کشمیر ڈکارنے کے بعد پہلے انتخابات
کشمیری میڈیا کو مین اسٹریم مودی نواز بھارتی میڈیا کے ذریعے مکمل لاتعلقی کے غار میں دھکیل دیا گیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خود مختارانہ حیثیت کے ضامن بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور مقامی شہریت کے تحفظ کے آرٹیکل پینتیس اے کی سولہ ماہ قبل تنسیخ ( پانچ اگست دو ہزار انیس ) کے بعد اور ریاست کو دو حصوں ( لداخ اور جموں و کشمیر) میں تقسیم کر کے براہ راست دلی کے انتظامی کنٹرول میں دینے کے بعد ریاست میں ضلع ترقیاتی کونسلوں کے لیے پہلے انتخابات اٹھائیس نومبر سے انیس دسمبر تک آٹھ مرحلوں میں منعقد ہوئے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق جموں و کشمیر کے بیس اضلاع میں رجسٹرڈ ساٹھ لاکھ ووٹروں میں سے اکیاون فیصد نے دو سو اسی ضلع نشستوں کے انتخاب میں حصہ لیا۔
نتائج کے مطابق نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں سات جماعتی آرٹیکل تین سو ستر کی بحالی کے حامی سات جماعتی گپکر عوامی اتحاد ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں کی دو سو اسی میں سے ایک سو بارہ نشستیں جیت کر سب سے بڑے اتحاد کے طور پر ابھرا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو چوہتر ، آزاد امیدواروں کو انچاس اور کانگریس کو چھبیس نشستیں ملیں۔بی جے پی کو وادی کے مسلم اکثریتی علاقے میں صرف تین نشستیں ملیں اور زیادہ تر نشستیں جموں کے غیرمسلم اکثریتی علاقے سے حاصل ہوئیں۔
اگرچہ گپکر عوامی اتحاد نے آرٹیکل تین سو ستر کی بحالی کے لیے جدوجہد کے نام پر ووٹ حاصل کیے۔ مگر ان بلدیات کو محض مقامی ترقی کے منصوبوں کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ان کے ذریعے کوئی سیاسی ایجنڈہ آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
جن جماعتوں نے انتخابی عمل کو یکسر مسترد کر دیا ان کا موقف ہے کہ ریاست کی نیم خود مختار حیثیت کی بحالی کی پرامن سیاسی و آئینی جدوجہد پر پوری توجہ دینے کے بجائے جموں و کشمیر کی رہی سہی سیاسی و جغرافیائی حیثیت کے خاتمے کے بعد کسی بھی انتخابی عمل کو تسلیم کر کے اس میں غیر مشروط حصہ لینا مودی حکومت کے کشمیر کی بابت اب تک کیے گئے اقدامات کی توثیق اور انھیں جائز تسلیم کرنے کے برابر ہے۔جب کہ بھارتی سپریم کورٹ میں مودی حکومت کے اقدامات کو چیلنج کرنے والی درخواستیں اب تک زیرِ التوا ہیں۔حتی کہ احتجاج کے ان طریقوں پر بھی مکمل پابندی ہے جن کی اجازت و ضمانت خود آئین میں موجود ہے۔
انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے والی جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کے ساتھ بھارت جس طرح نوآبادیاتی انداز کا سلوک کر رہا ہے اور جس طرح ریاست کی مقامی آبادی کا تناسب تیزی سے تبدیل کرنے کے لیے بیرونی لوگوں کو باعجلت ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں اور جس طرح ریاست کی زمین و املاک کی خرید و فروخت غیر کشمیری بھارتی باشندوں اور کمپنیوں کے لیے کھول دی گئی ہے۔اس کی مزاحمت کے بجائے مسلط کردہ انتخابی عمل میں حصہ لینا کشمیر اور اس کے کاز کو فروخت کرنے کے کام میں بلا شرط آلہ کار بننے کے سوا کچھ نہیں۔
جن مقامی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا ہے انھیں کشمیری خود مختاری سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے بھلے اس کے حصول کے لیے کیسی ہی ذلت کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
دوسری جانب جن جماعتوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں '' احتجاجاً '' حصہ لیا ہے ان کا موقف ہے کہ خالی میدان چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی حکومت اپنی مرضی کے ہاں میں ہاں ملانے والے امیدوار جتوا کر ایک متبادل طفیلی قیادت کو پروان چڑھائے تاکہ کشمیری خود مختاری کی بحالی کے لیے رہی سہی آوازیں بھی دم توڑ جائیں۔
اگر ان انتخابات میں خود مختاری کی بحالی کی حامی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو واضح طور پر پیغام جائے کہ کشمیریوں کی اکثریت نہ صرف دلی حکومت کے یکطرفہ اقدامات مسترد کرتی ہے بلکہ اپنی چھنی ہوئی خودمختاری کی مکمل بحالی بھی چاہتی ہے۔
جب کہ حریت کانفرنس کا موقف یہ ہے کہ جب تک کشمیریوں کا آزادی کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک کوئی بھی انتخابی مشق بے معنی تھی اور بے معنی رہے گی۔پہلے تو یہ فیصلہ ہو کہ کشمیری چاہتے کیا ہیں۔اس کے بعد ہی کوئی بھی انتخابی عمل قانونی و جائز قرار پا سکتا ہے۔
