قائد اعظم ؒ کی نجی زندگی اور ایک رُوحانی شخصیت
قائداعظم کی شادی، اُن کے سسرال اور اُن کی اہلیہ محترمہ کے بارے میں بھی کوئی ایسی نئی اورانوکھی بات شاملِ کتاب نہیں ہے۔
میاں محمد افضل صاحب سینئر ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہیں ۔ اُن کا مگر اصل اور مستقل تعارف یہ ہے کہ وہ قلم کے مزدور اور کئی شاندار کتابوں کے مصنف ہیں۔ایک معتبر محقق اور ممتاز سوانح نگار ۔ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے عاشقِ صادق۔ اس عشق کا ثبوت اُن کی ایک بے مثال تصنیف بھی ہے۔
ایک روز مجھے انھوں نے ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا :'' کوئی 20سال پہلے کی بات ہے ۔ مَیں پنجاب میں سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی تھا۔ مجھے ملازمت کے دوران کچھ مشکلات اور مسائل پیش آ رہے تھے ۔ ان سے نکلنے کی بسیار کوشش کی لیکن نہ نکل سکا۔
ایک روز مَیں لاہور کی ایک ممتاز رُوحانی شخصیت (میاں صاحب نے اُن کا اسمِ گرامی بھی بتایا)کے پاس دعاکے لیے حاضر ہُوا۔ اپنے مسائل بھی عرض کیے اور ساتھ ہی اپنی نئی کتاب بھی اُن کی خدمت میں پیش کی ۔ انھوں نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور ساتھ ہی فرمایا: آپ تو قائد اعظم پر کتاب لکھیں گے۔ مَیں خاموش رہا۔ میرے مرتب شدہ پروگراموں میں کہیں بھی قائد اعظم بارے کتاب لکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ گیارہ بارہ سال گزر گئے ۔
کچھ بھی نہ ہُوا ۔ پھراچانک یوں محسوس ہونے لگا جیسے مجھے کوئی اندر سے آواز دے رہا ہے : میاں افضل، اُٹھو اور پا کستان اور پاکستانیوں کے محسنِ اعظم پر کتاب لکھو ۔ کئی بار قلم اُٹھایا لیکن رکھ دیا۔ کچھ لکھا ، پھر رک گیا۔ یہ موضوع اتنا پھیلا ہُوا تھا کہ سوچا: مَیں بھلاحیاتِ قائد اعظم بارے نئی تحقیق کیا کر سکوں گا؟ پھر ایک روز مَیں واقعی تندہی سے اس میدان میں کود ہی پڑا ۔ مسلسل سات برس تحقیق و تفتیش میں گزر گئے ۔
تب جا کر قائد اعظم پر میری یہ کتاب(میر کارواں) معرضِ وجود میں آ سکی ۔ '' بڑی تقطیع کی دو جلدوں اور تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کے کئی حصے مجھے پڑھنے کے مواقع ملے ہیں ۔ اس کا ہر باب ایک کتاب ہے۔اب شائد ہی اُردو زبان میں کوئی کتاب حضرت قائد اعظم پر اس ٹکر اور معیار کی لکھی جا سکے ۔ اب توبعض لوگ اتنے تیز ہو گئے ہیں کہ قائد اعظم پر چند مضامین مرتب کرتے ہیں اور پھرایک روز انھی کی بنیاد پر قائد اعظم پر کتاب شایع کر دیتے ہیں۔ اس غیر سنجیدہ رویے سے اعراض برتنا چاہیے ۔
اِسی اثنا میں مجھے بانی ِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی شخصیت پر لکھی گئی ایک مختصر سی کتاب ، جو160صفحات پر مشتمل ہے، بذریعہ ڈاک ملی ۔ اس کا عنوان ہے :''قائد اعظم کی نجی زندگی : مسلک، شادی ، اولاد۔'' یہ کتاب میرے دیرینہ اور حکیم ابنِ حکیم دوست، راحت نسیم سوہدروی، نے بھیجی ہے ۔ شائد اس لیے بھی کہ اسی کتاب میں اُن کا بھی 35صفحات پر پھیلا ایک مضمون شامل ہے ۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر سعد خان ہیں ۔ کتاب میں مندرج تعارف سے معلوم ہوتا ہے کہ سعد خان صاحب سرکاری ملازم ہیں لیکن حرفِ مطبوعہ کی دُنیا سے محبت اور شغف رکھتے ہیں ۔
