاد آئیں گے، جب قائد کے مزار کے پاس سے گزریں گے یا پھر ہمارا کام پھنس جائے گا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قائداعظم کو نوٹ اور مزار تک ہی محدود کرکے یاد رکھا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔
آپ کسی کلاس میں چلے جائیں اور وہاں موجود طالب علموں سے پوچھیں کہ آپ کے آئیڈیل کون ہیں؟ تو اکثریت کا جواب ہوگا، قائداعظم۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی ذہین طالب علم آپ کو یہ بھی بتادے کہ میں قائداعظم کو اس لیے آئیڈیل مانتا ہوں کہ قائداعظم نے پاکستان بنانے کی خاطر خود کو قربان کردیا، آپ نے بیماری کے باوجود دن رات کام کیا۔ ہوسکتا ہے کوئی آپ کو یہ بھی بتادے کہ قائداعظم پریکٹیکل اور بااصول انسان تھے، پابندی وقت کے قائل تھے۔ قائداعظم نہ صرف قانون کی عملداری پر یقین رکھتے تھے بلکہ انہوں نے پوری زندگی قانون نہیں توڑا۔ آپ نے اقرباپروری نہیں کی۔ قائداعظم کی پوری زندگی اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ نے رشوت دی اور نہ لی۔ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے، قائداعظم نے اس پر عمل کرکے دکھایا۔ وہ سنی تھے، وہابی تھے یا پھر بریلوی، کوئی نہیں جانتا۔ وعدے کی پابندی، پروٹوکول نہ لینا، سرکاری رقم نہ کھانا، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنا، کسی کا حق نہیں مارنا، کسی شخص کے ساتھ بدتمیزی نہ کرنا، آپ کئی ایسی انمول خوبیوں کے مالک تھے۔ لیکن اگر آپ اسی نوجوان سے یہ پوچھ لیں کہ آپ میں اپنے قائداعظم کی کون کون سی خوبی موجود ہے تو وہ لاجواب ہوجائے گا۔ ہم سب نے قائد کے ساتھ من حیث القوم یہی سلوک روا رکھا ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کے فرمودات سے اپنی زندگی کو مزین کریں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر آپ نے فرمایا ''ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی، بلوچی، بنگالی، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے''۔
لیکن ہمارے سیاستدان جب کارکردگی نہیں دکھا سکتے تو سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، عظیم بلوچستان جیسے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم قائد کے صرف اس ایک فرمان پر عمل کرکے متحد ہوجائیں تو ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔
11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں۔
اگر ہمارے قانون ساز ادارے آپ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کریں اور عدلیہ اس پر عملدآرمد کو یقینی بنائے تو یقینی طور پر عوام سکھ کا سانس لیں گے اور عوام کو مرنے کے بعد کے بجائے اپنی زندگی میں ہی انصاف ملے گا۔
28 دسمبر 1947 کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ''اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے''۔
بحیثیت قوم ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے قائداعظم کا ہر لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اور حکم کو مانا جاتا ہے نہ کہ فریم کرکے زینت دیوار بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ جب عمل کی باری آتی ہے تو ہم ایک فرمان پر عمل کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ قائد کا ایک فرمان ایسا ہے جس پر ہم عمل کرتے ہیں کہ ہم قائد کے فرمان کی روشنی میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر ہماری قوم جس قدر اس فرمان پر عمل کرتی ہے اس کا نصف بھی دیگر فرمودات پر عمل کرلے تو ہم ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اس لیے نوجوان نسل دن بھر آپس میں قائداعظم کی سالگرہ مبارک کے پیغامات کا تبادلہ کرے گی۔ اور پھر ہمیں قائد اسی وقت یاد آئیں گے، جب قائد کے مزار کے پاس سے گزریں گے یا پھر ہمارا کام پھنس جائے گا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قائداعظم کو نوٹ اور مزار تک ہی محدود کرکے یاد رکھا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔
آپ کسی کلاس میں چلے جائیں اور وہاں موجود طالب علموں سے پوچھیں کہ آپ کے آئیڈیل کون ہیں؟ تو اکثریت کا جواب ہوگا، قائداعظم۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی ذہین طالب علم آپ کو یہ بھی بتادے کہ میں قائداعظم کو اس لیے آئیڈیل مانتا ہوں کہ قائداعظم نے پاکستان بنانے کی خاطر خود کو قربان کردیا، آپ نے بیماری کے باوجود دن رات کام کیا۔ ہوسکتا ہے کوئی آپ کو یہ بھی بتادے کہ قائداعظم پریکٹیکل اور بااصول انسان تھے، پابندی وقت کے قائل تھے۔ قائداعظم نہ صرف قانون کی عملداری پر یقین رکھتے تھے بلکہ انہوں نے پوری زندگی قانون نہیں توڑا۔ آپ نے اقرباپروری نہیں کی۔ قائداعظم کی پوری زندگی اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ نے رشوت دی اور نہ لی۔ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے، قائداعظم نے اس پر عمل کرکے دکھایا۔ وہ سنی تھے، وہابی تھے یا پھر بریلوی، کوئی نہیں جانتا۔ وعدے کی پابندی، پروٹوکول نہ لینا، سرکاری رقم نہ کھانا، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنا، کسی کا حق نہیں مارنا، کسی شخص کے ساتھ بدتمیزی نہ کرنا، آپ کئی ایسی انمول خوبیوں کے مالک تھے۔ لیکن اگر آپ اسی نوجوان سے یہ پوچھ لیں کہ آپ میں اپنے قائداعظم کی کون کون سی خوبی موجود ہے تو وہ لاجواب ہوجائے گا۔ ہم سب نے قائد کے ساتھ من حیث القوم یہی سلوک روا رکھا ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کے فرمودات سے اپنی زندگی کو مزین کریں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر آپ نے فرمایا ''ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی، بلوچی، بنگالی، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے''۔
لیکن ہمارے سیاستدان جب کارکردگی نہیں دکھا سکتے تو سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، عظیم بلوچستان جیسے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم قائد کے صرف اس ایک فرمان پر عمل کرکے متحد ہوجائیں تو ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔
11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں۔
اگر ہمارے قانون ساز ادارے آپ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کریں اور عدلیہ اس پر عملدآرمد کو یقینی بنائے تو یقینی طور پر عوام سکھ کا سانس لیں گے اور عوام کو مرنے کے بعد کے بجائے اپنی زندگی میں ہی انصاف ملے گا۔
28 دسمبر 1947 کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ''اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے''۔
بحیثیت قوم ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے قائداعظم کا ہر لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اور حکم کو مانا جاتا ہے نہ کہ فریم کرکے زینت دیوار بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ جب عمل کی باری آتی ہے تو ہم ایک فرمان پر عمل کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ قائد کا ایک فرمان ایسا ہے جس پر ہم عمل کرتے ہیں کہ ہم قائد کے فرمان کی روشنی میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر ہماری قوم جس قدر اس فرمان پر عمل کرتی ہے اس کا نصف بھی دیگر فرمودات پر عمل کرلے تو ہم ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