معروف شاعر ناول نگار اور نقاد شمس الرحمان فاروقی انتقال کرگئے

گزشتہ ماہ کورونا کو شکست دینے کے بعد سے وہ دیگر امراض کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہوگئے تھے

85 سالہ شمس الرحمان فاروقی نے گزشتہ ماہ ہی کورونا کو شکست دی تھی، فوٹو : فائل

KARACHI:
اردو کے عظیم ادیب، معروف شاعر، باکمال ناول نگار اور بے بدل نقاد شمس الرحمان فاروقی 85 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

عہد حاضر میں اردو ادب کی سب سے قد آور شخصیت شمس الرحمان فاروقی گزشتہ ماہ کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہونے کے بعد دیگر پیچیدگیوں کے باعث اپنی رہائش گاہ واقع الہ آباد میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

30 ستمبر 1935 کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں جنم لینے والے شمس الرحمان فاروقی کو ان کی ادبی خدمات پر سر وتی سمان ادبی ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ معاش کے لیے محکمہ ڈاک خانے میں ملازمت کی اور یو پی کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

'کئی چاند تھے سرِ آسماں' جیسے شہرہ آفاق ناول کے خالق کے قلم سے چار جلدوں پر مشتمل میر تقی میر کے کلام پر وہ شاہکار کتاب تخلیق ہوئی جسے 'شعرِ شور انگیز' کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ کتاب اب اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ بن چکی ہے۔

خدائے سخن میر تقی میر کے کلام پر تحقیق اور اس کا جائزہ لینے جیسا سخت اور حساس کام کرنے والے شمس الرحمان نے اردو شاعری پر غالب ۔۔۔ اسد اللہ غالب پر تفہیم غالب کے علاوہ لغات روزہ مرہ، اردو کا ابتدائی زمانہ، تعبیر کی شرح، درس بلاغت، انداز گفتگو کیا ہے، اردو غزل ، اشارات و نفی ، تنقیدی افکار، خورشید کا سامان سفر اور تضمین جیسی کتب لکھیں۔


شمس الرحمان فاروقی کا ایک اور کارنامہ ادب میں 'تنقید' کی نئی راہ متعین کرنا ہے، ادبی تنقید کو نیا زاویہ دیا اور اسے جدید دور سے ہم آہنگ کیا یہی وجہ ہے انہیں جیتے جی وہ قدر اور مقبولیت حاصل ہوگئی جو عمومی طور پر انتقال کے بعد ہی ایک ادیب کے حصے میں آتی ہے۔

فاروقی صاحب نے یوں تو الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی لیکن عشق اردو ادب سے کیا چنانچہ اپنے ناولز کو انگریزی رنگ میں بھی ڈھالا، اس کے علاوہ الہ آباد میں 40 سال تک ادبی ماہنامہ رسالے 'شب خون' کی ادارات بھی کرتے رہے۔

کورونا کو شکست دینے کے بعد انہیں 23 نومبر کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا تاہم انہیں فنگل انفیکشن کی پیچیدگیوں کا سامنا تھا اور وہ اپنے آبائی گھر جانے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ آج صبح جیسے ہی وہ اپنے آبائی گھر پہنچے تو صرف آدھے گھنٹے بعد ہی ان کی آمد کے منتظر فرشتہ اجل نے دروازے پر دستک دیدی۔

اردو کا روشن چراغ اب آسمان کا چمکتا ستارہ بن گیا۔ ایک عہد جو تمام ہوا۔

 
Load Next Story