اس تصنیف ( یا تالیف) کا سب ہیڈنگ دیکھ کر مَیں تو چونک گیا۔قائد اعظم علیہ رحمہ کو رخصت ہُوئے 72برس گزر چکے ہیں اور ہم ابھی تک اس ''تحقیق'' میں لگے ہُوئے ہیں کہ اُن کا مسلک کیا تھا۔ اس رویے اور سوچ کے بارے میں کیا کہا اور لکھا جا سکتا ہے ؟مسلکوں اور فرقوں نے اس مملکتِ خداداد کے ساتھ جو سلوک کیا ہے ، وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ قائد اعظم تو کسی بھی مسلکی سوچ سے بلند تر ایک پکے،سچے اور خالص مسلمان تھے ۔
وہ اگر خود کو کسی مخصوص فرقے یا مسلک کی تنگنا ئے سے وابستہ کر لیتے تو شائد مسلمانانِ ہند انھیں اپنا متفقہ قائد اعظم تسلیم کرتے نہ دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت معرضِ وجود میں آسکتی تھی ۔ تحقیقی کدال لے کر اُن کے مسلک کو کریدنے کی پھر ضرورت کیا رہ جاتی ہے ؟ جناب قائد اعظم کی سخت جدوجہد سے عبارت زندگی کے دوران بھی بہت سے لوگوں نے انھیں مسلک کی تنگنائیوں میں گھسیٹنے کی کئی دانستہ کوششیں کر کے دیکھ لی تھیں لیکن یہ آزاد منش شاہین کسی کے ہاتھ نہ لگ سکا اور اپنی آزاد پرواز جاری رکھی۔قائد اعظم سیاسی ، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے جس عظیم المرتبت کردار کے حامل تھے ، وہ تو ہماری قومی زندگی میں پیدا نہیں ہو سکا ہے۔
اُلٹا ہم لوگ اس تلاشِ بے معنی میں لگے ہُوئے ہیں کہ اُن کا مسلک کیا تھا؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی ہیں؟حضرت قائد اعظم نے نہ خود کبھی مسلک پر بات کرنا پسند فرمائی اور نہ ہی کسی میں اتنی جرأت و جسارت تھی کہ محمد علی جناح سے اُن کی نجی زندگی کے بارے میں کوئی سوال کرے ۔ لاریب اُن کی نجی اور عوامی زندگی میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ حیاتِ قائد اعظم آئینے کی مانند شفاف اور چشمے کی طرح صاف تھی۔
قائد اعظم کی شادی، اُن کے سسرال اور اُن کی اہلیہ محترمہ کے بارے میں بھی کوئی ایسی نئی اور انوکھی بات شاملِ کتاب نہیں ہے جو اس سے پہلے قائد اعظم کی زندگی کا گہرامطالعہ کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل تھی ۔نامور مصنفہ و محقق ، شیلا ریڈی،نے، گزشتہ سے پیوستہ برس، قائد اعظم کی شادی اور سسرال کے بارے میں جو معرکہ خیز اور پُر از معلومات کتاب (Mr.and Mrs.Jinnah: The Marriage that Shook India) لکھی ، اس کے بعد، میرے خیال کے مطابق، بانیِ پاکستان کی شادی بارے کچھ مزید لکھنے کی گنجائش ہی غالباً ختم ہو گئی ہے ۔
مصنف نے یہ موضوع نئے سرے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب میں کئی مقامات پر پروف کی بعض سنگین غلطیاں بھی ہیں۔مجھے البتہ زیر نظر کتاب کے صفحہ 84پر دیا گیا قائد اعظم کی صاحبزادی، دینا جناح، کا مختصر انٹرویو قابلِ ذکر واقعہ لگا ہے ۔ محترمہ دینا جناح( یا دینا واڈیا) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی کسی صحافی کو انٹرویو نہیں دیا تھا۔
لیکن کتاب میں شامل مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ دینا جناح نے 2002 میں، نیویارک میں، اپنی رہائش گاہ پر بی بی سی کے ایک صحافی، اینڈریو وائیٹ، کو مختصر انٹرویو دیا تھا، اور وہ بھی اس شرط پر کہ یہ انٹرویو ریکارڈ کیا جائے گا نہ دینا جناح کی زندگی میں شایع ہوگا۔ صحافی نے یہ مشکل وعدہ نبھایا اور جب پندرہ سال بعد، 2017 میں، قائد اعظم کی بیٹی کا نیویارک میں انتقال ہو گیا تو یہ انٹرویو بی بی سی نے شایع کر دیا۔
