کیل پر ٹنگی زندگی

اگر ابھی اپنے سر کے پیچھے ہاتھ پھیرو شہزادے /شہزادی، تو ایک گومڑ محسوس تو ہوگا۔

arifanees@gmail.com

خدانخواستہ اگر تم آج مرجاؤ تو کیا کچھ اپنے ساتھ لے مرو گے؟ کیسے کیسے سپنے، کیسے کیسے خواب۔ وہ زندگی جو جی ہی نہیں۔ وہ لمس، جسے چھوا ہی نہیں، وہ سفر جو کیے ہی نہیں۔ وہ بارش جس میں بھیگے ہی نہیں۔ وہ نغمے جو نہ گائے، نہ سنے۔

الف لیلہ ہزار داستان تو سنی ہی ہوگی۔ پڑھی ہی ہوگی۔ ایک بادشاہ کے ہاں برسوں بعد ایک حسین و جمیل شہزادی پیدا ہوتی ہے جس کا حسن بے مثال چاردانگ عالم میں دھوم مچا دیتا ہے اور اڑوس پڑوس کے شہزادے اس پر مکھیوں کی طرح نثار ہونے لگتے ہیں، مگر وہ الہڑ، انوکھی اور منہ زور شہزادی کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آپ شہزادی کا کوئی بھی مرضی کا نام رکھ سکتے ہیں۔

اس کے حسن اور اداؤں کا شہرہ شہزادہ ارطغرل (سیریز کا فائدہ اٹھالیتے ہیں ) تک جا پہنچتا ہے جو وجاہت اور شجاعت میں بے مثل ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شہزادی اسی کے لیے بنی ہے۔ وہ منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا، اسپ تازی پر سوار بے باک شہزادی کی سلطنت میں پہنچتا ہے، مگر ان کے وصال سے پہلے ایک واقعہ ہوچکا ہوتا ہے۔

قتالہ عالم، نازنین شہزادی پر زکوٹا دیو بھی عاشق ہو چکا ہے اور اس کے کالے دل میں شہزادی کے حوالے سے طرح طرح کے ولولے اٹھتے ہیں اور وہ شہزادی کو اٹھا کر، اپنی دیوی بنانے کے لیے، کوہ قاف کی ایک تاریک وادی میں لے جاتا ہے، جہاں اپنی کالی سیاہ گپھا میں کچھ عرصے کے لیے، شادی کی تیاری کے سلسلے میں مصروفیت کی وجہ سے، وہ شہزادی کے سر میں کیل ٹھوک کر اسے چمگادڑ بنا دیتا ہے اور وہ جان دو عالم اس کی غار میں الٹی لٹک جاتی ہے۔

ادھر شہزادہ ارطغرل شہزادی کی محبت میں بے تاب و بیقرار زکوٹے کی تلاش میں تیغ بے نیام لے کر نکلتا ہے اور قصہ مختصر یہ کہ زکوٹے کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ ایک کیل اس کا بھی مقدر ٹھہرتی ہے اور ایک مکوڑا بن جاتا ہے اور زکوٹے کی کالی غار کی دیواروں پر رینگنے لگ جاتا ہے۔

اب کہانی کو یہاں تھوڑی دیر کے لیے روکتے ہیں۔ آپ کو ویسے بھی انجام کا پتہ ہوگا، زکوٹے کو ہرانے اور ارطغرل کو جتوانے کے لیے کچھ نہ کچھ کھلواڑ ہو کر ہی رہے گا۔ میری دلچسپی بس یہیں تک ہی ہے۔ ایک شہزادی جو چمگادڑ بن گئی اور ایک شہزادہ جو مکوڑا بن گیا۔


ایسا ہی شہزادہ جیسے آپ ہیں اور ایسی ہی شہزادی، بالکل آپ کے جیسی! ہم میں سے اکثر جب پیدا ہوتے ہیں اور پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں تو اسی شہزادی اور شہزادے کی طرح خوابناک اور بے باک ہوتے ہیں۔ ہماری آنکھوں سے پھلجھڑیاں اور روشنیاں پھوٹتی ہیں اور لگتا ہے کہ ہم نے پوری دنیا پر اپنا پھریرا لہرانا ہے اور ہم اسی یقین سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں کہ ہمارا اگلا قدم بادلوں پر ہوگا، حتیٰ کہ ہماری ملاقات اپنے حصے کے اس منحوس زکوٹے سے ہوجاتی ہے اور پھر وہ کیل جو ہمارے سر میں ٹھک جاتا ہے اور پھر ہم زندگی کی اندھیری غار میں الٹے لٹک جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کہ ہم وہ زندگی کیوں نہیں جی پاتے، جو جینے کے لیے پیدا ہوتے ہیں؟ پچھتاوؤں کے تھیلے ہماری پشت پر کیوں لٹکے رہتے ہیں؟ہم چمگادڑیں اور مکوڑے کیوں بن جاتے ہیں؟

کیا تمہیں یاد ہے شہزادے؟ شہزادی؟ کچھ کیل ہیں جو ہمارے سر میں گڑے ہیں۔ اور ہم میں سے ہر ایک کے اپنے حصے کی کوئی نہ کوئی کیل ہے۔ کوئی امتحان فیل اور پاس کرنے کا کیل ہے۔ کسی ملازمت کے پروانے کا کیل ہے۔ کوئی حویلی اپنے نام کرنے کا کیل ہے۔ کسی کی محبت کے حصول کا کیل ہے۔ کچھ ڈر اور خوف کے کیل ہیں، کچھ حسد اور رشک کے کیل ہیں۔ کچھ اپنے آپ کو ناکافی سمجھنے کے کیل ہیں۔ کچھ احساس کمتری کے کیل ہیں۔ کچھ سستی، بے عملی کے کیل ہیں۔ کچھ خواب میں آنکھیں موندے رکھنے کے کیل ہیں، کچھ زندگی کے چوراہے میں سوتے رہنے اور خراٹے بھرنے کے کیل ہیں۔

بس ہم شہزادے، شہزادی کے طور پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور تیس، چالیس سال کی عمر میں زندگی کے دیو کے حصار میں اپنے آپ کو غار میں الٹا لٹکا ہوا پاتے ہیں۔ کچھ چھوٹے چھوٹے سے کام ہیں جو ہمیں کھا جاتے ہیں۔ ہمیں منزل پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارا راستہ کوئی اور ہے۔

اگر ابھی اپنے سر کے پیچھے ہاتھ پھیرو شہزادے /شہزادی، تو ایک گومڑ محسوس تو ہوگا۔ ہاں، یہی۔ یہی کیل والی جگہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ تمہارے بس میں ہو کہ خوف، ڈر، مایوسی، بے ہمتی کا وہ کیل باہر نکال لو، تو کیا نکالو گے /گی؟

کیا باقی ماندہ زندگی بھی، اسی غار میں ہنسی، خوشی اسی طرح لٹکتے ہوئے گزار دینی ہے شہزادی؟ شہزادے؟

ویسے بغیر اس کیل کے زندگی کیسی ہوگی؟تو پھر کیا کرنا ہے، شہزادی؟ شہزادے؟
Load Next Story