ملت کا پاسباں

بانی پاکستان پورے برصغیر کے مسلمانوں کے بلا اختلاف قائد و رونما قرار پائے۔

بانی پاکستان پورے برصغیر کے مسلمانوں کے بلا اختلاف قائد و رونما قرار پائے۔ فوٹو : فائل

یوں تو انسانی تاریخ میں بے شمار شخصیات نے اپنے افکار و نظریات کے ان مٹ نقوش چھوڑے، تاہم بعض ہستیاں ایسی بھی پیدا ہوئیں جنہیں اپنے فکروفلسفے سے نہ صرف کروڑوں افراد کے قلوب و اذہان کو متاثر کیا بلکہ اپنے عزم و ارادہ اور کردار کی پختگی سے اپنے نظریات کو کام یابی و کامرانی سے ہم کنار ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہاں تک کہ تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔

بانی پاکستان بابائے قوم محمد علی جناح کی شخصیت ان صاحبان عزیمت میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔ برصغیر کے مسلم حکمرانوں کی نااہلی، محلاتی سازشوں اور کم زور مغل حکومتوں کے نتیجے میں انگریزی استعمار کے شکنجے میں گرفتار ہو چکا تھا اور مسلمانان برصغیر بالخصوص استعماری نفرتوں کا نشانہ بن رہے تھے، چوںکہ فرنگیوں نے اقتدار مسلمانوں سے حاصل کیا تھا لہٰذا انہیں اہل اسلام سے شدید خطرات لاحق تھے۔

اس لیے بدیسی حکم راں ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کو پس ماندہ رکھنا چاہتے تھے، تاکہ یہ سر نہ اٹھا سکیں۔ مسلمان بھی انگریز سے شدید نفرت کرتے اور انگریزی استعمار کو چیلینج کر تے رہتے تھے۔ یہ بہت پر آشوب دور تھا۔ آزادی کی تحریک مختلف صورتوں میں جاری و ساری تھی۔

لاکھوں مسلمان شہید یا پابہ جولاں کیے گئے۔ ہزاروں کا لاپانی پہنچا دیے گئے جو انتہائی اذیت ناک عقوبت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ گویا اس دور کا گوانتا نا موبے تھا۔ تحریک مجاہدین تحریک خلافت، تحریک ترک موالات وغیرہ اسی جذبہ حریت کی علم بردار تحاریک تاریخ میں انتہائی ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔

اسی طرح 1885ء میں ہندوستان جدوجہد آزادی کی خاطر آل انڈیا کانگریس قائم کی گئی اور انگریز کو دیس نکالا دینے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں۔ مسلمان پُرخلوص انداز میں کانگریس کے دست و بازو بنے ہوئے تھے جب کہ ہندو راہ نما کچھ اور ہی پروگرام بنا ئے ہوئے تھے۔ ان کی قیادت انگریز کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتی تھی۔

یہ وہ حالات تھے جن میں کراچی کے علاقے کھارا در میں جناح پونجا کے گھر جنم لینے والے محمد علی سیاست داں کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی تقدیر میں آگے چل کر مسلمانان برصغیر کی قیادت اور دنیا کی دوسری اسلامی نظریاتی مملکت کے بانی ہونے کا اعزاز لکھ دیا گیا تھا۔ محمد علی جناح نے انگلستان سے بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بمبئی میں بحیثیت قانون داں پریکٹس شروع کی۔ یہاں تک کہ ہندوستانی سیاست میں سرگرم ہوگئے۔

اگر چہ 1905ء میں کانگریس کے متعصبانہ رویوں کے سبب مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے علیحدہ جدوجہد شروع کر دی تھی تاہم بہت سے مسلم زعماء کانگریس میں ہی رہ کر سیاست کر رہے تھے۔ محمد علی جناح بھی کانگریس کے اہم راہ نما کے طور پر سر گرم تھے اور آ پ کو تمام حلقوں میں راہ نما کے طور پر مقام حاصل تھا۔