اس انٹرویو میں قائد اعظم کی صاحبزادی نے متحدہ ہندوستان کے جن تین نامور سیاستدانوں (گاندھی جی، جواہر لعل نہرو ، سردار پٹیل) کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہے، وہ تاریخ بن گیا۔ بانیِ پاکستان کے144ویں یومِ پیدائش کے موقع پر اُن کی عظیم الشان زندگی کی تفہیم کے لیے ڈاکٹر سعد خان کی یہ کتاب بہرحال ایک اچھی کاوش ہے۔
ایک روز مجھے انھوں نے ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا :'' کوئی 20سال پہلے کی بات ہے ۔ مَیں پنجاب میں سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی تھا۔ مجھے ملازمت کے دوران کچھ مشکلات اور مسائل پیش آ رہے تھے ۔ ان سے نکلنے کی بسیار کوشش کی لیکن نہ نکل سکا۔
ایک روز مَیں لاہور کی ایک ممتاز رُوحانی شخصیت (میاں صاحب نے اُن کا اسمِ گرامی بھی بتایا)کے پاس دعاکے لیے حاضر ہُوا۔ اپنے مسائل بھی عرض کیے اور ساتھ ہی اپنی نئی کتاب بھی اُن کی خدمت میں پیش کی ۔ انھوں نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور ساتھ ہی فرمایا: آپ تو قائد اعظم پر کتاب لکھیں گے۔ مَیں خاموش رہا۔ میرے مرتب شدہ پروگراموں میں کہیں بھی قائد اعظم بارے کتاب لکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ گیارہ بارہ سال گزر گئے ۔
کچھ بھی نہ ہُوا ۔ پھراچانک یوں محسوس ہونے لگا جیسے مجھے کوئی اندر سے آواز دے رہا ہے : میاں افضل، اُٹھو اور پا کستان اور پاکستانیوں کے محسنِ اعظم پر کتاب لکھو ۔ کئی بار قلم اُٹھایا لیکن رکھ دیا۔ کچھ لکھا ، پھر رک گیا۔ یہ موضوع اتنا پھیلا ہُوا تھا کہ سوچا: مَیں بھلاحیاتِ قائد اعظم بارے نئی تحقیق کیا کر سکوں گا؟ پھر ایک روز مَیں واقعی تندہی سے اس میدان میں کود ہی پڑا ۔ مسلسل سات برس تحقیق و تفتیش میں گزر گئے ۔
تب جا کر قائد اعظم پر میری یہ کتاب(میر کارواں) معرضِ وجود میں آ سکی ۔ '' بڑی تقطیع کی دو جلدوں اور تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کے کئی حصے مجھے پڑھنے کے مواقع ملے ہیں ۔ اس کا ہر باب ایک کتاب ہے۔اب شائد ہی اُردو زبان میں کوئی کتاب حضرت قائد اعظم پر اس ٹکر اور معیار کی لکھی جا سکے ۔ اب توبعض لوگ اتنے تیز ہو گئے ہیں کہ قائد اعظم پر چند مضامین مرتب کرتے ہیں اور پھرایک روز انھی کی بنیاد پر قائد اعظم پر کتاب شایع کر دیتے ہیں۔ اس غیر سنجیدہ رویے سے اعراض برتنا چاہیے ۔
اِسی اثنا میں مجھے بانی ِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی شخصیت پر لکھی گئی ایک مختصر سی کتاب ، جو160صفحات پر مشتمل ہے، بذریعہ ڈاک ملی ۔ اس کا عنوان ہے :''قائد اعظم کی نجی زندگی : مسلک، شادی ، اولاد۔'' یہ کتاب میرے دیرینہ اور حکیم ابنِ حکیم دوست، راحت نسیم سوہدروی، نے بھیجی ہے ۔ شائد اس لیے بھی کہ اسی کتاب میں اُن کا بھی 35صفحات پر پھیلا ایک مضمون شامل ہے ۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر سعد خان ہیں ۔ کتاب میں مندرج تعارف سے معلوم ہوتا ہے کہ سعد خان صاحب سرکاری ملازم ہیں لیکن حرفِ مطبوعہ کی دُنیا سے محبت اور شغف رکھتے ہیں ۔
اس تصنیف ( یا تالیف) کا سب ہیڈنگ دیکھ کر مَیں تو چونک گیا۔قائد اعظم علیہ رحمہ کو رخصت ہُوئے 72برس گزر چکے ہیں اور ہم ابھی تک اس ''تحقیق'' میں لگے ہُوئے ہیں کہ اُن کا مسلک کیا تھا۔ اس رویے اور سوچ کے بارے میں کیا کہا اور لکھا جا سکتا ہے ؟مسلکوں اور فرقوں نے اس مملکتِ خداداد کے ساتھ جو سلوک کیا ہے ، وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ قائد اعظم تو کسی بھی مسلکی سوچ سے بلند تر ایک پکے،سچے اور خالص مسلمان تھے ۔
