خادمِ اعلیٰ کا نوٹس کشتی بنے گی کہ جہاز

فیصل آباد میں ڈاکوؤں اور لٹیروں کے علاوہ پولیس خود بھی شہریوں کو مارنے سے دریغ نہیں کرتی البتہ اسلوب الگ ہے۔

کسی کو حقیقی بھرے پرے شہر میں جنگل کا قانون دیکھنا مقصودہو تو فیصل آباد آئے۔ فوٹو: فائل

کسی کو حقیقی بھرے پرے شہر میں جنگل کا قانون دیکھنا مقصودہو تو فیصل آباد آئے۔

شہری شہریوں کو مار رہے ہیں، ڈاکو، لٹیرے الگ لہو اچھالنے کے شغل سے لطف اندوز ہورہے ہیں، پولیس خود بھی شہریوں کو مارنے سے دریغ نہیں کرتی البتہ اسلوب الگ ہے۔ خوف کی فضا اس قدر دبیز ہے کہ گھر سے نکلنے سے پہلے اماں سے دودھ بخشوانا پڑتا ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام آجائے کیوں کہ سب سے بچ بچا گئے تو پولیس ڈاکو قرار دے کر مار ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی۔ حال ہی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ احوال جس کا جان کرآپ بھی اتفاق کریں گے کہ صورتِ حالات کتنی مخدوش ہے۔

غوثیہ چوک پیپلز کالونی کا، کپڑے کی دکان پر کام کرنے والا نعیم عباس اپنے معمول کے مطابق بچوں کی روزی روٹی کمانے نکلا، فارغ ہو کر قریبی کمپیوٹر مارکیٹ سے یو ایس بی خریدنے جا رہا تھا کہ تھانہ پیپلز کالونی کے علاقے پیپلز کالونی نمبر ایک میں دو ڈاکو ڈکیتی کرکے دکان سے فرار ہو رہے تھے کہ ناگاہ گشتی پولیس گاڑی آگئی، آؤ دیکھا نہ تاؤ، گولیاں برسانا شروع کردیں، پولیس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا، قضائے کار ایک ڈاکو زد پر آہی گیا دوسرے نے ساتھی کو ''واصل ۔۔۔ '' ہوتے دیکھا تو فرار کی راہ لی۔ اس بے ہنگم فائرنگ کی زد پر آکر راہ گذر چالیس سالہ نازیہ بی بی اور نعیم عباس بھی جاں بہ حق ہو گیا۔ پولیس کی تو جانیے چاندی ہوگئی، بڑی چابک دستی سے نعیم عباس کوبھی ڈاکو قرار دے کر لگے ڈینگیں مارنے دو ڈاکو مارنے کی۔


رات نے شہر کو لپیٹ مین لیا تو پولیس کا ایک اور دعویٰ سامنے آیا کہ فرار ہونے والا ڈاکو بھی پولیس مقابلے میں مارا گیاہے۔ نعشیں اسپتال منتقل کردی گئیں۔ نعیم کے ورثا کو پتہ چلا تو کہرام بپا ہوگیا۔ ایک کرب اس کے مارے جانے کا اور اس سے غالباً بڑا یہ کہ بے گناہ مارے گئے شہری کو ڈاکو بھی قرار دے دیا گیا، جان الگ گئی اور پس مرگ بے آب رو بھی کردیاگیا۔ شہری احتجاج پر اتر آئے، شور مچا تو پولیس افسروں کی آنکھیں کھلیں۔ مقدمہ یوں درج ہوا کہ دونوں راہ گیر، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پولیس ڈاکوؤں پر فائرنگ کر رہی تھی اور ڈاکو راہ گیروں پر، کیوںکہ کوئی بھی پولیس اہل کار اس مقابلے میں زخمی نہیں ہوا، نہ کسی گولی نے پولیس کی گاڑی کو چھوا۔ نازیہ بی بی کو سر میں گولی لگی اور نعیم عباس کے ایک گولی کمر پر، ایک چہرے پر اور تین پیٹ میں لگیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ڈاکو بہ جائے پولیس کے راہ گیروں پر گولیاں برساتے رہے یا یہ ہوا ہوگا کہ جب ڈاکو فائرنگ کر رہے تھے توپولیس نے راہ گیروں کی اوٹ لے لی ہوگی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عینی شاہد کا کہناہے کہ اس نے یہ سارا منظر خود دیکھاہے ''فائرنگ شروع ہوئی تو نعیم عباس نے ہینڈز اپ کرلیے، وہ چلا چلا کر کہ رہا تھا 'میں ڈاکو نہیں، راہ گیر ہوں' مگر پولیس نے سنی ان سنی کی اور اس پر گولیاں چلادیں۔ انہیں افسروں سے ملنے والی شاباش ایک زندگی سے زیادہ قیمتی لگ رہی تھی''۔ دکان کا مالک بھی یہی کہتا ہے کہ نعیم چند لمحے پہلے ہی نکلا تھا اس نے اتنی سی دیر میں ڈکیتی کیسے ڈال لی۔ میڈیا پر خبریں آئیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنی پولیس کے کارناموں کا علم ہوا، کمال احسان فرمایا کہ دونوں ''مقتولوں'' کے ورثا کو پانچ پانچ لاکھ کے چیک تھما دیے جو ابھی تک کیش نہیں ہوئے، معلوم نہیں ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔ کسی پولیس اہل کار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