اگر اس انتخابی عمل کو مودی حکومت کے منصوبہ سازوں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو قطع نظر اس کے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں کون جیتا یا ہارا۔اس میں اکیاون فیصد ووٹ پڑنا اور بھارت نواز مگر مودی مخالف کشمیری جماعتوں کا بھرپور طریقے سے حصہ لینا ایک بڑی اسٹرٹیجک کامیابی ہے۔اس پوری مشق کو مودی حکومت کشمیر میں اب تک کیے گئے انتظامی اقدامات کی بھر پور عوامی توثیق کے طور پر باقی بھارت اور دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
اس سارے کھیل میں خود وادی کی مسلمان اکثریت کہاں کھڑی ہے؟ پاکستان، ایران، ترکی اور ملائیشیا کو چھوڑ کے باقی مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا اب کشمیریوں کے لیے کسی بھی اہم فورم پر زبانی جمع خرچ کے لیے بھی آمادہ نہیں۔ ریاست میں معمول کی سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں۔مسلح آزادی پسندوں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ و بے باکانہ استعمال پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
کشمیری میڈیا کو مین اسٹریم مودی نواز بھارتی میڈیا کے ذریعے مکمل لاتعلقی کے غار میں دھکیل دیا گیا ہے۔کشمیریوں سے ہمدردی رکھنے والے بھارتی اہلِ فکر و دانش کو ریاست میں آمدورفت یا سیاسی و سماجی رابطے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارت نواز و بھارت مخالف کی تمیز کیے بغیر تمام مقامی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے سیاسی ورکرز یا تو نظربند ہیں یا مقدمات میں جکڑے جاچکے ہیں یا پھر روپوش ہیں۔
عام کشمیری پچھلے ڈیڑھ برس سے اقتصادی بدحالی کے کوڑے مسلسل کھا کھا کے ادھ موا ہو چکا ہے۔اور اب اس کا حال اس بھینس جیسا ہو گیا ہے جسے چور کھول کے لے جانے لگے تو مالک نے آواز لگا دی بھینس بھینس خبردار تجھے رسہ گیر لے جا رہے ہیں۔ بھینس نے پلٹ کر کہا تیرے پاس سے بھی دودھ کے بدلے صرف چارہ ملتا تھا وہ بھی چارہ ہی دے گا۔
دو ہزار نو کے لوک سبھا انتخابات میں سوپور کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر لگی قطار میں کھڑے ستر برس سے اوپر کے ایک کشمیری سے میں نے پوچھا بابا جی آپ بھی ؟ کہنے لگا آزادی جب ملے گی تب ملے گی۔مگر سڑک، پانی، بجلی، تعلیم، صحت، روزگار اور جان و مال کا تحفظ تو ابھی چاہیے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
الیکشن کمیشن کے مطابق جموں و کشمیر کے بیس اضلاع میں رجسٹرڈ ساٹھ لاکھ ووٹروں میں سے اکیاون فیصد نے دو سو اسی ضلع نشستوں کے انتخاب میں حصہ لیا۔
نتائج کے مطابق نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں سات جماعتی آرٹیکل تین سو ستر کی بحالی کے حامی سات جماعتی گپکر عوامی اتحاد ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں کی دو سو اسی میں سے ایک سو بارہ نشستیں جیت کر سب سے بڑے اتحاد کے طور پر ابھرا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو چوہتر ، آزاد امیدواروں کو انچاس اور کانگریس کو چھبیس نشستیں ملیں۔بی جے پی کو وادی کے مسلم اکثریتی علاقے میں صرف تین نشستیں ملیں اور زیادہ تر نشستیں جموں کے غیرمسلم اکثریتی علاقے سے حاصل ہوئیں۔
اگرچہ گپکر عوامی اتحاد نے آرٹیکل تین سو ستر کی بحالی کے لیے جدوجہد کے نام پر ووٹ حاصل کیے۔ مگر ان بلدیات کو محض مقامی ترقی کے منصوبوں کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ان کے ذریعے کوئی سیاسی ایجنڈہ آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
جن جماعتوں نے انتخابی عمل کو یکسر مسترد کر دیا ان کا موقف ہے کہ ریاست کی نیم خود مختار حیثیت کی بحالی کی پرامن سیاسی و آئینی جدوجہد پر پوری توجہ دینے کے بجائے جموں و کشمیر کی رہی سہی سیاسی و جغرافیائی حیثیت کے خاتمے کے بعد کسی بھی انتخابی عمل کو تسلیم کر کے اس میں غیر مشروط حصہ لینا مودی حکومت کے کشمیر کی بابت اب تک کیے گئے اقدامات کی توثیق اور انھیں جائز تسلیم کرنے کے برابر ہے۔جب کہ بھارتی سپریم کورٹ میں مودی حکومت کے اقدامات کو چیلنج کرنے والی درخواستیں اب تک زیرِ التوا ہیں۔حتی کہ احتجاج کے ان طریقوں پر بھی مکمل پابندی ہے جن کی اجازت و ضمانت خود آئین میں موجود ہے۔
انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے والی جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کے ساتھ بھارت جس طرح نوآبادیاتی انداز کا سلوک کر رہا ہے اور جس طرح ریاست کی مقامی آبادی کا تناسب تیزی سے تبدیل کرنے کے لیے بیرونی لوگوں کو باعجلت ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں اور جس طرح ریاست کی زمین و املاک کی خرید و فروخت غیر کشمیری بھارتی باشندوں اور کمپنیوں کے لیے کھول دی گئی ہے۔اس کی مزاحمت کے بجائے مسلط کردہ انتخابی عمل میں حصہ لینا کشمیر اور اس کے کاز کو فروخت کرنے کے کام میں بلا شرط آلہ کار بننے کے سوا کچھ نہیں۔
جن مقامی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا ہے انھیں کشمیری خود مختاری سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے بھلے اس کے حصول کے لیے کیسی ہی ذلت کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
دوسری جانب جن جماعتوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں '' احتجاجاً '' حصہ لیا ہے ان کا موقف ہے کہ خالی میدان چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی حکومت اپنی مرضی کے ہاں میں ہاں ملانے والے امیدوار جتوا کر ایک متبادل طفیلی قیادت کو پروان چڑھائے تاکہ کشمیری خود مختاری کی بحالی کے لیے رہی سہی آوازیں بھی دم توڑ جائیں۔
اگر ان انتخابات میں خود مختاری کی بحالی کی حامی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو واضح طور پر پیغام جائے کہ کشمیریوں کی اکثریت نہ صرف دلی حکومت کے یکطرفہ اقدامات مسترد کرتی ہے بلکہ اپنی چھنی ہوئی خودمختاری کی مکمل بحالی بھی چاہتی ہے۔
جب کہ حریت کانفرنس کا موقف یہ ہے کہ جب تک کشمیریوں کا آزادی کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک کوئی بھی انتخابی مشق بے معنی تھی اور بے معنی رہے گی۔پہلے تو یہ فیصلہ ہو کہ کشمیری چاہتے کیا ہیں۔اس کے بعد ہی کوئی بھی انتخابی عمل قانونی و جائز قرار پا سکتا ہے۔
اگر اس انتخابی عمل کو مودی حکومت کے منصوبہ سازوں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو قطع نظر اس کے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں کون جیتا یا ہارا۔اس میں اکیاون فیصد ووٹ پڑنا اور بھارت نواز مگر مودی مخالف کشمیری جماعتوں کا بھرپور طریقے سے حصہ لینا ایک بڑی اسٹرٹیجک کامیابی ہے۔اس پوری مشق کو مودی حکومت کشمیر میں اب تک کیے گئے انتظامی اقدامات کی بھر پور عوامی توثیق کے طور پر باقی بھارت اور دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
اس سارے کھیل میں خود وادی کی مسلمان اکثریت کہاں کھڑی ہے؟ پاکستان، ایران، ترکی اور ملائیشیا کو چھوڑ کے باقی مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا اب کشمیریوں کے لیے کسی بھی اہم فورم پر زبانی جمع خرچ کے لیے بھی آمادہ نہیں۔ ریاست میں معمول کی سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں۔مسلح آزادی پسندوں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ و بے باکانہ استعمال پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
کشمیری میڈیا کو مین اسٹریم مودی نواز بھارتی میڈیا کے ذریعے مکمل لاتعلقی کے غار میں دھکیل دیا گیا ہے۔کشمیریوں سے ہمدردی رکھنے والے بھارتی اہلِ فکر و دانش کو ریاست میں آمدورفت یا سیاسی و سماجی رابطے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارت نواز و بھارت مخالف کی تمیز کیے بغیر تمام مقامی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے سیاسی ورکرز یا تو نظربند ہیں یا مقدمات میں جکڑے جاچکے ہیں یا پھر روپوش ہیں۔
عام کشمیری پچھلے ڈیڑھ برس سے اقتصادی بدحالی کے کوڑے مسلسل کھا کھا کے ادھ موا ہو چکا ہے۔اور اب اس کا حال اس بھینس جیسا ہو گیا ہے جسے چور کھول کے لے جانے لگے تو مالک نے آواز لگا دی بھینس بھینس خبردار تجھے رسہ گیر لے جا رہے ہیں۔ بھینس نے پلٹ کر کہا تیرے پاس سے بھی دودھ کے بدلے صرف چارہ ملتا تھا وہ بھی چارہ ہی دے گا۔
دو ہزار نو کے لوک سبھا انتخابات میں سوپور کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر لگی قطار میں کھڑے ستر برس سے اوپر کے ایک کشمیری سے میں نے پوچھا بابا جی آپ بھی ؟ کہنے لگا آزادی جب ملے گی تب ملے گی۔مگر سڑک، پانی، بجلی، تعلیم، صحت، روزگار اور جان و مال کا تحفظ تو ابھی چاہیے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)