وہ اگر خود کو کسی مخصوص فرقے یا مسلک کی تنگنا ئے سے وابستہ کر لیتے تو شائد مسلمانانِ ہند انھیں اپنا متفقہ قائد اعظم تسلیم کرتے نہ دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت معرضِ وجود میں آسکتی تھی ۔ تحقیقی کدال لے کر اُن کے مسلک کو کریدنے کی پھر ضرورت کیا رہ جاتی ہے ؟ جناب قائد اعظم کی سخت جدوجہد سے عبارت زندگی کے دوران بھی بہت سے لوگوں نے انھیں مسلک کی تنگنائیوں میں گھسیٹنے کی کئی دانستہ کوششیں کر کے دیکھ لی تھیں لیکن یہ آزاد منش شاہین کسی کے ہاتھ نہ لگ سکا اور اپنی آزاد پرواز جاری رکھی۔قائد اعظم سیاسی ، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے جس عظیم المرتبت کردار کے حامل تھے ، وہ تو ہماری قومی زندگی میں پیدا نہیں ہو سکا ہے۔
اُلٹا ہم لوگ اس تلاشِ بے معنی میں لگے ہُوئے ہیں کہ اُن کا مسلک کیا تھا؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی ہیں؟حضرت قائد اعظم نے نہ خود کبھی مسلک پر بات کرنا پسند فرمائی اور نہ ہی کسی میں اتنی جرأت و جسارت تھی کہ محمد علی جناح سے اُن کی نجی زندگی کے بارے میں کوئی سوال کرے ۔ لاریب اُن کی نجی اور عوامی زندگی میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ حیاتِ قائد اعظم آئینے کی مانند شفاف اور چشمے کی طرح صاف تھی۔
قائد اعظم کی شادی، اُن کے سسرال اور اُن کی اہلیہ محترمہ کے بارے میں بھی کوئی ایسی نئی اور انوکھی بات شاملِ کتاب نہیں ہے جو اس سے پہلے قائد اعظم کی زندگی کا گہرامطالعہ کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل تھی ۔نامور مصنفہ و محقق ، شیلا ریڈی،نے، گزشتہ سے پیوستہ برس، قائد اعظم کی شادی اور سسرال کے بارے میں جو معرکہ خیز اور پُر از معلومات کتاب (Mr.and Mrs.Jinnah: The Marriage that Shook India) لکھی ، اس کے بعد، میرے خیال کے مطابق، بانیِ پاکستان کی شادی بارے کچھ مزید لکھنے کی گنجائش ہی غالباً ختم ہو گئی ہے ۔
مصنف نے یہ موضوع نئے سرے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب میں کئی مقامات پر پروف کی بعض سنگین غلطیاں بھی ہیں۔مجھے البتہ زیر نظر کتاب کے صفحہ 84پر دیا گیا قائد اعظم کی صاحبزادی، دینا جناح، کا مختصر انٹرویو قابلِ ذکر واقعہ لگا ہے ۔ محترمہ دینا جناح( یا دینا واڈیا) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی کسی صحافی کو انٹرویو نہیں دیا تھا۔
لیکن کتاب میں شامل مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ دینا جناح نے 2002 میں، نیویارک میں، اپنی رہائش گاہ پر بی بی سی کے ایک صحافی، اینڈریو وائیٹ، کو مختصر انٹرویو دیا تھا، اور وہ بھی اس شرط پر کہ یہ انٹرویو ریکارڈ کیا جائے گا نہ دینا جناح کی زندگی میں شایع ہوگا۔ صحافی نے یہ مشکل وعدہ نبھایا اور جب پندرہ سال بعد، 2017 میں، قائد اعظم کی بیٹی کا نیویارک میں انتقال ہو گیا تو یہ انٹرویو بی بی سی نے شایع کر دیا۔
اس انٹرویو میں قائد اعظم کی صاحبزادی نے متحدہ ہندوستان کے جن تین نامور سیاستدانوں (گاندھی جی، جواہر لعل نہرو ، سردار پٹیل) کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہے، وہ تاریخ بن گیا۔ بانیِ پاکستان کے144ویں یومِ پیدائش کے موقع پر اُن کی عظیم الشان زندگی کی تفہیم کے لیے ڈاکٹر سعد خان کی یہ کتاب بہرحال ایک اچھی کاوش ہے۔