آپ کو تمام حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا۔ تاہم آپ ہندوستان کے حالات سے مایوس ہو کر واپس انگلستان چلے گئے لیکن شاعر مشرق علامہ اقبال کی تحریک پر واپس ہندوستان تشریف لے آئے اور مسلم لیگ کی قیادت آپ کے سپرد کردی گئی۔ اس کے بعد مسلم لیگ میں گویا نئی جان پڑ گئی اور پورے برصغیر میں کراچی سے لے کر راس کماری تک مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا جو قیام پاکستان پر جا کر منتج ہوا۔

23 مارچ 1940ء سے درحقیقت آزادی و علیحدہ مسلم وطن کی تحریک کا آغاز بابائے قوم کی بیدار مغز ولولہ انگیز قیادت میں ہوا۔ انتہائی مختصر عرصے میں یہ عظیم الشان تحریک جو دراصل گذشتہ سو سالہ جدوجہد کا تسلسل تھی، کام یابی سے ہم کنار ہوئی اور 14 اگست 1947ء بہ مطابق 27رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں مسلمانان برصغیر نے علیحدہ وطن کا جو خواب دیکھا وہ شرمندہ تعبیر ہو گیا۔

بابائے قوم کی قیادت، کردار کی پختگی اور قول و عمل کی یکسانیت ایسے جوہر تھے جو بجا طور پر انہیں دیگر تمام راہ نماؤں سے ممتاز کرتے ہیں اور تمام اپنوں پرایوں نے آپ کی ان خصوصیات پر خراج تحسین پیش کیا۔ بانی پاکستان پورے برصغیر کے مسلمانوں کے بلااختلاف قائد و رونما قرار پائے۔ آپ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بدولت انگریز جیسی شاطر قوم سے ہندوستان چھوڑنے اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ منوایا لیا جہاں آج ہم آزادانہ طور پر اپنے عقیدہ و مذہب کے مطابق اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیاں گزار سکتے ہیں۔


پاکستان کا مطالبہ کرنے پر جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ علیحدہ وطن پر کیوں اصرار کر رہے ہیں جب کہ پاکستان نام کا کوئی ملک روئے زمین پر موجود نہیں ہے پھر آپ کس وطن کا قیام چاہتے ہیں؟ تو آپ نے کیا خوب جواب دیا، آپ نے کہا کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب سر زمین ہند پر پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔

یہ ہندو سیاست کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ان کے ارادے بھانپ لیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے مملکت خدا داد بھی کہا جا تا ہے، کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے یہ نظریاتی ملک دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آگیا۔ 23 مارچ 1940ء کے جلسے میں، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی، ایک شاعر نے بڑے جذباتی انداز میں نظم پیش کی:

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناح

واقعی ملت اسلامیہ ہند کی محمد علی جناح نے اس طرح پاسبانی کا حق ادا کیا اللہ کے حکم سے ایک نا ممکن کو ممکن بنا دیا۔ گاندھی نہرو دیکھتے رہ گئے اور ہر خطے کے مسلمانوں نے بیک زبان یہی کہا

بٹ کے رہے گا ہندوستان

بن کے رہے گا پاکستان

ہندوستان کے جید علما حضرت مولاناعبدالستاردہلوی رح، مولاناحافظ عبدالقادر روپڑی رح، علامہ سیدبدالدین راشدی پیر آف جھنڈا رح اور دیگر لاتعداد علما نے محمدعلی جناح کی حمایت کی اور جیلوں کے سپرد ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سچے راہ نما کی ملک و ملت کے لیے روح کی حیثیت ہو تی ہے۔

بابا ئے قوم اس ملت کے لیے جان کی حیثیت رکھتے تھے۔ تاہم اس عظیم راہ نما کو آزادی وطن کے بعد زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ بہت جلد تعمیر وطن کا اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوئے۔ آج بھی یہ ملک و قوم انہی جیسی پر عزم پر خلوص دیانت دار قائد کا منتظر ہے۔

آج ہماری زبوں حالی کا سبب صحیح قیادت کا فقدان ہے۔ اگر ہم اسی جذبہ آزادی کے مطابق نسلی لسانی علاقائی فرقہ وارانہ سیاسی خود غرضانہ بیماریوں سے نجات حاصل کر کے صرف اسلام اور نظریہ پاکستان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں تو ہم دنیا میں معزز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
Load Next Story