نعیم کے دو بچے ہیں، چار سالہ عمود الدین قمر اور دو سالہ بیٹی لاریب قمر۔ ان بچوں کی آنکھوں میں سوال ہے کہ کیا قصور تھا ان کے والد کا ؟کیوں ان کی ننھی ننھی جبینوں پر یتیمی کا داغ لگایاگیا، جواں سال ماں کا سہاگ کیوں اجاڑ دیاگیا، پانچ لاکھ روپیہ غالباً عمر بھر ''بیوگی کاٹنے کا یک مشت کرایہ'' ہے۔ نعیم کپڑے کی دکان پر ملازمت کے علاوہ تقاریب میں فوٹو گرافی بھی کیاکرتا تھا تاکہ بچوں کو بہتر مستقبل دے سکے۔ پولیس والے اپنی ذہانت کا جشن مناتے ہیں کہ کس چالاکی سے انہوں نے اپنا گناہ ڈاکوؤں کے سر ڈال دیا۔ جس کے ہاتھ اختیار لگ جاتا ہے اس کے دل سے معلوم نہیں خوف خدا کیوں رخصت ہو جاتاہے۔ واقعے کو ایک ماہ گزرگیاہے تاحال پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دی گئی، نادیدہ ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں کہ غریب مظلوم کے لئے انصاف کا ہر در بند کر دیتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ نہیں، یہ اس نوع کے بہت سے واقعات کا اعادہ ہے۔

2009 کے آخر میں اسی شیرِنر پولیس نے ایک پروفیسر کو مبینہ مقابلے میں مارا اور ڈاکو قرار دے دیا، وہ کوئی عام شخص ہوتا تو بات بنجاتی مگر پروفیسر شہادت حسین فیصل آباد کی شخصیت تھے، پڑھانے کے ساتھ ریڈیو پاکستان پر پروگرام بھی کرتے تھے، ان کے شاگردوں کے احتجاج پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر خود شہادت حسین کے گھر آئے اور انصاف دلانے کا وعدہ کیا مگر آج بھی وہ پولیس والے گردنوں کے سریوں سمیت نوکریاں کر رہے ہیں اور مختلف تھانوں میں ایس ایچ اوز لگے ہوئے ہیں۔ نعیم عباس کے واقعے کا بھی اسی وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا ہے، پولیس بھی وہی ہے، نوعیتِ واقعہ بھی نئی نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اب کی بار خادمِ اعلیٰ صاحب کے نوٹس کے کشتی بناتی ہے یا جہاز؟۔ نعیم عباس کے بھائی منصور قمر کا کہنا ہے کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پولیس لائین میں کہا تھا کہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی مگرکیسے؟ ہمیںآج تک کسی نے انکوائری کے لیے بلایا نہ یہ بتایا انکوائری کہاں ہورہی ہے۔ دراصل پولیس سیاست دانوں کو جانتی ہے اور سیاست دان پولیس کو جانتے ہیں۔
Load Next Story